محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
يُؤْتِي الْحِكْمَۃَ مَنْ يَّشَاۗءُ۰ۚ وَمَنْ يُّؤْتَ الْحِكْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِيَ خَيْرًا كَثِيْرًا۰ۭ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ۲۶۹ وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ نَّفَقَۃٍ اَوْ نَذَرْتُمْ مِّنْ نَّذْرٍ فَاِنَّ اللہَ يَعْلَمُہٗ۰ۭ وَمَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ۲۷۰ اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا ہِىَ۰ۚ وَاِنْ تُخْفُوْھَا وَتُؤْتُوْھَا الْفُقَرَاۗءَ فَھُوَخَيْرٌ لَّكُمْ۰ۭ وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِّنْ سَيِّاٰتِكُمْ۰ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ۲۷۱
قرآن حکیم کاارشاد ہے کہ جسے یہ دانش عطا ہو وہ گویا دنیا کی بہترین نعمتوں سے بہرہ ور ہے اور وہ جو حکیمانہ مزاج نہیں رکھتا وہ اگر دنیا جہان کی چیزیں بھی رکھتا ہو تو حقیقی مسرت سے محروم ہے ۔
۲ ؎ ان آیات میں بتایا ہے کہ صدقات کا اظہار واعلان اگر نیک نیتی کے ساتھ ہوتو کوئی مضائقہ نہیں۔ اسی طرح اگر اخفاء ریا کے ڈر سے ہوتو بہتر ہے اوریہ کہ اس سے تکفیر سیئات ہوتی رہتی ہے۔ یعنی جب ہم دوسروں کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہماری روحانی ضروریات کو پورا کردیتا ہے اور ہمارے گناہوں پر خط عفو کھینچ دیتا ہے ۔ کتنی بڑی حوصلہ افزائی ہے ۔
جسے چاہے سمجھ دیتا ہے اور جسے سمجھ دی گئی، اسے بڑی خوبی ملی اور نصیحت صرف وہی قبول کرتے ہیں جو عقل مند ہیں۔۱؎(۲۶۹) اورتم جو خیرات دیتے ہو یا نذر مانتے ہو، اللہ اسے جانتا ہے اور ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں ہے۔(۲۷۰) اگرتم خیرات کو ظاہر کرکے دو تو کیا اچھی بات ہے اور اگر اسے چھپاؤ اور فقیروں۲؎ کو دوتو وہ تمھارے لیے اور بھی بہتر ہے اور اس سے تمھارے بعضے گناہ دور کردے گا اورخدا تمہارے کاموں سے واقف ہے ۔(۲۷۱)
۱؎ اسراف وامساک میں فرق محسوس کرنا،بخل وسخاوت میں تفاوت جاننا اور ہربرائی کے نقصانات اور نیکی کے فوائد کا علم رکھنا حکمت ہے۔ یعنی و ہ لوگ جو دنیا کی بے ثباتی وبے وقعتی اورآخرت کی اہمیت وحرمت کو جانتے ہیں، حکیم ہیں اور سمجھ دار ہیں اور وہ جو اپنی تگ ودو صرف دنیا تک محدود رکھتے ہیں، بے وقوف ہیں، کیوں کہ عاجل کو صرف اس لیے ترجیح دیتا ہے کہ وہ نقد ہے اورآجل کو ترک کردینا کہ وہ نسیہ ہے ۔ بغیر یہ جاننے کے کہ دونوں میں کوئی نسبت ہی نہیں، حماقت ہے ۔ قرآن حکیم حکمت کو پسند کرتا ہے ۔ اس کے مخاطب بھی سمجھ دار لوگ ہیں۔ جو نفع ونقصان پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ بے پروا اور بے خوف انسان اپنے متعلق کچھ نہیں سوچ سکتا،اس لیے اس سے کوئی توقع ہی نہیں رکھنی چاہیے۔حکمت اللہ کی نعمت ہے
قرآن حکیم کاارشاد ہے کہ جسے یہ دانش عطا ہو وہ گویا دنیا کی بہترین نعمتوں سے بہرہ ور ہے اور وہ جو حکیمانہ مزاج نہیں رکھتا وہ اگر دنیا جہان کی چیزیں بھی رکھتا ہو تو حقیقی مسرت سے محروم ہے ۔
۲ ؎ ان آیات میں بتایا ہے کہ صدقات کا اظہار واعلان اگر نیک نیتی کے ساتھ ہوتو کوئی مضائقہ نہیں۔ اسی طرح اگر اخفاء ریا کے ڈر سے ہوتو بہتر ہے اوریہ کہ اس سے تکفیر سیئات ہوتی رہتی ہے۔ یعنی جب ہم دوسروں کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہماری روحانی ضروریات کو پورا کردیتا ہے اور ہمارے گناہوں پر خط عفو کھینچ دیتا ہے ۔ کتنی بڑی حوصلہ افزائی ہے ۔
{اَلْبَابٌ} جمع لُبْ بمعنی عقل{ نُذْرٌ} منت ماننا{ تُبْدُوْا} مصدر ابداء بمعنی اظہار۔حل لغات