کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
حیوان اپنا علاج خود کس طرح کرتے ہیں؟
2 مارچ 2016پہاڑی چوہے زخمی ہو جائیں تو اپنے زخموں کو جراثیم اور دھول سے بچانے کے لیے ان پر درخت کا گوندھ لگا لیتے ہیں۔
اسی طرح ریچھ بھی اپنے زخموں کو صاف کرنے کے بعد انہیں گوند یا صاف مٹی سے چھپا لیتا ہے اور پانی سے بھی بچائے رکھتا ہے۔
ماہرین کے مشاہدے کے مطابق ہُدہُد اپنی ٹوٹی ہوئی ہڈی پر گیلی مٹی یا درختوں کی باریک جڑوں کا پلستر سا باندھ لیتا ہے اور چند دن بعد بالکل ٹھیک ہو جاتا ہے۔
جب کوئی جنگلی جانور زخمی ہو جاتا ہے تو وہ اپنا ٹھکانہ تبدیل کر کے کسی پرسکون جگہ پر چلا جاتا ہے اور دوا کے طور پر مختلف اقسام کی جڑی بوٹیاں کھاتا ہے۔
شیر اور بھیڑیئے جیسے گوشت خور جانور بیمار ہونے کی صورت میں گوشت کھانا چھوڑ دیتے ہیں اور سبزیوں پر گزارہ کرتے ہیں،
ریچھ کی پرہیزی غذا ان دنوں میں بیر اور جڑیں ہوتی ہے
اور ہرن درختوں کی چھال کھاتا ہے۔
حیوانوں کی ان حفاظتی تدابیر کا مشاہدہ کرتے ہوئے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ وہ ان پودوں اور جڑی بوٹیوں کا علم رکھتے ہیں جو مختلف بیماریوں میں فائدہ دیتی ہیں۔
یہ نکتہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پرانے زمانے میں انسان نے علم طب کی ابتدائی باتیں جانوروں ہی سے سیکھی تھیں۔
مثلاً نیولا سانپ کو مارنے کے بعد ایک خاص پودے کی پتیاں کھا لیتا ہے جو سانپ کے زہر کو زائل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
مرغی برسات کے دنوں میں اپنے بچوں کو (اس موسم کی بیماریوں سے بچانے کی خاطر) نرم نرم گھاس تلاش کر کے کھلاتی ہے۔
بندر کو ’’جلدی‘‘ بیماریوں میں نیم کی کونپلیں توڑ توڑ کر کھاتے دیکھا گیا ہے۔
جب جنگلی جانور بخار میں مبتلا ہوتے ہیں تو ایسی جگہ ڈیرہ ڈالتے ہیں جو نہ صرف سایہ دار ہوتی ہے بلکہ وہاں کی ہوا صاف اور پانی بھی قریب ہوتا ہے۔ بخار کی شدت کم ہونے یا بخار ٹوٹنے تک وہ صرف پانی پیتے ہیں اورکچھ کھاتے نہیں۔ اسی طرح جس جانور کو جوڑوں یا عضلات کی تکلیف ہوتی ہے وہ ایسی جگہ رہائش اختیار کرتے ہیں جہاں سورج کی روشنی براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔
آخری عمر میں یعنی بڑھاپے میں ریچھ اور دوسرے کئی جانور گرم چشمے تلاش کرتے ہیں اور روز باقاعدگی سے وہاں جا کر غسل کرتے ہیں۔ جن جانوروں کو جوئیں یا پسو پڑجاتے ہیں وہ مٹی میں لوٹنیاں لگاتے دیکھے گئے ہیں۔ آپ اس عمل کو ’’غسل خاکی‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔
ماہرین کے مشاہدے کے مطابق جانور موسمی تبدیلیوں کے ساتھ اپنی غذائیں بھی تبدیل کرتے ہیں۔
انڈے دینے والی چڑیاں کیلشیم کی کمی پوری کرنے کی غرض سے ساحل سمندر پر جا کر گھونگھے چن چن کر کھاتی ہیں اور ہرنیاں میلوں دور تک ایسے پانی کی تلاش میں جاتی ہیں جس میں کیلشیم کی مقدار زیادہ ہو۔
جب کسی زخمی عضو کے ٹھیک ہونے کا امکان صفر ہو جائے تو ڈاکٹر مجبوراً اسے کاٹ دیتے ہیں تاکہ دوسرے جسمانی حصے خطرے سے محفوظ رہیں۔ آپ کو یہ جان کر یقیناً حیرت ہو گی کہ جانور بھی اس آخری طریقہ علاج کی شُدبُد رکھتے ہیں۔ جب وہ ایسی صورتحال سے دوچار ہوتے ہیں تو اپنے ناقابل علاج عضو کو مختلف طریقوں سے جسم سے علیحدہ کر دیتے ہیں۔
جب کسی جانور یا پرندے کا کوئی عضو جال میں پھنس جاتا ہے تو وہ اسے دانتوں یا چونچ کی مدد سے کاٹ کر آزاد ہو جاتا ہے کیونکہ یہ بے زبان بھی جانتے ہیں کہ زندگی ایک عضو سے زیادہ قیمتی ہے۔
ح