• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خطبہ مسجد نبوی

عبدالرءوف

مبتدی
شمولیت
جولائی 22، 2015
پیغامات
23
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
4
خطبہ مسجد نبوی
ترجمہ: شفقت الرحمن مغل
Www.facebook.com/kmnurdu
بسم الله الرحمن الرحيم

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ نے 19-ذو الحجہ- 1436کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان " مقاصد حج، سانحہ منی، اور امن کی مخدوش صورت حال" ارشاد فرمایا ، جس کے اہم نکات یہ تھے: ٭حجاج کیلئے مبارک باد٭ حجاج کو مدینہ منورہ میں خوش آمدید٭ حج مبرور اور حسن بصری رحمہ اللہ ٭ استقامت ہر شخص پر واجب ہے ٭ پوری زندگی اللہ کیلئے ٭ حج کا سب سے بڑا سبق کیا؟٭موحد شخص کی علامات ٭ شرکیہ اعمال٭ اللہ تعالی ہم سے کیا چاہتا ہے؟٭ سانحہ منی اور متاثرین کیلئے دعائے خیر ٭ خادمِ حرمین شریفین اور سانحہ منی ٭ ایک سانحہ حجاج کی خدمت پر پانی پھیر سکتا ہے؟٭ سعودی حکومت کا قیام سے اب تک کا منہج ٭ سعودی عہد میں حرمین شریفین کی تعمیر و ترقی ٭ تمام مسلمانوں کی طرف سے خادم حرمین کیلئے دعائیہ کلمات٭ امیر مکہ کیلئے دعائیں ٭ سکیورٹی فورسز، اور میڈیکل ٹیموں کیلئے دعا٭ حجاج کی خدمت حکومت کا فریضہ ہے، کسی پر احسان نہیں ہے٭ داخلی حجاج نفل حج کی بجائے فرض حج کرنے والوں کو ترجیح دیں ٭ فرض حج کرنے والوں کو ترجیح ، فقہ اور احادیث کے تناظر میں٭ مملکت حرمین شریفین کے خلاف محاذ رائی ٭ سوشل میڈیا پر افواہوں کا طوفان ٭ نوجوانوں کیلئے خصوصی ہدایات ٭ فتنۂِ تکفیر سے بیزاری ٭موجودہ صورت حال کے بارے میں احادیث نبویہ٭ غیر مسلم معاہد کو قتل کرنا بھی حرام ہے ٭ کلمہ گو مسلمان کو قتل کرنے کا جرم٭ مسئلہ مسجد اقصی اور فلسطین ٭ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بیت المقدس کیسے فتح کیا؟ ٭ اہل فلسطین کیلئے خصوصی ہدایات ۔

پہلا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جس کی نعمتوں سے خوشیاں مکمل ہوتی ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا اور یکتا ہے، وہی آسمان و زمین کی مخلوقات کا معبود ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں، آپ تمام مخلوقات سے افضل ہیں، یا اللہ! ان پر ، آپکی آل، اور نیکو کار صحابہ کرام پر رحمتیں، سلامتی، اور برکتیں نازل فرما۔

مسلمانو!

تقوی الہی ایسے اختیار کرو جیسے تقوی اختیار کرنے کا حق ہے، اور اسلام کو مضبوط کڑے سے تھام لو، اور یہ ذہن نشین کر لو کہ کامیابی و کامرانی اللہ تعالی کی اطاعت میں پنہاں ہے۔

مسلم اقوام!

ہم اللہ تعالی کے شکر گزار ہیں کہ اس نے نیک لوگوں کو عشرہ ذو الحجہ عبادت سے بھر پور گزارنے کا موقع فراہم کیا۔

بیت اللہ کے حجاج کرام!

حج مکمل ہونے پر آپ سب مبارکباد کے مستحق ہیں، اللہ تعالی آپ کی عبادات قبول فرمائے، اور آپکو اپنی حفظ و امان میں رکھے نیز آپکو صحیح سلامت اپنے اپنے گھروں تک واپس پہنچائے۔

آپ اس وقت رسول اللہ ﷺ کے شہر میں ہیں، ہم آپکو خوش آمدید کہتے ہیں، آپکی پاکیزہ سرزمین پر آمد آپکو مبارک ہو، اللہ تعالی آپ کے یہاں گزارے ہوئے شب و روز سعادت مندی کا باعث بنائے۔

اللہ کے بندو!

حجاج و دیگر افراد کی جانب سے کیے جانے والے نیک اعمال اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے، جس پر اللہ تعالی کا مزید شکر کرنا واجب ہو گیا ہے، چنانچہ انسان تقوی و اطاعت پر گامزن رہے، خیر و بھلائی ،عقیدہ توحید اور نبی ﷺ کی سنت پر ہمیشہ کار بند رہے۔

حسن بصری رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: "حج مبرور کسے کہتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: حج مبرور یہ ہے کہ آپ حج سے واپس ہوں تو دنیا سے بے رغبت ہو کر آخرت کیلئے کوشش شروع کر دیں"

ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: "ایک آدمی کے دل میں حج کے بعد گناہ کی خواہش پیدا ہوئی تو اسے کوئی غیبی آواز سنائی دی: "ارے! کیا تم نے حج نہیں کیا!؟"

تمام لوگوں کیلئے صراطِ مستقیم پر قائم رہنا واجب ہے، چنانچہ ہر وقت و آن خالق و مالک کی اطاعت ضروری ہے، اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:: {فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ} آپ اور آپ کے پیروکار ایسے ہی ڈٹ جائیں جیسے آپ کو حکم دیا گیا ہے، سر کشی نہ کریں، بیشک وہ تمہارے اعمال کو دیکھنے والا ہے[هود : 112] اسی طرح آپ کو مخاطب کر کے نصیحت ہمارے لیے فرمائی کہ: { فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ} اسی کیلئے استقامت اختیار کریں اور اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں۔[فصلت : 6]

ہونا تو ایسا چاہیے کہ مسلمان کی ساری زندگی نیکیوں سے بھر پور ہو، اور آسمان و زمین کے پروردگار کو راضی کرنے کیلئے صرف کی جائے جیسے کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کو حکم دیتے ہوئے فرمایا: {قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (162) لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ}آپ کہہ دیں: میری نماز، قربانی، اور میرا جینا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کیلئے ہے [162] اس کا کوئی شریک نہیں مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے، اور میں سب سے پہلے سرِ تسلیم خم کرنے والوں میں سے ہوں۔ [الأنعام : 162 - 163]

نبی ﷺ کی جامع نصیحت میں ہے: (تم اللہ پر ایمان لاؤ، اور اس کے بعد اسی پر ڈٹ جاؤ)

اسلامی بھائیو!

حج کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ نفس کی سب سے بڑے مقصد پر تربیت کی جائے اور دلوں میں اسے جا گزیں کیا جائے اور وہ ہے عقیدہ توحید ؛ تا کہ ہر مسلمان ظاہری ، باطنی، قولی، عملی، اور ہر اعتبار سے توحید پرست بن جائے، چنانچہ جھکے تو صرف اللہ کیلئے، اور عاجزی و انکساری کا اظہار کرے تو صرف اسی کے سامنے۔

حج ایک ایسا تربیتی دورہ ہے جو قلب و جوارح کو توحید الوہیت سے بھر دیتا ہے، چنانچہ انسان خشیت و جلال، خوف و دعا، محبت و تمنا، بھروسا و اعتماد اللہ پر رکھتا ہے، اپنا تن من سب اسی کے سپرد کر دیتا ہے، لہذا انسان صاف عقیدہ توحید لیکر خرافات، توہم پرستی سے باہر نکل کر کسی بھی مخلوق کے سامنے اپنا سر نہیں جھکاتا۔

حج خالق کی تعظیم ، اور اسی کیلئے کمال انکساری و محبت کا سب سے بڑا تربیتی سبق دیتا ہے؛ تا کہ انسان حقیقی شرک اور شرک کے وسائل، اسباب، اور ذرائع سے بچ جائے، چنانچہ اللہ تعالی نے احکامِ حج ذکر کرتے ہوئے فرمایا: {وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ} جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنایا تو وہ ایسے ہے جیسے آسمان سے گرے پھر اسے پرندے اچک لے جائیں یا ہوا اسے کسی دور دراز مقام میں پھینک دے۔ [الحج : 31]

لہذا ایک موحد شخص مصیبت میں بھی صرف اللہ ہی سے مدد مانگتا ہے، تنگی کے وقت صرف اسی کے سامنے گڑگڑاتا ہے، کیونکہ اسے یقین ہے کہ مشکل کشائی اور حاجت روائی صرف وہی کر سکتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ}کون ہے جو لاچار کی دعا سن کر اس کی مشکل کشائی کرتا ہے؟، اور کون ہے جس نے تمہیں زمین پر خلیفہ بنایا ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ تم بہت تھوڑی نصیحت حاصل کرتے ہو۔[النمل : 62]

غیر اللہ سے مانگنا شرک اکبر ہے، اس میں فوت شدگان سے دعائیں کرنا، اولیاء اور صالحین سے امید لگانا، ان سے مانگنا، ان کیلئے نذر ماننا، یا ان کی قبروں کا طواف کرنا، انہیں عالم الغیب سمجھنا، انہیں ایسے امور میں مشکل کشا یا حاجت روا سمجھنا جن کی طاقت صرف اللہ تعالی کے پاس ہے، جادو گروں ، شعبدہ بازوں ، کاہنوں، اور نجومیوں کی تصدیق بھی اسی میں شامل ہے۔

اللہ تعالی ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم اس کے اس فرمان کے مطابق اپنا ایمان بنائیں: {وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِنْ يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ}اور اگر اللہ آپ کو کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اسے دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ آپ کو کوئی بھلائی پہنچائے تو وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے [الأنعام : 17] چنانچہ ہم اس کے علاوہ کسی کی طرف متوجہ نہ ہوں اور صرف اسی سے مانگیں۔

اور نبی ﷺ کا فرمان ہے: (جو شخص غیر اللہ کو پکارتا ہو اور اسے موت آ جائے تو وہ جہنم میں جائے گا) بخاری

مسلم اقوام!

ہر مسلمان کو سانحہ منی کی بھگدڑ سے شدید تکلیف پہنچی ، تاہم اللہ کے فیصلوں پر ہم شکر بجا لاتے ہیں، اور اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ فوت شدگان کو شہداء میں شامل فرمائے، اللہ تعالی نے حسن خاتمہ ان کی قسمت میں لکھا ہوا تھا، جس حالت میں وہ فوت ہوئے ہیں انہیں اسی حالت میں اٹھایا جائے گا، اللہ تعالی فوت شدگان کے سوگواران کو صبر جمیل سے نوازے ، انہیں بہترین متبادل عطا فرمائے، اور اجر عظیم مرحمت فرمائے، اور زخمیوں کو جلد از جلد شفا یاب فرمائے۔

خادم حرمین شریفین کو اللہ تعالی جزائے خیر دے کہ انہوں نے اس معاملے کو پوری اہمیت دیتے ہوئے حقائق پر مبنی تحقیق کا حکم جاری کیا، تا کہ کوتاہی برتنے والوں کا محاسبہ ہو اور اگر کوئی اس معاملے کا ذمہ دار ہے تو اسے کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔

اسلامی بھائیو!

یہ حادثاتی واقعہ حکومت خادم حرمین شریفین کی طرف سے حجاج اور معتمرین کیلئے پیش کی جانے والی گراں قدر خدمات کو گدلا نہیں کر سکتا، حکومت کی طرف سے حرمین و شریفین اور مشاعر مقدسہ کی تعمیر و ترقی کیلئے ہر کس و نا کس قربان کر دیا گیا ہے، اور پوری تاریخ میں ایسی کوئی مثال بھی نہیں ملتی، اور یہ اس حکومت کی ذمہ داری ہے، کسی پر کوئی احسان نہیں ، اس کا بدلہ صرف اللہ سے چاہتے ہیں، تاہم یہ الگ بات ہے کہ (جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرتا)

خادم حرمین اور ان کے دونوں نائب ذاتی طور پر پیش کی جانے والی خدمات کے بحرِ بے کنار کی پورے سال نگرانی اور منصوبہ بندی کرتے ہیں، اور حجاج کی خدمت کیلئے کسی بھی چیز کے خرچ کرنے میں ذرا تامل نہیں کرتے، اور اس خدمت کو وہ اپنے کندھوں پر سب سے بڑا فرض اور قرض سمجھتے ہیں، اللہ تعالی انہیں اس فراخ دلی پر جزائے خیر سے نوازے۔

سعودی حکومت امام محمد بن سعود اور امام محمد بن عبد الوہاب کے ہاتھوں قیام کے بعد سے لیکر اب تک عقیدہ توحید اور اسلام پر قائم ہے، نیز اسلامی عالمی مسائل کی خدمت کیلئے ہمہ وقت مصروف عمل ہے، اور اس وقت سے لیکر آج تک یہ حکومت خادم حرمین شریفین کی سربراہی میں موسم حج اور پورا سال عمرے کا سیزن کمال مہارت کیساتھ کنٹرول کرتی ہے، اور اس کیلئے زمینی حقائق کی گواہی کافی ہے، کیونکہ ان کا انکار کینہ پرور اور مخبوط الحواس شخص ہی کر سکتا ہے، جو اللہ کی جانب سے ملی ہوئی اس نعمت پر حسد کی آگ میں جل بھن رہا ہے، اور اللہ تعالی جسے چاہتا ہے اپنے دین کی خدمت کیلئے چن لیتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ نقص سے بالا تر ذات صرف اللہ کی ذات ہے، لیکن حکومتِ خادم حرمین شریفین کے بارے میں کون شک کر سکتا ہے ؟ کیونکہ حجاج کی سلامتی، ان کی راحت و چین، مشاعر مقدسہ کی تعمیر و ترقی کیلئے دستیاب افرادی، مالی، سکیورٹی، ٹیکنالوجی، اور طبی وسائل کو بروئے کار لایا گیا، اس بات کا اعتراف اپنوں کی بجائے پہلے پرائے بھی کر چکے ہیں۔

ان گراں قدر خدمات کے بارے میں شک کرنے والا انا پرست، اور سوفسطائی [محسوس چیزوں کا انکار کرنے والے یونانی لوگ۔ مترجم] ہے جو کہ دن دہاڑے سورج کا انکار کرے، اور یہ یقینی بات ہے کہ مسلمان کبھی ایسا نہیں کریگا، کیونکہ مسلمان کسی کی بھلائی کا اعتراف کرتے ہوئے اس کا شکریہ بھی ادا کرتا، چنانچہ تمام مسلمانوں کی زبانی ہم کہتے ہیں: "خادمِ حرمین شریفین! اللہ تعالی آپکو جزائے خیر سے نوازے، اسی طرح آپ کے دونوں ولی عہد کو بھی اچھا بدلہ دے، اللہ تعالی آپ سب کی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے، اللہ کی توفیق سے آگے بڑھتے جائیں کہ اللہ تعالی نے آپکو اس عظیم امانت کی ادائیگی کیلئے چن لیا ہے، اللہ تعالی آپکو ڈھیروں اجر و ثواب سے نوازے، اور محنتوں میں برکت فرمائے، اور آپ کے دشمنوں کے حصے میں حسرت و ندامت ہی آئے گی، یہ امتیازی حیثیت اسی ملک کے حکمرانوں کے حصے میں آئی ہے، یہ بہت ہی بڑی نعمت اللہ کی طرف سے ملی ہے کہ حرمین کا انتظام و انصرام ان کے ہاتھ میں ہے، اور دوسری بڑی نعمت یہ بھی ہے کہ یہاں پر عقیدہ توحید کا پرچار ہوتا ہے اور کتاب و سنت کو بالا دستی حاصل ہے"

ساتھ ہی امیر الحج یعنی مکہ مکرمہ ریجن کے امیر بھی شکریہ کے مستحق ہیں انہوں نے بھی خوب لگن کیساتھ محنت کی، اور میڈیا میں لوگوں نے انہیں خود بھی دیکھا، اللہ تعالی انہیں بھی بہترین اجر سے نوازے، اور مزید جود و سخا کی توفیق دے، اسی طرح تمام حکومتی اداروں کی محنتیں بھی اللہ تعالی قبول فرمائے، جن کی شب و روز کی ا نتھک کاوشوں سے ضیوف الرحمن کی خدمت عمل میں آئی، ان میں خصوصی طور پر وفا دار سیکورٹی فورسز کے جوان قابل ذکر ہیں کہ انہوں نے امن و امان، اطمینان، اور دلی سکون برقرار رکھنے کیلئے مسلسل جد و جہد ایسے وقت میں کی جب بڑے بڑے فتنوں کے خطرات سر پر منڈلا رہے تھے، اسی طرح میڈیکل ٹیموں نے بھی اپنی مہارت کا لوہا منوایا، اللہ تعالی تمام لوگوں کو بہترین جزائے خیر عطا فرمائے ، اللہ تعالی انہیں برکتوں سے نوازے، اور دنیا و آخرت میں انہیں کامیاب و کامران فرمائے۔

اسلامی بھائیو!

حکومت وقت پر حج سے متعلقہ ہمہ قسم کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، چنانچہ عالم اسلام میں سے حجاج کرام کی بہت بڑی تعداد کے پیش نظر انتظامی امور کا تقاضا تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں رش کو کنٹرول کیا جائے۔

اور اس انتظامی معاملے کی وجہ سے حجاج کرام کو اپنے فرض مناسک راحت و سکون کیساتھ ادا کرنے میں مدد ملتی ہے، اور اس نظام کی تائید میں اہل علم کے فتاوی آنے کے بعد کوئی بھی مسلمان نفل حج ادا کرنے کی چاہت میں اس نظام کو توڑنے کیلئے حیلے بہانے مت اپنائے اور انہیں پس پشت مت ڈالے۔

ہم رسول اللہ ﷺ کے منبر سے یہ کہتے ہیں کہ : "ہم سب مسلمانوں کی بھلائی چاہتے ہیں، اور اہل علم پر جو ذمہ داری اللہ تعالی کی طرف سے عائد ہوتی ہے، اسے ادا کرنے کیلئے کہتے ہیں: کوئی بھی مسلمان نفل حج ادا کرنے کی چاہت میں اس نظام کو توڑنے کیلئے حیلے بہانے مت اپنائے اور انہیں پس پشت مت ڈالے "

آج کل کے دور میں شرعی مقاصد اور شرعی اصول و ضوابط مسلمانوں پر نیک امور کیلئے باہمی تعاون لازمی قرار دیتے ہیں، چنانچہ جن لوگوں نے فریضہ حج ادا نہیں کیا انہیں اپنے فرض کی ادائیگی کیلئے موقع فراہم کرنا ایمانی اخوت کا حق ہے، بلکہ عقدی محبت کا فرض بھی بنتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ} بیشک تمام مؤمنین آپس میں بھائی بھائی ہیں[الحجرات : 10] اور نبی ﷺ کا فرمان ہے: (تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کیلئے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے)

شریعت محمدیہ کی مکمل تعلیمات پر عمل کرنا ضروری ہے، اس لئے کسی بھی مسلمان کو موجودہ وقت کے اجماع کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے جس کا تقاضا ہے کہ حج کیلئے محدود لوگوں کو اجازت دی جائے، کیونکہ اس میں سب کا فائدہ اور کم سے کم خطرات کا خدشہ ہے۔

کوئی مسلمان کس طرح اپنے حکمران کی مخالفت کر سکتا ہے؟ حالانکہ ان کے حکم کی تعمیل کسی واجب عمل کو ترک یا کسی ممانعت پر عمل کرنے کی موجب بھی نہیں بنتی، بلکہ ان کے حکم کی تعمیل مسلمانوں کے مفاد میں شرعی طور پر واجب بھی ہے۔

موجودہ نظام سے آنکھ مچولی کرنے کیلئے کوئی مسلمان احکامِ حج میں کس طرح من مانی کر سکتا ہے کہ میقات سے احرام نہ باندھے!؟ اور ایسا نفلی عمل کرے جو شریعت نے اس پر لازم ہی نہیں کیا، بلکہ اگر وہ اللہ تعالی کے سامنے نفل حج کرنے کی اپنی سچی نیت کا اظہار کرے، لیکن انتظامی معاملات کی وجہ سے حج نہ کر پائے تو اللہ کا فضل وسیع ہے، اور اسے نیت کا اجر و ثواب ضرور ملے گا، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (مدینہ منورہ میں رہتے ہوئے کچھ لوگ ہر وادی اور ہر سفر میں تمہارے ساتھ ہیں ، کیونکہ بیماری نے انہیں روک لیا تھا ) اور ایک روایت میں ہے کہ: (وہ اجر میں تمہارے شریک ہیں) مسلم

اور انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ : " ہم غزوہ تبوک سے نبی ﷺ کیساتھ واپس ہوئے تو آپ نے فرمایا: (ہم نے کچھ لوگوں کو مدینہ میں چھوڑ دیا تھا لیکن پھر بھی وہ ہر گھاٹی اور وادی میں ہمارے ساتھ تھے، انہیں عذر نے روک لیا تھا)"بخاری

تو کیا اس سے بڑا یا افضل عذر کوئی ہے کہ آپ فرض حج کی ادائیگی کیلئے دیگر مسلمانوں کو موقع دیں، اور مؤمنوں پر شفقت کریں، تا کہ کم سے کم رش ہو اور کوئی سنگین سانحہ پیش نہ آئے!؟

ابن قیم رحمہ ا للہ -جس اصولی قاعدہ کی آڑ لی جاتی ہے اس کی تردید کرتے ہوئے -کہتے ہیں: "فقہائے کرام میں سے جو عبادات میں کسی دوسرے شخص کو ترجیح دینا جائز قرار نہیں دیتے، ان کی یہ بات درست نہیں ہے، کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی ﷺ کیساتھ اپنی بجائے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو دفن کرنے پر ترجیح دی" ابن قیم رحمہ اللہ نے پھر کہا: "یہی تو جود و سخا اور ایثار ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کی دل جوئی اور مقام و مرتبے کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے لیے سب سے پسندیدہ عمل پر کسی دوسرے کو ترجیح دے دی جائے" نیز انہوں نے یہ بھی کہا: "اس صورت میں ایثار کرنے والا منافع کمانے والوں میں سے ہوگا؛ کیونکہ اس نے ایک نیکی خرچ کر کے کئی گنا زیادہ اجر حاصل کر لیا، اور ویسے بھی صحابہ کرام نے اسے مکروہ نہیں سمجھا، اور نہ کتاب و سنت، اور اخلاقیات کچھ بھی اسے منع قرار دیتے ہیں" انتہی

اب نفل حج کی ادائیگی ، فرض حج ادا کرنے والوں کیلئے آسانی پیدا کرنے کی غرض سے مؤخر کرنے والے کو کتنا اجر و ثواب ملے گا؟ خصوصاً بھیڑ اور ازدحام کے ان ایام میں ؛ کیونکہ ایسا کرنے سے پوری امت کیلئے فریضہ حج ادا کرنے میں آسانی ہوگی، کامیاب وہی ہے جسے اللہ تعالی کامیاب فرمائے۔

میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں، اور اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کیلئے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگو وہ بہت ہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
2/2
دوسرا خطبہ

میں اپنے رب کی حمد بیان کرتا ہوں، اور اسی کا شکر گزار ہوں، گواہی دیتا ہوں کہ اللہ علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اُسکے بندے اور رسول ہیں ۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہوں، کیونکہ متقی ہی کامیاب و کامران اور دنیا و آخرت میں سعادت مند ہوگا۔

مسلمانو!

امت اسلامیہ اور مسلم خطوں پر دشمن چڑھ دوڑے ہیں، لیکن کسی کو اس کی پرواہ ہی نہیں ہے، اس کے متعلق دشمنوں کی منصوبہ بندیاں چند لمحات میں بیان بھی نہیں کی جا سکتیں، خصوصاً مملکت حرمین شریفین اور اس کے استحکام کے خلاف محاذ آرائی جاری ہے، اور اس کیلئے کینہ پرور لوگوں کی طرف سے وہ کچھ کیا جا رہا ہے کہ جسے بیان کرنے کیلئے مختصر سا وقت نا کافی ہے۔

مسلم نوجوانو!

سوشل میڈیا پر معلومات کی بھر مار بھی خطرے کی شنید ہے، کیونکہ ان معلومات میں سچ اور جھوٹ، حق و باطل کسی میں کوئی فرق نہیں کیا جاتا، ایسی باتیں کسی جا رہی ہیں جن میں اس ملک کے خلاف ، یہاں کے وسائل، قیادت، اور عوام کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، حقیقت میں یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے۔

چنانچہ دانشمند شخص جسے اپنے دین اور دنیا کی فکر لاحق رہتی ہے وہ ہمیشہ محتاط رہتا ہے، اور اپنے آپ کو فتنوں سے دور رکھتا ہے، اس لئے نوجوانوں کو خصوصی توجہ کرنی چاہیے، کیونکہ وہ لا علمی، کسی کی باتوں میں آ کر غیر تجربہ کاری کی وجہ سے جو کچھ بھی پڑھتے ہیں اسی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں، اور اپنے آپ کو نا قابل تلافی خطرات و تباہی کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔

اس لیے خوب احتیاط کرو اور محتاط رہو، اپنے عقیدے اور ملک کو جان سے عزیز جانو، اپنے ملک کے امن، استحکام، قدرتی وسائل، اور املاک کو محفوظ رکھو، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا}اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، اور فرقہ واریت میں مت پڑو۔ [آل عمران : 103]

اور نبی ﷺ کا فرمان ہے: (متحد و متفق رہو، فرقہ واریت سے بچو، کیونکہ شیطان دو کی بجائے ایک کے زیادہ قریب ہوتا ہے، اور جو شخص جنت کی خوشبو پانا چاہتا ہے تو وہ اتحاد و اتفاق قائم کرے) حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔

ہمارے نوجوان ذہن نشین کر لیں کہ دشمنان اسلام کی طرف سے منصوبہ بندیاں لا تعداد صورتوں اور رنگوں میں موجود ہیں ؛ مقصد یہ ہے کہ کسی طرح مسلمانوں کو تقسیم کر دیا جائے، اور انہیں اپنے ہی ملک و معاشرے کے خلاف بغاوت پر اکسایا جائے، اور ایسے من مانے نتائج حاصل کریں جن سے دنیا و آخرت تباہ ہو کر رہ جائے۔

اگر نوجوان فکری طور پر منحرف ہو جائے تو معاملہ سنگین اس وقت ہوتا ہے جب وہ اپنے آپ کو حق بجانب سمجھے اور دیگر مسلمانوں کو کافر کہے، اس کی وجہ سے ناقابل تلافی نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں، غزالی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "کسی کو کافر قرار دینے سے حتی الامکان پرہیز کرنا چاہیے، کیونکہ اہل قبلہ میں سے "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" علی الاعلان پڑھنے والے لوگوں کے مال و جان حلال سمجھنا بہت ہی سنگین غلطی ہے، کیونکہ ہزار [جنگجو]کافروں کو غلطی سے جینے کا موقع فراہم کرنا ایک مسلمان کا خون بہانے سے کہیں کمتر ہے"

اسی طرح شیخ عبد اللہ بن امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ فتنۂِ تکفیر کے بارے میں ٹھوس گفتگو کرنے کے بعد کہتے ہیں: "کسی ایک آدمی کو مسلمانوں سے خارج کرنا یا ان میں داخل کرنا بہت ہی بڑا مسئلہ ہے، اور اس مسئلے کے بارے میں شیطان نے بہت سے لوگوں کو بہکا دیا ہے"

یہ اقوال نبوی تعلیمی ادارے کے فاضل ابن عمر رضی اللہ عنہما کے موقف سے کشید کردہ ہیں، وہ کہتے ہیں کہ: " جس دلدل میں پھنس کر نکلنا ممکن نہیں ہے وہ ہے معصوم جان کا خون بہانا" بخاری

لوگوں کو اس وقت بہت بڑا دھچکا لگتا ہے جب کچھ مسلمان لیکن شر پسند عناصر انتہائی سنگین جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے معصوم جانوں کو قتل کرتے ہیں۔

مسلم نوجوانو!

اللہ سبحانہ و تعالی سے ڈرو، اور اس عظیم حدیث کو رسول اللہ ﷺ کے منبر سے سنو، جس پر تمام مخلوقات سے افضل جناب محمد ﷺ نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا، جس میں نبی ﷺ نے اپنی امت کو اسی پتلی اور گری ہوئی حالت سے خبردار کیا ہے جس میں آج کل ہمارے نوجوان پھنس چکے ہیں، چنانچہ ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: " رسول اللہ ﷺ ہمیں بتلایا کرتے تھے کہ قیامت سے پہلے "ھرج" ہوگا، تو کسی نے پوچھا: "یہ "ھرج" کیا چیز ہے؟" تو آپ ﷺ نے فرمایا: (جھوٹ اور قتل) تو صحابہ کرام نے کہا: "جتنے ہم نے قتل کیے اس سے بھی زیادہ؟" تو آپ نے فرمایا: (یہ قتل عام [جنگ میں] کفار کو قتل کرنے کی طرح نہیں ہوگا، بلکہ تم آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرو گے، حتی کہ ایک شخص اپنے ہی پڑوسی ، اپنے بھائی، چچا، اور چچا زاد کو قتل کر دیگا) تو صحابہ کرام نے کہا: "سبحان اللہ! ہماری عقل اس وقت ہمارے ساتھ ہوگی!؟" تو آپ نے فرمایا: (اس زمانے کے اکثر لوگوں کی عقل سلب کر لی جائے گی، اور پیچھے بیوقوف لوگ ہی رہ جائیں گے، وہ اپنے آپ کو صحیح سمجھتے ہونگے، لیکن حقیقت میں وہ گمراہ ہونگے) یہ حدیث اہل علم کے ہاں صحیح ہے ۔

اسی طرح ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: (قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، لوگوں پر ایسا وقت بھی آئے گا کہ قاتل کو علم نہیں ہوگا کہ وہ کیوں قتل کر رہا ہے، اور مقتول کو بھی علم نہیں ہوگا کہ اسے کیوں قتل کیا گیا) مسلم، اللہ تعالی ہم سب کو خیر و عافیت کیساتھ رکھے۔

ابن ابی شیبہ نے مسروق سے روایت کیا ، وہ کہتے ہیں: "ہم عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے پوچھا: "زندگی کیسی گزر رہی ہے؟" تو میں نے کہا: "دجال سے ڈرنے والی قوم سے بھی اچھی گزر رہی ہے" تو انہوں نے کہا: "دجال سے پہلے "ھرج" کا خدشہ ہے" میں نے کہا: "یہ ھرج کیا ہے؟" تو انہوں نے کہا: "قتل عام! حتی کہ ایک آدمی اپنے باپ کو بھی قتل کر دے گا"

جوانوں اور دیگر مسلمانو!

خونِ مسلم کے بارے میں اللہ سے ڈرو، خونِ مسلم کے بارے میں اللہ سے ڈرو، معصوم لوگوں کا خون بہانے کی بجائے اللہ سے ڈرو، چاہے وہ کافر اور معاہد ہی کیوں نہ ہو! کیونکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے: (جس نے معاہد شخص کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا) تو کلمہ شہادت پڑھنے والے نمازیوں کو قتل کرنے کا جرم کتنا سنگین ہوگا؟ وہ ہمارے قبلے کی طرف ہی منہ کر کے نماز ادا کرتے ہیں، وہ ہماری طرح جانور ذبح کرتے ہیں، اور ہماری طرح ہی نمازیں پڑھتے ہیں۔

اے مسلم! تم اللہ عز و جل کے سامنے کھڑے ہو کر کیا جواب دو گے؟! جیسے کہ نبی ﷺ نے اسامہ رضی اللہ عنہ کو آپ ﷺ نے فرمایا تھا ، حالانکہ انہوں نے ایک شخص کو جنگ کی حالت میں قتل کرتے ہوئے اپنے تئیں تاویل بھی کی تھی ، اس کے باوجود آپ ﷺ نے ان سے فرمایا تھا: (تم "لا الہ الا اللہ" کے سامنے کیا کرو گے جب یہ کلمہ گو کیلئے تم سے جھگڑا کریگا)

اس لیے سلامتی صرف حصول شرعی علم، اور اتحاد و اتفاق ، اور اختلافات بھلا کر مسلمانوں کے مسائل ختم کرنے میں ہے۔

مسلم اقوام!

قرآن کریم اور سنت نبوی پر کار بند رہو، اور ربانی علمائے کرام کیساتھ رابطے میں رہو۔

اہل اسلام!

آج امت کے سامنے کھڑے کیے جانے والے فتنے اتنے زیادہ ہیں کہ اللہ ہی ان کے بارے میں جانتا ہے، لیکن اس کے باوجود پوری امت مسلمہ اپنے سب سے بڑے مسئلے مقبوضہ جائے معراج [یعنی فلسطین] کو کسی بھی وقت نہ بھولی ہے اور نہ ہی بھول سکتی ہے ، یہ ایک ایسا اسلامی مسئلہ ہے جس پر کسی قسم کا سمجھوتہ یا سرد مہری قبول نہیں کی جا سکتی۔

تمام مسلمان یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ یہ مسلم خطے اور مسلمانوں سے بڑھ کر ہمارے عقیدے اور دین کا مسئلہ ہے، جس کا تعلق دین، نبی، اور قرآن سمیت تین مقدس مساجد میں سے ایک کیساتھ ہے۔

اور اس ذلت سے نکلنے کا راستہ صرف اللہ تعالی کے ذریعے ہی ممکن ہے، جو کہ تقوی، ایمانی قوت، اور صحیح عقیدہ کی وجہ سے ہی ملے گا، اور یہی وہ طریقہ ہے جس کی بنا پر عمر فاروق رضی اللہ عنہ بیت المقدس میں فاتحانہ انداز میں رحیم و رؤف بن کر داخل ہوئے اور بنی آدم کیلئے خوشحالی کا باعث بنے۔

اس لیے ہم تمام مسلمانوں کو عمومی طور پر اور اہل فلسطین کو خصوصی طور پر یہ نصیحت کرتے ہیں کہ اللہ سے مدد مانگو، حق پر ڈٹ جاؤ، اور اسلام پر ثابت قدم رہو، باہمی ربط قائم کرو، اور اللہ تعالی پر اپنا اعتماد پختہ کرو، نیکی اور تقوی کے کاموں پر متحد ہو جاؤ، فرقہ واریت، اور گروہ بندی سے دور رہو کیونکہ یہ اللہ کو پسند نہیں ہے، اور نہ ہی سنت رسول اللہ ﷺ اس کی اجازت دیتی ہے، اللہ تعالی کا وعدہ سچا ہے، اور اس کا بتلایا ہوا وقت آکر رہے گا، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق بات پر قائم رہے گا، اور اللہ تعالی کا حکم آنے تک انکی مخالفت یا انہیں رسوا کرنے کی کوشش کرنے والا انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا)

اللہ تعالی نے ہمیں ایک عظیم کام کا حکم دیا ہے، جس سے ہماری پاکیزگی بڑھے گی وہ ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام ، یا اللہ! ہمارے نبی محمد پر رحمتیں ، سلامتی ، اور برکتیں نازل فرما ، یا اللہ! ہدایت یافتہ خلفائے راشدین : ابو بکر، عمر، عثمان، اور علی سمیت تمام صحابہ کرام، تابعین عظام، اور قیامت تک انکے راستے پر چلنے والے افراد سے راضی ہو جا۔

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کے حالات درست فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کے حالات درست فرما، یا اللہ! ہمیں ذلت و رسوائی سے محفوظ فرما، یا اللہ! یا رحمن! اپنی اطاعت کے ذریعے ہمیں ذلت و رسوائی سے محفوظ فرما، یا اللہ! یا رحمن! اپنی اطاعت کے ذریعے ہمیں ذلت و رسوائی سے محفوظ فرما۔

یا اللہ! حق بات پر سب مسلمانوں کو یکجا فرما، یا اللہ! حق بات پر سب مسلمانوں کو یکجا فرما، یا اللہ! قرآن پر سب مسلمانوں کو یکجا فرما، یا اللہ! کتاب و سنت پر سب مسلمانوں کو یکجا فرما، یا ذو الجلال و الاکرام! یا اللہ! مسلمانوں پر چڑھائی اور سرکشی کرنے والوں پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا اللہ! مسلمانوں پر چڑھائی اور سرکشی کرنے والوں پر اپنی پکڑ نازل فرما۔

یا اللہ! جو کوئی بھی مسلمانوں کے ساتھ عیاری کرے یا اللہ! اس کی مکاری اسی کی تباہی کا باعث بنا دے، یا اللہ! جو کوئی بھی مسلمانوں کے ساتھ عیاری کرے یا اللہ! اس کی مکاری اسی کی تباہی کا باعث بنا دے، یا اللہ! جو کوئی بھی مسلمانوں کے ساتھ عیاری کرے یا اللہ! اسے اپنی ہی جان کے لالے پڑ جائیں۔

یا اللہ! خادم حرمین کو نیک کاموں کی توفیق دے، یا اللہ! خادمِ حرمین شریفین کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! انہیں اپنی خصوصی مدد سے نواز، یا اللہ! حق بات کے ذریعے ان کی مدد فرما، یا اللہ! اپنے دین کے ذریعے ان کی مزید عزت افزائی فرما، یا ذو الجلال و الاکرام! ان کے دونوں ولی عہد اور دیگر تمام مسلم حکمرانوں کو خیر و بھلائی کے امور سر انجام دینے کی توفیق عطا فرما۔

یا اللہ! مسلمانوں سے فتنوں کا خاتمہ فرما دے، یا اللہ! مسلمانوں سے فتنوں کا خاتمہ فرما دے، یا اللہ! خون مسلم کی حفاظت فرما، یا اللہ! یمن اور شام میں مسلمانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! ہر جگہ اور ہر وقت ان کی حفاظت فرما، یا ذو الجلال و الاکرام!

یا اللہ! خون مسلم کی حفاظت فرما، یا اللہ! خون مسلم کی حفاظت فرما، یا اللہ! ان کی حفاظت فرما، یا اللہ! ان کے مال و جان کی حفاظت فرما، یا ذو الجلال و الاکرام!

یا اللہ! ہم سب کو تیری طرف رجوع کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! ہم سب کو تیری طرف رجوع کرنے کی توفیق عطا فرما، یا ذو الجلال و الاکرام!

یا اللہ! ہماری سکیورٹی فورسز کے جوانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! ہماری سکیورٹی فورسز کے جوانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! انکی اپنی طرف سے خصوصی مدد و نصرت فرما، یا اللہ! ان کے حوصلے بلند فرما، یا اللہ! انہیں بہترین اجرو ثواب سے نواز، یا اللہ! ان کی محنتوں ، زندگی، اور اولاد میں برکتیں پیدا فرما، یا ذو الجلال و الاکرام!

یا اللہ! تمام حجاج اور معتمرین کو خیر و سلامتی کیساتھ ان کے گھروں تک واپس پہنچا، یا اللہ! اپنے فضل و کرم کے صدقے ان کے ساتھ ہم سے بھی راضی ہو جا، یا اللہ! اپنے فضل و کرم کے صدقے ان کے ساتھ ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ذو الجلال و الاکرام!

یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا ذو الجلال و الاکرام! بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! ہمارے نبی اور سربراہ سیدنا محمد پر رحمتیں اور سلامتی نازل فرما۔
 
Top