Mahmood Alam
رکن
- شمولیت
- فروری 24، 2012
- پیغامات
- 7
- ری ایکشن اسکور
- 11
- پوائنٹ
- 43
کلمہ شہادتین کے خلاف عقیدے اور
شرک و بدعات کے حامل خلاف سنت طریقۂ نماز
کی موجودگی میں اقتدا کیونکر درست ہوسکتی ہے؟
شرک و بدعات کے حامل خلاف سنت طریقۂ نماز
کی موجودگی میں اقتدا کیونکر درست ہوسکتی ہے؟
بارگاہِ ایزدی میں قبولیتِ عمل کی بنیاد عقیدہ و عمل کا قرآن و سنت کے مطابق ہونا ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ اکثریتی مساجد کے ائمہ کا توحید و رسالت کا عقیدہ جو کلمہ شہادتین کی بنیاد ہےقرآن و سنت سے متصادم ہے۔
توحید کے اجماعی عقیدے سے انحراف: احناف نے اللہ کو ہر جگہ موجودماننے کےمنکرین تقدیر جہمیہ ، معطلہاور معتزلہ جیسے گمراہوں کا مذہب اپناتے ہوئے اللہ رب العزت کے مستوی علی العرش ہونے سے انکار کیا ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ عرش پر ہے اور اپنی مخلوق سے جدا ہے، چاروں ائمہ سمیت اہل سنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے جبکہ قرآن و حدیث ، اجماعِ امت اور فطرت سے ان کے باطل عقیدے کا ردّ ہوتا ہے۔ سلف اہل سنت میں سے ایک بھی انسان نے یہ نہیں کہا کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے۔ (تلبیس إبلیس لابن الجوزی : ٢٧، وفی نسخۃ : ١/١٨٠)
مفسر قرطبی ؒ (٦٠٠۔٦٧١ھ) فرماتے ہیں ”فرمانِ باری تعالیٰ : (اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے) کا مطلب ہے کہ وہ علم ، رؤیت اور سمع کے اعتبار سے ان کے ساتھ ہے۔ اہل سنت والجماعت کا یہی موقف ہے جبکہ جہمیہ ، قدریہ اور معتزلہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ میں ہے۔” (تفسیر القرطبی : ٥/٣٧٩)
حافظ ابن کثیرؒ (٧٠١۔٧٧٤ھ) فرماتے ہیں ”جہم بن صفوان وہ شخص ہے جس کی طرف جہمیہ فرقہ منسوب ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے ہر جگہ ہے۔اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی باتوں سے بہت بلند ہے۔”(البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر : ١٠/١٩)
سورۃ الأنعام : ٣کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ”اس آیت میں مفسرین کے کئی اقوال ہیں لیکن اس بات پر سب متفق ہیں کہ جہمیہ کی یہ بات غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی ان باتوں سے پاک و منزہ ہے۔ (تفسیر القرآن العظیم لابن کثیر : ٣/٧)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ (٦٦١۔٧٢٨ھ) فرماتے ہیں : ”جو شخص بھی یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے ہر جگہ ہے ، وہ قرآن و سنت اور امت ِ مسلمہ کے علماء اور ائمہ دین کے اجماع کا مخالف ہے۔ ساتھ ساتھ وہ اس فطرت کی بھی مخالفت کرتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو پیدا کیا ہے۔ ایسا شخص صریح عقلی دلائل اور دیگر بہت سی دلیلوں کی بھی مخالفت کرتا ہے۔ ایسے لوگ متناقض باتیں کرتے ہیں۔”(مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ : ٥/٢٣٠)
رسولِ اکرمﷺ کی صحیح حدیث (صحیح مسلم : ٧٥٨) کے مطابق اللہ تعالیٰ ہر رات ساتویں آسمان سے پہلے آسمان پر نزول فرماتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہے تو پھر ہر رات ساتویں آسمان سے پہلے آسمان کی طرف نزول کا کیا مطلب ہوا؟
امام ابن خزیمہ ؒ (٢٢٣۔٣١١ھ) فرماتے ہیں ”جو شخص اس بات کا اقرار نہ کرے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر اپنے ساتوں آسمانوں کے اوپر مستوی ہے، وہ اپنے ربّ سے کفر کرنے والا ہے۔ (معرفۃ علوم الحدیث للحاکم، ص : ٨٤، وسندہ، صحیحٌ)
اسماء و صفات میں تاویلات اور عقیدہ وحدۃ الوجود: احناف اللہ کی ذاتی صفات کو بھی نہیں مانتے بلکہ ان میں من مانی تاویلات کرتے ہیں مثلاً ”ید اللہ“ کی تاویل قدرت اور ”علوّ“ کو بلند مرتبہ سے تعبیر کرتے ہیں اس پر مستزاد یہ لوگ گندے ترین عقیدے وحدۃ الوجود کے قائل و داعی ہیں یعنی تمام کائنات (ہر شئے) میں اللہ کا وجود اور اس کی تجلی موجود ہے۔ یعنی یہاں ظاہر میں جو مخلوق نظر آتی ہے وہ اللہ کا غیر نہیں بلکہ اس کے اسماء و صفات ہیں جیسا کہ حاجی امداد اللہ قرآنی آیت ’’اللہ لا الہ الا ھو لہ الاسماء الحسنیٰ ‘‘ (طہٰ) کی تفسیر و تشریح میں فرماتے ہیں کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ اس لئے ہوا کہ وہ اللہ کا مظہر تھے یعنی اللہ تعالیٰ آدم کی شکل و صورت میں ظاہر ہوا۔ مزید انکشاف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بیت اللہ کا بھی اسی لئے طواف کیا جاتا ہے کہ وہ اللہ کا مظہر ہے یعنی اللہ کی ایک شکل و صورت ہے، وہ غیر اللہ ہوتا تو کبھی مسجود الیہ نہ ہوتا اور دیوبندیہ و بریلویہ کے پیر و مرشد نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ابلیس بھی اللہ کا مظہر ہے یعنی مظہر مضل ہے (استغفراللہ) کیونکہ اللہ تعالیٰ کی دو صفتیں ہیں ایک ہادی دوسری مضل یعنی ہدایت دینے والا اور گمراہ کرنے والا جیسا کہ قرآن میں ہے یضل بہ کثیرا ویھدی بہ کثیرا (البقرۃ) اس لیے ابلیس اللہ کی صفت مضل کا مظہر ہے اور آدم اس کی صفت ہادی کا مظہر ہے۔ اس لئے نہ آدم اللہ کا غیر ہے اور نہ ابلیس اس کا غیر ہے۔ اس کی وضاحت میں وہ (حاجی امداد اللہ) ایک واقعہ ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک آدمی مست ہاتھی پر سوار ہوکر آرہا تھا اور یہ اعلان کرتا جارہا تھی کہ میرا ہاتھی میرے قابو میں نہیں ہے اس سے بچو۔ ایک صوفی نے یہ سن کر کہا: خدا کو خدا سے کیا ڈر، وہ بھی خدا ہے میں بھی خدا ہوں تو ڈر کس بات کا۔ وہ ہاتھی کے قریب گیا ہاتھی نے اس کو مارڈالا۔ یہ سن کر اس صوفی کے مرشد نے فرمایا: یہ ہاتھی اللہ کا مظہر ’’مضل‘‘ تھا اور اس پر سوار آدمی اللہ کا مظہر ’’ہادی‘‘ تھا ، اس صوفی نے مظہر مضل کو دیکھا، مظہر ہادی کو نہ دیکھا اس لئے ہلاک ہوا۔ یعنی اس مرشد نے اپنے صوفی مرید کی اس بات کو غلط نہیں کہا کہ یہ ہاتھی خدا تھا اور وہ صوفی بھی خدا تھا، بلکہ ہاتھی پر سوار آدمی کو بھی خدا کہا یہ تینوں خدا تھے۔ نعوذ باللہ من الضلال (بعینہٖ یہی عقیدہ ہندؤں کا بھی ہے اور ان کی کتابوں میں بھی یہ واقعہ مذکور ہے)۔ اس لحاظ سے یہ پاک و ناپاک سب کو مساوی قرار دیتے ہیں بلکہ بعض کے نزدیک تو عابد و معبود میں فرق کرنا ہی شرک ہے جبکہ یہ عقیدہ انتہائی توہین آمیز، کفریہ اور گمراہ کن ہے۔ بلکہ یہ عیسائیوں کے کفر سے بھی زیادہ سنگین ہے کیونکہ انہوں نے تو صرف مریم علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کو ہی خدا کے ساتھ متصف کیا تھا جبکہ ان بد بختوں نے اسطرح اللہ کے وجود کا انکار کرکے مخلوقات میں ضم کردیا۔
عقیدۂ رسالت کا بگاڑ: کلمہ کا دوسرا جز رسالت ہے یعنی رسول کی اطاعت تمام مخلوقات سے مقدم رکھنی ہے مگر مقلدین کا حال یہ ہے کہ وہ فقہاء کی آراء کو رسول اللہ e کی صحیح احادیث بلکہ قرآن کی آیات پر بھی فوقیت دیتے اور قرآن و حدیث کو چھوڑ دیتے ہیں اور نبی ؑ کی توقیر کا حال یہ ہے کہ شاتم رسول اللہ e ذمی کا تحفظ کرتے ہیںاور اپنے اکابرین کو نبیؑ کی طرح ہدایت کا سرچشمہ باور کراتے ہیں۔
انبیاء و بدکاروں کا ایمان مساوی قرار دینا: مزید یہ کہ یہ لوگ ایمان میں تغیّر (کمی و بیشی)کے قائل نہیں ہیں جبکہ یہ قرآن و حدیث سے بادلائل ثابت ہے۔ اس طرح وہ چور، زانی، بدکار اور اتقیاء و صلحاء، نبی و پیغمبر سب کا ایمان مساوی سمجھتے ہیں۔
نبیe سے بعد از وفات مدد کا عقیدہ: زکریا کاندھلوی تبلیغی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں کہ محمد بن عبداللہ: صاحب قرآن e نے ایک شخص کو فرمایا: ’’یہ تیرا باپ بڑا گناہ گار تھا لیکن مجھ پر کثرت سے درود بھیجتا تھا جب اس پر یہ مصیبت نازل ہوئی تو اس کی فریاد کو پہنچا اور میں ہر اُس شخص کی فریاد کو پہنچتا ہوں جو مجھ پر کثرت سے درود بھیجے‘‘ (تبلیغی نصاب ص ۷۹۱ فضائل درود ص ۱۱۳)
حقیقت تقلید: حقیقتاً احناف کا مذہب کتاب و سنت اور اجماع سے دور،آراء اور قیاس بازی کے سوا کچھ نہیں ہے اس پر مستزاد اپنے مذہب کو سہارا دینے کے لیے دروغ گوئی ،حیلے بہانے اور ضعفاء کی آراء کو اجماع کانام دیناحنفیت کا خاصہ ہے۔جبکہ حنفیہ کے علاوہ دیگر تین تقلیدی مذاہب میں پھر بھی کتاب و سنت کا عنصر موجود ہے یعنی شرعی ماخذات کو ترجیح حاصل ہے۔
علامہ حافظ ابن قیم ؒ ’’اعلام الموقعین ‘‘ میں رقمطراز ہیں: (ترجمہ) تمام لوگوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ مقلد اہل علم سے شمار نہیں کیا جائے گا کیوںکہ دلیل کو جاننے والا ہی عالم ہوتا ہے۔ (ص۷ج۱)
عبداللہ بن معتمر فرماتے ہیں: (ترجمہ) جانور اور مقلد میں کوئی فرق نہیں کہ جانور بھی عقل سے کام نہیں لیتا اور نہ مقلد دلیل سے ۔ (جامع البیان العلم ص۱۱۴ج۲، اعلام الموقعین ص۷ج۲)
چونکہ تقلیدایک بہت بڑا نقص اور نہایت قبیح برائی ہے اس لیے کامل مسلمان اس سے قطعاً محفوظ ہوگا اس لیے امام شعرانی میزان الکبریٰ میں تحریر کرتے ہیں: (ترجمہ) اللہ رب العزت کا ’’ولی‘‘ کبھی مقلد نہیں ہوتا اس کی نظر براہ راست اس چشمہ صافیہ (کتاب و سنت) پر ہوتی ہے جہاں سے اہل علم مسائل اخذ کرتے ہیں۔ (ص۲۴ج۱)
دشمنان رسول ﷺ نے لوگوں میں یہ باتیں پھیلائی ہیں کہ احادیث میں بہت اختلاف ہے اور ان کا سمجھنا بہت مشکل ہے جبکہ فقہ بہت آسان ہے”بنا بنایا قانون ہے“ جبکہ یہ سراسر دھوکہ ہے ورنہ صحیح احادیث میں اختلاف نہیں بلکہ فقہ جو اقوال و آراء پر مشتمل ہے اختلافات کا مجموعہ ہے۔ خود امام ابو حنیفہؒ کے شاگردوں نے تقریباً %70ستّر فیصد مسائل میں امام صاحب سے مختلف فتویٰ دیا ہے۔ فقہ کی کتابوں میں علمائے ماوراء النہر کا فتویٰ اور ہے اور فقہ بغداد حنفیہ کا فتویٰ اور ہےاس پر مستزاد یہ کہ فتاویٰ عالمگیری ان دونوں کو نہیں مانتا اس نے ان کے علاوہ فتویٰ دیا ہے۔
امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک نماز کی نیت باندھ کر سورۃ فاتحہ کے بجائے کوئی اور چیز پڑھ لی یا صرف سبحان اللہ کہدیا یا اپنی زبان میں ”اللہ بہت بڑا ہے“ کہدیا، امام صاحب کے نزدیک نماز ہوگئی جبکہ ان کا شاگرد کہتا ہے کہ نہیں ہوئی۔
وضو کے استعمال شدہ پانی سے متعلق امام محمد کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ کا قول ہے کہ استعمال شدہ پانی خود پاک ہے، دوسری چیزوں کو پاک نہیں کرسکتا ،ان کا دوسرا قول یہ ہے کہ مستعمل پانی پلید ہے۔ امام حسنؒ کی روایت میں نجاست غلیظہ ہے اور امام ابو یوسف کی روایت میں نجاست خفیفہ۔ (ہدایہ ص۲۲)
منیۃ المصلیٰ میں گھوڑے کے جوتھے (گوبر) کے بارے میں لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ سے اس بارے میں چار روایتیں ہیں۔ ایک روایت میں نجس، ایک میں مشکوک، ایک روایت میں مکروہ اور ایک روایت میں پاک۔
جبکہ رسول اللہ ﷺ کا طریقہ اختلافات میں میزان ہے۔ امام سفیان بن عیینہ ؒ فرماتے ہیں: اصل میرزان رسول اللہ e کی ذات گرامی ہے۔ ہر چیز کو اس کے اوپر تولو۔ ہر عمل کو، ہر قول کو، ہر بات کو، ہر فیصلے کو اُس کے اوپر تولو جو اس کے موافق ہو وہ حق ہے اور جو اس کے ساتھ موافق نہ ہو سو وہ باطل ہے۔
بیداری میں رسول اللہ eسے ملاقات کے دعوے: تبلیغی جماعت کے سابق امیر مولوی محمد زکریا صاحب کے ذاتی روزنامچہ سے ان کے مرید محمد اقبال صاحب نے چالیس مکاشفات بہجتہ القلوب میں جمع کیے۔ چند مکاشفات یعنی ـ’’بیداری میں رسول اللہ ﷺسے ملاقات‘‘ ملاحظہ فرمائیں:
۴؍رجب ۱۳۹۸ھ، بروز جمعہ حضور اکرم ﷺنے عبدالحفیظ سے (مکاشفہ میں) فرمایا کہ زکریا کی خدمت کرتے رہو۔ اس کی خدمت میری ہی خدمت ہے اور یہ بھی فرمایا کہ میں اکثر اس کے حجرہ میں جاتا رہتا ہوں۔ (جرات دیکھئے کہ کس طرح خود کو نبی کریمe کے قائم مقام ثابت کرنا چاہ رہے ہیں)
۲۳؍ رجب ۱۴۰۰ھ بعد عشاء عزیز عبدالحفیظ نے صلٰوۃ و سلام کے بعد میری (حضرت شیخ کی) طرف سے حضورؐ سے عرض کیا کہ حرمین کا رمضان چھوڑ کر پاکستان (فیصل آباد) اس لیے جارہا ہوں کہ وہاں لوگوں کو اللہ اور اس کے حبیب کا نام لینا آجائے۔ اس کے لیے دعا فرمائیں۔ حضورﷺنے فرمایا اس سے بڑھ کر کون سا کام ہوسکتا ہے؟ پھر فرمایا کہ حرمین کا ثواب تو انشاء اللہ کہیں گیا نہیں۔ پھر بہت دیر تک دعا فرماتے رہے۔ اس کے بعد بہت وقار سے فرمایا کہ ہمیں تو فیصل آباد کا خود بھی اہتمام ہے۔ انشاء اللہ میں اپنے عصا سمیت وہاں موجود رہوں گا۔ (بہجۃ القلوب)
حالانکہ وفاتِ رسولؐ کے بعد کسی صحابیؓ، تابعی یا امام نے رسول اللہ ﷺسے بیداری میں ملاقات کا دعویٰ نہیں کیا۔ اس لیے یہ صوفیاء صحابہ کرامؓ اور سلف صالحین کے نقش قدم پر نہیں ہیں۔ اس لیے یہ اہل سنت والجماعت ہونے کے جھوٹے دعویدار ہیں۔
دیوبندیوں کے نزدیک مقلد کیلئے قرآن، حدیث، اجماع اور اجتہاد سے حجت پکڑنا جائز نہیں۔ یہودیوں کی طرح ان کا طرز عمل بھی یہی رہا ہے کہ نبی eکے فرامین کو تاویلات کے ذریعے سے معطل کیا جائے ۔ انور شاہ کشمیری نے ایک صحیح و قوی حدیث کا جواب سوچنے کے لیے دس سال سے زیادہ کا عرصہ لگادیا۔ (دیکھئے فیض الباری ج۲ ص ۲۷۵، العرف الشذی ج ۱ ص ۱۰۷، معارف السنن ج ۴ ص ۲۶۴ درس ترمذی ج ۲ ص ۲۲۴) غور فرمائیے حدیث کو رد کرنے اور فقہ سربلند رکھنے میں ان کی انتھک کاوشیں، کیا یہی ایمان اور یہی اسلام ہے؟
محمود الحسن دیوبندی صاحب نے صاف اعلان کیا کہ: ’’آپ ہم سے وجوبِ تقلید کی دلیل کے طالب ہیں، ہم آپ سے وجوب اتباعِ محمدیﷺو وجوب اتباع قرآنی کی سند کے طالب ہیں۔‘‘ (ادلہ کاملہ ص ۷۸)
۲۔ دیوبندی عالم محمود الحسن صاحب کا خیار مجلس کے مسئلہ میں قول ملاحظہ ہو: الحق والانصاف ان الترجیع للشافعی فی ھٰذہ المسئلۃ ونحن مقلدون یجب علینا تقلید امامنا ابی حنیفہ (تقریر ترمذی ص۳۹)
’’حق اور انصاف یہ ہے کہ اس مسئلہ (البیان بلخیار سالم یتفرقا) میں امام شافعیؒ کو ترجیح حاصل ہے۔ اور ہم مقلد ہیں ہم پر اہنے امام ابو حنیفہؒ کی تقلید واجب ہے۔
۳۔ ابن نجیم الحنفی شاتم رسول eکی سزا کے بارے میں لکھتے ہیں: نفس المومن تمیل الی قول المخالف فی مسئلۃ السب لکن اتباع للمذھب واجب (البحر الرائق ج ۵ ص۱۲۶) یعنی مسئلہ شاتم رسول میں مومن کا نفس قولِ مخالف (امام شافعیؒ) کی طرف مائل ہوتا ہے کہ (کافر شاتم رسول کا ذمّہ ٹوٹ جاتا ہے)لیکن ہم پر اپنے مذہب کی اتباع ضروری ہے۔
رسول eسے دعوائے محبت کی قلعی یہاں کھل جاتی ہےکہ مروجہ فقہ کا تحفظ ان کیلئےہر حال میں مقدم ہے۔
۴۔ تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں ’’عامی ایسا نہیں ہوتا جو دلائل کو پرکھ سکے ایسے شخص کو اگر اتفاقاً کوئی حدیث ایسی نظر آجائے جو بظاہر اس کے امام (مجتہد) کے مسلک کے خلاف معلوم ہوتی ہو تب بھی اس کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے امام کے مسلک پر عمل کرے اور حدیث کے بارے میں یہ اعتقاد رکھے کہ اس کا مطلب صحیح سمجھ میں نہیں آرہا۔ مزید فرماتے ہیں اگر ایسے مقلد کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ حدیث اپنے امام کے مسلک کے خلاف پاکر امام کے مسلک کو چھوڑ سکتا ہے تو اس کا نتیجہ شدید افراتفری اور سنگین گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔‘‘ (تقلید کی شرعی حیثیت صفحہ ۸۷ و مقلدین ائمہ کی عدالت میں ۱۸۱)
مفتی رشید احمد لدھیانوی دیوبندی فرماتے ہیں: ’’ ہم امام رحمہ اللہ تعالیٰ کے مقلد ہیں اور مقلد کے لئے قولِ امام حجت ہوتا ہے نہ کہ ادلہ ٔ اربعہ کہ ان سے استدلال وظیفہ ٔ مجتہد ہے۔‘‘ (ارشاد القاری: ج۱ص۴۱۲)
یعنی ان کے نزدیک شرعی چار دلیلیں ۱۔ قرآن ۲۔ حدیث ۳۔ اجماع ۴۔ اجتہاد حجت نہیں ہیں بلکہ ان کے نزدیک صرف قول امام حجت ہے جس سے ثابت ہوا کہ وہ اہلسنت کہلانے کے حقدار نہیں کیونکہ اہلسنت کے نزدیک مذکورہ چار دلیلیں قطعی حجت ہیں اور کوئی بھی مسئلہ جوقرآن و حدیث سے ثابت ہواس کا انکار کفر ہے۔
مولانا حیات سندھی اپنی کتاب ”تحفۃ الانام فی العمل بحدیث النبی علیہ السلام“ مطبوعہ دہلی صفحہ 14پر لکھتے ہیں:
جو شخص آنحضرت ﷺ کے سواکسی بھی معین شخص پر اڑ جائے اور اس کاقول ہی صواب و درست سمجھے اور اسی کی تقلید واجب جانے دوسرے ائمہ کرام کی طرف نہ دیکھے ایسا شخص گمراہ اور جاہل ہے بلکہ اس جمود کے سبب وہ کافر ہے اس سے توبہ کرائی جائے اگر توبہ کرے تو خیر ورنہ اس کو قتل کردیا جائے کیونکہ جس نے آنحضرت ﷺ کے سوا دوسرے کسی امام و مجتہدِ معین کی اتباع ضروری سمجھی اور اس کو لوگوں پر واجب قرار دیا تو ایسے شخص نے اپنے امام کو بمنزلہ نبی ﷺ کے ٹھہرایا اور یہ کفر ہے۔
امام اہل سنت احمد بن حنبلؒ کہتے ہیں: ’’نہ میری تقلید کرو نہ مالکؒ کی، نہ شافعیؒ کی، نہ اوزاعیؒ کی اور نہ ثوریؒ کی۔ وہاں سے دین حاصل کرو جہاں سے انہوں نے حاصل کیا۔‘‘ (اعلام الموقعین ج ۲ ص۲۰۱)
قرآن و حدیث میں رسول اللہ e کے علاوہ کسی عالم، امام وغیرہ کی اطاعت و پیروی کا حکم نہیں دیا گیا ہے اور نہ اس اُمت کو کسی کی تقلید کا پابند بنایا گیا ہے۔ اہل سنت کا مسلک یہ ہے کہ واحد ہستی جس کی بات بلاچوں چرا تسلیم کی جائے گی صرف محمدeکی ہے۔ ان کے علاوہ ہر کسی کی بات قبول بھی کی جاسکتی ہے اور رد بھی کی جاسکتی ہے، چاہے وہ بات صحابیؓ رسول ہی کی کیوں نہ ہو۔ مگر علماء دیوبند نے اہل سنت کے اس معروف راستہ کو چھوڑا۔ فقہ حنفی کے نام پر چند کتابوں (ہدایہ، قدوری، کنز وغیرہ) کو اختیار کیا۔ اس فقہ میں بعض مسائل امام ابو حنیفہؒ کے، بعض امام محمد کے اور ابو یوسف کے اور بعض امام حسن اور امام زفر کے اختیار کیے۔ سوال یہ ہے کہ وہ شخصیت کونسی ہے جس نے یہ فیصلہ کیا کہ فلاں مسئلہ میں ابو حنیفہؒ حق پر ہیں اور امام محمد امام زفر سے غلطی ہوئی ہے وغیرہ۔ لہٰذا اہل سنت کے طریقہ پر وہی لوگ ہیں جو حق قرآن و سنت کے دلائل کے تحت سلف صالحین کے طریقے میں منحصر جانتے ہیں مگر کسی ایک امام سے یوں منسلک نہیں ہوتے کہ دوسرے امام کا بیان کردہ قول رسولﷺبھی قبول نہ کرسکیں۔ یہ اہل حدیث کا مسلک ہے لہٰذا اہل حدیث ہی اہل سنت ہیں اور یہی امام ابو حنیفہؒ کا بھی اصولی مسلک ہے جیسا کہ امام محمد کی کتاب الآثار سے واضح ہے۔ یقینا جو لوگ حدیث کے مقابلے میں اپنے باطل مذہب کو ترجیح دیتے ہیں وہ اہل سنت قطعا نہیں ہوسکتے چہ جائیکہ ان کی اقتدا کی جائے۔
اَللّٰھُمَّ اَرِناَالْحَقَّ حَقًّا وَّارْزُقْنَاالتِّبَاعًا وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلاً وَّارْزُقْنَا الاْجْتِنَابًا
اے اللہ! سچا راستہ مجھ پر واضح کردے اور مجھے اسے اپنانے کی توفیق دے اور باطل راستہ (بھی) مجھ پر واضح کردے اور مجھے اس سے اجتناب کی توفیق عطا فرما۔ آمین
اے اللہ! سچا راستہ مجھ پر واضح کردے اور مجھے اسے اپنانے کی توفیق دے اور باطل راستہ (بھی) مجھ پر واضح کردے اور مجھے اس سے اجتناب کی توفیق عطا فرما۔ آمین