کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
خفیہ فنڈز سے ہاتھ دھونے والے صحافیوں کی فہرست جاری
[SUP]دی نیوز ٹرائب 22 اپریل 2013 :Faisal Zafar [/SUP]
اسلام آباد : پاکستان میں حکومتی فنڈز کی بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے والے صحافیوں کی فہرست منظر عام پر آگئی۔
میڈیا کمیشن کیس پر وزارت اطلاعات و نشریات کے خفیہ فنڈز سے مستفید ہونے والے صحافیوں کے ناموں پر مشتمل فہرست سپریم کورٹ کی ہدایت پر جاری کی گئی ہے۔
سپریم کورٹ کے احکامات پر عدالت عظمیٰ کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والی رپورٹ میں متعدد معروف صحافیوں کے نام سامنے آئے ہیں۔
ان میں معروف خاتون اینکر جیسمین منظور، موجودہ نگران وزیر اطلاعات عارف نظامی، انگریزی روزنامہ دی نیوز کے رپورٹر صالح ظفر، اینکر منیزے جہانگیر، تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی، عاصمہ چوہدری، شیربانو تاثیر، رضا رومی، سینئر صحافی اور معروف اینکرپرسن حامد میر کے بھائی عامر میر، سہیل وڑائچ، نذیر ناجی اور باقر سجاد سید ، پی ایف یو جے کے صدر پرویز شوکت سمیت بہت سے نام اس فہرست میں شامل ہیں۔
یاد رہے کہ اصول و ضوابط کے مطابق وزارت اطلاعات و نشریات کا خفیہ فنڈ صرف قومی مفاد یا سیکورٹی سے متعلق حساس معلومات کے حصول یا اس کے تحفظ پر ہی خرچ کی جاسکتی ہے۔
اس فنڈز کو دیگر مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا، جب اخراجات کی تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ صحافیوں کو اس سے ہوٹلوں میں ٹھہرایا گیا، بیرون ملک لے جایا گیا یا ان کی مدد کرنا وغیرہ درج کیا گیا ہے۔
فہرست میں ایک دلچسپ چیز یہ سامنے آئی کہ خفیہ فنڈز سے ایک کتاب مفاہمت شائع کرنے والے پبلشر کو 7 لاکھ روپے ادا کیے گئے، جب کہ سیلاب زدہ علاقوں میں میڈیا کو پہنچانے کے لیے 10 لاکھ روپے، یہاں تک کہ سیلاب زدگان کی مدد کے لیے بھی صحافیوں کو 3 لاکھ 20 ہزار روپے ادا کیے گئے۔
اسی طرح 30 ستمبر 2011ء کو سی این بی سی چینیل کو ایک شو پاکستان دس ویک کے لیے ایک یا دو نہیں بلکہ 35 لاکھ روپے ادا کردیے گئے۔
فہرست میں وزیراعظم کے افطار ڈنر کے لیے بھی صحافیوں کو خفیہ فنڈز سے رقوم لینے کا انکشاف ہوا ہے جب کہ قائداعظم کے یوم پیدائش کی سرگرمیوں کے لیے بھی لاکھوں روپے خفیہ فنڈز سے اڑا دیے گئے۔
سب سے ہوشربا انکشاف یہ ہوا ہے کہ بے نظیر بھٹو کے گیت کے لیے میڈیا مہم پر فنڈز سے 3 کروڑ 70 لاکھ روپے لیے گئے جب کہ وزیراعظم کے ساتھ سفر کے لیے متعدد صحافیوں پر کروڑوں روپے خرچ کیے گئے۔
مجموعی طور پر اس خفیہ فنڈز سے خصوصی پبلسٹی فنڈ اور مختلف تحقیقی رپورٹس کے لیے 17 کروڑ 79 لاکھ 88 ہزار 450 روپے خرچ کیے گئے۔
سپریم کورٹ کی جاری کردہ دستاویز کے لیے اس لنک پر کلک کریں
قبل ازیں سماعت کے دوران ڈائریکٹر وزارت اطلاعات طاہر حسن نے عدالت کو بتایا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں طالبان کے خلاف آرٹیکل لکھوائے اس کے علاوہ ایبٹ آباد آپریشن پر بھی مختلف آرٹیکل لکھوائے گئے تھے جن کے لیے پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں، جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے استفسار کیا کہ ایسا کیوں کیا جاتا ہے تو انہوں نے کہا کہ ہمارے مخالفین بھی ایسا ہی کرتے ہیں، جسٹس جواد ایس خواجہ نے پوچھا کہ اگردشمن لاقانونیت کرتا ہے تو کیا ہمیں بھی ایسا کرنا چاہیے، کیا ان آرٹیکلز پر نام نہیں ہوتے؟ تو ڈائریکٹر وزارت اطلاعات نے بتایا کہ یہ آرٹیکل جعلی نام سے لکھوائے جاتے ہیں۔
سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ عوام کی جیب سے نکالے گئے پیسے کا پتا ہونا چاہیے کہ کہاں خرچ ہوا، بتایا جائے کہ یہ رقم کہاں خرچ کی گئی۔
وزارت اطلاعات کے وکیل راجا عامر نے کہا کہ آئی ایس پی آر اور آئی ایس آئی کی ہدایات پررقوم جاری کی جاتی ہیں اس لیے فہرست بھی فریڈم آف انفارمیشن آرڈیننس 2001 کے سیکشن 8 کے تحت خفیہ رکھی جائے۔ جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ سیکشن خود آئین سے متصادم ہے۔