اسلام ڈیفینڈر
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 368
- ری ایکشن اسکور
- 1,006
- پوائنٹ
- 97
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:
﴿ وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ النَّبِيّٖنَ لَمَآ اٰتَيْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَلَتَنْصُرُنَّهٗ ۭ قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰي ذٰلِكُمْ اِصْرِيْ ۭ قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا ۭ قَالَ فَاشْهَدُوْا وَاَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِيْنَ ﴾ (آل عمران:۸۱)
''اور (وہ وقت بھی یاد کرو )جب اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے یہ عہد لیا کہ اگر میں تمہیں کتاب و حکمت عطا کروں گا پھر تمہارے پاس کوئی رسول آئے و اس کی تصدیق کرتا ہو جو تمہارے پاس ہے تمہیں لازماً ایمان لانا ہوگا اور اس کی نصرت کرنی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو؟ اور میرے اس عہد کی ذمہ داری قبول کرتے ہو؟ نبیوں نے کہا ہم اقرار کرتے ہیں فرمایا گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔''
مندرجہ بالا آیت مبارکہ نے واضح کیا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے ایک عہد لیا کہ اگر تمہاری زندگی میں کوئی رسول آئے گا تو تمہیں اس کی مدد کرنا ہوگی اور تمام نبیوں نے اس عہد کا اقرار کیا۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک نبی کی موجودگی میں دوسرا نبی یا پھر اس کے بعد ایک اور نبی کو مبعوث کیا جا سکتا ہے۔ اور پہلا نبی اپنے سے قبل نبی کی تصدیق بھی کرے گا اور اگر وہ اس کی زندگی میں آئے گا تو مدد بھی کرے گا۔ یعنی اس آیت نے واضح کیا کہ نبوت کا سلسلہ جاری رہے گا اور تمام انبیاء کو ایک دوسرے کی تصدیق اور مدد کرنا ہوگی اور یہی عہد ان کی امتوں سے بھی لیا گیا ہے۔ لیکن اللہ نے دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
﴿ وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّـبِيّٖنَ مِيْثَاقَهُمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُّوْحٍ وَّاِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۠ وَاَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا ﴾ (الاحزاب:۷)
''اور (اے نبیﷺ) یاد رکھو اس عہدو پیمان کو جو ہم نے تمام پیغمبروں سے لیا تم سے بھی اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسٰی ابن مریم سے بھی۔ سب سے ہم پختہ عہد لے چکے ہیں۔''
منکرین ختم نبوت نے مندرجہ بالا آیت سے یہ استدلال کیا کہ آل عمران کی آیت میں تمام نبیوں سے بعد میں آنے والے نبی کی تائید کا عہد لیا گیا تھا اور سورۃ احزاب کی آیت میں واضح طور پر نبی کریمﷺ سے بھی اسی عہد کو دوہرایا گیا کہ آپ کو بھی اس پیغمبر کی تائید و نصرت کرنی ہے جوآپ کے بعد آئے گا ۔۔۔ یعنی نبوت کا سلسلہ نبی کریمﷺ کے بعد بھی جاری رہے گا۔ کیونکہ سورۃ احزاب کی آیت نے نبی کریمﷺ سے بھی اُسی عہد کو دہرایا جو پچھلے پیغمبروں سے دہرایا تھا۔
محترم قارئین! اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں کئی عہد کے ذکر کیے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ صرف وہی عہد کرتا جس کا ذکر آل عمران میں ہے تو بات واضح ہوتی کہ نبی کریمﷺ سے بھی عہد لیا جا رہا ہے بعد میں آنے والے پیغمبر کی تصدیق کا۔ مگر یہ بات دلائیل سے کوسوں دور ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی عہدوں کا ذکر فرمایا ہے۔
مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهٖٓ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ ﴾
(الشورٰی:۱۳)
''اللہ تعالیٰ نے مقرر کر دیا تمہارے لیے وہ دین جس کی ہدایت کی تھی۔ اس نے نوح کو اور جس کی وحی کی گئی (اے محمدﷺ) تمہاری طرف اور جس کی ہدایت کی گئی ابراہیم اور موسیٰ اور عیسٰی کو اس تاکید کے ساتھ کہ تم لوگ اس دین کو قائم کرو اور اس میں تفرقہ نہ کرو۔''
مذکورہ آیت مبارکہ سےا یک اور عہد کا ذکر ملتا ہے نبی کریمﷺ سے اور دوسرے پیغمبروں سے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور اس کے دین کی اطاعت کرنے کا عہد لیا گیا ہے۔ یعنی تمام پیغمبروں سے شریعت کی پاسداری کا عہد لیا گیا ہے اور اس عہد میں نبی کریمﷺ بھی شامل ہیں۔
دوسرا عہدجس کا ذکر آل عمران میں کیا گیا ہے کہ:
﴿ وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَتُبَيِّنُنَّهٗ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُوْنَهٗ ﴾ (آل عمران:۱۸۷)
''اور یاد کرو اس بات کو کہ اللہ تعالیٰ نے عہد لیا تھا اہل کتاب سے کہ تم لوگ اس تعلیم کو بیان کو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں۔''
اس آیت میں جس عہد کا ذکر ہے وہ ہے ''تبیان علم''اور ''کتمان علم''کی سخت مذمت ۔
تیسرےعہد کا ذکر سورۃ البقرۃ میں ہے:
﴿ وَاِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَ بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ ﴾ (البقرۃ:۸۳)
''اور یاد کرو ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو گے۔''
مندرجہ بالا آیت میں صرف ایک اللہ کی عبادت پر عہد لیا گیا۔
چوتھا عہد:
﴿اَلَمْ يُؤْخَذْ عَلَيْهِمْ مِّيْثَاقُ الْكِتٰبِ اَنْ لَّا يَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ وَدَرَسُوْا مَا فِيْهِ ﴾ (الاعراف:۱۶۹)
''کیا ان سے اس کتاب کے اس مضمون کا عہد نہیں لیا گیا کہ اللہ کی طرف سے بجز حق بات کے اور کسی بات کی نسبت نہ کریں اور انہوں نے اس کتاب میں جو کچھ تھا اس کو پڑھ لیا''
اس آیت میں کتاب پر مضبوطی سے عمل پیرا ہونے کے عہد کا ذکر ہے اور ساتھ میں اس ہدایت کی پیروی کا ذکر ہے جو اس کتاب میں بیان کی گئی ہے۔
پانچواں عہد:
﴿ وَاذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَمِيْثَاقَهُ الَّذِيْ وَاثَقَكُمْ بِهٖٓ ۙ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ﴾ (المائدۃ:۷)
''اور اے مسلمانوں! یاد رکھو اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو جو اس نے تم پر کیا ہے اور اس عہد کو جو اس نے تم سے لیا ہے اور جب کہ تم نے سنا اور اطاعت کی۔''
سورۃ المائدہ کی آیت میں بھی ایک عہد کا ذکر کیا گیا ۔ ہم جس پر ایمان والوں نے سننے اور اطاعت کرنے کا عہد اللہ تعالیٰ سے کیا۔
ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صرف ایک عہد کا ذکر نہیں کیا بلکہ کئی وعدوں کا ذکر قرآن مجید میں ملتا ہے کہ اس نے اپنے بندوں سے لیا خصوصاً پیغمبروں سے۔ لہٰذا ان تمام عہدوں کو چھوڑ کر صرف ایک عہد پر ڈٹے رہنا کہ نبی کریمﷺ سے بھی اسی چیز کا عہد لیا گیا کہ آپ کے بعد جو بھی نبی آئے گا آپ نے اس کی تصدیق کرنی ہے تو یہ واضح غلطی اور آیت کے مفہوم کو بگاڑنے کے مترادف ہے۔
مزید اگر ہم سورۃ الاحزاب کی آیت پر غور کرتے ہیں تو وہاں ہر گز اس چیز کا عہد نہیں لیا جا رہا کہ آپ بعد میں آنے والے نبی کی تائید کریں بلکہ سیاق و سباق سے کسی اور مسئلے کی طرف نشاندہی ہو رہی ہے۔
مرحوم مودودی صاحب فرماتے ہیں:
''اس عہد کو اس سیاق و سباق میں اللہ تعالیٰ جس وجہ سے یاد دلا رہا ہے وہ یہ ہے کہ نبی کریمﷺ شماتت اعداء کے اندیشے سے منہ بولے رشتوں کے معاملے میں جاہلیت کی رسم کو توڑتے ہوئے جھجھک رہے تھے۔ آپﷺ کو بار بار یہ شرم لاحق ہو رہی تھی کہ معاملہ ایک خاتون سے شادی کرنے کا ہے۔ میں خواہ کتنی ہی نیک نیتی کے ساتھ محض اصلاح معاشرہ کی خاطر یہ کام کروں مگر دشمن یہی کہیں گے کہ یہ کام دراصل نفس پرستی کی خاطر کیا گیا ہے اور مصلح کا لبادہ اس شخص نے محض فریب دینے کے لیے اوڑھ رکھا ہے۔ اسی بناء پر اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ سے فرما دیا ہے کہ تم ہمارے مقرر کیے ہوئے پیغمبر ہو۔ تمام پیغمبروں کی طرح تم سے بھی ہمارا یہ پختہ معاہدہ ہے کہ جو کچھ بھی ہم حکم دیں گے اس کو خود بجالاؤ گے اور دوسروں کو اس کی پیروی کا حکم دو گے۔'' (تفہیم القرآن،ج۴،ص۷۴)
مودودی صاحب کے اقتباسات سے واضح ہوتا ہے کہ آیت کا سیاق نبی کریمﷺ کے بعد نبی آنے اور اس کی تائید پر دلالت نہیں کرتا بلکہ اس کا سیاق اس بات پر منحصر ہے کہ عدو اللہ جتنی بھی مخالفت کریں آپ ﷺ ان کی بغیر پرواہ کیے ہوئے صرف اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کریں۔
چنانچہ آیت مبارکہ میں جس عہد کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کی فرمانبرداری پر قائم ہے۔ بالفرض اگر منکرین ختم نبوت کی بات کو تسلیم کر بھی لیا جاے تو یہاں پر ایک بہت بڑا شکال پیدا ہوگا ، وہ یہ کہ سورۃ الاحزاب میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر نبوت کے ختم ہونے کا اعلان فرمایا ہے اور اعلان کر دیا کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اس صورت میں سورۃ الاحزاب کی دونوں آیات میں واضح تعارض ہوگا جو کلام الہٰی کے شان کے خلاف ہے۔ لہٰذا اس مخالفت سے بچنے اور صحیح العقیدہ بننے کے لیے یہی معنی اور مطالب کو اخذ کیے جائیں گے جو شریعت کے عین مطابق ہیں کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں اور سورۃ الاحزاب کی آیت میں اللہ کی فرمانبرداری کا عہد لیا جا رہا ہے نہ کہ نبی کریم ﷺ کے بعد کسی اور نبی کی تائید کا۔ الشیخ محمد طاھر بن عاشور فرماتے ہیں:
''وھذا المیثاق مجمل ھنا بینتہ آیات کثیرۃ۔ وجماعھا أن یقولو الحق ویبلغوا ما أمروا بہ دون۔۔۔۔'' (التحریر والتنوری، ج۸،ص۲۷۴)
''یعنی یہاں جس میثاق کا ذکر ہے اس کا ذکر کئی آیات میں کیا گیا ہے (اور وہ میثاق یہ تھا کہ) حق کہیں اور اس چیز کو (امت تک) پہنچائیں جس کا حکم دیا گیا ہے۔ بغیر کسی کافر اور منافق کے ڈر سے۔۔۔۔''
صدیق حسن خان القنوجی فرماتے ہیں:
''واذ اخذنا منھم میثاقاً غلیظاً''
اس آیت میں مضبوط عہد کا ذکر کیا گیا ہے جس کی ان کو ذمہ داری دی گئی یا جو اللہ تعالیٰ نے ان سے (عہد لیا) عبادت اور دین کی طرف دعوت دینے کا۔ (فتح البیان، ج۶،ص۳۴۲)
امام ابن الجوزی فرماتے ہیں کہ:
''اللہ تعالیٰ نے دو قسموں کے میثاق لیے انبیاء سے:
اوّل: ایک دوسرے کی تعریف کرنا( اس کا تعلق آل عمران کی آیت ۸۲ میں ہے)۔
دوم: ایک اللہ کی عبادت اور انسانوں کو اللہ کی عبادت کی طرف بلانا (یہ وہ آیت ہے جو الاحزاب میں ہے جس آیت پر ہم گفتگو کر رہے ہیں)۔ (ذادالمسیر، ج۶،ص۱۹۰)
ابن الجوزی کی صراحت سے بھی یہ واضح ہوا کہ یہ وہ میثاق نہیں ہے سورۃ الاحزاب والا کہ نبی کریمﷺ کے بعد کوئی اور نبی بھی آئے گا بلکہ یہاں عبادت اور اطاعت کے میثاق کا ذکر ہے۔
عبداللہ بن احمد انسیفی رقمطراز ہیں:
''میثاقھم بتبلیغ الرسالۃ والدعا إلی دین القیم''
یعنی رسول اللہﷺ اور دوسرے نبیوں کا جو میثاق تھا وہ رسالت کی تبلیغ اور لوگوں کو دینِ قیم کی طرف بلانا ہے۔(تفسیر انسیفی، ج۳،ص۱۳۶۱)
مفسر عصر وھبۃ الذھیلی فرماتے ہیں:
''وأخذنا علیہم المواثیق فی التبلیغ''
یعنی اللہ تعالیٰ نے انبیاء سے تبلیغ دین پر عہد لیا۔''(التفسیر المنیر، ج۱۱،ص۲۷۱)
ابو منصور الماتریدی اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:
''اخذ منھم المیثاق فی تبلیغ الرسالۃ الی قومھم لیسألھم عن صدقھم انھم قد بلّغوا'' (تاویلات اھل السنۃ، ج۴،ص۱۰۴،۱۰۳)
''یعنی انبیاء سے رسالت کی تبلیغ کا عہد لیا گیا ان کی قوم کی طرف تاکہ ان سے سوال کیا جائے ان کی صداقت کے بارے میں کہ یقیناً انہوں نے دین پہنچایا۔''
ان تصریحات سے واضح ہوا کہ سورۃ الاحزاب میں جس عہد کا ذکر نبی کریمﷺ سے لیا گیا ہے وہ عہد اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور تبلیغ دین پر ہے نہ کہ یہ کہ نبی کریمﷺ کے بعد کسی اور نبی کی تصدیق کا عہد۔ بناں بریں اگر تدبر اور تفہیم سے آیت مبارکہ پر غور کیا جائے تو سورۃ الاحزاب کی آیت میں صرف عہد لینے کا ذکر موجود ہے ۔ لہٰذا جب مکمل قرآنِ مجید سے تمام عہدوں کا مطالعہ کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کئی عہد انبیاء سے اور ان کی قوموں سے لیئے۔ لہٰذا زبردستی سورۃ الاحزاب کی آیت سے نبوت کے سلسلے کو جاری رکھنے پر دلیل لینا یہ معنوی تحریف اور ہٹ دھرمی کی دلیل ہوگی۔ چنانچہ مذکورہ بالا آیت میں صرف عہد کا ذکر ہے اور وہ رسالت کی تبلیغ کا عہد ہے جس کو ہم نے دلائیل سے واضح کیا۔