• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حیات بعد از موت کی دلیل۔ تفسیر السراج۔ پارہ:2

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اَوْ كَالَّذِيْ مَرَّ عَلٰي قَرْيَۃٍ وَّہِيَ خَاوِيَۃٌ عَلٰي عُرُوْشِہَا۝۰ۚ قَالَ اَنّٰى يُحْيٖ ھٰذِہِ اللہُ بَعْدَ مَوْتِہَا۝۰ۚ فَاَمَاتَہُ اللہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ۝۰ۭ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ۝۰ۭ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ۝۰ۭ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَۃَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلٰى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّہْ۝۰ۚ وَانْظُرْ اِلٰى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ اٰيَۃً لِّلنَّاسِ وَانْظُرْ اِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنْشِزُھَا ثُمَّ نَكْسُوْھَا لَحْمًا۝۰ۭ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَہٗ۝۰ۙ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۲۵۹
یا مانند اس شخص کی جو گزراایک گاؤں پر اور وہ گاؤں اپنی چھتوں پر گراہوا تھا تو اس نے کہا کہ اس شہر کو اس کے مرے پیچھے اللہ کیوں کر جلائے گا، سو خدا نے اس کو سوبرس تک ماررکھا۔پھراسے اٹھایا اور پوچھا کہ تو کتنی دیر تک رہا۔ اس نے کہا۔ ایک دن یا دن سے بھی کچھ کم ۔ فرمایا نہیں بلکہ تو تو سوبرس تک مردہ رہا۔ اب تواپنا کھانا پینا دیکھ کہ وہ بالکل نہیں سڑا اور تو اپنے گدھے کو بھی دیکھ اور یہ اس لیے کہ ہم تجھے آدمیوں کے لیے ایک نشان بنانا چاہتے ہیں اور توہڈیوں کی طرف دیکھ کہ ہم ان کو کس طرح اُبھار کرجوڑدیتے ہیں۔ پھر ان پر گوشت پہناتے ہیں۔ پھرجب اس پر یہ بھید ظاہر ہوگیا تو اس نے کہا۔ میں جانتاہوں کہ خدا ہرشے پر قادر ہے۔۱؎(۲۵۹)
۱؎ اَوْکَالَّذِیْ کا مطلب یہ ہے کہ ہدایت خدا کی دین ہے، جسے چاہے دے اور جس طریق سے چاہے دے۔ نمرود کو تم نے دیکھا۔ کیوں کر دلائل ہی سے گھبراگیا۔ اب اس شخص کا قصہ سنو جس نے جب تک موت وزندگی کو تجربتہً نہ دیکھ لیا یقین نہیں کیا۔یہ کون شخص ہے جس پر موت وزندگی وارد ہوئی؟
حیات بعد از موت کی دلیل
اس میں اختلاف ہے ۔کوئی صحیح حدیث ایسی نہیں ملی جو تعین کرسکے۔ بعض کا خیال ہے ۔حضرت عزیر علیہ السلام مرادہیں۔ بعض کے نزدیک حضرت خضر علیہ السلام کا قصہ ہے۔ بائبل میں لکھا ہے۔حضرت حزقیل نے بحالت کشف ہڈیوں کو زندہ ہوتے دیکھا۔

قرآن حکیم کا انداز بیان بتارہاہے کہ یہ واقعہ ہے ، کشف نہیں۔ زیادہ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت المقدس جب بخت نصر کی ظالمانہ تاخت کے بعد تباہ وبرباد ہوگیا تو یہودی بہت مایوس ہوگئے اور انھیں خدا کی نصرت وتائید کی کوئی توقع نہ رہی۔

حضرت حزقیل علیہ السلام کو بھیجا گیا، تاکہ وہ یہود کو بتائیں کہ یہ تمہاری نافرمانی کی سزا تھی ورنہ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اب بھی تمہارے شامل حال ہوسکتی ہیں۔ بشرطے کہ تم دین دار بن جاؤ۔ حضرت حزقیل نے فرمایا۔ ایسی مردہ قوم کی رگوں میں ہدایت وتقویٰ کی روح کس طرح دوڑائی جاسکے گی، البتہ اللہ تعالیٰ نے خود حضرت حزقیل علیہ السلام کو سوسال کی موت سے دوچار کیا اور پھرزندگی بخشی۔ مقصد یہ تھا کہ انھیں معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ جب حقیقی طورپر موت کو زندگی میں تبدیل کرسکتے ہیں تو یہ بھی ان کے امکان میں ہے کہ اجڑے ہوئے بیت المقدس کو دوبارہ عزت وحشمت بخش دیں اور ان کے دیکھتے دیکھتے گدھے کی ہڈیاں گوشت پوست میں تبدیل ہونا شروع ہوگئیں اور مراہوا گدھا اللہ تعالیٰ کی عنایت خاص سے زندہ ہوگیا۔

حضرت حزقیل علیہ السلام یہ دیکھ کر پکار اٹھے کہ بے شک اللہ ہرچیز پر قادر ہے ۔اس سارے قصے میں پرلطف بات یہ ہے کہ لیل ونہار کے تاثرات نے کھانے پر کوئی اثر نہیں کیا اور وہ بدستور سو سال تک تازہ ہی رہا۔خدائے ذوالجلال کے لیے کوئی بات بھی ناممکن نہیں۔

جس نے زمانہ کو پیدا کیا ہے ، وہ اس کے اثرات کو بھی روک سکتا ہے،البتہ اس کے ذکر کرنے سے ایک لطیف اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ باوجود بنی اسرائیل کی اخلاقی موت کے اب تک ان کی خوراک یا تعلیمات میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوا اور کوئی قوم حقیقی موت اس وقت اختیار کرتی ہے جب وہ روحانی غذا سے محروم ہوجائے ۔ اس کے بعد پھر واقعی پنپنے کی کوئی امید نہیں رہتی۔
حل لغات
{مَرَّ} گزرا۔ مصدر مرور{خَاوِیَۃٌ} گراہوا{عُرُوْشٍ}جمع عرش بمعنی چھت{لَبْثٌ} مصدر لَبِثَ۔ رہنا{لَمْ یَتَسَنَّہْ} نہیں گلاسڑا{ تَسَنَّہْ} کے معنی کھانے کے بگڑجانے کے ہوتے ہیں{ نُنْشِزُ}مصدر{اِنْشَازْ} بمعنی ترکیب واصلاح{صُرْ} اصل صیر۔ بمعنی قطع کرنا۔ مگر جب اس کا صلہ نفی ہوتو اس کے معنی ہلانے اور مانوس کرنے کے ہوتے ہیں۔
 
Top