- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
خطیبوں اور واعظوں کی خدمت میں
ہمارے خطیبوں اور واعظوں کو عام دنوں میں بھی لوگوں کو لمبے لمبے وعظ کہنے کا بہت شوق ہوتا ہے اور رمضان میں تو گویا ان واعظوں کی چاندی ہی لگ جاتی ہے۔ ہم وعظ ونصیحت کے حق میں ہیں بلکہ اسے اصلاح معاشرہ کے لیے واجب سمجھتے ہیں لیکن لمبے لمبے وعظ کرنا اور خطبے پڑھنا ہر گز حکمت کے مطابق نہیں ہے کہ اس سے لوگوں میں دین سے بیزاری اور تنفر پیدا ہوتا ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے کہ کسی امام کی نماز لمبی ہو اور خطبہ مختصر ہو تو یہ اس کے سمجھدار ہونے کی علامت ہے، پس تم نماز کو لمبا کرو اور خطبے کو مختصر رکھو۔ [صحیح مسلم] ایک اور روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ اور نماز انتہائی معتدل ہوا کرتے تھے۔ [صحیح مسلم] اور یہ تو خطبہ جمعہ کی بات ہو رہی ہے کہ اسے جمعہ کی نماز سے مختصر ہونا چاہیے یا اس کے برابر ہونا چاہیے تو عام خطبات کو تو اس سے بھی مختصر ہونا چاہیے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جمعہ کی نماز، آج کل کے حساب سے پندرہ سے بیس منٹ میں ادا ہو جاتی تھی لہذا خطبہ جمعہ اور عام خطبات کا دورانیہ بھی اتنا ہی ہونا چاہیے۔ اور ایک ایک گھنٹے کے خطبات جمعہ یا دو دو گھنٹوں کے وعظ تو اس سے معاشرے میں تبدیلی تو کوئی نہیں آتی لیکن اگر خطیب اور واعظ کی آواز سریلی اور شیریں ہو تو لوگوں کو سماع اور کانوں کی لذت کا موقع میسر آجاتا ہے اور اگر خطیب اور واعظ کی آواز بھی بھدی اور پھٹی ہوئی ہو تو لوگ موقع ملے تو مسجد سے بھاگ جاتے ہیں یا پھر خطیب اور واعظ کے خاموش ہو جانے کی دعا کرتے رہتے ہیں۔
میں رمضان میں فجر کی نماز کے بعد روزانہ دس منٹ کا درس دیتا ہوں اور اس میں بھی دس سے نو منٹس تو ہو سکتے ہیں لیکن گیارہ نہیں ہونے دیتا۔ تو بھری مسجد میں کوئی ڈیڑھ سو کے لگ بھگ نمازیوں میں سے ایک آدھ ہی درس میں نہیں بیٹھتا کیونکہ لوگوں کو معلوم ہے کہ حافظ صاحب نے دس منٹس سے زیادہ نہیں لگانے۔ اور یہ بات ان کے لیے بہت اطمینان کا باعث ہے۔
اسی طرح یونیورسٹی میں میرا جمعہ کا خطبہ آدھے گھنٹے پر مشتمل ہوتا ہے، اگرچہ اسے بھی زیادہ سمجھتا ہوں لیکن جہاں عرف ایک سے دو گھنٹوں کے وعظوں کا بن چکا ہو، وہاں آپ پندرہ منٹ کا خطبہ دیں گے تو لوگ کہیں شک میں نہ پڑ جائیں کہ جمعہ بھی ہوا ہے یا نہیں۔۔۔ لہذا آدھ گھنٹے تک خطبہ دیتا ہوں یا اس سے کچھ کم کر لیتا ہوں لیکن اس کا اثر یہ ہے کہ نمازیوں کی ایک بڑی تعداد خطبہ سے پہلے مسجد کے ہال میں موجود ہوتی ہے۔ اس دفعہ تو میں نے نوٹ کیا کہ کم از کم ایک سو سے زائد افراد مسجد کے ہال میں میرے داخل ہونے سے پہلے موجود تھے۔
یہ باتیں اس لیے بیان کر دیں کہ واعظ اور خطیب یہ سمجھتے ہیں کہ شاید لمبے وعظ اور خطبے سے لوگوں کی اصلاح زیادہ ہوتی ہے حالانکہ اس سے لوگوں میں بگاڑ زیادہ پیدا ہوتا ہے۔ اور پھر لمبا وعظ اور خطبہ کہنا تو سنت کے مطابق بھی نہیں ہے۔ خطیبوں اور واعظوں سے گزارش ہے کہ اپنے وعظ اور خطبے کے دورانیے کو کم کریں اورلوگوں کے لیے دین کے معاملے میں آسانی پیدا کریں اور ان پر دین کے نام پر وہ بوجھ نہ لادیں کہ جسے اتار پھینکنے کی انہیں تعلیم دی گئی ہے۔ جزاکم اللہ خیرا۔
نوٹ: تعلیم وتعلم اور وعظ ونصیحت میں فرق ہے، اگر آپ کہیں مدرسہ یا اسلامک انسٹی ٹیوٹ میں ترجمہ یا حدیث وغیرہ کی کلاس لے رہے ہیں تو اس کا دورانیہ فرق ہو سکتا ہے۔
بشکریہ محترم @ابوالحسن علوی صاحب