- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
کیا لطیف نکتہ ہے، میں تو ششدر رہ گیا۔ ہمارے حکیم الامت توخیر فلسفہ جدید کی روح کے اندر بھی اترے ہوئے تھے، مگر مجھے ایک مولوی کی بات سنانا ہے۔
اقبال نے سید سلمان ندوی کے نام اپنے ایک خط میں اس بات پر حیرت کا اظہار کیا تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں نے بڑے بڑے مسائل پر غور کیا ہے اور اس کی تاریخ لکھی جا سکتی ہے۔ پھر ایک مسئلے کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہا کہ میں حیرت میں رہ گیا کہ فلاں مسئلے پر جدید ترین کتاب ہمارے ہاں شائع ہوئی ہے۔
میں اس وقت ایک ایسی ہی حیرت میں مبتلا ہوں۔ عرض کیا کہ مجھے اس وقت ایک مولوی کی بات سنانا ہے جو ہم دنیا داروں میں کوئی ایسا معروف بھی نہیں، البتہ شاہ ولی اللہ کے خانوادے سے اس کا تعلق ہے۔ مولوی عبدالقیوم کا کبھی نام بھی سنا ہے! یا ویسے وہ شاہ اسحقٰ کے داماد تھے۔ ہو سکتا ہے کوئی یہ بھی پوچھ لے کہ یہ شاہ اسحقٰ کون تھے۔ اور بھی رشتے ہیں ان کے اس خاندان سے۔ کوئی رعب جمانے کا شوق نہیں۔ دل میں بس یہ خلش ہے کہ مغرب کے تو پدّی پدّی سے لوگوں کے نام ہم جانتے ہیں، مگر اپنی وراثت سے واقف تک نہیں ہیں۔
تمہید لمبی ہوتی جا رہی ہے ، مگر ضروری ہے ۔ ان مولوی عبدالقیوم سے مرزا غلام احمد کے خلیفہ اول حکیم نور الدین نے بھی درس لیا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ صحیح العقیدہ تھے۔ جہاں یہ واقعہ درج ہے، وہاں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پھر وہ کیا ہوئے اور آخر میں کیا ہو گئے۔ اس سے فی الحال غرض نہیں۔ ہوا یوں کہ بخاری اور ہدایہ کا درس مکمل کر کے حکیم نور الدین رخصت ہونے لگے تو انہوں نے اپنے استاد مولوی عبدالقیوم سے خواہش ظاہر کی کہ چلتے ہوئے مجھے کوئی اچھی سی نصیحت فرما دیجئے جس سے میں ہمیشہ خوش رہ سکوں۔ اس پر بھوپال میں بیٹھے اس مولوی نے جو کہا، اسے ذرا غور سے سنیے، فرمایا:"خدا نہ بننا اور رسول نہ بننا"
سبحان اللہ کیا بات کہی ہے۔ کوئی ذرا اس پر غور تو کرے۔ ہمارے ہاں درج ہو گیا ہے کہ ہم ایسی باتوں کو یا سمجھ نہیں پاتے یا انہیں سرسری لیتے ہیں اور ان کی گہرائی تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔ ہو سکتا ہے اس فقرے کا مطلب کوئی یہ لے لے کہ بھئی اپنے آپ میں رہنا، خود کو خدا یا رسالت کے مرتبے پر فائز نہ سمجھ لینا۔یہ مطلب بھی درست سہی۔ خدا بنے تھے یگا نہ مگر بنا نہ گیا۔ وغیرہ وغیرہ۔ آدمی اس میں بھی مارا جاتا ہے۔ مگر کہنے والے نے جو بات کہی، اس کی وضاحت بھی کر دی۔ حکیم نور الدین نے پوچھا کہ حضور اس کا مطلب بھی سمجھا دیجئے۔ مولوی صاحب نے کہا ، خدا تم کسے کہتے ہو؟ جواب آیا خدائی ایک صفت فعال نما یرید بھی ہے ۔ مولوی صاحب نے کہا ٹھیک سمجھے۔
اب یہاں مجھے جستجو ہوئی کہ اس کا مطلب معلوم کیا جائے۔ کچھ تو علم تھا ہی، کچھ ذرا تحقیق اور جستجو کے شوق میں برادر عزیز قاضی حبیب الرحمن کو عارف والا فون کیا۔ ایک لمحہ تو وہ بھی ٹھٹکے، اچانک انہیں عربی کا ایک شعر یاد آ گیا جس میں یہ ترکیب استعمال ہوئی تھی اور جسے مولانا اشرف تھانوی نے نقل کیا تھا۔ اس ترکیب کا مطلب تو صاف ہے "جو وہ چاہے"۔ مگر ہجروصال کے حوالے سے اس کی چمک ہی اور ہے۔ مجھے آسانی کے لئے مجید امجد کا ایک شعر یاد آیا ہے جو اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ بہرحال اس پر اکتفا کرتے ہیں۔
تجھے تو علم ہے، کیوں میں نے اس طرح چاہا
جو تو نے یوں نہیں چاہا، تو کیا ، جو تو چاہے
سبحان اللہ ۔ اس سے اگلا شعر اگر چہ اسی مسئلے کو عام سطح پر اور واضح کرتا ہے ،مگر اصل بات تو اسی شعر میں سمجھنے کی ہے۔ اگلا شعر یوں ہے۔ آپ نے بھی سنا ہو گا۔
سلام ان پر تہ تیغ بھی جنہوں نے کہا
جو تیرا حکم جو تیری رضا' جو تو چاہے
دیکھیے" خدا نہ بننا اور رسول نہ بننا" کیسی سادہ سی نصیحت ہے۔ مگر اس میں معانی کی اتنی پرتیں چھپی ہوئی ہیں کہ کوئی ان پر عمل کر ے تو زندگی بدل کر رہ سکتی ہے اور معاشرہ بھی اپنے بہت سے عذابوں سے نجات پا سکتا ہے۔ اپنی بظاہر ناکامیوں سے بددل نہ ہو کہ تم طاقت مطلق نہیں ہو۔ اورخود سے اختلاف کرنے والوں سے نفرت نہ کرو کہ تم سے اختلاف کا مطلب جہنم اور تباہی نہیں ہے۔ کیا اس سے بلیغ نصیحت کوئی اور ہو سکتی ہے۔ افسوس کہ اس شخص نے اس پر عمل نہ کیا۔
یاد رہے، یہ نصیحت اس حوالے سے مانگی گئی تھی کہ زندگی بھر خوش رہوں۔ خوش رہنے کا یہ کتنا عمدہ فارمولا ہے۔ ترکی کے فتح اللہ گولن کی تحریروں میں یہ خوبی یگانہ دیکھی ہے کہ احادیث نبوی اور بعض اقوال کی سیاست حاضرہ کے حوالے ایسی تطبیق کرتے ہیں کہ آدمی دنگ ہو کر رہ جاتا ہے۔
مغرب خاص کر امریکہ نے مسرت کی تلاش کو اپنا مقصد حیات بنایا ، مگر شاید بنیاد ہی کچی تھی۔ ان کے پاس خوش رہنے کا فارمولا یہی تھا۔ ذرا غور کیجئے ، کوئی شخص یا معاشرہ اس فارمولے پر عمل کرے جو ہمارے ایک مولوی عبدالقیوم نے بتایا تھا تو اسے خوشیاں بھی ملیں گی اور اشفاق احمد کے الفاظ میں وہ خوشیاں بھی بانٹے گا۔ ترقی کی منزلیں بھی طے کرے گا اور خود کو عہد حاضر کے عذابوں سے محفوظ بھی رکھے گا۔ اگر کوئی حکومت اس پر عمل کرے تو صحیح جمہوری کلچر کے ساتھ وہ ایک فلاحی معاشرے کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔
میں نے ابھی فتح اللہ گولن کا حوالہ دیا۔ افسوس آج کل ان میں اور ترکی کی حکومت میں اختلافات پیدا ہو گئے ہیں ، مگر ان کی فکر نے جدید ترکی کی تشکیل میں بڑا بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ عرض کیا کہ وہ تو ایک جمہوری معاشرے میں رہنے کی وجہ سے احادیث اور اقوال کی تشریح اس طرح کرتے ہیں کہ ان کے نئے معنی کھلنے لگتے ہیں۔ مثلاً ایک معروف حدیث ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جا سکتا۔ اس پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ مستقبل کے سیاستدانوں کے لئے خصوصی طور پر قابل توجہ ہے۔ مزید فرماتے ہیں۔ مستقبل کے تعلیم یافتہ افراد وہ ہیں جو متنبہ ہو چکے ہیں اور اپنی امت کے مفاہم اور ثقافت کے بارے میں فکر مند ہیں۔ وہ خود عالم اسلامی کی بنیادیں ا ستوار اور اس کے خطوط کا تعین کریں گے۔ اور بہت سی احادیث و اقوال کے حوالے سے وہ ایسے پتے کی بات کہہ جاتے ہیں کہ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں اس خطے میں رہنے والوں کو یہ کیوں نہیں سوجھتا۔ایک جگہ اور اس مشہور حدیث کے بارے میں تبصرہ کرتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ جیسے لوگ ہوتے ہیں، ان پر ویسے ہی حکمراں مسلط کر دیئے جاتے ہیں۔ اس حدیث کی خالص پارلیمانی جمہوریت کے حوالے سے تشریح بھی مجھے ان کے ہاں ملتی ہے۔ شاید اس لئے کہ وہ آزاد ملک کے شہری ہیں اور اپنے ہاں جمہوریت کا تجربہ رکھتے ہیں۔
ہمیشہ کی طرح بات لمبی ہو جائے گی۔ ویسے یہ شکایت تو پھر بھی رہے گی کہ میں بات کو درمیان میں چھوڑ جاتا ہوں۔ چھوڑتا نہیں، ساتھیوں کو غوروفکر کی دعوت دے کر قدم بڑھا جاتا ہوں۔ اگر ہم اپنے خزانوں کی جستجو کریں اور انہیں سمجھنا چاہیں تو ہمیں رہنمائی کے لئے کہیں اور جانا نہیں پڑے گا۔ اس معاشرے کے بارے میں کیا خیال ہے جو کسی ناکامی پر دل برداشتہ ہونے کے بجائے اسے منشائے الٰہی سمجھ کر اگلی منزل کی طرف گامزن ہو جاتا ہے اور یہ نہیں سمجھتا کہ اسے اپنی جدوجہد ترک کر دینا چاہیے، کیونکہ اسے یقین ہے کہ وہ راہِ خدا کا مسافر ہے اور جو لوگوں سے اس لئے نہیں الجھتا کہ اس کی بات نہیں مانی جا رہی۔ نہ انسانی تدبیر آخری اور حتمی ہے اور نہ اختلاف کا مطلب راندہ درگاہ ہوتا ہے۔ اگر سیاسی پراسس اس طرح چلنے لگے تو بہت سے بت ٹوٹ جائیں گے اور معاشرے کا رخ بڑی تیزی سے درست سمت بڑھنے لگے گا۔ (سجاد میر)
اقبال نے سید سلمان ندوی کے نام اپنے ایک خط میں اس بات پر حیرت کا اظہار کیا تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں نے بڑے بڑے مسائل پر غور کیا ہے اور اس کی تاریخ لکھی جا سکتی ہے۔ پھر ایک مسئلے کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہا کہ میں حیرت میں رہ گیا کہ فلاں مسئلے پر جدید ترین کتاب ہمارے ہاں شائع ہوئی ہے۔
میں اس وقت ایک ایسی ہی حیرت میں مبتلا ہوں۔ عرض کیا کہ مجھے اس وقت ایک مولوی کی بات سنانا ہے جو ہم دنیا داروں میں کوئی ایسا معروف بھی نہیں، البتہ شاہ ولی اللہ کے خانوادے سے اس کا تعلق ہے۔ مولوی عبدالقیوم کا کبھی نام بھی سنا ہے! یا ویسے وہ شاہ اسحقٰ کے داماد تھے۔ ہو سکتا ہے کوئی یہ بھی پوچھ لے کہ یہ شاہ اسحقٰ کون تھے۔ اور بھی رشتے ہیں ان کے اس خاندان سے۔ کوئی رعب جمانے کا شوق نہیں۔ دل میں بس یہ خلش ہے کہ مغرب کے تو پدّی پدّی سے لوگوں کے نام ہم جانتے ہیں، مگر اپنی وراثت سے واقف تک نہیں ہیں۔
تمہید لمبی ہوتی جا رہی ہے ، مگر ضروری ہے ۔ ان مولوی عبدالقیوم سے مرزا غلام احمد کے خلیفہ اول حکیم نور الدین نے بھی درس لیا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ صحیح العقیدہ تھے۔ جہاں یہ واقعہ درج ہے، وہاں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پھر وہ کیا ہوئے اور آخر میں کیا ہو گئے۔ اس سے فی الحال غرض نہیں۔ ہوا یوں کہ بخاری اور ہدایہ کا درس مکمل کر کے حکیم نور الدین رخصت ہونے لگے تو انہوں نے اپنے استاد مولوی عبدالقیوم سے خواہش ظاہر کی کہ چلتے ہوئے مجھے کوئی اچھی سی نصیحت فرما دیجئے جس سے میں ہمیشہ خوش رہ سکوں۔ اس پر بھوپال میں بیٹھے اس مولوی نے جو کہا، اسے ذرا غور سے سنیے، فرمایا:"خدا نہ بننا اور رسول نہ بننا"
سبحان اللہ کیا بات کہی ہے۔ کوئی ذرا اس پر غور تو کرے۔ ہمارے ہاں درج ہو گیا ہے کہ ہم ایسی باتوں کو یا سمجھ نہیں پاتے یا انہیں سرسری لیتے ہیں اور ان کی گہرائی تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔ ہو سکتا ہے اس فقرے کا مطلب کوئی یہ لے لے کہ بھئی اپنے آپ میں رہنا، خود کو خدا یا رسالت کے مرتبے پر فائز نہ سمجھ لینا۔یہ مطلب بھی درست سہی۔ خدا بنے تھے یگا نہ مگر بنا نہ گیا۔ وغیرہ وغیرہ۔ آدمی اس میں بھی مارا جاتا ہے۔ مگر کہنے والے نے جو بات کہی، اس کی وضاحت بھی کر دی۔ حکیم نور الدین نے پوچھا کہ حضور اس کا مطلب بھی سمجھا دیجئے۔ مولوی صاحب نے کہا ، خدا تم کسے کہتے ہو؟ جواب آیا خدائی ایک صفت فعال نما یرید بھی ہے ۔ مولوی صاحب نے کہا ٹھیک سمجھے۔
اب یہاں مجھے جستجو ہوئی کہ اس کا مطلب معلوم کیا جائے۔ کچھ تو علم تھا ہی، کچھ ذرا تحقیق اور جستجو کے شوق میں برادر عزیز قاضی حبیب الرحمن کو عارف والا فون کیا۔ ایک لمحہ تو وہ بھی ٹھٹکے، اچانک انہیں عربی کا ایک شعر یاد آ گیا جس میں یہ ترکیب استعمال ہوئی تھی اور جسے مولانا اشرف تھانوی نے نقل کیا تھا۔ اس ترکیب کا مطلب تو صاف ہے "جو وہ چاہے"۔ مگر ہجروصال کے حوالے سے اس کی چمک ہی اور ہے۔ مجھے آسانی کے لئے مجید امجد کا ایک شعر یاد آیا ہے جو اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ بہرحال اس پر اکتفا کرتے ہیں۔
تجھے تو علم ہے، کیوں میں نے اس طرح چاہا
جو تو نے یوں نہیں چاہا، تو کیا ، جو تو چاہے
سبحان اللہ ۔ اس سے اگلا شعر اگر چہ اسی مسئلے کو عام سطح پر اور واضح کرتا ہے ،مگر اصل بات تو اسی شعر میں سمجھنے کی ہے۔ اگلا شعر یوں ہے۔ آپ نے بھی سنا ہو گا۔
سلام ان پر تہ تیغ بھی جنہوں نے کہا
جو تیرا حکم جو تیری رضا' جو تو چاہے
تو بات مولوی عبدالقیوم صاحب کی تشریح پر ہو رہی تھی جو انہوں نے خدا نہ بننے کی نصیحت کرتے ہوئے کی تھی۔ فرمایا کہ مطلب اس کا یہ ہے کہ تمہاری کوئی خواہش ہو اور پوری نہ ہو رہی ہو تو تم اپنے نفس سے کہو تم کوئی خدا نہیں ہو کہ جو کہو، وہ ہو جائے۔ ساتھ ہی رسول نہ بننا کی تشریح کی کہ رسول کو تو خدا کی طرف سے حکم آتا ہے۔ اسے یقین ہوتا ہے کہ اس کی نافرمانی کی گئی تو نافرمانی کرنے والا جہنم میں جائے گا۔ رسول نہ بننے سے مراد یہ ہے کہ اپنی رائے کو اتنی اہمیت نہ دو۔ یہ نہ سمجھو کہ تم سے اختلاف کرنے والا جہنم میں جائے گا۔
دیکھیے" خدا نہ بننا اور رسول نہ بننا" کیسی سادہ سی نصیحت ہے۔ مگر اس میں معانی کی اتنی پرتیں چھپی ہوئی ہیں کہ کوئی ان پر عمل کر ے تو زندگی بدل کر رہ سکتی ہے اور معاشرہ بھی اپنے بہت سے عذابوں سے نجات پا سکتا ہے۔ اپنی بظاہر ناکامیوں سے بددل نہ ہو کہ تم طاقت مطلق نہیں ہو۔ اورخود سے اختلاف کرنے والوں سے نفرت نہ کرو کہ تم سے اختلاف کا مطلب جہنم اور تباہی نہیں ہے۔ کیا اس سے بلیغ نصیحت کوئی اور ہو سکتی ہے۔ افسوس کہ اس شخص نے اس پر عمل نہ کیا۔
یاد رہے، یہ نصیحت اس حوالے سے مانگی گئی تھی کہ زندگی بھر خوش رہوں۔ خوش رہنے کا یہ کتنا عمدہ فارمولا ہے۔ ترکی کے فتح اللہ گولن کی تحریروں میں یہ خوبی یگانہ دیکھی ہے کہ احادیث نبوی اور بعض اقوال کی سیاست حاضرہ کے حوالے ایسی تطبیق کرتے ہیں کہ آدمی دنگ ہو کر رہ جاتا ہے۔
مغرب خاص کر امریکہ نے مسرت کی تلاش کو اپنا مقصد حیات بنایا ، مگر شاید بنیاد ہی کچی تھی۔ ان کے پاس خوش رہنے کا فارمولا یہی تھا۔ ذرا غور کیجئے ، کوئی شخص یا معاشرہ اس فارمولے پر عمل کرے جو ہمارے ایک مولوی عبدالقیوم نے بتایا تھا تو اسے خوشیاں بھی ملیں گی اور اشفاق احمد کے الفاظ میں وہ خوشیاں بھی بانٹے گا۔ ترقی کی منزلیں بھی طے کرے گا اور خود کو عہد حاضر کے عذابوں سے محفوظ بھی رکھے گا۔ اگر کوئی حکومت اس پر عمل کرے تو صحیح جمہوری کلچر کے ساتھ وہ ایک فلاحی معاشرے کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔
میں نے ابھی فتح اللہ گولن کا حوالہ دیا۔ افسوس آج کل ان میں اور ترکی کی حکومت میں اختلافات پیدا ہو گئے ہیں ، مگر ان کی فکر نے جدید ترکی کی تشکیل میں بڑا بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ عرض کیا کہ وہ تو ایک جمہوری معاشرے میں رہنے کی وجہ سے احادیث اور اقوال کی تشریح اس طرح کرتے ہیں کہ ان کے نئے معنی کھلنے لگتے ہیں۔ مثلاً ایک معروف حدیث ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جا سکتا۔ اس پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ مستقبل کے سیاستدانوں کے لئے خصوصی طور پر قابل توجہ ہے۔ مزید فرماتے ہیں۔ مستقبل کے تعلیم یافتہ افراد وہ ہیں جو متنبہ ہو چکے ہیں اور اپنی امت کے مفاہم اور ثقافت کے بارے میں فکر مند ہیں۔ وہ خود عالم اسلامی کی بنیادیں ا ستوار اور اس کے خطوط کا تعین کریں گے۔ اور بہت سی احادیث و اقوال کے حوالے سے وہ ایسے پتے کی بات کہہ جاتے ہیں کہ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں اس خطے میں رہنے والوں کو یہ کیوں نہیں سوجھتا۔ایک جگہ اور اس مشہور حدیث کے بارے میں تبصرہ کرتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ جیسے لوگ ہوتے ہیں، ان پر ویسے ہی حکمراں مسلط کر دیئے جاتے ہیں۔ اس حدیث کی خالص پارلیمانی جمہوریت کے حوالے سے تشریح بھی مجھے ان کے ہاں ملتی ہے۔ شاید اس لئے کہ وہ آزاد ملک کے شہری ہیں اور اپنے ہاں جمہوریت کا تجربہ رکھتے ہیں۔
ہمیشہ کی طرح بات لمبی ہو جائے گی۔ ویسے یہ شکایت تو پھر بھی رہے گی کہ میں بات کو درمیان میں چھوڑ جاتا ہوں۔ چھوڑتا نہیں، ساتھیوں کو غوروفکر کی دعوت دے کر قدم بڑھا جاتا ہوں۔ اگر ہم اپنے خزانوں کی جستجو کریں اور انہیں سمجھنا چاہیں تو ہمیں رہنمائی کے لئے کہیں اور جانا نہیں پڑے گا۔ اس معاشرے کے بارے میں کیا خیال ہے جو کسی ناکامی پر دل برداشتہ ہونے کے بجائے اسے منشائے الٰہی سمجھ کر اگلی منزل کی طرف گامزن ہو جاتا ہے اور یہ نہیں سمجھتا کہ اسے اپنی جدوجہد ترک کر دینا چاہیے، کیونکہ اسے یقین ہے کہ وہ راہِ خدا کا مسافر ہے اور جو لوگوں سے اس لئے نہیں الجھتا کہ اس کی بات نہیں مانی جا رہی۔ نہ انسانی تدبیر آخری اور حتمی ہے اور نہ اختلاف کا مطلب راندہ درگاہ ہوتا ہے۔ اگر سیاسی پراسس اس طرح چلنے لگے تو بہت سے بت ٹوٹ جائیں گے اور معاشرے کا رخ بڑی تیزی سے درست سمت بڑھنے لگے گا۔ (سجاد میر)