سعودی عرب میں کیا روبوٹ کو خواتین سے زیادہ حقوق حاصل ہیں؟ 27 اکتوبر 2017 صوفیہ سے ملیے، جو ایک روبوٹ ہیں اور پیر کو سعودی عرب کے شہر جدہ میں انھیں پہلی بار عوام کے سامنے لایا گیا۔ صوفیہ اتنی مقبول ہو گئیں کہ انھیں مستقبل کی سرمایہ کاری کے حوالے سے منعقدہ کانفرنس میں موجود سینکڑوں شرکا کے سامنے فوری طور پر سعودی عرب کی شہریت دی گئی۔
اس کے بعد صوفیہ کی تصاویر اور ویڈیوز سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر شیئر ہونا شروع ہو گئیں اور سوالات اٹھائے جانے لگے کہ بظاہر کیوں پہلے سے ہی ایک روبوٹ کو ملک میں خواتین سے زیادہ حقوق حاصل ہو گئے ہیں۔ صوفیہ کو ہانگ کانگ کی ایک کمپنی ہینسن روبوٹکس نے تیار کیا ہے۔ اگرچہ سعودی عرب میں خواتین کو گھر سے باہر برقع پہننا لازمی ہے لیکن صوفیہ نے بغیر کسی روایتی سکارف اور عبایہ کے شرکا سے انگریزی زبان میں خطاب کیا۔ صوفیہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ 'یہ میرے لیے باعثِ عزت ہے اور مجھے ایک منفرد اعزاز حاصل ہونے پر بہت فخر ہے۔ ایسے پہلے روبوٹ کے طور پر میرے لیے یہ تاریخی لمحہ ہے جس کو دنیا ایک شہری کی حیثیت سے جانا جائے گا۔
سعودی عرب میں ٹویٹر پر لوگوں نے ہیش ٹیگ پر اس پیش رفت کی تعریف کر رہے ہیں اور اس کو روبوٹ کو شہریت دینے کے اعلان کے 24 گھنٹے اندر 30 ہزار بار استعمال کیا جا چکا ہے۔ تاہم دوسرے صارفین نے سعودی عرب میں خواتین کے لیے محرم یا ولی کے قانون کے تناظر میں طنزیہ رویہ اپناتے ہوئے کے ہیش ٹیگ پر ٹویٹ کرنا شروع کیں اور اس کو اب تک دس ہزار بار استعمال کیا جا چکا ہے۔
خیال رہے کہ ولی کے قانون کے تحت سعودی خواتین کو پاسپورٹ حاصل کرنے، بیرونِ ملک سفر کرنے، گھر سے باہر نکلنے، شادی کرنے یا پھر جیل سے نکلتے وقت کسی قریبی مرد رشتے دار کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک ٹویٹر صارف نے ٹویٹ کی کہ' صوفیہ کا کوئی ولی نہیں، وہ عبایہ نہیں پہنتی یا حجاب نہیں کرتی، یہ کیسے؟' ایک دوسرے صارف نے ایک روبوٹ کے چہرے کی تصویر پوسٹ کی جس نے نقاب کر رکھا تھا اور اس کے ساتھ لکھا کہ ' کچھ مدت بعد صوفیہ ایسے نظر آئے گی۔' اس کے علاوہ صوفیہ کا سعودی عرب کی خواتین کے ساتھ موازنہ کیا جا رہا ہے جبکہ اس پر بھی بات ہو رہی کہ کس طرح جلدی جلدی اسے شہریت دے دی گئی۔ صحافی مرتضیٰ حسین نے ٹویٹ کی کہ' اس روبوٹ کو کفالہ کارکنوں سے پہلے شہریت دے دی گئی جو اپنی پوری زندگی ملک میں گزار دیتے ہیں۔ خیال رہے کہ سعودی عرب میں ملازمت کرنے والے غیر ملکی اپنے کفیل کی مرضی کے بغیر ملک نہیں چھوڑ سکتے ہیں اور یہ خلیج میں غیر ملکی کارکنوں کے حقوق کو محدود کرنے کے حوالے سے رائج کفالہ نظام کا ایک پہلو ہے۔
حوالہ:http://www.bbc.com/urdu/world-41771216
حوالہ:http://www.bbc.com/urdu/world-41771216