• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حیض کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
458
پوائنٹ
209
حیض کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت


تحریر : مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر، السلامہ – سعودی عرب


اہل علم میں اختلاف کے باعث خواتین میں یہ مسئلہ کافی تشویش کا باعث ہے کہ حائضہ عورت قرآن کی تلاوت کرسکتی ہے یا نہیں کرسکتی ہے چنانچہ اس سلسلے میں صحیح اور درست قول یہ ہے کہ حائضہ عورت قرآن کی تلاوت کرسکتی ہے ۔

اس مسئلہ کو تفصیل سے جاننے کے لئے آپ کے سامنے وہ سارے نکات پیش کرتا ہوں جن کی وجہ سے دل کو اس بات پر اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ حائضہ عورت بھی قرآن کی تلاوت کرسکتی ہے ۔

(1)اس سلسلے میں سب سے بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ قرآن محض تلاوت کی کتاب نہیں ہے ، یہ دستور حیات ہے ، اس کتاب سے ہمارے روزوشب بلکہ زندگی کا ایک ایک لمحہ جڑا ہواہے ۔ ہمہ وقت اس سے ہمیں مربوط رہنا ہے ،اس میں غور وفکرکرتے رہنا ہے اور اس کوسمجھ کر پڑھتے رہنا ہے تاکہ ہمیں اللہ کا حکم معلوم ہوتا رہے، ہدایت ملتی ہےاور ہم اس پر عمل کرتے رہیں ۔ اس طرح جب ہم نزول قرآن کے مقصد پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مرد کی طرح ایک عورت کو بھی ہمیشہ دینی احکام جاننے کے لئے قرآن پڑھتے رہنا چاہئے ۔
قرآن پر عمل کرنے کے لئے قرآن کی تلاوت ہے ہی، اس کی تبلیغ کے لئے بھی قرآن کو پڑھنے اور قرآن سنانے کی ضرورت ہے جیسے نبی ﷺ مسلمان وغیرمسلم سب پر قرآن پڑھتے تاکہ وہ اللہ کے احکام کو سمجھیں اور ہدایت حاصل کریں ۔ آپ نے بادشاہوں کے نام جو خط لکھا اس میں قرآنی آیات بھی ہوتے ۔ اگر ایک کافرباجودنجس ہونے کے قرآنی آیات کو چھوسکتا ہے اور پڑھ سکتا ہے تو مومنہ عورت طاہر ہونے کے باوجود حیض کی حالت میں کیوں نہیں پڑھ سکتی ہے؟
اسی طرح تلاوت قرآن سے جڑا ایک اور مسئلہ ہے وہ یہ کہ سمجھ کرکم ازکم تین دن میں قرآن ختم کرنے کی اجازت ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے :
لاَ يفقَهُ من قرأَهُ في أقلَّ من ثلاثٍ(صحيح أبي داود:1390)
ترجمہ : جس نے قرآن تین دن سے کم میں پڑھا اس نے قرآن سمجھا ہی نہیں۔
عموما عورتوں کو تین دنوں سے زیادہ حیض آتا ہے ،عورتوں کو اس فترہ میں تلاوت سے روکنا بہت سارے خیر سے روکنے کے متراوف ہے جبکہ تین دن میں قرآن ختم کرنے کی ایک مومن کو اجازت ہے ۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مومن مرد اور مومن عورت کو کبھی تلاوت چھوڑنا ہی نہیں چاہئے ، ہمیشہ سمجھ کر تلاوت کرتے رہنا چاہئے ۔
اس جگہ یہ بھی ہمیں ذہن میں رکھنا ہے کہ عورتوں کو حیض کی وجہ سے "ناقصات الدین " کہاگیا ہے یعنی دین میں ناقص ۔ نبی ﷺنے ناقصات الدین کی اس طرح وضاحت فرمائی ہے : أَلَيْسَ إِذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ؟( جب عورت حائضہ ہو تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے نہ روزہ رکھ سکتی ہے)(بخاری:304) اس طرح حیض کی وجہ سے عورتوں کو دین کا نقصان ہوتا ہی ہے مزید تلاوت قرآن کے اجر سے ان کا نقصان نہیں کیا جاسکتا ہے اور نبی ﷺ نے دو ہی نقصان بتایا ہے اس لئے ہم اپنی طرف سے عورتوں کے حق میں تیسرے نقصان کا اضافہ نہیں کریں گے ۔
دستور حیات یعنی قرآن کریم سے متعلق ان بنیادی چند نکات سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد کی طرح ایک عورت بھی سدا قرآن پڑھتی رہے چاہے وہ حیض کی حالت میں کیوں نہ ہوکیونکہ دین کا علم لینا حیض میں بھی ضروری ہے، دین پر عمل کرنا حیض میں بھی ضروری ہے اور دین کی تبلیغ کرنا حیض میں بھی ضروری ہے ۔

(2) حیض والی عورت قرآن کی تلاوت کرسکتی ہے اس بارے میں دوسری بڑی دلیل یہ ہے کہ قرآن کی تلاوت بھی ذکر ہے اور ایک آدمی ہرحال میں ذکر کرسکتا ہے ۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا :
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَذْكُرُ اللَّهَ عَلَى كُلِّ أَحْيَانِهِ(صحيح مسلم:373)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام اوقات میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے تھے۔
اللہ تعالی نے پورے قرآن کو ذکر کہا ہے ، ارشاد باری ہے:
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (الحجر:9)
ترجمہ:ہم نے ہی اس ذکر( قرآن) کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ۔
اس جگہ آپ غور کریں ایک مومنہ عورت پر صبح وشام ہوتے ہیں ، وہ سوتی جاگتی ہے اور سارے کام کاج کرتی ہیں ۔ حالت حیض میں بھی سارے کام کرنے پڑتے ہیں حتی کہ جمیع عبادات بھی انجام دیتی ہیں سوائے نماز وروزہ کے ۔ حیض والی عورت کے من جملہ اعمال میں صبح وشام اور سونے جاگنے کے اذکار بھی ہیں جنہیں وہ روزانہ پڑھتی ہیں ۔ ان اذکار میں کتنی آیات اور کتنی سورتیں ہیں جنہیں روزانہ کئی کئی مرتبہ پڑھنا پڑھتا ہے ۔ جیسے آیہ الکرسی کی تلاوت صبح، شام اور سوتے وقت یعنی چوبیس گھنٹے میں تین مرتبہ پڑھنا ہے۔ سورہ اخلاص ، سورہ فلق اور سورہ ناس صبح وشام نیز سوتے وقت ملاکر کل ستائیس مرتبہ(نومرتبہ صبح، نومرتبہ شام اور نومرتبہ سوتے وقت) ان سورتوں کو پڑھنا ہے ۔سوتے وقت سورہ بقرہ کی دو آیات ، سورہ زمر، سورہ بنی اسرائیل ، سورہ سجدہ اور سورہ ملک بھی پڑھنا مسنون ہے ۔ آپ ان آیات اور سورتوں سے اندازہ لگائیں کہ ایک عورت کوحیض کی حالت میں چوبیس گھنٹے اس قدر قرآن پڑھنا ہوتا ہے اور اس سلسلے میں کوئی ممانعت ثابت نہیں ہے، نہ ہی کسی اہل علم نے کہا ہےکہ حائضہ عورت ان آیات اور سورتوں کو نہ پڑھے ۔ یہاں سے یہ بات پوری طرح سمجھ میں آتی ہے کہ جس طرح حائضہ عورت تمام قسم کے اذکار پڑ ھ سکتی ہے اسی طرح قرآن کی تلاوت بھی کرسکتی ہے ۔

(3)حیض والی عورت قرآن کی تلاوت نہیں کرسکتی ہے ، ایسی کوئی صریح اور صحیح دلیل نہیں ہے ، نہ ہی کسی صحابیہ سے اس حالت میں قرآن نہ پڑھنے کی دلیل ملتی ہے ۔ حیض کی حالت میں عبادات کے تعلق سےاسلام نے جن عملوں سے متعین طور پرمنع کیا ہے ان میں نماز اور روزہ ہے ۔ تلاوت بھی عبادت ہے اور ہمیشہ والی عبادت ہے جبکہ نماز چوبیس گھنٹے میں پانچ بار اور روزہ سال میں ایک ماہ فرض ہے ، اگر بحالت حیض تلاوت قرآن منع ہوتی تو شریعت میں ضرور صراحت کے ساتھ اس کی ممانعت ہوتی اور عہدرسالت کی خواتین سے اس حالت میں قرآن نہ پڑھنا منقول ہوتا ہے جبکہ ایسا کچھ مذکور نہیں ہے ۔
عیدکی نماز بھی نماز ہی ہے اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے حیض والی عورتوں کو عیدگاہ نکلنے کا حکم دیا ہے ، کسی عورت کے پاس پردہ کا انتظام نہ ہو تب بھی اپنی مسلم بہن کے ساتھ اس کے پردے میں جانے کا حکم دیا ہے اور پھر حائضہ کے عیدگاہ آنے کا مقصد بھی اور جواز والا عمل بھی بتایا ہے۔ ام عطیہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ سے روایت کرتی ہوئی بیان کرتی ہیں:
فَأَمَّا الْحُيَّضُ فَيَعْتَزِلْنَ الصَّلَاةَ وَيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ(صحیح مسلم:890)
ترجمہ: پس حائضہ نماز سےدور رہیں، وہ خیروبرکت اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں۔
گویا نمازعید کا موقع ہے تو صرف نماز سے منع کیا اور نماز کے علاوہ جو خیرکے کام ہیں جیسے ذکر، تلاوت اور دعا وغیرہ تو ان سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دی ۔
ایک دوسری روایت میں ام عطیہ ہی بیان کرتی ہیں :
الْحُيَّضُ يَخْرُجْنَ فَيَكُنَّ خَلْفَ النَّاسِ يُكَبِّرْنَ مَعَ النَّاسِ(صحیح مسلم:890)
ترجمہ: حیض والی عورتیں بھی نکلیں گی اور لوگوں کے پیچھے رہیں گی اور لوگوں کے ساتھ تکبیر کہیں گی۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ حائضہ عورت عید کی تکبیرات بھی کہیں گی ، تلاوت بھی خیر کام اور ذکر ہے وہ مصلی العید میں تلاوت بھی کرسکتی ہے ، اگر حائضہ کے لئے ذکر وتلاوت ممنوع ہوتی تو آپ ﷺ اس موقع سے جس طرح نماز سے منع فرمائے ہیں ، تلاوت سے بھی منع فرماتے ۔

(4)جس طرح مرد کو شیطان سے خطرہ ہے اسی طرح عورت کو بھی شیطان سے خطرہ ہے بلکہ عورت کومرد سے کہیں زیادہ خطرہ ہے اس لئے شیطان کے شر سے حفاظت کے واسطے حائضہ عورت قرآن کی تلاوت کرسکتی ہے بطور خاص جب عورت کو کوئی بیماری لاحق ہو یا آسیب وغیرہ کا اندیشہ ہو تو قرآن پڑھ کر اپنے اوپر دم کرسکتی ہے اور حیض کی حالت میں کسی دوسری عورت پر بھی قرآن پڑھ کردم کرسکتی ہے ۔ نبی ﷺ مرض الموت میں معوذات(سورہ اخلاص ، سورہ فلق اور سورہ ناس پڑھ کراپنے اوپر دم کرتے اور جب آپ کے لئے بیماری کی شدت میں دم کرنا دشوار ہوگیا تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا آپ پر ان سورتوں کو پڑھ کر دم کرتیں ۔ کسی عورت کو جسمانی کوئی تکلیف ہو اور وہ حیض کی حالت میں ہو توبلاشبہ قرآن پڑھ کر اپنے اوپر دم کرسکتی ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

(5)حج ایک ایسی عبادت ہے جس میں کئی قسم کے اعمال انجام دئے جاتے ہیں مگر حیض والی کوصرف طواف سے روکا گیا ہے ۔
حج کے دوران رسول اللہ ﷺ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو جو حالت حیض میں تھیں حکم دیا:
افْعَلِي كَمَا يَفْعَلُ الْحَاجُّ، غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ حَتَّى تَطْهُرِي(صحیح البخاری:1650)
ترجمہ: جس طرح دوسرے حاجی کرتے ہیں تم بھی اسی طرح (ارکان حج) ادا کر لو ہاں بیت اللہ کا طواف پاک ہونے سے پہلے نہ کرنا۔
حج کئی دنوں پر مشتمل مختلف قسم کی عبادتوں کے مجموعہ کا نام ہے، اتنے دنوںوالے حج میں حائضہ کو بس طواف سے روکا گیا ہے ، باقی وہ تمام اعمال انجام دیں گی ، ایسے میں یہ بات واضح ہے کہ حائضہ ذکر، تلبیہ ، تلاوت، دعاجیسے اعمال انجام دیں گی ۔ جب حائضہ حج میں تلاوت کرسکتی ہے تو حج کے علاوہ دنوں میں بھی تلاوت کرسکتی ہے ۔

(6)مومن کبھی ناپاک نہیں ہوتا اس لئے حیض ونفاس کی حالت میں عورت حکما پاک ہی رہتی ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے:
إنَّ المُؤْمِنَ لا يَنْجُسُ(صحيح البخاري:285)
ترجمہ: بے شک مومن ناپاک نہیں ہوتا۔
لہذا حائضہ کے لئے قرآن پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ نبی ﷺ ایک مرتبہ آدھی رات کوسوکراٹھے اور بغیر وضو کے سورہ آل عمران کی تلاوت فرمائی (صحیح البخاری:183) اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آدمی بغیر وضو کے بھی تلاوت کرسکتا ہےکیونکہ مومن کی اصل طہارت ہے ۔
جب ایک مومنہ عورت بحالت حیض بھی پاک ہی ہے تو وہ قرآن کی تلاوت کرسکتی ہے ، ہاں اس حالت میں شریعت نے جن خاص عبادت سے منع کیا ہے ان سے رک جانا ہےاور وہ نمازو روزہ ہے ۔

(7) آج بڑی تعداد میں بچیاں دینی تعلیم حاصل کررہی ہیں ، بڑے بڑے نسواں ادارے چل رہے ہیں، جن میں کئی استانی اور بے شمار بچیاں زیر تعلیم ہیں ۔ اگر حیض میں قرآن پڑھنے سے روکا جائے تو تمام نسواں مدارس کے نظام تعلیم میں ایک بڑا خلل پیدا ہوجائے گاکیونکہ استانی سمیت تمام بچیوں کو ہرماہ کئی کئی دن ماہواری آتی ہے ایسے میں پڑھنے اور پڑھانے کا پورا نظام درہم برہم ہوجائے گایہاں تک کہ کتنی بچیوں کو امتحان سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ اللہ تعالی بنات آدم پر حیض کو لکھ دیا ہے جو ہرماہ مقررہ وقت پر تمام خاتون کو آتا ہے اور اس کے آنے سے عورت نجس نہیں کہلائے گی ، وہ پاک ہی ہے اور قرآن جو دستور حیات ہے ، پڑھنے پڑھانے ، عمل کرنے اور پھیلانے والی کتاب ہے اس کو حیض میں پڑھنے سے منع نہیں کیا جاسکتا ہے ۔

(8)سال میں ایک بار ماہ رمضان آتا ہے ، عورت اس ماہ بھی حائضہ ہوتی ہے حتی کہ آخری عشرہ اور اس کی طاق راتوں (لیلۃ القدر)کو بھی کتنی عورت حیض میں ہوتی ہے اگر عورت کو ان مبارک ایام میں تلاوت قرآن سے روکا جائے تو اجر کے اعتبار سے عورتوں کے حق میں بڑی محرومی ہے بلکہ نبی ﷺ نے ایسی عورت کو عیدکے دن عیدالفطر کی برکت وسعادت سمیٹنے کا موقع دیا ہے ، صرف نمازعید سے منع کیا ہے جس سے سمجھاجاسکتا ہے کہ عورت حیض کی حالت میں رمضان المبارک کے بابرکت لمحات سے مستفید ہوسکتی ہے اور وہ قرآن کی تلاوت کرسکتی ہے۔کتنی ساری عورتوں پر جمعہ کا سورج طلوع ہوتا ہے اور وہ حیض کی حالت میں ہوتی ہے ، یا کبھی عشرہ ذی الحجہ ہو یا یوم عرفہ ہو ، ان دنوں کوئی عورت حیض میں ہوسکتی ہیں تو سوال یہ ہے کہ کیاعورتوں کو ان ایام سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں ہے، کیا یہ ایام صرف مردوں کے لئے ہیں یا کہہ لیں کہ عورت کو صرف ماہواری آنے سے ان ایام کی برکت سے محروم کیا جاسکتا ہے ؟ نہیں ۔ وہ نمازوروزہ سے پہلے سے محروم ہے ، بقیہ عبادات یعنی ذکر، دعا، تلاوت وغیرہ کرسکتی ہے کیونکہ ان تمام مواقع پر کہیں عورتوں کے لئےتلاوت کی ممانعت ثابت نہیں ہے ۔

حائضہ عورت اور تلاوت قرآن سے متعلق آخری نکتہ :

سطور بالا میں جو امور ذکر کئے گئے ہیں ان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حائضہ کو تلاوت قرآن سے نہیں روکا جاسکتا ہے یعنی بحالت حیض عورت قرآن کی تلاوت کرسکتی ہے خواہ معلمہ ہو، طالبہ ہو، قاریہ ہو یا عام حائضہ عورت ہو۔ سبھی عورتیں قرآن کی تلاوت کرسکتی ہیں ۔ اس جگہ حائضہ عورت کو ایک مشورہ یہ دینا چاہتا ہوں کہ اگر آپ زبانی قرآن کی تلاوت کرتی ہیں تو اس میں کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے لیکن دیکھ کر مصحف سے تلاوت کررہی ہے اور آپ موبائل سے قرآن پڑھ سکتی ہیں تو بہتر ہے کہ موبائل سے تلاوت کریں تاکہ مصحف چھونا نہ پڑے ۔ موبائل میں قرآن کے ایک سے ایک اپلیکیشنز موجود ہیں ، بڑے بڑے فاؤنٹ میں قرآنی ایپ موجود ہیں اس لئے آپ موبائل سے یاپھر آئی پیڈ، لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر سے تلاوت کریں ۔
ہاں آپ کے پاس موبائل سے پڑھنے کی سہولت نہیں ہو یا مصحف سے ہی قرآن پڑھنے کی ضرورت ہو جیسے معلمہ اور طالبہ تو پھر مصحف سے دیکھ کر یا ہاتھ میں لے کربھی قرآن پڑھ سکتی ہیں ایسی صورت میں آپ اپنے ہاتھ میں دستانہ لگائیں ۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں "كِتَابُ الحَيْض "(بَابُ قِرَاءَةِ الرَّجُلِ فِي حَجْرِ امْرَأَتِهِ وَهِيَ حَائِضٌ) کے تحت ترجمہ الباب کے طورپر ایک اثر ذکر کیا ہے: وَكَانَ أَبُو وَائِلٍ: «يُرْسِلُ خَادِمَهُ وَهِيَ حَائِضٌ إِلَى أَبِي رَزِينٍ، فَتَأْتِيهِ بِالْمُصْحَفِ، فَتُمْسِكُهُ بِعِلاَقَتِهِ»
ترجمہ:ابووائل اپنی خادمہ کو حیض کی حالت میں ابورزین کے پاس بھیجتے تھے اور وہ ان کے یہاں سے قرآن مجید جزدان میں لپٹا ہوا اپنے ہاتھ سے پکڑ کر لاتی تھی۔
امام بخاری نے اس اثر کو گرچہ معلقا روایت کیا ہے مگر ابن ابی شیبہ نے اسے موصولاروایت کیا ہے ۔ اس اثر سے معلوم ہوتا ہے کہ آڑ کے ساتھ حائضہ عورت قرآن پکڑ اور چھوسکتی ہے ۔ جب ہاتھ سے حائضہ مصحف پکڑ سکتی ہے تو زبان سے پڑھنے میں کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے کیونکہ زبان تو پاک ہوتی ہے وہاں نجاست لگنے کا اندیشہ ہی نہیں ہے ، نجاست لگ سکتی ہے تو ہاتھوں کو اور دوسرے حصوں کو۔ باوجود اس کے مومن ہمیشہ پاک ہوتا ہے ۔

ممانعت کے دلائل کاجائزہ :

اس جگہ اختصار کے ساتھ ان چند دلائل کے بارے میں بھی جان لیں جو حیض کی حالت میں تلاوت قرآن سے روکنے کے لئے پیش کئے جاتے ہیں ۔

(1)ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ حائضہ جنبی کے حکم میں ہے اس لئے جس طرح جنبی قرآن نہیں پڑھ سکتا ہے اسی طرح حائضہ بھی قرآن نہیں پڑھ سکتی ہے ۔حائضہ کو جنبی کے حکم میں ماننا صحیح نہیں ہے ۔جنابت جب چاہیں غسل کرکے دور کرلیں جبکہ حیض مقرر مدت کے لئے ہرماہ آتا ہے اس کو اپنی مرضی سے زائل نہیں کیاجاسکتا ہے اس لئے جنابت اور حیض میں بہت فرق ہے اور دونوں کے الگ الگ احکام ہیں ۔

(2) حائضہ قرآن نہ پڑھے اس سلسلے میں جو حدیث پیش کی جاتی ہے وہ ضعیف ہے ۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يقرأُ القرآنَ الجنُبُ ولا الحائضُ(ابن ماجہ :595)
ترجمہ:جنبی اور حائضہ قرآن نہ پڑھیں۔
یہ حدیث ضعیف ہے، اس کو شیخ البانی نے منکر کہا ہے ۔(دیکھیں ضعیف ابن ماجہ:116)
اسی طرح یہ بھی الفاظ وارد ہیں: لا تَقرأِ الحائضُ ، ولا الجنُبُ شيئًا منَ القرآنِ یعنی حائضہ اور جنبی قرآن سے کچھ بھی نہ پڑھیں۔ اس کو بھی شیخ البانی نے منکر کہا ہے ۔ (دیکھیں :ضعيف الترمذي:131)

(3) ممانعت کے لئے قرآن سے ایک دلیل دی جاتی ہے کہ قرآن کو پاک لوگ ہی چھوتے ہیں آپ اس آیت کو پچھلی دوآیات سے ملاکر دیکھیں تو بات واضح ہوجاتی ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے:
إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتَابٍ مَكْنُونٍ لا يَمَسُّهُ إِلا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة: 77-79)
ترجمہ:بیشک یہ قرآن بہت بڑی عزت والا ہے، جو ایک محفوظ کتاب میں درج ہے، جسے صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں۔
"لایمسہ" میں خبردی جارہی ہے کہ اس کو پاک لوگ چھوتے ہیں اور یہاں "ہ"ضمیر کا مرجع سابق آیت"کتاب مکنون" یعنی لوح محفوظ ہے اور پاک لوگ سے مراد فرشتے ہیں گویا معنی یہ ہوا کہ لوح محفوظ کو صرف فرشتے چھوتے ہیں یا بعض لوگ "ہ"ضمیر کا مرجع قرآن لیتے ہیں اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ جوقرآن لوح محفوظ میں ہے اس کو پاک لوگ یعنی فرشتےہی چھوتے ہیں اس لئے اس آیت کی روشنی میں یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کوئی بلا وضو تلاوت نہیں کرسکتا یا حیض والی عورت تلاوت نہیں کرسکتی ہے ۔
سیرت نگاروں نے رسول اللہ ﷺ کے ایک خط کا ذکر کیا ہے جسے آپ نے عمروبن حزم کو دے کر یمن کی طرف بھیجا تھا اس میں آپ ﷺ کا یہ فرمان ہے:
لا يَمَسُّ القُرآنَ إلَّا طاهِرٌ(صحيح الجامع:7780)
ترجمہ:پاک شخص کے علاوہ قرآن مجید کو کوئی اور نہ چھوئے ۔
یہ روایت موطا، دارمی، ابن حبان ، بیہقی ، دارقطنی اور طبرانی وغیر میں موجود ہے ، اس کو متعدد اہل علم نے ضعیف کہا ہے اور بعض نے صحیح بھی کہا ہے ۔ شیخ البانی بھی صحیح قرار دیتے ہیں ۔
اس حدیث کی روشنی میں یہ کہا جائے گا کہ حائضہ عورت مصحف دیکھ کر تلاوت کرتے وقت ہاتھ میں دستانہ لگالے اور اس قید کے ساتھ اوپر میں نے ذکر بھی کیا ہے اور امام بخاری کا اثر بھی پیش کیا ہے ۔

حیض کی حالت میں تلاوت سے متعلق دیگر مسائل :

(1) اس تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ حیض والی عورت زبانی قرآن کی تلاوت کرے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے ،الکٹرانک ڈیوائس یعنی موبائل وغیرہ سے بھی تلاوت کرے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن مصحف ہاتھ میں لے کر تلاوت کرے تو ہاتھ میں دستانہ لگالے ۔

(2)حیض والی عورت کو قرآن سے متعلق کئی کام ہوسکتے ہیں مثلا قرآنی آیات کو لکھنا، بچوں کو ناظرہ پڑھانا، قرآن کی تجوید ، تفسیر یا درس دینا یا کسی کو اٹھاکرمصحف دینا یاگھر کی صفائی کے وقت ایک جگہ سے دوسری جگہ قرآن رکھنا یہ سارے کام حائضہ کرسکتی ہے اس بات کے ساتھ کہ مصحف ہاتھ میں لیتے وقت دستانہ لگالیا جائے۔

(3)حیض کی حالت میں آیت سجدہ کی تلاوت کرے تو وہ سجدہ تلاوت کرسکتی ہے اور سجدہ تلاوت کے لئے طہارت شرط نہیں ہے نیز یہ بھی معلوم رہے کہ سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے ، کوئی چھوڑ دے یا چھوٹ جائے تو گناہ نہیں ہے ۔

(4)بعض خواتین مساجد میں درس وتدریس کا کام کرتی ہیں ایسے میں میرا مشورہ یہ ہے کہ درس وتدریس کے لئے مسجد سے علاحدہ انتظام کریں یا مسجد میں ہی الگ ہال ہو جو نماز سے الگ ہو فقط تعلیم کے لئے مختص ہوجہاں مردوں کی آمد نہ ہو اور نہ کسی قسم کے فتنہ کا اندیشہ ہو تو کوئی مسئلہ نہیں ہے جیسے مسجد میں امام کے لئے یا گودام کے لئے کمرہ مخصوص ہوتا ہے ۔ اس کی وجہ ہے یہ کہ عورتوں کو ہرماہ حیض آتا ہے اور حیض والی عورت کو مسجد میں ٹھہرنا منع ہے تاہم مسجد کے اس حصے میں عورت ٹھہر سکتی ہے جو نماز کے علاوہ دیگر ضروریات کے لئے مختص کیا گیا ہو۔

(5) بعض خواتین کام کاج کے وقت قرآن کی رکاڈنگ گھر میں چالو کردیتی ہیں تاکہ کام بھی کریں اور تلاوت بھی سنیں ایسے میں حائضہ کا قرآن سننے میں کوئی حرج نہیں ہے ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا حیض کی حالت میں ہوتیں اور رسول اللہ ﷺ آپ کی گود میں سر رکھ کر قرآن کی تلاوت کیا کرتے تھے ۔

(6) اوپربھی یہ بات ذکر کی گئی کہ حائضہ خود پر یا دوسروں پر قرآنی آیات پڑھ کر دم کرسکتی ہے کوئی مسئلہ نہیں ہے اور اسی طرح جو عورت حیض کی حالت میں ہو اس پر بھی دم کیا جاسکتا ہے۔
 
Top