• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خواتین نقاب نہ اوڑھیں: سعودی عالم کا نیا فتویٰ

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
خواتین نقاب نہ اوڑھیں: سعودی عالم کا نیا فتویٰ​

العربیہ ڈاٹ نیٹ: پیر 22 صفر 1436هـ - 15 دسمبر 2014م

سعودی عرب کے ایک عالم دین نے خواتین کے حجاب سے متعلق ایک نیا فتویٰ جاری کیا ہے۔اس میں انھوں نے کہا ہے کہ خواتین کو چہرے کا نقاب کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور انھیں خوبصورتی کے لیے بناؤ سنگھار کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔

شیخ احمد الغامدی نے یہ فتویٰ العربیہ کے سسٹر چینل ایم بی سی کے ایک مشہور ٹاک شو ''بدریا'' میں گفتگو کرتے ہوئے دیا ہے اور اپنے اس فتوے کے حق میں وہ اپنی بے نقاب اہلیہ کے ساتھ اس ٹی وی پروگرام میں شریک تھے۔ ان کی اہلیہ نے حجاب تو اوڑھ رکھا تھا لیکن چہرے کا پردہ نہیں کیا ہوا تھا۔

یہ پروگرام بدریا البشر پیش کرتی ہیں۔ اس میں علامہ احمد الغامدی ماضی میں جاری کردہ اپنے ایک سابقہ فتوے پر ہی اظہار خیال کررہے تھے۔ اس میں انھوں نےعام علماء کے برعکس خواتین کو اپنا چہرہ ظاہر کرنے اور میک اپ کرنے کی اجازت دی تھی۔ وہ سعودی عرب کے محکمہ امر بالمعروف و نہی المنکر (المعروف مذہبی پولیس) کی مکہ مکرمہ شہر کی شاخ کے سابق سربراہ تھے۔

سعودی عرب کے قدامت پسند علماء اور حلقوں کی جانب سے علامہ احمد الغامدی کے خلاف گذشتہ ہفتے کے روز اس ٹی وی ٹاک شو کے نشر ہونے کے بعد سے تندو تیز تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔تاہم ان کی رائے کے مخالف علماء ان کے فتوے کا دلیل سے جواب دینے کے بجائے ان کی شخصیت پر ذاتی نوعیت کے حملے کررہے ہیں۔

سعودی عرب کے مقامی روزنامے الوطن میں شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق شیخ الغامدی کو دھمکیاں بھی مل رہی ہیں۔ٹویٹر پر بعض لکھاریوں نے علامہ خامدی کی تضحیک کی ہے۔ خاص طور پر ٹیلی ویژن پر اہلیہ کو چہرے کا پردہ نہ کرانے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور انھیں سخت سست کہا ہے۔

لیکن سوشل میڈیا پر ان کی مخالفت ہی نہیں کی جارہی ہے بلکہ بعض لوگ ان کی حمایت میں میدان میں آئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت خواتین کے چہرے کے پردے کو مذہبی ضرورت تصور نہیں کرتی ہے۔ اس لیے ان کی رائے کا بھی احترام کیا جانا چاہیے۔ ان میں بعض نے علامہ غامدی کو ان کے مؤقف پر ایک دلیر شخص قرار دیا ہے۔

ٹی وی ٹاک شو میں شرکت کے بعد سے علامہ احمد الغامدی اپنے فتوے کا دفاع کررہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے کسی شہرت یا ناموری کے لیے یہ فتویٰ نہیں دیا تھا۔ واضح رہے کہ وہ ماضی میں بھی اسی طرح کے متنازعہ فتوے جاری کرنے کے لیے مشہور رہے ہیں۔ انھوں نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ موسیقی حرام نہیں ہے اور خواتین اور مردوں کے مخلوط اجتماعات کی اجازت ہے۔

مذکورہ ٹی وی پروگرام کی میزبان بدریا البشر نے العربیہ نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر تو علامہ غامدی اور ان کے فتویٰ کو ہدف تنقید بنایا جارہا ہے مگر مجموعی طور پر اس کا ردعمل مثبت رہا ہے۔ نیز ان کا مقصد کوئی اشتعال انگیزی پھیلانا نہیں ہے بلکہ مثبت انداز میں اس موضوع پر بحث کو آگے بڑھانا تھا۔وہ خود بھی سماجی موضوعات پر العربیہ نیوز کی ویب سائٹ پر کالم لکھتی ہیں۔
 

گنہگار

مبتدی
شمولیت
اگست 09، 2014
پیغامات
70
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
24
میرے نزدیک ایسی بات کرنے والے کی کوئی عزت نہیں، حرامی میڈیا اور خبیث ذہن لوگ اسلام کو کتنا ایکسپلائٹ کریں گے کچھ پتہ نہیں
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
منافقین ہمیشہ اس تاک میں بیٹھے رہتے تھے کہ کس وقت نبی علیہ السلام اور ان کے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم سے کوئی ایسا کام سرزد ہو تاکہ ان کی رسوائی ہوجائے ۔اور ان میں اختلاف پیداہوجائے ۔(نعوذباللہ من ذالک)
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
السلام علیکم !
خبر کس قدر "جانب دار " ہے ، یہ بھی میڈیا کے متعلق دلچسپ بات ہے ، کیونکہ ٹی وی ، کیبل پر صرف کسی ایک خاص پروپیگنڈا پر چہرے لائے جاتے ہیں، تاکہ وہ عوام
الناس کو نا صرف متشر کریں بلکہ اس ویژن کو بھی تباہ کریں ، جس پر عوام عمل پیرا ہوتی ہے۔سعودیہ کے ہی ایک عالم دین شیخ العریفی کی اسی موضوع پر ایک مختصر کتاب ہے،" یونیورسٹی کینٹن میں "
اس کا مطالعہ مفید رہے گا۔ان شاء اللہ !
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
چہرے کا پردہ !!!

محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ
ترجمہ
ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر

چہرے کے پردے کا وجوب :

ہر مسلمان کو چاہیے کہ غیر محرم مردوں سے عورت کا پردہ کرنا اور منہ ڈھانپنا فرض ہے۔ اس کی فرضیت کے دلائل رب العزت کی کتاب عظیم اور نبی رحمت ﷺ کی سنت مطہرہ میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اجتہاد اور درست فقہی قیاس بھی اسی کے متقاضی ہیں۔

قرآن حکیم سے چند دلائل :

پہلی دلیل :

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَقُل لِّلْمُؤْمِنَٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَٰرِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ ءَابَآئِهِنَّ أَوْ ءَابَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَآئِهِنَّ أَوْ أَبْنَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَٰنِهِنَّ أَوْ بَنِىٓ إِخْوَٰنِهِنَّ أَوْ بَنِىٓ أَخَوَٰتِهِنَّ أَوْ نِسَآئِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُهُنَّ أَوِ ٱلتَّٰبِعِينَ غَيْرِ أُو۟لِى ٱلْإِرْبَةِ مِنَ ٱلرِّجَالِ أَوِ ٱلطِّفْلِ ٱلَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا۟ عَلَىٰ عَوْرَٰتِ ٱلنِّسَآءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوٓا۟ إِلَى ٱللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ ٱلْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿31﴾

ترجمہ: اور ایمان والیوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں پر یا اپنے باپ یا خاوند کے باپ یا اپنے بھائیوں یا بھتیجوں یا بھانجوں پر یا اپنی عورتوں پر یا اپنے غلاموں پر یا ان خدمت گاروں پر جنہیں عورت کی حاجت نہیں یا ان لڑکوں پر جو عورتوں کی پردہ کی چیزوں سے واقف نہیں اور اپنے پاؤں زمین پر زور سے نہ ماریں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہو جائے اور اے مسلمانو تم سب الله کے سامنے توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ(سورۃ النور، آیت 31)

یہ آیت مبارکہ چہرے کے پردے کے وجوب پر مندرجہ ذیل طریقوں سے دلالت کرتی ہے:

(1)اللہ عزوجل نے مومن عورتوں کو اپنی عصمت کی حفاظت کا حکم دیا ہے اور عصمت کی حفاظت کے حکم کا تقاضا یہ ہے کہ وہ تمام وسائل و ذرائع اختیار کیے جائیں جو اس مقصد کے حصول میں مددگار ہو سکتے ہیں اور ہر عقلمند آدمی جانتا ہے کہ چہرے کا پردہ عصمت کی حفاظت کے منجملہ وسائل میں سے ہے کیونکہ چہرہ کھلا رکھنا غیر محرم مردوں کے لیے اس کی طرف دیکھنے کا ذریعہ بنتا ہے اور مردوں کو اس کے خدوخال کا جائزہ لینے کا موقع ملتا ہے جس سے بات میل ملاقات بلکہ ناجائز تعلقات تک جا پہنچتی ہے۔ حدیث نبوی ہے:

(العینان تزنیان وزناھما النظر)

"آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں اور ان کا زنا (ناجائز) دیکھا ہے۔ "
(مسند احمد:2/343)

پھر رسول اللہ ﷺ نے ہاتھ پاؤں وغیرہ کے زنا کا ذکر کرنے کے بعد آخر میں فرمایا:

(ترجمہ)شرمگاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب۔
(مسند احمد: 2/343)

لہذا جب چہرے کا پردہ حفظ ناموس و عصمت کا ذریعہ ٹھہرا تو وہ بھی اس طرح فرض ہو گا جس طرح کہ حفظ ناموس و عصمت فرض ہے۔ اُن وسائل و ذرائع کا بھی وہی حکم ہوتا ہے جو ان مقاصد کے حصول کے لیے بروئے کار لائے جاتے ہیں۔

(2)اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے:

وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ

ترجمہ: "اور وہ اپنے گریبانوں پر ڈوپٹے ڈال لیا کریں۔ "(سورۃ النور، آیت 31)

خمار (جس کی جمع خمر ہے ) اس کپڑے کو کہتے ہیں جسے عورت اپنا سر ڈھانپنے کے لیے اوڑھتی ہے، مثلاً برقعے کا نقاب وغیرہ۔ جب عورت کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنے سینے پر دوپٹہ ڈال کر رکھے تو چہرہ ڈھانپنا بھی فرض ہو گا کیونکہ یا تو چہرہ لازما اس حکم میں داخل ہو جاتا ہے یا پھر قیاس صحیح اس کا تقاضا کرتا ہے۔ وہ اس طرح کہ جب گردن و سینہ کو ڈھانپنا فرض ہے تو چہرے کے پردے کی فرضیت تو بدرجہ اولیٰ ہونی چاہیے کیونکہ وہی خوبصورتی کا مظہر اور فتنے کا موجب ہے۔ اور ظاہری حسن کے متلاشی صرف چہرہ ہی دیکھتے ہیں۔ چہرہ خوبصورت ہو تو باقی اعضاء کو زیادہ اہمیت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ جب کہا جاتا ہے یہ ہے کہ فلاں خوبصورت ہے تو اس سے بھی چہرے کا جمال ہی مراد ہوتا ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ چہرے کا حسن و جمال ہی پوچھتے اور بتانے والوں کی گفتگو کا محور ہوتا ہے۔

مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں کیسے ممکن ہے کہ حکمت پر مبنی شریعت سینہ و گردن کے پردے کا تو حکم دے لیکن چہرہ کھلا رکھنے کی رخصت دے۔

(3)اللہ تعالیٰ نے زینت کے اظہار سے بالکل منع کر دیا ہے۔ اس حکم سے صرف وہ زینت مستثنی ہے جس کے اظہار سے کوئی چارہ کار ہی نہیں، مثلاً بیرونی لباس، اسی لیے قرآن نے
(إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ) "سوائے اس زینت کے جو از خود ظاہر ہو جائے"کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے، یوں نہیں فرمایا: (الا ما اظھرن منھا) "سوائے اس زینت کے جسے عورتیں ظاہر کریں۔ "

(4) پھر اسی آیت میں زینت کے اظہار سے دوبارہ منع فرمایا اور بتایا کہ صرف ان افراد کے سامنے زینت ظاہر کی جا سکتی ہے جنہیں مستثنی کیا گیا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دوسرے مقام پر مذکورہ زینت پلے مقام پر مذکورہ زینت سے مختلف اور علیحدہ ہے۔ پہلے مقام پر اس زینت کا حکم بتایا گیا ہے جو ہر ایک کے لیے ظاہر ہوتی ہے اور اس کا پردہ ممکن نہیں جب کہ دوسرے مقام پر مخفی زیبائش مراد ہے، یعنی جس کے ذریعے سے عورت خود کو مزین کرتی ہے۔ اگر اس آرائش و زیبائش کا اظہار بھی ہر ایک کے سامنے جائزہ ہو تو پہلی زینت کے اظہار کی عام اجازت اور دوسری زینت کے اظہار کے حکم سے بعض افراد کے استثنا کا کوئی خاص فائدہ نہیں رہ جاتا۔

طفیلی قسم کے افراد جو صرف کھانا کھانے کے لیے کسی کے گھر میں رہتے ہوں اور ان میں صنفی میلان ختم ہو چکا ہے، مردانہ اوصاف سے محروم خدام اور وہ نابالغ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتیں سمجھ نہیں پاتے تو ایسے افراد کے سامنے اللہ تعالیٰ نے مخفی زینت کو کھلا رکھنے کی اجازت دی ہے۔ اس سے دو امور ثابت ہوئے:

مذکورہ بالا دو قسم کے افراد کے سوا مخفی زیبائش کو کسی کے سامنے کھلا رکھنا جائز نہیں ہے۔

بلاشبہ پردے کے حکم کا دارومدار اور اس کے واجب ہونے کی علت عورت کی طرف دیکھ کر (مردوں کا) فتنے میں مبتلا اور وارفتگی کا شکار ہو جانے کا اندیشہ ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ چہرہ ہی سب سے زیادہ حسن کا مرکز اور فتنے کا مقام ہوتا ہے، لہذا اس کا ڈھانپنا ضروری ہو گا تاکہ مرد حضرات بشری تقاضوں کے باعث کسی آزمائش میں مبتلا نہ ہو جائیں۔

(5)فرمان باری تعالیٰ ہے:

وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ

ترجمہ: اور اپنے پاؤں زمین پر زور سے نہ ماریں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہو جائے (سورۃ النور:آیت 31)

یعنی عورت اس انداز سے نہ چلے کہ معلوم ہو کہ وہ پازیب وغیرہ پہنے ہوئے ہے جس سے وہ اپنے خاوند کے لیے آراستہ ہوتی ہے۔ جب عورت کو زمین پر شدت سے پاؤں مارنے سے منع کر دیا گیا، مبادا غیر محرم مرد اس کے زیور کی جھنکار ہی سے فتنے میں پڑ جائیں تو چہرہ کھلا رکھنا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟

غور فرمائیے!فتنے میں پڑنے اور بہک جانے کا امکان کہاں زیادہ ہوتا ہے۔ کیا اس صورت میں کہ ایک آدمی کسی عورت کے پاؤں میں پڑی پازیب کی جھنکار سنتا ہے اسے معلوم نہیں کہ وہ عورت جوان ہے یا عمر رسیدہ، حسین و جمیل ہے یا بدصورت یا اس صورت میں کہ ایک مرد کسی دوشیزہ کا کھلا چہرہ دیکھے جو حسن و زیبائی سے بھرپور ہو اور مشاطگی نے اس کے فتنے کو دو چند کہ ہر دیکھنے والا دیکھتا ہی رہ جائے؟ہر با شعور انسان بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ دونوں میں سے کون سی زینت زیادہ فتنے کا باعث اور مستور و مخفی رہنے کی زیادہ حقدار ہے۔

http://kitaben.urdulibrary.org/Pages/PardaUthamian.html
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
الغامدی صاحب کی اس شاذ رائے کے اثرات سامنے آنا شروع ہوگئے۔۔۔
سعودی صحیفہ ۔المواطن ۔میں تبوک کی ایک خبر چھپی ہے ۔کہ غامدی کی رائےکے سبب ایک جوڑے میں علیحدگی ہو گئی
غامدی کی رائے پر عمل کرنے والی عورت کے خاوند کو یہ پسند نہ تھا ،آخر بےپردہ ہونے کی پاداش میں طلاق دے دی ۔ان کے تین بچے بھی ہیں ۔
في تبوك.. “انفصال زوجين” بسبب ظهور زوجة الغامدي “كاشفة الوجه”
تسبب ظهور عضو هيئة مكة سابقاً الشيخ أحمد الغامدي، برفقة زوجته كاشفة الوجه عبر قناة “mbc” بانفصال زوجين في منطقة تبوك.

ووفق المعلومات التي حصلت عليها “المواطن“، فإن الزوجة أرادت أن تتبع الرأي الفقهي الذي تبعته زوجة الغامدي في الكشف عن وجهها، إلا أن الزوج رفض تأييد زوجته في اتباعها ذلك الرأي.
وأكدت المصادر أن الخلاف اشتد بين الزوجين، ما أدى إلى انفصالهما رغم وجود ثلاثة أطفال لهما.
http://www.almowaten.net/?p=269789
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
یہ سعودی غامدی کی بی بی کا بے پردہ ہونا پڑھ کر مجھے ۔۔اکبر الہ آبادی ۔یاد آئے

بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کے پڑ گیا

ہم ریش دکھاتے ہیں کہ اسلام کو دیکھو
مِس زلف دکھاتی ہے کہ اس لام کو دیکھو

ہم ریش دکھاتے ہیں کہ اسلام کو دیکھو
مِس زلف دکھاتی ہے کہ اس لام کو دیکھو
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
الغامدی صاحب کی اس شاذ رائے کے رد میں کئی سعودی علماء کا موقف سامنے آرہا ہے ۔مشہور ومعروف عالم دین محمد المنجد کہتے ہیں :

وعلق الداعية الشيخ محمد المنجد على ماحدث قائلاً : من فتن هذا العصر انعدام الغيرة والرجولة تحت ستار الخلاف الفقهي يعمد أحدهم إلى امرأة خصّه الله بها فيعرضها أمام الناس فويل لمفتتحي أبواب الفتنة ’‘
اس دور کے فتنوں میں ایک یہ بھی ہے کہ : غیرت ،اور مردانگی کا قحط بڑھتا جارہا ہے فقہی اختلاف کے عنوان پر اپنی ناموس کو غیروں کے سامنے سکرین پر پیش کیا جارہا ہے ۔تف ہے ان لوگوں پر جو معاشرے میں فتنوں کے دروازے کھول رہے ہیں ۔
لنک
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
سعودی عرب: فتویٰ موت کی دھمکیوں کا باعث بن گیا

احمد الغامدی کا فتویٰ عورتوں کا چہرے ڈھانپنے کے خلاف تھا​

ریاض ۔ 16 دسمبر (فکروخبر/ ذرائع) امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے محکمے کے صوبہ مکہ کے لیے کمشنر احمد بن قاسم الغامدی کی طرف سے خواتین کے چہرے کے پردے کے خلاف اور میک اپ کے حق میں دیے جانے والے فتوے کے بعد انہیں قتل کی دھمکیاں ملنا شروع ہو گئی ہیں۔ کمشنر احمد بن قاسم الغامدی نے چند دن پہلے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں اپنی اہلیہ کو ساتھ بٹھا کر یہ فتویٰ دیا تھا کہ عورتوں کے لیے چہروں کو ڈھانپنا لازم نہیں ہے۔ انہوں نے خواتین کے گاڑی چلانے کے حق میں بھی رائے دی تھی۔ اس انٹرویو کے سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر ان کے خلاف سخت ریمارکس آنا شروع ہو گئے ہیں۔

احمد الغامدی اپنے متنازعہ فتووں کی وجہ سے قبل ازیں بھی ایسی بحثوں کا موضوع بنتے رہے ہیں۔

ان کے 2008 میں دیے گئے فتووں پر بھی کافی بحث ہوئی تھی۔ انہوں نے اس حوالے سے کہا "لوگ مجھ پر الزام عاید کرتے ہیں کہ میرا کوئی خفیہ ایجنڈا ہے لیکن میرا کہنا یہ ہے کہ میں صحیح بات غلط وقت پر کہہ دیتا ہوں۔"

احمد الغامدی نے کہا "یہ سب کچھ ایک خاتون کی وجہ سے ہوا جس نے پوچھا تھا کہ آیا وہ اپنے چہرے کی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کر سکتی ہے، میں جواباً کہا ہاں آپ کر سکتی ہیں اس کی ممانعت نہیں ہے۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ "میں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے جو اس سے پہلے علماء نے نہ کہی ہو، عورتوں کیطرف سے اپنا چہرہ سامنے لانے کے طریقے ہو سکتا ہے آج تبدیل ہو گئے ہوں لیکن فتویٰ اپنی جگہ پر موجود ہے۔"

احمد الغامدی نے کہا تھا "حجاب یہ نہیں کہ آپ چہرے پر کپڑے کا ٹکڑا لٹکا لیں بلکہ حجاب کا تعلق شرم اور حیا سے ہے، جب میری اہلیہ چہرہ کھول کر ٹی وی پر آتی ہے تو اس سے اس کی پاک دامنی پر حرف نہیں آ جاتا ہے۔"

انہوں نے یہ کہا ان کے علاقے کے دوسرے علماء نے ان کی رائے سے اتفاق نہیں کیا ہے لیکن اس کا انہیں کوئی نقصان نہیں ہے ان کا موقف ان کے ساتھ ہے۔ احمد الغامدی کا موقف ہے کہ ان پر تنقید کرنے والے اس وقت سے انہیں تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جب سے انہیں صوبہ مکہ میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا کمشنر بنایا گیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ میں نے کئی منافقوں کو بے نقاب کیا ہے اور سچ سامنے لایا ہوں، بد قسمتی سے معاشرے نے اسلام داڑھی رکھنے اور سینڈل پہننے کو سمجھ لیا ہے۔
 
Top