محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,799
- پوائنٹ
- 1,069
اس پرفتن دور میں تحقیق کی آڑ لے کر مسلمات کا انکار اور بدعات و رسوم کو رواج دیا جارہا ہے۔ جماعت المسلمین کی طرف سے خصی جانور کو قربانی کے لئے ناجائز قرار دیا جانا بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔
اس سلسلے میں نام نہاد جماعت المسلمین رجسٹرڈ کے لوگ ایک غیر معروف حدیث کی کتاب سے دلیل پیش کرتے ہیں
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ذی رُوح کو باندھ کر تیراندازی کرنے سے منع فرمایا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو خصی بنانے سے بڑی سختی سے منع فرمایا ہے۔“
اس حدیث کو بزاز نے روایت کیا ہے
کسی جانو ر کو خصی کر نے کے مثبت اور منفی دو پہلو یہ ہے کہ خصی جانو ر کا گو شت عمدہ اور بہتر ہو تا ہے جبکہ اس کے علا وہ غیر خصی جا نو ر کے گو شت میں بو پیدا ہو جا تی ہے جس کے کھا نے سے طبیعت میں ناگواری اور تکدر پیدا ہو تا ہے اور اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ خصی جا نو ر کی فحولیت ختم ہو جا تی ہے اور وہ افزا ئش نسل کے لیے نقصان وہ ہے قربانی کا تعلق مثبت پہلو سے ہے یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خو د قربانی کے لیے بعض اوقا ت خصی جا نو ر کا انتخا ب کر تے تھے
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو ایسے مینڈھو ں کی قربانی دیتے جو گوشت سے بھر پو ر اور خصی ہو تے تھے ۔
(مسند امام احمد رحمۃ اللہ علیہ :5/196)
قربانی کے ذریعے چونکہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جاتا ہے اس لیے قربانی کا جانور وا قعی بے عیب ہو نا چا ہیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایک ایسے عیو ب کی نشا ندہی کی ہے جو قربانی کے لیے رکاوٹ کا باعث ہیں لیکن قربانی کے لیے جانور کا خصی ہونا عیب نہیں اگر ایسا ہو تا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے جانور کا قربانی کے لیے انتخاب نہ فرماتے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ قربانی کے جانور کا خصی ہونا کوئی عیب نہیں بلکہ خصی ہو نے سے اس کے گو شت کی عمد گی میں اضا فہ ہو جا تا ہے ۔ ( فتح البا ر ی :7/10)
… متعدّد احادیث میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خصی مینڈھوں کی قربانی کی، ان احادیث کا حوالہ مندرجہ ذیل ہے:
۱:… حدیثِ جابر رضی اللہ عنہ۔ (ابوداوٴد ج:۲ ص:۳۰، مجمع الزوائد ج:۴ ص:۲۲)
۲:… حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا۔ (ابنِ ماجہ ص:۲۲۵)
۳:… حدیثِ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ۔ (ابنِ ماجہ)
۴:… حدیثِ ابی رافع رضی اللہ عنہ۔(مسندِ احمد ج:۶ ص:۸، مجمع الزوائد ج:۴ ص:۲۱)
۵:… حدیثِ ابی الدرداء رضی اللہ عنہ۔ (مسندِ احمد ج:۶ ص:۱۹۶)
ان احادیث کی بنا پر تمام ائمہ اس پر متفق ہیں کہ خصی جانور کی قربانی دُرست ہے-
حافظ موفق الدین ابنِ قدامہ المقدسی الحنبلی (متوفی ۶۳۰ھ) ”المغنی“ میں لکھتے ہیں:
”ویجزی الخصی لأن النبی صلی الله علیہ وسلم ضحی بکبشین موجوئین ․․․․ ولأن الخصاء ذھاب عضو غیر مستطاب یطیب اللحم بذھابہ ویکثر ویسمن، قال الشعبی: ما زاد فی لحمہ وشحمہ أکثر مما ذھب منہ، وبھٰذا قال الحسن وعطاء والشعبی والنخعی ومالک والشافعی وأبو ثور وأصحاب الرأی ولا نعلم فیہ مخالفًا۔“ (المغنی مع الشرح الکبیر ج:۱۱ ص:۱۰۲)
ترجمہ:… ”اور خصی جانور کی قربانی جائز ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خصی مینڈھوں کی قربانی کی تھی، اور جانور کے خصی ہونے سے ناپسندیدہ عضو جاتا رہتا ہے، جس کی وجہ سے گوشت عمدہ ہوجاتا ہے اور جانور موٹا اور فربہ ہوجاتا ہے۔ امام شعبی فرماتے: خصی جانور کا جو عضو جاتا رہا اس سے زیادہ اس کے گوشت اور چربی میں اضافہ ہوگیا۔ امام حسن بصری، عطاء، شعبی، مالک، شافعی، ابوثور اور اصحاب الرائے بھی اسی کے قائل ہیں، اور اس مسئلے پر ہمیں کسی مخالف کا علم نہیں۔“
جانور کاخصی ہونا کوئی عیب نہیں خود
آنحضرت ﷺ نے خصی جانور کی قربانی دی ہے۔اس سلسلے میں نام نہاد جماعت المسلمین رجسٹرڈ کے لوگ ایک غیر معروف حدیث کی کتاب سے دلیل پیش کرتے ہیں
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ذی رُوح کو باندھ کر تیراندازی کرنے سے منع فرمایا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو خصی بنانے سے بڑی سختی سے منع فرمایا ہے۔“
اس حدیث کو بزاز نے روایت کیا ہے
کسی جانو ر کو خصی کر نے کے مثبت اور منفی دو پہلو یہ ہے کہ خصی جانو ر کا گو شت عمدہ اور بہتر ہو تا ہے جبکہ اس کے علا وہ غیر خصی جا نو ر کے گو شت میں بو پیدا ہو جا تی ہے جس کے کھا نے سے طبیعت میں ناگواری اور تکدر پیدا ہو تا ہے اور اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ خصی جا نو ر کی فحولیت ختم ہو جا تی ہے اور وہ افزا ئش نسل کے لیے نقصان وہ ہے قربانی کا تعلق مثبت پہلو سے ہے یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خو د قربانی کے لیے بعض اوقا ت خصی جا نو ر کا انتخا ب کر تے تھے
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو ایسے مینڈھو ں کی قربانی دیتے جو گوشت سے بھر پو ر اور خصی ہو تے تھے ۔
(مسند امام احمد رحمۃ اللہ علیہ :5/196)
قربانی کے ذریعے چونکہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جاتا ہے اس لیے قربانی کا جانور وا قعی بے عیب ہو نا چا ہیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایک ایسے عیو ب کی نشا ندہی کی ہے جو قربانی کے لیے رکاوٹ کا باعث ہیں لیکن قربانی کے لیے جانور کا خصی ہونا عیب نہیں اگر ایسا ہو تا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے جانور کا قربانی کے لیے انتخاب نہ فرماتے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ قربانی کے جانور کا خصی ہونا کوئی عیب نہیں بلکہ خصی ہو نے سے اس کے گو شت کی عمد گی میں اضا فہ ہو جا تا ہے ۔ ( فتح البا ر ی :7/10)
… متعدّد احادیث میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خصی مینڈھوں کی قربانی کی، ان احادیث کا حوالہ مندرجہ ذیل ہے:
۱:… حدیثِ جابر رضی اللہ عنہ۔ (ابوداوٴد ج:۲ ص:۳۰، مجمع الزوائد ج:۴ ص:۲۲)
۲:… حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا۔ (ابنِ ماجہ ص:۲۲۵)
۳:… حدیثِ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ۔ (ابنِ ماجہ)
۴:… حدیثِ ابی رافع رضی اللہ عنہ۔(مسندِ احمد ج:۶ ص:۸، مجمع الزوائد ج:۴ ص:۲۱)
۵:… حدیثِ ابی الدرداء رضی اللہ عنہ۔ (مسندِ احمد ج:۶ ص:۱۹۶)
ان احادیث کی بنا پر تمام ائمہ اس پر متفق ہیں کہ خصی جانور کی قربانی دُرست ہے-
حافظ موفق الدین ابنِ قدامہ المقدسی الحنبلی (متوفی ۶۳۰ھ) ”المغنی“ میں لکھتے ہیں:
”ویجزی الخصی لأن النبی صلی الله علیہ وسلم ضحی بکبشین موجوئین ․․․․ ولأن الخصاء ذھاب عضو غیر مستطاب یطیب اللحم بذھابہ ویکثر ویسمن، قال الشعبی: ما زاد فی لحمہ وشحمہ أکثر مما ذھب منہ، وبھٰذا قال الحسن وعطاء والشعبی والنخعی ومالک والشافعی وأبو ثور وأصحاب الرأی ولا نعلم فیہ مخالفًا۔“ (المغنی مع الشرح الکبیر ج:۱۱ ص:۱۰۲)
ترجمہ:… ”اور خصی جانور کی قربانی جائز ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خصی مینڈھوں کی قربانی کی تھی، اور جانور کے خصی ہونے سے ناپسندیدہ عضو جاتا رہتا ہے، جس کی وجہ سے گوشت عمدہ ہوجاتا ہے اور جانور موٹا اور فربہ ہوجاتا ہے۔ امام شعبی فرماتے: خصی جانور کا جو عضو جاتا رہا اس سے زیادہ اس کے گوشت اور چربی میں اضافہ ہوگیا۔ امام حسن بصری، عطاء، شعبی، مالک، شافعی، ابوثور اور اصحاب الرائے بھی اسی کے قائل ہیں، اور اس مسئلے پر ہمیں کسی مخالف کا علم نہیں۔“
جانور کاخصی ہونا کوئی عیب نہیں خود
عن أبي سلمة عن عائشة و عن أبي ہریرةرضی اللہ تعالیٰ عنهما أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان إذا أراد أن یضحي اشتری کبشین عظیمین سمیتین أقرنین أملحین موجوئین۔
(ابن ماجہ حدیث نمبر 3122۔ ابوداؤد حدیث نمبر 2795)
(ترجمہ)
'' اُم المؤمنین حضرت عائشہ اور فقیہ اُمت حضرت ابوہریرہ سے حضرت ابوسلمہ روایت کرتے ہیں کہ ان دونوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ جب قربانی کاارادہ فرماتے تو دومینڈھے خرید کرتے جو موٹے سینگوں والے، رنگ سیاہی مائل اور خصی ہوتے۔''
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خصی جانور کی قربانی ثابت ہے اور تمام ائمہٴ دین اس پر متفق ہیں، کسی کا اس میں اختلاف نہیں، تو معلوم ہوا کہ حلال جانور کا خصی کرنا بھی جائز ہے۔نام نہاد جماعت المسلمین کی جانب سے جو حدیث ذکر کی گئی ہے وہ ان جانوروں کے بارے میں ہوگی جن کا گوشت نہیں کھایا جاتا اور جن کی قربانی نہیں کی جاتی، ان کے خصی کرنے میں کوئی منفعت نہیں۔نیز وہ احادیث جن میں خصی جانور کو ذبح نہ کرنے کو کہا گیا ھے وہ ضعیف الاسناد ہیں
: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جانور کو خصّی کرنے کی ممانعت یا جواز ثابت نہیں۔ اس بارے میں وارد شدہ تمام کی تمام روایات ''ضعیف'' اور ناقابل استدلال ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں :
1 سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
نہی رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم عن إخصاء الخیل والبہائم ۔ '' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں اور مویشیوں کو خصّی کرنے سے منع فرمایا۔''(مسند الامام احمد : ٢/٢٤)
تبصرہ : اس کی سند ''ضعیف'' ہے کیونکہ عبد اللہ بن نافع المدنی راوی ''ضعیف'' ہے۔ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ضعّفہ الجمہور ۔
''اسے جمہور محدثین کرام نے ضعیف قرار دیا ہے۔''(مجمع الزوائد : ٤/١٢)
2 سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا إخصاء فی الإسلام ۔ ''اسلام میں خصّی کرنے کی کوئی اجازت نہیں۔''
(السنن الکبری للبیہقی : ١٠/٢٤)
تبصرہ : اس کی سند سخت ''ضعیف'' ہے کیونکہ :
1 اس میں عبد اللہ بن لہیعہ راوی ''ضعیف، مدلس اور مختلط'' ہے۔
2 اس کا راوی مقدام بن داؤد الرعینی بھی سخت ''ضعیف'' ہے۔
(تقریب التہذیب : ٣٦٦١)
امام بیہقی رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں : فیہ ضعف ۔ ''اس میں کمزوری ہے۔
3 سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
نہی رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم عن إخصاء الإبل والبقر والغنم والخیل ، وقال : إنّما النماء فی الحبل ۔ ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ ،بیل، بکرے اور گھوڑے کو خصّی کرنے سے منع کیا اور فرمایا : افزائش نسل تو گابھن کرنے سے ہی ہوتی ہے۔''
(السنن الکبری للبیہقی : ١٠/٢٤، الکامل لابن عدی : ٢/١٨٠)
تبصرہ : اس کی سند میں جبارہ بن مغلس راوی ''ضعیف'' ہے۔
(الکاشف للذہبی : ١/١٢٣، تقریب التہذیب لابن حجر : ٨٩٠)
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وضعّفہ الجمہور ۔ ''اسے جمہور محدثین کرام نے ضعیف قرار دیا ہے۔''(مجمع الزوائد : ٩/٢٠
4 سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
إنّ النبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نہی عن الإخصاء ، وقال : فیہ نماء الخلق ۔ ''نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو خصّی کرنے سے منع کیا اور فرمایا : اس(عضو تناسل) میں تخلیق کی افزائش ہے۔''
(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی : ٢/١٨١، ترجمۃ جُبَارَۃ بن مُغَلَّس)
تبصرہ : اس کی سند ''ضعیف'' ہے ۔ اس میں بھی وہی جبارہ بن مغلس راوی ''ضعیف'' ہے۔
5 سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے :
نہی رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم عن إخصاء البہائم ۔ ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مویشیوں کو خصّی کرنے سے منع فرمایا۔''
(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی : ٢/١٨١، ترجمۃ جبارۃ بن مغلس)
تبصرہ : اس کی سند بھی جبارہ بن مغلس کی وجہ سے ''ضعیف'' ہے۔
6 سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ہی روایت ہے :
إنّ النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نہی عن إخصاء الفحولۃ ، لأن لا ینقطع النسل ۔
''نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نَر کو خصّی کرنے سے منع فرمایا ہے تاکہ نسل ختم نہ ہو جائے۔''
(الکامل لابن عدی : ٣/٢٨٧، ترجمۃ سلیمان بن مسلم الخشاب)
تبصرہ :
اس کی سند سخت ''ضعیف''ہے۔ اس کے راوی سلیمان بن مسلم الخشاب کو حافظ ابن الجوزی اور حافظ ذہبی رحمہما اللہ نے متہم قرار دیا ہے۔نیز حافظ ذہبی نے اس کی بیان کردہ دو حدیثوں کو من گھڑت کہا ہے۔حافظ ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ہذا قلیل الحدیث ، وہو شبہ المجہول ۔ ''اس کی بیان کردہ احادیث بہت کم ہیں اور یہ مجہول راویوں جیسا ہے۔''
(الکامل لابن عدی : ٣/٢٨٧)
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
شیخ یروی عن سلیمان التیمی ما لیس من حدیثہ ، لا تحلّ الروایۃ عنہ إلّا علی سبیل الاعتبار للخواصّ ۔
''یہ ایسا شیخ ہے جو سلیمان تیمی سے وہ روایات بیان کرتا ہے جو اس کی بیان کردہ احادیث میں سے نہیں ہوتیں۔ اس کی روایت کو بیان کرنا جائز نہیں۔ صرف ماہر لوگ متابعات و شواہد کے ضمن میں ایسا کر سکتے ہیں۔''
(المجروحین لابن حبان : ١/٣٣٢)
حافظ بیہقی رحمہ اللہ نے اسے ''لیس بالقوی'' کہا ہے۔
(شعب الایمان للبیہقی : ٥/٤٤٤)
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وہو ضعیف جدّا ۔ ''یہ سخت ضعیف راوی ہے۔''
(مجمع الزوائد : ٧/٢٦٩، ١٠/٣٩٥
Last edited: