محمد اجمل خان
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 25، 2014
- پیغامات
- 350
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 85
خاموشی رہنا اور شمعیں جلانا
عیسائیوں کی عقیدے کے مطابق کسی مرحوم شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرنے اور ایصال ثواب پہچانے کیلئے کچھ دیر ’’خاموشی کا روزہ ‘‘ رکھنے سے حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد ہوتی ہے جو ان کی اس خاموش عبادت کو قبول کرتے ہوئے مرحوم شخص کی نجات کا بندوبست کرتے ہیں۔
بے شک یہودیت اور عیسائیت میں عبادت کا یہ طریقہ رائج تھا جس کا ثبوت ہمیں قرآن کریم سے ملتا ہے، جیسے حضرت زکریا علیہ السلام اور حضرت مریم علیہا السلام نے خاموشی کا روزہ رکھا تھا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں تین مقام پر ارشاد ہے:
’’ (زکریا علیہ السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! میرے لئے کوئی نشانی مقرر فرما، فرمایا: تمہارے لئے نشانی یہ ہے کہ تم تین دن تک لوگوں سے سوائے اشارے کے بات نہیں کر سکو گے، اور اپنے رب کو کثرت سے یاد کرو اور شام اور صبح اس کی تسبیح کرتے رہو‘‘ (41) سورة آل عمران
’’ (زکریا علیہ السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! میرے لئے کوئی نشانی مقرر فرما، ارشاد ہوا: تمہاری نشانی یہ ہے کہ تم بالکل تندرست ہوتے ہوئے بھی تین رات (دن) لوگوں سے کلام نہ کرسکوگے، (10) سورة مريم
’’سو (اے مریمؑ) تم کھاؤ اور پیو اور (اپنے فرزند کو دیکھ کر) آنکھیں ٹھنڈی کرو، پھر اگر تم کسی بھی آدمی کو دیکھو تو (اشارے سے) کہہ دینا کہ میں نے (خدائے) رحمان کیلئے (خاموشی کے) روزہ کی نذر مانی ہوئی ہے، سو میں آج کسی انسان سے قطعاً گفتگو نہیں کروں گی‘‘ (26) سورة مريم
اسی طرح مجوسیت میں آگ کو خدا تصور کرتے ہوئے آگ جلا کر اسکی عبادت کی جاتی ہے۔ ان کے بقول اس طرح ان کا خدا ان پر قہر نازل نہیں کرتا۔ وہ اس کو راضی کرنے اور اس سے خیر چاہنے کیلئے آگ جلا کر اس کی عبادت کرتے ہیں۔
شریعتِ محمدی ﷺ میں پچھلی عبادت ’’خاموشی کا روزہ‘‘ کو ختم کر دیا گیا اور مجوسیت کی آگ کی پرستش تو ہے ہی شرکیہ و کفریہ طریقہ جس کی دین اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
دین اسلام نے نماز، ذکر اذکار، روزہ (کھانے پینے وغیرہ سے رُکنا نہ کہ بولنے سے) وغیرہ کو عبادات کے طور پر رائج کیا۔ بے کار بولنے سے چپ رہنے کو افضل تو قرار دیا ہے لیکن خاموش رہنے کو بذات خود عبادت قرار نہیں دیا۔
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اچھی بات کہے ورنہ خاموش رہے‘‘۔ (صحيح البخاري: ٦٤٧٥)
لہذا ’’ایک دو منٹ (معینہ مدت) کیلئے خاموشی اختیار کرنا (یعنی خاموشی کا روزہ) یہودیت اور عیسائیت کا طریقۂ عبادت ہے جبکہ شمعیں جلانا (آگ کی پوجا) مجوسیوں کی عبادت ہے۔
لبرل اور اشرافیہ طبقہ کسی مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرنے اور ایصال ثواب پہچانے کے یہ کفریہ طریقے یعنی ’’خاموشی رہنے اور شمعیں جلانے‘‘ کو پاکستان کے مسلم معاشرے کا حصہ بنانے کیلئے مدتوں سے کوشاں ہیں۔
اور اب کئی سالوں سے سرکاری سطح پر شہدائے کشمیر کو خراج عقیدت اور کشمیر سے یکجہتی کیلئے بھی ان ہی طریقے کو اپنایا جا رہے۔
امید ہے کہ بہت جلد عوام الناس میں اپنے مرحومین کو ایصال ثواب پہنچانے کا یہ بدعات رواج پکڑ لے گا کیونکہ پاکستانی عوام بدعات کو اپنانے میں بہت تیز ہیں اور اس میں بڑی آسانی ہے، نہ ہی صدقات خیرات کیلئے اپنی محنت و مشقت کی کمائی لگانی پڑتی اور نہ دل و زبان سے کچھ سوچنا اور کہنا پڑتا ہے۔
عوام میں شمعیں جلانے کی بدعت تو پہلے سے ہی ہے اور اب خاموش رہنے کی بدعت بھی رواج پکڑ لے گی۔
للہ! اس عوام پر رحم کیجئے!
اس کی اکثریت ایسے ہی شرک و بدعات میں ڈوبی ہوئی ہے اور فرقوں میں بٹی ہوئی ہے، اب مزید کہاں تک اس کا بیڑا غرق کریں گے۔
تحریر: محمد اجمل خان
۔
عیسائیوں کی عقیدے کے مطابق کسی مرحوم شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرنے اور ایصال ثواب پہچانے کیلئے کچھ دیر ’’خاموشی کا روزہ ‘‘ رکھنے سے حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد ہوتی ہے جو ان کی اس خاموش عبادت کو قبول کرتے ہوئے مرحوم شخص کی نجات کا بندوبست کرتے ہیں۔
بے شک یہودیت اور عیسائیت میں عبادت کا یہ طریقہ رائج تھا جس کا ثبوت ہمیں قرآن کریم سے ملتا ہے، جیسے حضرت زکریا علیہ السلام اور حضرت مریم علیہا السلام نے خاموشی کا روزہ رکھا تھا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں تین مقام پر ارشاد ہے:
’’ (زکریا علیہ السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! میرے لئے کوئی نشانی مقرر فرما، فرمایا: تمہارے لئے نشانی یہ ہے کہ تم تین دن تک لوگوں سے سوائے اشارے کے بات نہیں کر سکو گے، اور اپنے رب کو کثرت سے یاد کرو اور شام اور صبح اس کی تسبیح کرتے رہو‘‘ (41) سورة آل عمران
’’ (زکریا علیہ السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! میرے لئے کوئی نشانی مقرر فرما، ارشاد ہوا: تمہاری نشانی یہ ہے کہ تم بالکل تندرست ہوتے ہوئے بھی تین رات (دن) لوگوں سے کلام نہ کرسکوگے، (10) سورة مريم
’’سو (اے مریمؑ) تم کھاؤ اور پیو اور (اپنے فرزند کو دیکھ کر) آنکھیں ٹھنڈی کرو، پھر اگر تم کسی بھی آدمی کو دیکھو تو (اشارے سے) کہہ دینا کہ میں نے (خدائے) رحمان کیلئے (خاموشی کے) روزہ کی نذر مانی ہوئی ہے، سو میں آج کسی انسان سے قطعاً گفتگو نہیں کروں گی‘‘ (26) سورة مريم
اسی طرح مجوسیت میں آگ کو خدا تصور کرتے ہوئے آگ جلا کر اسکی عبادت کی جاتی ہے۔ ان کے بقول اس طرح ان کا خدا ان پر قہر نازل نہیں کرتا۔ وہ اس کو راضی کرنے اور اس سے خیر چاہنے کیلئے آگ جلا کر اس کی عبادت کرتے ہیں۔
شریعتِ محمدی ﷺ میں پچھلی عبادت ’’خاموشی کا روزہ‘‘ کو ختم کر دیا گیا اور مجوسیت کی آگ کی پرستش تو ہے ہی شرکیہ و کفریہ طریقہ جس کی دین اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
دین اسلام نے نماز، ذکر اذکار، روزہ (کھانے پینے وغیرہ سے رُکنا نہ کہ بولنے سے) وغیرہ کو عبادات کے طور پر رائج کیا۔ بے کار بولنے سے چپ رہنے کو افضل تو قرار دیا ہے لیکن خاموش رہنے کو بذات خود عبادت قرار نہیں دیا۔
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اچھی بات کہے ورنہ خاموش رہے‘‘۔ (صحيح البخاري: ٦٤٧٥)
لہذا ’’ایک دو منٹ (معینہ مدت) کیلئے خاموشی اختیار کرنا (یعنی خاموشی کا روزہ) یہودیت اور عیسائیت کا طریقۂ عبادت ہے جبکہ شمعیں جلانا (آگ کی پوجا) مجوسیوں کی عبادت ہے۔
لبرل اور اشرافیہ طبقہ کسی مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرنے اور ایصال ثواب پہچانے کے یہ کفریہ طریقے یعنی ’’خاموشی رہنے اور شمعیں جلانے‘‘ کو پاکستان کے مسلم معاشرے کا حصہ بنانے کیلئے مدتوں سے کوشاں ہیں۔
اور اب کئی سالوں سے سرکاری سطح پر شہدائے کشمیر کو خراج عقیدت اور کشمیر سے یکجہتی کیلئے بھی ان ہی طریقے کو اپنایا جا رہے۔
امید ہے کہ بہت جلد عوام الناس میں اپنے مرحومین کو ایصال ثواب پہنچانے کا یہ بدعات رواج پکڑ لے گا کیونکہ پاکستانی عوام بدعات کو اپنانے میں بہت تیز ہیں اور اس میں بڑی آسانی ہے، نہ ہی صدقات خیرات کیلئے اپنی محنت و مشقت کی کمائی لگانی پڑتی اور نہ دل و زبان سے کچھ سوچنا اور کہنا پڑتا ہے۔
عوام میں شمعیں جلانے کی بدعت تو پہلے سے ہی ہے اور اب خاموش رہنے کی بدعت بھی رواج پکڑ لے گی۔
للہ! اس عوام پر رحم کیجئے!
اس کی اکثریت ایسے ہی شرک و بدعات میں ڈوبی ہوئی ہے اور فرقوں میں بٹی ہوئی ہے، اب مزید کہاں تک اس کا بیڑا غرق کریں گے۔
تحریر: محمد اجمل خان
۔