makki pakistani
سینئر رکن
- شمولیت
- مئی 25، 2011
- پیغامات
- 1,323
- ری ایکشن اسکور
- 3,040
- پوائنٹ
- 282
اللہ کے رسولﷺ کا فرمان ہے کہ جوآدمی جمعہ کے دن سورت کہف کی تلاوت کر لے تو دو جمعوں کے درمیان (ساتوں دن) نور اس کے لیے روشنی بکھیر تا رہے گا ۔ (مستدرک حاکم ،صحیح)قارئین کرام! اللہ تعالیٰ نے سورہ کہف میں چار قصے بیان فرمائے ہیں ۔ ان میں ایک اہم ترین قصہ حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ہے ۔ حضرت خضر علیہ السلام ایسی نیک اور مبارک ہستی تھی کہ اللہ کے رسولﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا '' ان کانام خضر اس لیے تھا کہ وہ ایک سفید اور چٹیل جگہ پر تشریف فرما ہوئے اور جب اٹھ کر گئے تو وہ زمین سرسبز ہو کر لہلہانے لگی :(بخاری:3402)خضر کا معنی سبز ہے ۔ جیسا ان کا نام تھا ویسا ہی ان کا کردار تھا اور اللہ کو وہ کردار اس قدر پسندتھا کہ مولاکریم نے لوگوں کو اس کردار کا عملی مظاہرہ اپنی قدرت سے دکھایا کہ جہاں تشریف فرما ہو کر اٹھے وہاں زمین چٹیل تھی سفید یعنی شور والی تھی مگر سبز ہو کر رونقیں بکھیر نے لگی اس سبزے میں کیا کیا سبز تھا ، کون کون سی فصلیں تھیں کس کس قسم کا چارہ تھا ۔ پھولوں کی کون سی اقسام تھیں پھل دار درخت کون کون سے تھے کہ جن کی ڈالیاں رنگا رنگ اور ذائقے دار رسیلے پھلوں سے لدی پڑی تھیں اور جھکی جھکی پھل توڑنے والوں کو حضرت خضر علیہ السلام کے خوشبودار کردار کی خبر دے رہی تھیں ۔ جی ہاں !اللہ ہی جانتے ہیں اس سبزے اور اس کی بہار آفرینی کا کیا عالم تھا ؟اور یہ بات بھی اللہ جانتے ہیں ان کا علاقہ کون سا تھا۔ ان کی قوم کونسی قوم تھی کہ جس کی طرف وہ نبی بن کر آئے تھے۔ وہ لوگ انتہائی خوش قسمت تھے کہ جو حضرت خضر علیہ السلام جیسے راہنما کی راہنمائی میں زندگی گزارتے تھے۔وہ ایسے راہنما رسول تھے کہ جن کی رہنمائی میںکچھ وقت گزارنے کو حضرت موسیٰؑ جلیل القدر رسول کو جانے کا حکم ہوا ۔ ہوا اس طرح کہ !
'' اللہ کے رسول حضرت محمدکریمﷺ نے صحابہ کو بتلایا کہ حضرت موسیٰؑ ایک بار اپنی قوم بنو اسرائیل کو خطاب فرما رہے تھے کہ ایک شخص نے سوال کر دیا ۔ انسانوں میں سب سے زیادہ علم والا کون ہے ؟ موسیٰ علیہ السلام نے جواب میں کہا میں ہوں ۔اس پر اللہ تعالیٰ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا ۔ اس لیے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اس معاملے کو اللہ کے حوالے نہ کیا ( کہ اللہ بہتر جانتے ہیں ) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ وہ ایسے علاقے میں جائیں جہاں دودریا ، یا سمندر آپس میں ملتے ہیں وہاں میرا ایک بندہ تمہیں ملے گا وہ تم سے زیادہ عالم ہے، (بخاری 3401) قارئین کرام ! ثابت ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حضرت خضر علیہ السلام کے علاقے میں جانے کا حکم ہواحضرت موسیٰؑ کا علاقہ سینا کے پہاڑ اس کی وادیاں اور اس کے دشت تھے ۔ اب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خدمتگار حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کو ہمراہ لیا اور اللہ کے بتلائے ہوئے علاقے کی جانب چل پڑے ۔ حضرت خضر علیہ السلام اپنے ملک کے کس علاقے میں ملیں گے ۔ موسیٰ علیہ السلام کے سوال پر اللہ تعالیٰ نے اس کی نشاندہی بھی فرما دی ۔ بتلایا کہ کھجور کی بنی ہوئی ٹوکری میں ایک مچھلی رکھ لو جہاں اس مچھلی کو گم پائو گے وہیں تم جناب خضر علیہ السلام کو پائو گے چنانچہ دونوں ایک خاص قسم کی چٹان کے پاس پہنچے اور وہاںدونوں لیٹ گئے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سوگئے ۔ اب (مردہ مچھلی ) تڑپنے لگی اور اچھل کر دریا میں جا گری ، دریا میں سرنگ سی بن گئی ، مچھلی وہاں جاٹھہری ۔ اللہ نے پانی کے بہائو کو روک دیا ۔ موسیٰ علیہ السلام بیدار ہوئے تو حضرت یوشع مذکورہ بات حضرت موسیٰؑ کو بتلانا بھول گئے ۔ چنانچہ دونو ں چل پڑے اس دن کا بقیہ حصہ بھی سفر کرتے رہے ۔ رات بھر بھی چلتے رہے اگلے دن صبح ہوئی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جناب یوشع سے کہا ، تھک بہت گئے ہیں۔ یہاں حضرت محمد کریمﷺ نے صحابہ کو بتلایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام مچھلی گرنے کی جگہ تک نہیں تھکے تھے آگے بڑھے تو تھک گئے ۔ بہرحال ! تھکنے اور بھوک لگنے پر حضرت موسیٰؑ نے کھانا (جو ہمراہ لیا ہوا تھا )طلب کیا تو حضرت یوشع کو مچھلی گرنے کا منظر یاد آگیا ۔انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مچھلی گرنے اور دریا میں مخصوص نظارے کے بارے میں بتلایا اور یہ بھی کہ کہا شیطان نے مجھے بھلا دیا اور میں جناب کو آگاہ نہ کر سکا ۔ حضرت موسیٰ نے کہا یہی وہ جگہ تھی جو ہماری منزل تھی ۔ اب دونوں واپس چلنا شروع ہوئے ۔ مذکورہ جگہ پہنچے تو ایک شخص کپڑا اوڑھے لیٹا ہوا تھا۔ (بخاری 3401)قارئین کرام ! یہی حضرت خضر علیہ السلام تھے ۔ اب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی درخواست پر حضرت خضر علیہ السلام نے انہیں اپنی تربیت میں لے لیا۔ تربیت وتعلیم کاسفر شروع ہو گیا ۔ یہاں ہم یہ بات بھی واضح کر نا چاہتے ہیں کہ حضرت خضر علیہ السلام کے بارے میں بہت سی باتیں مشہور ہیں کہ وہ آج بھی زندہ ہیں ، سمندروں اور دریائوں میںرہتے ہیں ۔ اک چشمہ ء حیات ہے وہاںکا انہوں نے پانی پی رکھا ہے ۔ جو اس چشمے سے پانی پی لے وہ حیات جاودانی پا لیتا ہے وغیرہ ایسی باتوں کی کوئی دلیل قرآن اور صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے ۔ جوثابت ہے وہ ہم قرآن وحدیث کے دلائل کے ساتھ عرض کر رہے ہیں۔ اور جو ثابت ہے وہ اک نور ہے اور سورت کہف میں موجود ہے اس نور سے کم لوگ ہیں جو فائدہ اٹھاتے ہیں حالانکہ ہر ہفتے فائدہ اٹھانے کا حکم ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو کم علم سمجھا جائے ۔ پی ایچ ڈی سے اگلی ڈگریاں اور بے پناہ تجربات حاصل کرنے کے بعد بھی عالم دین ہو یا سائنسدان ہو، سیاستدان ہو یا جرنیل ، وہ زندگی کے کسی شعبے کا بھی علامہ اور نابغہ عصر ہو اپنے آپ کو کم علم ہی سمجھے ۔ علم کے حصول میں کوشاں رہے ۔ دوسرے ملکوں کے سفر کرتا رہے وہاں کے اہل علم سے استفادے کرتارہے ۔ یہ وہ نو ر جو سورہ کہف سے حاصل ہوتا ہے مگر کون ہے جو اپنے ملک کے نونہالوں کے لیے اس کی تگ ودو کرتا ہے ۔ ڈاکٹر عطاء الرحمان جیسے سائنسدان نے ہائر ایجو کیشن بناکر کہاں تک پہنچا دیا تھا ۔ ہماری دونوں جمہوری حکومتوں نے اس نایاب موتی کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے ۔ روشنی کوکس طرح اندھیرے میں دھکیلا ہے ۔ میں میاں نواز شریف صاحب سے گزارش کروں گا ۔ ڈاکٹر عطاء الرحمان جیسے نایاب ہیرے کے لیے اپنے دونوں نرم بازو پھیلائیں اور اپنے نئے اور مہربان دل کے ساتھ چمٹائیں ۔
قارئین کرام! جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کی ملاقات ہوئی تو اللہ کے رسول ﷺ صحابہ کو بتلاتے ہیں کہ حضرت موسیٰ نے عرض کی ۔ جناب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ کے پاس جو علم ہے اور آپ کو عنایت ہوا ہے اس میں سے کچھ مجھے بھی سکھلادیں ۔ اس پر حضرت خضر ؑ نے جواب دیا ۔ تم میرے ہمراہ رہ کر ( میرے علمی کاموں کو دیکھ کر ) رہ نہیں سکو گے ۔ (فوراً بول پڑوگے) اے موسیٰ! میں اللہ کے علم میں سے ایک ایسے علم پر ہوں جسے تم نہیں جانتے اور جناب بھی اللہ کے علم میں سے ایک ایسے علم پر ہیں جسے میں نہیں جانتا (بخاری3401) قارئین کرام!امام بخاری رحمہ اللہ مذکورہ حدیث جس باب میں لائے ہیں اس کا عنوان ''احادیث الانبیاء ‘‘ ہے یعنی ایسا باب اور چیپٹر کہ جس میں انبیاء کے واقعات مذکور ہوئے ہیں اس سے ثابت ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ حضرت خضر علیہ السلام کو اللہ کا نبی سمجھتے تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح میں یہ حدیث بھی لائے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اس دنیا سے تشریف لے جانے سے ایک ماہ پہلے یہ فرما دیا کہ روئے زمین پر جو انسان بھی موجود ہیں آج رات سے لیکر سو سال پورے ہونے پر سب کے سب اس دنیا سے چلے جائیں گے ۔ (بخاری، 116مسلم 218) یاد رہے ! حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ مذکورہ بات اللہ کے رسولﷺ نے اللہ کی قسم اٹھا کر ارشاد فرمائی اس سے معلوم ہو ا کہ حضرت خضر علیہ السلام موجود نہیں ہیں ۔ اگربفرض محال وہ حضورﷺ کے زمانے میں موجود ہوتے تو حضور ﷺکی خدمت میں ضرور حاضر ہوتے کہ آپﷺ تمام نبیوں کے سردار اور ساری انسانیت کے لیے قیامت تک کے لیے نبی اور رسول ہیں ۔
قارئین کرام ! مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم علماء اور مشائح نے سورہ کہف کے نور سے اپنے آپ کو منور کرنے کی بجائے اپنے آپ اور پنے پیروکاروں کو شریعت وطریقت اور نبوت و ولائت کے مقابلے کی بحثوں میں مبتلا کر دیا حالانکہ بات تو وہی ہے جو حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہی کہ ہم دونوں اللہ کی طرف سے دیئے گئے علم سے مالامال ہیںمگر ایک دوسرے کے علم سے لاعلم ہیں اور یہاں چونکہ واقعہ کی مناسبت سے حضرت خضر ؑ کے علم کا اظہار مقصور تھا چنانچہ انہی علم کا ظہور ہوا اس علم کے تینوں واقعات سورہ کہف کے آخر میں موجود ہیں ، تینوں واقعات مستقبل سے تعلق رکھتے ہیں ۔ حضرت خضر علیہ السلام نے وقت سے پہلے ہی اللہ کے حکم سے ان کے فیصلے موسیٰ علیہ السلام کے سامنے کر دیئے ، تینوں واقعات میں بطور مثا ل ایک واقعہ اس طرح ہے کہ حضرت خضر ؑ حضرت موسیٰؑ اور حضرت یوشع علیہ السلام کو لے کر اپنے علاقے کی ایک بستی میں جاتے ہیں بھوک کے مارے یہ کھانا مانگتے ہیں تو وہ کھانا بھی نہیں دیتے مگر حضرت خضر وہاں ایک دیوارکو جو گرنے والی تھی سیدھا کر دیتے ہیں حضرت موسیٰ اعتراض کرتے ہیں کہ دیوار سیدھا کرنے کے عوض ان سے کھانا ہی لے لیتے ... حضرت خضرؑ بتلاتے ہیں کہ یہ دیوار نیک ماں باپ کی تھی ۔ اس میں خزانہ تھا ۔ ماں باپ فوت ہوگئے ۔دو یتیم بچے ابھی چھوٹے ہیں یہ گر جاتی تو خزانہ ضائع ہوجاتا ۔ جی ہاں !کیا اس سے یہ سبق نہیںملتا کہ ایک راہنما کواپنی رعایا کے حقوق کا کس قدر فکر ہونا چائیے ۔ سائنسی علوم کو کام میں لا کر مستقبل کی آنکھوں میں قوم کی بہتری کو تلاش کرنا چاہیے یہ سب کچھ علم سے ہوگا ۔ اے کاش ! میری پاکستانی قوم کو حضرت خضر جیسا کوئی راہنما میسر آجائے جو آنے والے سو سال کے خطرات کو دیکھ کر منصوبہ بندی کرے ہر ممکنہ بھلائی کو کھینچ کر قوم کے نونہاروں کی جھولی میں ڈالنے کی فکر کرے ۔ مجھے اب ایسا راہنما چاہیے ۔ ایسا لیڈر چاہیے اے میر ی قوم کے بیس کروڑ لوگو! آئیے مل کر حضرت خضر ؑ جیسا کوئی راہنما تلا ش کریں جو چادر اوڑھ کر زمین پر لیٹنے اور بیٹھنے والا ہو ۔ اٹھے تو زمین لہلہا اٹھے ۔ سبز پرچم والا پاکستان سبز سبز ہوجائے ۔
قارئین کرام! جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کی ملاقات ہوئی تو اللہ کے رسول ﷺ صحابہ کو بتلاتے ہیں کہ حضرت موسیٰ نے عرض کی ۔ جناب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ کے پاس جو علم ہے اور آپ کو عنایت ہوا ہے اس میں سے کچھ مجھے بھی سکھلادیں ۔ اس پر حضرت خضر ؑ نے جواب دیا ۔ تم میرے ہمراہ رہ کر ( میرے علمی کاموں کو دیکھ کر ) رہ نہیں سکو گے ۔ (فوراً بول پڑوگے) اے موسیٰ! میں اللہ کے علم میں سے ایک ایسے علم پر ہوں جسے تم نہیں جانتے اور جناب بھی اللہ کے علم میں سے ایک ایسے علم پر ہیں جسے میں نہیں جانتا (بخاری3401) قارئین کرام!امام بخاری رحمہ اللہ مذکورہ حدیث جس باب میں لائے ہیں اس کا عنوان ''احادیث الانبیاء ‘‘ ہے یعنی ایسا باب اور چیپٹر کہ جس میں انبیاء کے واقعات مذکور ہوئے ہیں اس سے ثابت ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ حضرت خضر علیہ السلام کو اللہ کا نبی سمجھتے تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح میں یہ حدیث بھی لائے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اس دنیا سے تشریف لے جانے سے ایک ماہ پہلے یہ فرما دیا کہ روئے زمین پر جو انسان بھی موجود ہیں آج رات سے لیکر سو سال پورے ہونے پر سب کے سب اس دنیا سے چلے جائیں گے ۔ (بخاری، 116مسلم 218) یاد رہے ! حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ مذکورہ بات اللہ کے رسولﷺ نے اللہ کی قسم اٹھا کر ارشاد فرمائی اس سے معلوم ہو ا کہ حضرت خضر علیہ السلام موجود نہیں ہیں ۔ اگربفرض محال وہ حضورﷺ کے زمانے میں موجود ہوتے تو حضور ﷺکی خدمت میں ضرور حاضر ہوتے کہ آپﷺ تمام نبیوں کے سردار اور ساری انسانیت کے لیے قیامت تک کے لیے نبی اور رسول ہیں ۔
قارئین کرام ! مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم علماء اور مشائح نے سورہ کہف کے نور سے اپنے آپ کو منور کرنے کی بجائے اپنے آپ اور پنے پیروکاروں کو شریعت وطریقت اور نبوت و ولائت کے مقابلے کی بحثوں میں مبتلا کر دیا حالانکہ بات تو وہی ہے جو حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہی کہ ہم دونوں اللہ کی طرف سے دیئے گئے علم سے مالامال ہیںمگر ایک دوسرے کے علم سے لاعلم ہیں اور یہاں چونکہ واقعہ کی مناسبت سے حضرت خضر ؑ کے علم کا اظہار مقصور تھا چنانچہ انہی علم کا ظہور ہوا اس علم کے تینوں واقعات سورہ کہف کے آخر میں موجود ہیں ، تینوں واقعات مستقبل سے تعلق رکھتے ہیں ۔ حضرت خضر علیہ السلام نے وقت سے پہلے ہی اللہ کے حکم سے ان کے فیصلے موسیٰ علیہ السلام کے سامنے کر دیئے ، تینوں واقعات میں بطور مثا ل ایک واقعہ اس طرح ہے کہ حضرت خضر ؑ حضرت موسیٰؑ اور حضرت یوشع علیہ السلام کو لے کر اپنے علاقے کی ایک بستی میں جاتے ہیں بھوک کے مارے یہ کھانا مانگتے ہیں تو وہ کھانا بھی نہیں دیتے مگر حضرت خضر وہاں ایک دیوارکو جو گرنے والی تھی سیدھا کر دیتے ہیں حضرت موسیٰ اعتراض کرتے ہیں کہ دیوار سیدھا کرنے کے عوض ان سے کھانا ہی لے لیتے ... حضرت خضرؑ بتلاتے ہیں کہ یہ دیوار نیک ماں باپ کی تھی ۔ اس میں خزانہ تھا ۔ ماں باپ فوت ہوگئے ۔دو یتیم بچے ابھی چھوٹے ہیں یہ گر جاتی تو خزانہ ضائع ہوجاتا ۔ جی ہاں !کیا اس سے یہ سبق نہیںملتا کہ ایک راہنما کواپنی رعایا کے حقوق کا کس قدر فکر ہونا چائیے ۔ سائنسی علوم کو کام میں لا کر مستقبل کی آنکھوں میں قوم کی بہتری کو تلاش کرنا چاہیے یہ سب کچھ علم سے ہوگا ۔ اے کاش ! میری پاکستانی قوم کو حضرت خضر جیسا کوئی راہنما میسر آجائے جو آنے والے سو سال کے خطرات کو دیکھ کر منصوبہ بندی کرے ہر ممکنہ بھلائی کو کھینچ کر قوم کے نونہاروں کی جھولی میں ڈالنے کی فکر کرے ۔ مجھے اب ایسا راہنما چاہیے ۔ ایسا لیڈر چاہیے اے میر ی قوم کے بیس کروڑ لوگو! آئیے مل کر حضرت خضر ؑ جیسا کوئی راہنما تلا ش کریں جو چادر اوڑھ کر زمین پر لیٹنے اور بیٹھنے والا ہو ۔ اٹھے تو زمین لہلہا اٹھے ۔ سبز پرچم والا پاکستان سبز سبز ہوجائے ۔