محمد اجمل خان
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 25، 2014
- پیغامات
- 350
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 85
خلافت تو اللہ کا عطیہ ہوتا ہے۔
جب اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کے حامل کوئی امت وجود میں آتی ہے تو اللہ اپنی رحمت سے انہیں خلافت عطا کرتا ہے۔
قرآن اور تاریخ سے یہی ثابت ہے کہ انبیاء علیہم السلاۃ و السلام کی ساری کی ساری جدو جہد بندوں میں اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کےپیدا کرنا ہوتا تھا۔
پھر جب اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کے حامل بندوں سے ایک امت بن جاتی تو اللہ اپنی رحمت سے انہیں خلافت عطا کرتا۔ یہاں ایک بات اور نوٹ کرلیں کہ یہ اوصافِ حمیدہ صرف ایک خلیفہ کے اندر ہی نہیں بلکہ امت کی اکثریت میں ہونی چاہئے کیونکہ حکومت صرف ایک فرد سے نہیں چلتی۔
اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار میں کمی آتے ہی خلافت چھین لی جاتی۔
قومِ نوحؑ ( جو کشتی میں سوار ہوئے تھے)‘ قوم عاد‘ قوم ثمود میں انبیاء علیہم السلاۃ و السلام کی محنت کے نتیجے میں جب اللہ کو مطلوب مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کے حامل بندوں سے امتیں بنی تو اللہ نے ان میں سے ہر امت کو خلافت عطا کیا اور ایمان‘ اعتقاد اور کردار میں بگاڑ پیدا ہوتے ہی خلافت چھین لی گئی۔
...وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِن بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ ....... سورة الأعراف-69
’’ اور (اے قوم عاد) یاد کرو جب اس نے تمہیں قوم نوح کے بعد خلیفہ بنایا۔‘‘
وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِن بَعْدِ عَادٍ...... سورة الأعراف-74
اور (اے قوم ثمود) یاد کرو جبکہ اس نے تمہیں عاد کے بعد خلیفہ بنایا۔
أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ﴿٦﴾
تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے کیا برتاؤ کیا
بنی اسرائیل میں حضرت داؤد علیہ السلاۃ و السلام کو اللہ نے خلافت سے نوازا اور یہ خلافت حضرت سلیمان علیہ السلاۃ و السلام تک قائم رہا۔
جیسا کہ قرآن میں ہے:
يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ ۔۔۔﴿٢٦﴾سورة ص
’’ اے داؤد(ع)! ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ مقرر کیا ہے ۔۔۔‘‘
وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ ۖ ۔۔۔۔سورة النمل
’’ اور داؤدؑ کا وارث سلیمانؑ ہوا۔۔۔‘‘
لیکن حضرت سلیمان کے بعد یہودیوں میں اسی طرح فساد برپا ہوا جس طرح امتِ مسلمہ میں حضرت عثمان غنی اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کے ادوار میں فساد شروع ہوا تھا اور بالکل ایک جیسے وجوہات کے بنا پر یہودیوں سے اور مسلمانوں سے خلافت رخصت ہوئی۔
نصرانیوں میں نظام خلافت کی کوئی تاریخ نہیں ملتی۔
حضرت سلیمان علیہ السلاۃ و السلام کے بعد جب ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و اٰلیہ و سلم نے اپنی انتھک محنت سے اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کے حامل افراد سے اس امتِ مسلمہ کو وجود میں لایا تو اللہ نے اپنے وعدے کے مطابق اس امت کو خلافت عطا کیا‘ (اللہ کے وعدے کا ذکر میرے اصل مضمون میں ہے)۔
پھر جب قتلِ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے امت میں فساد پیدا ہوا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں شرک اور فرقہ پرستی وجود میں آیا‘ تو اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار میں کمی ہونا شروع ہوئی اورامت سے خلافت رخصت ہوئی۔ یہی اللہ کی سنت ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔
وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّـهِ تَبْدِيلًا ﴿٢٣﴾ سورة الفتح
رسولِ کریم ﷺ نے بھی اپنے بعد صرف تیس سال تک امت میں خلافت رہنے کی پیشن گوئی کی تھی:
"نبوت والی خلافت تیس سال رہے گی پھر جسے اللہ چاہے گا (اپنی) حکومت دے گا۔ سعید رحمة اللہ علیہ نے کہا: سفینہ رضی اللہ عنہ نے مجھے کہا: شمار کرو، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دو سال اور عمر رضی اللہ عنہ کے دس سال اور عثمان رضی اللہ عنہ کے بارہ سال اور علی رضی اللہ عنہ کے اتنے (یعنی چھ سال)"
http://magazine.mohaddis.com/shumara/249-nov-1995/2745-khilafat-rashda-tees-sal-hadees-tehqiq
نبی کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق ٹھیک تیس سال تک خلافت رہی اور اب تک دوبارہ بحال نہیں ہوئی۔ بے شمار لوگوں نے کوششیں کی‘ بے شمار لوگوں نےجہاد کئے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا لیکن آج تک خلافت نہ آنی تھی نہ آئی۔۔۔
وجہ کیا ہے‘ وجہ بس ایک ہی ہے کہ تیس سال کے بعد آج تک امت ’’ اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار ‘‘ کی حامل نہیں بنی۔
امت میں جو لوگ نظامِ خلافت کیلئے کوشاں ہیں‘ انہیں صرف اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کی حامل امت کی تشکیلِ نو کی کوششیں کرنی چاہئے جس کے بغیر صرف نعروں سے‘ یا جہاد سے یا خروج سے نظامِ خلافت نہیں آئے گی۔
اوپر میں نے ذکر کیا ہے کہ نصرانیوں میں نظام خلافت کی کوئی تاریخ نہیں ملتی اور نہ ہی قرآن میں ایسا کچھ آیا ہے جبکہ ہر رسول کے دور میں نبوت والی خلافت قائم ہونی لازمی ہے اور ان شاء اللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی یہ صرف حاصل ہوگا۔
جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ اس امت میں نزول فرمائیںگے‘ شرک و بدعات کا خاتمہ کریں گے‘ سارے فرقے ختم ہونگے‘ اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کی حامل ایک امت بنائیں گے‘اور نبوت والی خلافت قائم کریں گے۔
ہم اپنے اندر اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار پیدا کریں تاکہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہمارے وقت میں ہو تو ہم ان کا ساتھ دینے والے ہوں ورنہ ہم ان اوصاف کو اپنے آئندہ آنے والے نسلوں میں منتقل کرتے رہیں کہ جب بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہو اور انہیں امت کی ایسے افراد مل جائیں جو دنیا سے یہودیوں کو ختم کرکے خلافت قائم کرنے میں ان کی مدد کریں۔ (واللہ تعالیٰ اعلم)
جب اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کے حامل کوئی امت وجود میں آتی ہے تو اللہ اپنی رحمت سے انہیں خلافت عطا کرتا ہے۔
قرآن اور تاریخ سے یہی ثابت ہے کہ انبیاء علیہم السلاۃ و السلام کی ساری کی ساری جدو جہد بندوں میں اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کےپیدا کرنا ہوتا تھا۔
پھر جب اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کے حامل بندوں سے ایک امت بن جاتی تو اللہ اپنی رحمت سے انہیں خلافت عطا کرتا۔ یہاں ایک بات اور نوٹ کرلیں کہ یہ اوصافِ حمیدہ صرف ایک خلیفہ کے اندر ہی نہیں بلکہ امت کی اکثریت میں ہونی چاہئے کیونکہ حکومت صرف ایک فرد سے نہیں چلتی۔
اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار میں کمی آتے ہی خلافت چھین لی جاتی۔
قومِ نوحؑ ( جو کشتی میں سوار ہوئے تھے)‘ قوم عاد‘ قوم ثمود میں انبیاء علیہم السلاۃ و السلام کی محنت کے نتیجے میں جب اللہ کو مطلوب مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کے حامل بندوں سے امتیں بنی تو اللہ نے ان میں سے ہر امت کو خلافت عطا کیا اور ایمان‘ اعتقاد اور کردار میں بگاڑ پیدا ہوتے ہی خلافت چھین لی گئی۔
...وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِن بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ ....... سورة الأعراف-69
’’ اور (اے قوم عاد) یاد کرو جب اس نے تمہیں قوم نوح کے بعد خلیفہ بنایا۔‘‘
وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِن بَعْدِ عَادٍ...... سورة الأعراف-74
اور (اے قوم ثمود) یاد کرو جبکہ اس نے تمہیں عاد کے بعد خلیفہ بنایا۔
أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ﴿٦﴾
تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے کیا برتاؤ کیا
بنی اسرائیل میں حضرت داؤد علیہ السلاۃ و السلام کو اللہ نے خلافت سے نوازا اور یہ خلافت حضرت سلیمان علیہ السلاۃ و السلام تک قائم رہا۔
جیسا کہ قرآن میں ہے:
يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ ۔۔۔﴿٢٦﴾سورة ص
’’ اے داؤد(ع)! ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ مقرر کیا ہے ۔۔۔‘‘
وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ ۖ ۔۔۔۔سورة النمل
’’ اور داؤدؑ کا وارث سلیمانؑ ہوا۔۔۔‘‘
لیکن حضرت سلیمان کے بعد یہودیوں میں اسی طرح فساد برپا ہوا جس طرح امتِ مسلمہ میں حضرت عثمان غنی اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کے ادوار میں فساد شروع ہوا تھا اور بالکل ایک جیسے وجوہات کے بنا پر یہودیوں سے اور مسلمانوں سے خلافت رخصت ہوئی۔
نصرانیوں میں نظام خلافت کی کوئی تاریخ نہیں ملتی۔
حضرت سلیمان علیہ السلاۃ و السلام کے بعد جب ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و اٰلیہ و سلم نے اپنی انتھک محنت سے اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کے حامل افراد سے اس امتِ مسلمہ کو وجود میں لایا تو اللہ نے اپنے وعدے کے مطابق اس امت کو خلافت عطا کیا‘ (اللہ کے وعدے کا ذکر میرے اصل مضمون میں ہے)۔
پھر جب قتلِ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے امت میں فساد پیدا ہوا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں شرک اور فرقہ پرستی وجود میں آیا‘ تو اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار میں کمی ہونا شروع ہوئی اورامت سے خلافت رخصت ہوئی۔ یہی اللہ کی سنت ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔
وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّـهِ تَبْدِيلًا ﴿٢٣﴾ سورة الفتح
رسولِ کریم ﷺ نے بھی اپنے بعد صرف تیس سال تک امت میں خلافت رہنے کی پیشن گوئی کی تھی:
"نبوت والی خلافت تیس سال رہے گی پھر جسے اللہ چاہے گا (اپنی) حکومت دے گا۔ سعید رحمة اللہ علیہ نے کہا: سفینہ رضی اللہ عنہ نے مجھے کہا: شمار کرو، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دو سال اور عمر رضی اللہ عنہ کے دس سال اور عثمان رضی اللہ عنہ کے بارہ سال اور علی رضی اللہ عنہ کے اتنے (یعنی چھ سال)"
http://magazine.mohaddis.com/shumara/249-nov-1995/2745-khilafat-rashda-tees-sal-hadees-tehqiq
نبی کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق ٹھیک تیس سال تک خلافت رہی اور اب تک دوبارہ بحال نہیں ہوئی۔ بے شمار لوگوں نے کوششیں کی‘ بے شمار لوگوں نےجہاد کئے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا لیکن آج تک خلافت نہ آنی تھی نہ آئی۔۔۔
وجہ کیا ہے‘ وجہ بس ایک ہی ہے کہ تیس سال کے بعد آج تک امت ’’ اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار ‘‘ کی حامل نہیں بنی۔
امت میں جو لوگ نظامِ خلافت کیلئے کوشاں ہیں‘ انہیں صرف اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کی حامل امت کی تشکیلِ نو کی کوششیں کرنی چاہئے جس کے بغیر صرف نعروں سے‘ یا جہاد سے یا خروج سے نظامِ خلافت نہیں آئے گی۔
اوپر میں نے ذکر کیا ہے کہ نصرانیوں میں نظام خلافت کی کوئی تاریخ نہیں ملتی اور نہ ہی قرآن میں ایسا کچھ آیا ہے جبکہ ہر رسول کے دور میں نبوت والی خلافت قائم ہونی لازمی ہے اور ان شاء اللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی یہ صرف حاصل ہوگا۔
جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ اس امت میں نزول فرمائیںگے‘ شرک و بدعات کا خاتمہ کریں گے‘ سارے فرقے ختم ہونگے‘ اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کی حامل ایک امت بنائیں گے‘اور نبوت والی خلافت قائم کریں گے۔
ہم اپنے اندر اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار پیدا کریں تاکہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہمارے وقت میں ہو تو ہم ان کا ساتھ دینے والے ہوں ورنہ ہم ان اوصاف کو اپنے آئندہ آنے والے نسلوں میں منتقل کرتے رہیں کہ جب بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہو اور انہیں امت کی ایسے افراد مل جائیں جو دنیا سے یہودیوں کو ختم کرکے خلافت قائم کرنے میں ان کی مدد کریں۔ (واللہ تعالیٰ اعلم)