• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خطیب کیسا ہو ؟؟

شمولیت
جولائی 20، 2016
پیغامات
116
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
75
تبلیغِ دین ، دعوتِ حق اور اس کی ترویج عظیم فریضہ ہے جسے اہل علم اور اہل فکر و دانش اپنی بساط کے مطابق ادا کر رہے ہیں۔ چونکہ تحریر کی بہ نسبت تقریر کا براہ راست عوام کے ساتھ زیادہ تعلق ہوتا ہے جس میں اندازِ بیاں کے ساتھ مقرر و داعی کا اخلاق و کردار بھی گہرے نقوش چھوڑتا ہے لہٰذا اپنے اُن بھائیوں کے لئے جو اس میدان کے شہسوار ہیں (اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلاَحَ) کے تحت چند کلمات بطورِ نصیحت لکھنے کی سعی کر رہا ہوں۔​
ویسے تو رسول اللہ ﷺ کا فرمان : (بلّغو اعنی ولو آیۃ) مجھ سے (سن کر آگے) پہنچا دو اگرچہ ایک آیت ہی ہو۔ [صحیح بخاری: ۳۴۶۱] بھی اس بات کا متقاضی ہے کہ ہر طرح سے دعوت ِ دین عام کی جائے۔​

۱:خطیب و داعی کے لئے ضروری ہے کہ لوگوں کو دعوت دینے کے ساتھ خود بھی قرآن و سنت پر عمل پیرا ہو اور تمام غیر شرعی امور سے کلی طور پر اجتناب کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے معراج والی رات کچھ لوگوں کو دیکھا جن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے۔ میں نے جبریل ؑ سے پوچھا : یہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ آپ کی اُمت کے خطیب (خطباء) ہیں، یہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے تھے اور (نیکی پر عمل کرنے سے ) اپنے آپ کو بھُلا دیتے تھے حالانکہ یہ کتاب بھی پڑھتے تھے۔ کیا یہ عقل نہیں رکھتے تھے؟[صحیح ابن حبان، الاحسان:۵۳ و سندہ حسن لذاتہ ، المختارۃ للضیاء المقدسی ۷؍۲۰۷ح ۲۶۴۶]
ایسے خطیب و داعی جو لوگوں کو برائی سے روکتے ہیں اور خود برائی کا ارتکاب کرتے ہیں، کے بارے میں نبی ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن ایک آدمی لایا جائے گا پھر اسے (جہنم کی) آگ میں ڈالا جائے گا تو آگ میں اس کی انتڑیاں باہر آ جائیں گی پھر وہ اس طرح گھومے گا جیسے گدھا چکی پر گھومتا ہے۔ جہنمی اس کے پاس اکٹھے ہو کر پوچھیں گے:​
اے فلاں!تجھے کیا ہوا ہے؟ وہ کہے گا: میں نیکی کا حکم دیتا تھا اور خود اس پر عمل نہیں کرتا تھا، میں تمھیں برائی سے منع کرتا تھا اور خود برائی کرتا تھا۔ [صحیح بخاری: ۳۲۶۷، صحیح مسلم: ۲۹۸۹]​
۲:توحید و سنت کی دعوت اور معاشرے کی اصلاح میں حکمت کا پہلو چھوٹنے نہ پائے ایسے ہی شرک و بدعت اور سیئات و منکرات کا احسن طریقے سے مدلل رد کرنا چاہیئے۔

۳: خطبے میں قرآن مجید کی آیات سے استدلال فہم سلف صالحین کی روشنی میں کیا جائے اور صرف صحیح احادیث، صحیح آثار اور صحیح تاریخی واقعات با حوالہ پیش کرنے چاہیئں۔ ضعیف و موضوع روایات اور بے سند و بے اصل واقعات بیان کرنے سے مکمل اجتناب کرنا چاہیئے۔ موضوع حدیث کو رد اور انکار کے بغیر بیان کرنا جائز نہیں ہے۔ [دیکھئے مقدمہ ابن الصلاح ص ۱۳۳۱]
منکر، شاذ اور بے اصل روایات کا بھی یہی حکم ہے۔ ضعیف و غیر ثابت روایات کے بارے میں راجح یہی ہے کہ انہیں بصیغہ جزم بیان کرنا جائز نہیں ہے۔ دیکھئے قواعد التحدیث للقاسمی ص ۱۱۳، ماہنامہ الحدیث: ۴ص۷
بعض لوگ موضوع و من گھڑت روایت یا قصہ متاثر کن انداز میں اور بڑے ترنم سے سامعین کو سنا کر محظوظ کرتے ہیں اور اخر میں کہہ دیتے ہیں کہ یہ موضوع ہے یہ طریقہ انتہائی غلط ہے۔ اگر ضعیف و موضوع روایت بتانا مقصود ہو تو سادہ انداز میں اس کی وضاحت کی جائے اور اس کا رد کیا جائے۔

۴: بعض حضرات تقریر کے دوران میں خوب ہاتھوں کو لہراتے ہیں اور کبھی دونوں ہاتھوں کو اکٹھا بہت زیادہ بلند کر دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ درست نہیں ہے۔
سیدنا عمارہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ صرف سبابہ انگلی سے اشارہ فرماتے تھے ۔[صحیح مسلم: ۸۷۴، سنن ابی داود: ۱۱۰۴]

۵: ایسے اندازِ بیاں اور لمبی تقریروں سے اجتناب کرنا چاہیئے جو کہ فائدے کے بجائے تکلیف دہ ثابت ہوں۔ رسول اللہ ﷺ لوگوں کی اکتاہٹ کا خاص خیال رکھا کرتے تھے۔[دیکھئے صحیح بخاری: ۶۸، صحیح مسلم: ۲۸۲۱]

سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ ؓ نے میرے والد عمر ؓ کو ایک قصہ گو (خطیب کے بارے میں پیغام بھیجا جو حجرے کے دروازے کے قریب بیٹھتا (اور وعظ کرتا) تھا کہ ‘‘اس نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے حتیٰ کہ میں (گھر آنے والوں کی ) باتیں بھی نہیں سن سکتی'' آپ ؓ نے پیغام بھیج کر اس قصہ گو کو منع کیا۔ پھر (ایک دن) اُس نے دوبارہ یہی حرکت کی تو میرے والد عمر ؓ لاٹھی لے کر کھڑے ہو گئے اور اسے مار مار کر اس کے سر پر لاٹھی توڑ دی۔[تاریخ المدینہ المنورۃ العمر بن شبہ ۱؍۱۵۱و سندہ صحیح]

۶: فضول اشعار اور پر تکلف ترنم سے احتراز کرنا چاہیئے البتہ خوش الحانی سے قرآن مجید پڑھنا جائز و مستحسن ہے۔

۷: وعظ با مقصد و مفید ہونا چاہیئے، حتی الوسع رطب و یابس سے پرہیز کیا جائے اور ہر بات با حوالہ پیش کی جائے۔ ایک دفعہ بشیر بن کعب العدوی رحمہ اللہ حدیثیں بیان کر رہے تھے کہ ‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ؍رسول اللہ ﷺ نے فرمایا'' تو ابن عباس ؓ نے ان (مرسل) بے سند روایات کی طرف ذرا برابر توجہ نہ فرمائی۔[مقدمہ صحیح مسلم، ترقیم دارالسلام:۲۱]

۸: تکبر سے ہر طرح سے بچنا چاہیئے، یہ علم و عمل کا دشمن ہے۔ عجز و انکسار اپنانا چاہیئے یہ علم و عمل کی ایک راہ ہے اور یہی اہل علم کا شیوہ ہے۔

۹: اہل سنت (اہلِ حدیث) کے منہج کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں اور علمائے حق سے رابطہ رکھتے ہوئے کتاب و سنت کی دعوت میں مشغول رہیں۔ حزبیت و پارٹی بازی کی وجہ سے پیدا ہونے والے انتشار، حسن، بغض اور کینہ کو مٹانے کے لئے سر توڑ کوششیں کریں، تمام صحیح العقیدہ بھائیوں کو ایک جماعت بنائیں۔ خارجیوں اور تکفیریوں کی راہ سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں، کبھی اپنے صحیح العقیدہ بھائیوں کی توہین نہ کریں۔

۱۰: جب بندہ اللہ کے لئے مخلص ہو جاتا ہے تو اللہ اپنے بندے کے لئے آسانیاں پیدا فرماتا ہے اور راستوں کو ہموار کر دیتا ہے لہٰذا ہمیشہ دنیاوی مفاد کے بجائے اُخروی فائدے کو ترجیح دی جائے اور ہر طرح کی حرص اور لالچ کو اسلام کی سربلندی کے لئے خاص کر دیا جائے۔​
 
Last edited by a moderator:

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562

تبلیغِ دین ، دعوتِ حق اور اس کی ترویج
تبلیغِ دین ، دعوتِ حق اور اس کی ترویج عظیم فریضہ ہے جسے اہل علم اور اہل فکر و دانش اپنی بساط کے مطابق ادا کر رہے ہیں۔ چونکہ تحریر کی بہ نسبت تقریر کا براہ راست عوام کے ساتھ زیادہ تعلق ہوتا ہے جس میں اندازِ بیاں کے ساتھ مقرر و داعی کا اخلاق و کردار بھی گہرے نقوش چھوڑتا ہے لہٰذا اپنے اُن بھائیوں کے لئے جو اس میدان کے شہسوار ہیں (اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلاَحَ) کے تحت چند کلمات بطورِ نصیحت لکھنے کی سعی کر رہا ہوں۔
ویسے تو رسول اللہ ﷺ کا فرمان : (بلّغو اعنی ولو آیۃ) مجھ سے (سن کر آگے) پہنچا دو اگرچہ ایک آیت ہی ہو۔ [صحیح بخاری: ۳۴۶۱] بھی اس بات کا متقاضی ہے کہ ہر طرح سے دعوت ِ دین عام کی جائے۔
۱:خطیب و داعی کے لئے ضروری ہے کہ لوگوں کو دعوت دینے کے ساتھ خود بھی قرآن و سنت پر عمل پیرا ہو اور تمام غیر شرعی امور سے کلی طور پر اجتناب کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے معراج والی رات کچھ لوگوں کو دیکھا جن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے۔ میں نے جبریل ؑ سے پوچھا : یہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ آپ کی اُمت کے خطیب (خطباء) ہیں، یہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے تھے اور (نیکی پر عمل کرنے سے ) اپنے آپ کو بھُلا دیتے تھے حالانکہ یہ کتاب بھی پڑھتے تھے۔ کیا یہ عقل نہیں رکھتے تھے؟[صحیح ابن حبان، الاحسان:۵۳ و سندہ حسن لذاتہ ، المختارۃ للضیاء المقدسی ۷؍۲۰۷ح ۲۶۴۶]
ایسے خطیب و داعی جو لوگوں کو برائی سے روکتے ہیں اور خود برائی کا ارتکاب کرتے ہیں، کے بارے میں نبی ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن ایک آدمی لایا جائے گا پھر اسے (جہنم کی) آگ میں ڈالا جائے گا تو آگ میں اس کی انتڑیاں باہر آ جائیں گی پھر وہ اس طرح گھومے گا جیسے گدھا چکی پر گھومتا ہے۔ جہنمی اس کے پاس اکٹھے ہو کر پوچھیں گے:
اے فلاں!تجھے کیا ہوا ہے؟ وہ کہے گا: میں نیکی کا حکم دیتا تھا اور خود اس پر عمل نہیں کرتا تھا، میں تمھیں برائی سے منع کرتا تھا اور خود برائی کرتا تھا۔ [صحیح بخاری: ۳۲۶۷، صحیح مسلم: ۲۹۸۹]
۲:توحید و سنت کی دعوت اور معاشرے کی اصلاح میں حکمت کا پہلو چھوٹنے نہ پائے ایسے ہی شرک و بدعت اور سیئات و منکرات کا احسن طریقے سے مدلل رد کرنا چاہیئے۔

۳: خطبے میں قرآن مجید کی آیات سے استدلال فہم سلف صالحین کی روشنی میں کیا جائے اور صرف صحیح احادیث، صحیح آثار اور صحیح تاریخی واقعات با حوالہ پیش کرنے چاہیئں۔ ضعیف و موضوع روایات اور بے سند و بے اصل واقعات بیان کرنے سے مکمل اجتناب کرنا چاہیئے۔ موضوع حدیث کو رد اور انکار کے بغیر بیان کرنا جائز نہیں ہے۔ [دیکھئے مقدمہ ابن الصلاح ص ۱۳۳۱]
منکر، شاذ اور بے اصل روایات کا بھی یہی حکم ہے۔ ضعیف و غیر ثابت روایات کے بارے میں راجح یہی ہے کہ انہیں بصیغہ جزم بیان کرنا جائز نہیں ہے۔ دیکھئے قواعد التحدیث للقاسمی ص ۱۱۳، ماہنامہ الحدیث: ۴ص۷
بعض لوگ موضوع و من گھڑت روایت یا قصہ متاثر کن انداز میں اور بڑے ترنم سے سامعین کو سنا کر محظوظ کرتے ہیں اور اخر میں کہہ دیتے ہیں کہ یہ موضوع ہے یہ طریقہ انتہائی غلط ہے۔ اگر ضعیف و موضوع روایت بتانا مقصود ہو تو سادہ انداز میں اس کی وضاحت کی جائے اور اس کا رد کیا جائے۔

۴: بعض حضرات تقریر کے دوران میں خوب ہاتھوں کو لہراتے ہیں اور کبھی دونوں ہاتھوں کو اکٹھا بہت زیادہ بلند کر دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ درست نہیں ہے۔
سیدنا عمارہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ صرف سبابہ انگلی سے اشارہ فرماتے تھے ۔[صحیح مسلم: ۸۷۴، سنن ابی داود: ۱۱۰۴]

۵: ایسے اندازِ بیاں اور لمبی تقریروں سے اجتناب کرنا چاہیئے جو کہ فائدے کے بجائے تکلیف دہ ثابت ہوں۔ رسول اللہ ﷺ لوگوں کی اکتاہٹ کا خاص خیال رکھا کرتے تھے۔[دیکھئے صحیح بخاری: ۶۸، صحیح مسلم: ۲۸۲۱]

سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ ؓ نے میرے والد عمر ؓ کو ایک قصہ گو (خطیب کے بارے میں پیغام بھیجا جو حجرے کے دروازے کے قریب بیٹھتا (اور وعظ کرتا) تھا کہ ‘‘اس نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے حتیٰ کہ میں (گھر آنے والوں کی ) باتیں بھی نہیں سن سکتی'' آپ ؓ نے پیغام بھیج کر اس قصہ گو کو منع کیا۔ پھر (ایک دن) اُس نے دوبارہ یہی حرکت کی تو میرے والد عمر ؓ لاٹھی لے کر کھڑے ہو گئے اور اسے مار مار کر اس کے سر پر لاٹھی توڑ دی۔[تاریخ المدینہ المنورۃ العمر بن شبہ ۱؍۱۵۱و سندہ صحیح]

۶: فضول اشعار اور پر تکلف ترنم سے احتراز کرنا چاہیئے البتہ خوش الحانی سے قرآن مجید پڑھنا جائز و مستحسن ہے۔

۷: وعظ با مقصد و مفید ہونا چاہیئے، حتی الوسع رطب و یابس سے پرہیز کیا جائے اور ہر بات با حوالہ پیش کی جائے۔ ایک دفعہ بشیر بن کعب العدوی رحمہ اللہ حدیثیں بیان کر رہے تھے کہ ‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ؍رسول اللہ ﷺ نے فرمایا'' تو ابن عباس ؓ نے ان (مرسل) بے سند روایات کی طرف ذرا برابر توجہ نہ فرمائی۔[مقدمہ صحیح مسلم، ترقیم دارالسلام:۲۱]

۸: تکبر سے ہر طرح سے بچنا چاہیئے، یہ علم و عمل کا دشمن ہے۔ عجز و انکسار اپنانا چاہیئے یہ علم و عمل کی ایک راہ ہے اور یہی اہل علم کا شیوہ ہے۔

۹: اہل سنت (اہلِ حدیث) کے منہج کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں اور علمائے حق سے رابطہ رکھتے ہوئے کتاب و سنت کی دعوت میں مشغول رہیں۔ حزبیت و پارٹی بازی کی وجہ سے پیدا ہونے والے انتشار، حسن، بغض اور کینہ کو مٹانے کے لئے سر توڑ کوششیں کریں، تمام صحیح العقیدہ بھائیوں کو ایک جماعت بنائیں۔ خارجیوں اور تکفیریوں کی راہ سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں، کبھی اپنے صحیح العقیدہ بھائیوں کی توہین نہ کریں۔

۱۰: جب بندہ اللہ کے لئے مخلص ہو جاتا ہے تو اللہ اپنے بندے کے لئے آسانیاں پیدا فرماتا ہے اور راستوں کو ہموار کر دیتا ہے لہٰذا ہمیشہ دنیاوی مفاد کے بجائے اُخروی فائدے کو ترجیح دی جائے اور ہر طرح کی حرص اور لالچ کو اسلام کی سربلندی کے لئے خاص کر دیا جائے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
بہت اچھی تحریر ہے ، اگر لکھاری کا نام بھی ساتھ دے دیا جاتا تو بہت اچھا ہوتا ،
بہرحال رائیٹر ، اور ناقل دونوں ہی تعریف کے مستحق ہیں ،
اور محترم یوسف ثانی صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے اسے پڑھنے کے قابل خط میں پیش کیا ،
فجزاکم اللہ تعالی احسن الجزاء
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
بہت اچھی تحریر ہے ، اگر لکھاری کا نام بھی ساتھ دے دیا جاتا تو بہت اچھا ہوتا

خطباء کی خدمت میں۔۔۔

تحریر:حافظ ندیم ظہیر

تبلیغِ دین ، دعوتِ حق اور اس کی ترویج عظیم فریضہ ہے جسے اہل علم اور اہل فکر و دانش اپنی بساط کے مطابق ادا کر رہے ہیں۔ چونکہ تحریر کی بہ نسبت تقریر کا براہ راست عوام کے ساتھ زیادہ تعلق ہوتا ہے جس میں اندازِ بیاں کے ساتھ مقرر و داعی کا اخلاق و کردار بھی گہرے نقوش چھوڑتا ہے لہٰذا اپنے اُن بھائیوں کے لئے جو اس میدان کے شہسوار ہیں (اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلاَحَ) کے تحت چند کلمات بطورِ نصیحت لکھنے کی سعی کر رہا ہوں۔

ویسے تو رسول اللہ ﷺ کا فرمان : (بلّغو اعنی ولو آیۃ) مجھ سے (سن کر آگے) پہنچا دو اگرچہ ایک آیت ہی ہو۔ [صحیح بخاری: ۳۴۶۱] بھی اس بات کا متقاضی ہے کہ ہر طرح سے دعوت ِ دین عام کی جائے۔

ح
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
خطباء کی خدمت میں۔۔۔
تحریر:حافظ ندیم ظہیر
حوالہ فراہم کرنے کیلئے بہت شکریہ
تحریر دیکھ کر شیخ مکرم حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے منہج کی خوشبو کا احساس ہوا تھا ،
اسی لئے عرض کی تھی کہ لکھاری کا نام بتایا جائے ،
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

حوالہ فراہم کرنے کیلئے بہت شکریہ
تحریر دیکھ کر شیخ مکرم حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے منہج کی خوشبو کا احساس ہوا تھا ،
اسی لئے عرض کی تھی کہ لکھاری کا نام بتایا جائے ،
آپکی ذہانت پر ماشا اللہ، کوئی نہ کوئی تعلق تو ہے، البتہ ان کا شمار بھی مشائخ کرام میں ہوتا ہے۔

HAFIZ.png
والسلام
 
Top