کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
خطے میں "را" اور "داعش" کے مشترکہ قدموں کے نشان
کالم: خالد بیگاتوار 4 اکتوبر 2015م
یہ کوئی معمولی یا عام سی خبر نہیں کہ بھارت میں ایک ہندو لڑکی شام جا کر داعش میں شمولیت کی منصوبہ بندی کر رہی ہو۔ اسکے ارادے حادثی طور پر اس وقت منظر عام پر آئے جب لڑکی کے والد ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل نے اپنی بیٹی کی ای میلز پڑھ لیں۔ لڑکی بے دھیانی میں لیپ ٹاپ پر اپنا ای میل اکاؤنٹ کھلا چھوڑ کر گھر سے باہر چلی گئی تھی۔ اسکے والد ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل کو اپنی بیٹی کے اطوار میں آنیوالی تبدیلیوں نے مجبور کیا کہ وہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بیٹی کی ای میلز کا جائزہ لے تاہم بیٹی کے ارادے جان کر اسکے ہوش اڑ گئے۔ اس نے فوری طور پر دہلی میں ”نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی“ (این آئی اے) سے رابطہ کیا جنہوں نے فوری طور پر لڑکی کو تحویل میں لے کر دوستانہ ماحول میں اس سے تفتیش کی بعد ازاں آبی بی بھی اس تفتیش میں شامل ہوگئی تو سب کےلئے حیران کن بات یہ تھی کہ راز فاش ہو جانے کے باوجود لڑکی داعش میں شمولیت کے لئے بضد رہی۔
اب بھارت سرکار کوشش کر رہی ہے کہ وہ پریمیئر دہلی یونیورسٹی کالج کی سابقہ طالبہ کے بھارت سے باہر روابط ظاہر کر کے داعش سے اپنے خفیہ اداروں کے تعلق پر چھڑنے والی بحث سے جان چھڑائے جس کے لئے اس لڑکی کے مزید تعلیم کے لئے آسٹریلیا میں گزارے ہوئے تین برسوں کے دوران اسکے داعش کی طرف مائل ہونے کے مفروضے پر تحقیقات کو آگے بڑھانے کی بات کی جانے لگی ہے ممکن ہے بھارتی حکومت اپنے مقصد میں کامیاب رہتی لیکن گزشتہ ماہ 20 ستمبر کو منظر عام پر آنیوالے اس قصے سے صرف ایک ہفتہ قبل متحدہ عرب امارات کی حکومت نے چار بھارتی باشندوں کو سوشل میڈیا پر لوگوں کو داعش میں شمولیت کی ترغیب دینے کا الزام لگا کر ملک بدر کر دیا۔ ان چاروں نوجوانوں کو بھارتی صوبہ کیرلہ کے صوبائی دارالحکومت تھرونن تھاپرم اور دوسرے شہر کوزیکوو کے ہوائی اڈوں سے گرفتار کر لیا گیا تھا یہ چاروں اب ”این آئی اے“ ”امیگریشن ڈیپارٹمنٹ“ ”را“ ’پولیس کی سپیشل برانچ“ اور ”آئی بی“ کی مشترکہ تحویل میں ہیں۔
جس کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بھارت کے تمام تحقیقی ادارے دہلی سے تعلق رکھنے والی ہندو لڑکی کا وقوعہ سامنے آنے تک میڈیا کے سامنے اس مسئلے پر لب کشائی سے گریز کرتے رہے وہ سب یک زبان ہو کر ایک ہی راگ الاپے جا رہے تھے کہ ”کیس بہت پیچیدہ ہے‘ نتائج سامنے آنے میں وقت لگے گا“ حالانکہ داعش کی حمایت کے الزام میں پکڑے جانے والے بھارتی باشندے پیشہ ور مجرم نہیں تھے جن سے حقائق اگلوانے میں تفتیشی اداروں کو مشکل پیش آتی ۔ یہاں مسئلہ ”را“ کے اپنے کردار کا تھا جس نے متحدہ عرب امارات کو بھارت سے باہر اپنی سرگرمیوں کے لئے عرصہ دراز سے اپنا گڑھ بنا رکھا ہے حال ہی میں کراچی میں گرفتار ہونیوالے ”ٹارگٹ کلرز“ اپنے ”را“ سے تعلق کے علاوہ تسلیم کر چکے ہیں کہ انہیں تخریب کاری و دہشتگردی کی تربیت کے لئے براستہ دبئی بھارت منتقل کیا گیا تو دوسری طرف افغانستان میں داعش اور ”را“ کا گٹھ جوڑ بھی عالمی میڈیا کا موضوع بنا ہوا ہے۔
بھارتی فوج کے ریٹائرڈ افسر کی بیٹی سے متعلق بھارتی حکومت تو تاثر دے رہی ہے کہ اسے آسٹریلیا میں دوران تعلیم داعش سے رومانس کے لئے مجبور کیا گیا تاہم بھارتی میڈیا حکومتی اداروں کاموقف تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ یہاں گزشتہ ماہ ستمبر ہی کے پہلے ہفتے میں داعش سے تعلق کے الزام میں اپنے شوہر سمیت دہلی سے نکالے جانیوالی 37 سالہ افشاں جبیں کا ذکر بھی ضروری ہے جس سے متعلق دہلی کی پولیس کو شک گزرا کہ اس کا نوجوانوں کی داعش میں شمولیت یا ریکروٹمنٹ کے حوالے سے کوئی نہ کوئی کردار ضرور ہے۔ یہاں قارئین کےلئے یہ امر بھی دلچسپی کا حامل ہو گا کہ افشاں جبیں کا بچپن دبئی میں گزرا۔ میٹرک کی سطح تک وہیں تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ بھارت میں اپنے آبائی شہر حیدر آباد واپس آ گئی جہاں اس نے شدن کالج سے بی اے کیا اور حیدر آباد دکن ہی کے رہائشی ہندو دیوندر کمار سے شادی کر لی جس نے مصطفی کا قلمی نام اختیار کر رکھا تھا۔
شادی کے بعد عشرت جبیں اپنے ہندو شوہر کے ہمراہ واپس دبئی منتقل ہو گئی لیکن افشاں جبیں کا نام بھارت میں پولیس کے سامنے دبئی میں قیام پذیر برطانوی شہری ”نکی جوزف“ کے طور پر اس وقت سامنے آیا جب جنوری 2015ء میں حیدر آباد کے ہوائی اڈے سے سلمان محی الدین نامی بھارتی شہری کو گرفتار کیا گیا جو براستہ دہلی ترکی سے شام جا رہا تھا گرفتاری کے بعد تفتیش کے دوران سلمان محی الدین نے انکشاف کیا کہ اسے فیس بک پر دوستی کے بعد نکی جوزف نے داعش میں شمولیت پر مائل کیا۔ سلمان ہی نے حیدر آباد کی پولیس کو بتایا کہ نکی جوزف اور خود اس نے فیس بک پر مختلف ناموں سے بنائے گئے بے شمار جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے بھارتی صوبوں آندھرا پردیس‘ بہار‘ مہاراشڑ‘ تلنگانہ کے علاوہ دیگر بہت سے علاقوں کے ان گنت نوجوانوں کو داعش میں شمولیت کے بعد شام روانگی کے لئے تیار کیا۔
بھارتی خفیہ ادارے دعویٰ کرتے ہیں کہ سلمان محی الدین کے انکشافات کی روشنی میں وہ دبئی میں افشاں جبیں تک پہنچے اور انہیں کی اطلاعات پر متحدہ عرب امارات کی حکومت نے افشاں جبیں کو ملک بدر کیا اگر بھارتیوں کے بھی شامل تھیں تو بھارت سرکار کے پاس ایسی کون سی گیڈر سنگی تھی جس کی وجہ سے داعش کا موقف کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ داعش سے خائف متحدہ عرب امارات کی حکومت اپنی ریاستوں میں سکیورٹی کے حوالے سے سخت ترین قوانین و رویہ رکھنے کے باوجود اپنے دائرہ اختیار میں قیام پذیر غیر ملکی افراد کے داعش سے تعلق کا علم ہونے پر انہیں ملک بدر کرنے پر تیار ہو جائے اور خود ان سے تفتیش نہ کرے؟ اور اس تعلق کی بنا پر دبئی سے نکالے جانے والوں کا تعلق بھارت سے ہی کیوں ثابت ہو رہا ہے؟ اسی طرح کے سوالات ہیں جن کی بنا پر یہاں اہم سوال یہ ہے کہ عالمی میڈیا میں بحث جاری ہے کہ جون 2014ء میں جب عراقی شہر موصل میں داعش نے وہاں مختلف ممالک سے آئی ہوئی نرسوں کو یرغمال بنا لیا جن میں 40 بھارتی نرسیں تھیں، صرف بھارت سے تعلق رکھنے والی نرسوں کو چھوڑنے پر راضی ہو گئے؟
ح
کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔