خلاف قرآن روایات کا فلسفہ: تحقیق و جائزہ۔دوسرا حصہ
کیا حدیث صرف دو طرح کی ہو سکتی ہے؟
کیا ہم یہ مان لیں کہ حدیث کو قرآن سے مطابقت کے اعتبار سے صرف دو گروپس میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ یعنی خلاف قرآن احادیث اور موافق قرآن احادیث؟؟ذرا سی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی اس کا انکار کرے گا۔ کیونکہ ایک تیسری قسم ممکن ہو سکتی ہے یعنی ’’زائد از قرآن‘‘ احادیث۔ ایسی احادیث کہ جن کے بارے میں قرآن خاموش ہے۔ اور ان احادیث کو نہ تو خلاف قرآن کی فہرست میں ڈالنا ممکن ہے اور نہ موافق قرآن کی فہرست میں۔ فوری طور پر دو مثالیں پیش خدمت ہیں:
ختنہ کرنا:
قرآن میں ختنہ کے بارے میں کوئی آیت موجود نہیں ہے۔ ہاں ایسی احادیث موجود ہیں جن میں ختنہ کے احکامات ہیں۔ مثلاً صحیح بخاری سے صرف ایک حدیث ملاحظہ فرمائیے:
حدثنا يحيى بن قزعة، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة ۔ رضى الله عنه ۔عن النبي صلى الله عليه وسلم قال " الفطرة خمس الختان، والاستحداد، ونتف الإبط، وقص الشارب، وتقليم الأظفار
ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب نے ، ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانچ چیزیں فطرت سے ہیں ، ختنہ کرنا، زیرناف کے بال بنانا ، بغل کے بال صاف کرنا، مونچھ چھوٹی کرانا اور ناخن کاٹنا۔
[صحیح بخاری: 6297]اب دیکھئے درج بالا پانچوں باتیں قرآن میں موجود نہیں ہیں۔ لہٰذا یہ حدیث زوائد قرآن میں سے ہے۔ اسے بطور حدیث قبول کر لیا جائے یا رد کر دیا جائے؟؟
نماز جنازہ:
قرآن میں نماز جنازہ کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کی نماز جنازہ پڑھنے کو فرض کفایہ قرار دیا ہے۔
یصلی علیھا ویفرغ من دفنھا فانہ یرجع من الاجر بقیراطین کل قیراط مثل احد ومن صلی علیھا ثم رجع قبل ان تدفن فانہ یرجع بقیراط ))
( صحیح بخاری ، کتاب الایمان ، باب اتباع الجنائز من الایمان )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ جو شخص بحالت ایمان اور حصول ثواب کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ چلے یہاں تک کہ نماز پڑھے اور دفن کرنے سے فارغ ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس کو دوقیراط کے برابر ثواب سے نوازیں گے اور ہر قیراط احد پہاڑ کے برابر ہے ۔ اور جو صرف نماز پڑھ کر واپس آجائے وہ ایک قیراط کے برابر ثواب پاتا ہے
قرآن اس ثواب کے ذکر سے بھی خاموش ہے۔ پھر نماز جنازہ کے کثیر احکام ہیں۔ مسجد میں ادا کیا جائے یا باہر، عورت کی نماز جنازہ کیسے ادا ہوگی ، مرد اور بچے کی کیسے ہوگی۔ بچہ مردہ پیدا ہو تو نماز جنازہ ادا کی جائے گی یا نہیں، شہید کی نماز جنازہ، غائبانہ نماز جنازہ ۔۔، نماز جنازہ کس پر واجب ہے، نماز جنازہ کا طریقہ کار وغیرہ وغیرہ۔۔ڈھیروں احکامات ہیں اور قرآن سے ایک کا بھی ثبوت میسر نہیں۔ ان تمام احادیث کا کیا کریں؟ قبول کریں یا رد کر دیں؟؟
لہٰذا حدیث کی بہرحال ایک تیسری قسم موجود ہے جسے خلاف و موافق قرآن کی کیٹگری میں نہیں ڈالا جا سکتا۔جو لوگ خلاف قرآن روایات کا فلسفہ پیش کرتے ہیں، وہ جانے کیوں کبھی بھی ایسی احادیث کے بارے میں کوئی بات کھل کر نہیں کرتے کہ وہ احادیث جو زوائد قرآن کی مد میں آتی ہیں، کیا وہ بذات خود (تعامل امت کے فلسفہ سے پاک ہو کر ) حجت ہیں یا نہیں؟
اگر زائد از قرآن حدیث حجت نہیں ہے تو پھر ملین ڈالرز کا سوال یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور گزشتہ انبیاء پر ایمان لانے میں کیا فرق رہا؟ جیسے ہم گزشتہ انبیاء پر زبانی ایمان لاتے ہیں، ان کی نبوت کی تصدیق و تائید کرتے ہیں، لیکن عملاً ان کی پیروی نہیں کرتے۔ کیا صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے سے بھی یہی مراد ہے؟ کہ زبانی تصدیق کی جائے، دل میں ایمان رکھا جائے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں، لیکن عملاً اتباع نہ کی جائے؟؟؟
موافق قرآن احادیث:
موافق قرآن احادیث سے ہمارے بھائیوں کی مراد عموماً یہ ہوتی ہے کہ وہ تمام احادیث مان لی جائیں جن کی تائید قرآن کی کسی آیت سے کی جا سکتی ہو۔ اور یہ بھائی ایسی احادیث کو مانتے بھی ہیں۔ اسی لئے جب کوئی انہیں منکر حدیث کہتا ہے تو یہ اس سے اختلاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’ہم تمام موافق قرآن احادیث کی حجیت کا اقرار کرتے ہیں، ہاں خلاف قرآن احادیث کا انکار ضرور کرتے ہیں، لیکن خلاف قرآن احادیث کا تو انکار ہی کرنا چاہئے، کون مسلمان ہے جو یہ کہنے کی جرات رکھا ہو کہ حدیث اگر قرآن کے صریح خلاف ہو تب بھی اسے مان لو۔؟‘‘
’’خلاف قرآن‘‘ والی بات کا جواب تو آگے آ رہا ہے، فی الحال ’’موافق قرآن‘‘ کے تعلق سے ہمارا الزامی سوال یہ ہے کہ موافق قرآن احادیث کو جو شخص مانتا ہے، کیا وہ احادیث کو مانتا ہے؟؟؟ ہر گز نہیں، وہ تو قرآن ہی کو مان رہا ہے۔ بھئی اگر موافق قرآن بات مکھن مسیح کی ہو یا رام داس کی، لینن کی ہو یا ماؤزے تنگ کی، یہودی کی ہو یا عیسائی کی، کسی گزشتہ نبی کی بات ہو یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی، ہم تو سب کی ہی مانیں گے۔ اور اس لئے نہیں مانیں گے کہ وہ مکھن مسیح یا رام داس کی بات ہے، یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے، بلکہ اس لئے مانیں گے کہ وہ درحقیقت قرآن کی بات ہے۔ لہٰذا فرق کیا ہوا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اور دیگر تمام شخصیات میں؟
آج کوئی ہندو کہے کہ جھوٹ نہیں بولنا چاہئے، چوری نہیں کرنی چاہئے۔ یا کوئی عیسائی اٹھے اور کہہ دے کہ ہمارا رب فقط ایک ہی ہے، یا کوئی یہودی کہے کہ خدا کا کوئی بیٹا نہیں، تو چونکہ ان کی یہ بات ’موافق قرآن‘ ہے لہٰذا ہم مان لیں گے۔ لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہوگا کہ ہم ہندوں، عیسائیوں یا یہودیوں کے پیروکار ہیں یا ان کی اطاعت کرتے ہیں؟ حاشا و کلا ہرگز نہیں۔ بلکہ ہم نے تو قرآن ہی کی بات مانی ہے نہ کہ اس ہندو، عیسائی یا یہودی کی۔
بعینہ جب کوئی شخص کسی حدیث کو دیگر تمام اصول و ضوابط کو ایک طرف رکھ کر، فقط اس معیار پر پرکھ کر مانتا ہے کہ چونکہ یہ حدیث قرآن کے مطابق ہے لہٰذا میں اس کو مانتا ہوں، تو دراصل وہ شخص قرآن کی ہی بات مان رہا ہے نا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ اور اس فلسفہ کی رو سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات یعنی حدیث میں اور رام داس یا مکھن مسیح کی بات میں کوئی تفریق نہیں کر رہا۔ لہٰذا ہندو، عیسائی ، یہودی، کافر، عام مسلمان، گزشتہ نبی اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کوئی تفریق قائم نہیں رہتی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شارع، حاکم، قاضی، مربی، مزکی، مفسر قرآن سب حیثیتوں کا انکار کر کے انہیں ایک عام مسلم یا غیر مسلم کے برابر حق دیتے ہوئے یہ کہنا کہ ہم دیگر شخصیات کی طرح رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی فقط وہی بات مانیں گے جو (ہماری عقل کے مطابق) موافق قرآن ہوگی، کس قدر سنگین گمراہی اور شدید جہالت ہے۔