عبداللہ عبدل
مبتدی
- شمولیت
- نومبر 23، 2011
- پیغامات
- 493
- ری ایکشن اسکور
- 2,479
- پوائنٹ
- 26
بسم اللہ الرحمن الرحیم
(29- امیر المؤمنین جو خلافت پر والی ومتمکن ہوجائے اور لوگ اس پر مجتمع ہوکر راضی ہوجائیں، یاپھر جو تلوار کے زور پر غالب ہوجائے یہاں تک کہ (اپنے آپ) خلیفہ بن بیٹھے، اور امیر المؤمنین (مسلمانوں کا حاکم) کہلایا جانے لگےتو اس کا حکم سننا اور اطاعت کرنا ہے خواہ نیک ہو یا بد۔
(30- امراء(حکام)خواہ نیک ہوںیابد،کےساتھ مل کر(ان کی سربراہی میں)تاقیام قیامت ،غزوہ (جہاد)باقی رہے گا، اسے چھوڑا نہیں جائے گا۔
(31- اسی طرح مال فئ کی تقسیم اور اقامتِ حدود ان آئمہ (حکام) کے ساتھ باقی رہے گی۔ کسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ ان پر طعن کرے یا ان سے (حکومت کے معاملے میں) تنازع کرے۔ انہیں صدقات (زکوۃ) ادا کرنا جائز ونافذ رہے گا۔ جو اس (زکوۃ)کو ان (حکام)کو ادا کردے تو یہ اس کے لئے کافی ہے۔ (یہ تمام باتیں ان حکام کے حق میں باقی رہیں گی)خواہ نیک ہو یا بد۔
(32- ان (حکام)اور جنہیں یہ امام مقرر کریں ان کے پیچھے نماز جمعہ جائز ہےاورباقی ہے مکمل دو رکعتیں۔ جس نے اپنی نماز کو (ان کے پیچھے پڑھنے کے بعد)لوٹایا تو وہ بدعتی، آثار کو ترک کرنے والا اور سنت کی مخالفت کرنے والا ہے۔ اگر وہ نیک وبد آئمہ کے پیچھے نماز کو جائز نہیں سمجھتا تو اس کے لئے جمعہ کی فضیلت میں سے کچھ بھی حصہ نہیں۔ سنت یہ ہےکہ ان کے ساتھ دو رکعتیں پڑھو، اور یہ یقین رکھو کہ یہ مکمل ادا ہوگئی ہے، اور تمہارے دل میں اس بارے میں کوئی شک بھی نہ ہو۔
(33- جو آئمہِ مسلمین(مسلمانوں کے حکام) پر خروج کریں جبکہ لوگ اس پر مجتمع ہوچکے ہوں اور اس کی خلافت (حکومت) کا اقرار کرتے ہوں کسی بھی طور پر، چاہے رضامندی سے ہو یا (جبراً) غلبہ حاصل کرلے (تو ایسے حکام پر بھی خروج کرنے والا) مسلمانوں کی حکومت واتحاد کو پارہ پارہ کرنے والا ہے، اور رسول اللہ (ﷺ) سے ثابت شدہ آثار (احادیث) کی مخالفت کرنے والا ہے۔ اگر وہ اسی خروج کی حالت میں موت پاتا ہے تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔
(34- سلطان (حاکم) سے قتال کرنا (تختہ الٹنا)جائز نہیں، اور نہ ہی کسی انسان کے لئے ان پر خروج جائز ہے۔ جس نے ایسا کیا تو وہ بدعتی ہے نبی کریم (ﷺ)کی سنت اور ان کےطریقے پر نہیں۔
(35- چوروں (ڈاکوؤں) اور خوارج سے قتال کرنا جائز ہے اگرو ہ کسی شخص کی جان ومال کے درپے ہوں تو اسے چاہیے کہ اپنی جان ومال کی حفاظت کے لئے ان سے لڑے اور ان کا دفاع کرے جس قدر بھی اس کی طاقت ہو۔ مگر اس کے لئے یہ جائز نہیں کہ اگر وہ اسے چھوڑ کر بھاگ جائیں تو انہیں طلب کرے یا ان کا پیچھا کرے،یہ حق سوائے مسلمانوں کےحکمرانوں کے اور کسی کا نہیں۔ اسے بس چاہیے کہ وہ اپنے جگہ پر اپنا دفاع کرے اور اپنی اس کوشش کے بارے میں یہ نیت رکھے کہ کسی کو قتل نہیں کرنا، لیکن اگر اس کے ہاتھوں اپنا دفاع کرتے ہوئے لڑائی میں کوئی قتل ہوجائےتو اللہ تعالی نے اس مقتول (چور وغیرہ) کو رفع دفع کردیا، اور اگر یہ دفاع کرنے والا اس حالت میں کہ وہ اپنی جان ومال کا دفاع کررہا تھا قتل ہوجائے تو اس کی شہادت کی امید کی جاتی ہے۔ اس بارے میں جو احادیث اور تمام آثار آئے ہیں ان میں صرف اس سے (موقع پر) لڑنے کا حکم ہے، اس کے (لازمی) قتل کرنے یا اس کا پیچھا کرنے کا حکم نہیں دیا گیا، اور نہ ہی اس پر خود حملہ آور ہونے کا، اگر وہ گر جائے یا زخمی ہوجائے، یاپھر اسے بطور قیدی قید کرلے تو اس کے لئے جائز نہیں کہ اسے قتل کردے، اور نہ ہی اس پر حد قائم کرے، بلکہ اس کا معاملہ اس حاکم تک لے جائے جسے اللہ تعالی نے اس کا ذمہ دار بنایا ہے، اور وہی اس کے بارے میں فیصلہ کرے گا۔
(36امام احمد نے)فرمایا کہ ہم اہلِ قبلہ میں سے کسی کے بارے میں اس کے عمل کی بناء پر جو وہ کرتا ہے (قطعی طور پر) جنت یا جہنم کی گواہی نہیں دیتے، (بلکہ) نیکوکار کے لئے (جنت کی) امید رکھتے ہیں اور گنہگار کے لئے (جہنم) کا خدشہ رکھتے ہیں، اور (ساتھ ہی)اس کے لئے اللہ تعالی کی رحمت کی امید بھی رکھتے ہیں۔
(30- امراء(حکام)خواہ نیک ہوںیابد،کےساتھ مل کر(ان کی سربراہی میں)تاقیام قیامت ،غزوہ (جہاد)باقی رہے گا، اسے چھوڑا نہیں جائے گا۔
(31- اسی طرح مال فئ کی تقسیم اور اقامتِ حدود ان آئمہ (حکام) کے ساتھ باقی رہے گی۔ کسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ ان پر طعن کرے یا ان سے (حکومت کے معاملے میں) تنازع کرے۔ انہیں صدقات (زکوۃ) ادا کرنا جائز ونافذ رہے گا۔ جو اس (زکوۃ)کو ان (حکام)کو ادا کردے تو یہ اس کے لئے کافی ہے۔ (یہ تمام باتیں ان حکام کے حق میں باقی رہیں گی)خواہ نیک ہو یا بد۔
(32- ان (حکام)اور جنہیں یہ امام مقرر کریں ان کے پیچھے نماز جمعہ جائز ہےاورباقی ہے مکمل دو رکعتیں۔ جس نے اپنی نماز کو (ان کے پیچھے پڑھنے کے بعد)لوٹایا تو وہ بدعتی، آثار کو ترک کرنے والا اور سنت کی مخالفت کرنے والا ہے۔ اگر وہ نیک وبد آئمہ کے پیچھے نماز کو جائز نہیں سمجھتا تو اس کے لئے جمعہ کی فضیلت میں سے کچھ بھی حصہ نہیں۔ سنت یہ ہےکہ ان کے ساتھ دو رکعتیں پڑھو، اور یہ یقین رکھو کہ یہ مکمل ادا ہوگئی ہے، اور تمہارے دل میں اس بارے میں کوئی شک بھی نہ ہو۔
(33- جو آئمہِ مسلمین(مسلمانوں کے حکام) پر خروج کریں جبکہ لوگ اس پر مجتمع ہوچکے ہوں اور اس کی خلافت (حکومت) کا اقرار کرتے ہوں کسی بھی طور پر، چاہے رضامندی سے ہو یا (جبراً) غلبہ حاصل کرلے (تو ایسے حکام پر بھی خروج کرنے والا) مسلمانوں کی حکومت واتحاد کو پارہ پارہ کرنے والا ہے، اور رسول اللہ (ﷺ) سے ثابت شدہ آثار (احادیث) کی مخالفت کرنے والا ہے۔ اگر وہ اسی خروج کی حالت میں موت پاتا ہے تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔
(34- سلطان (حاکم) سے قتال کرنا (تختہ الٹنا)جائز نہیں، اور نہ ہی کسی انسان کے لئے ان پر خروج جائز ہے۔ جس نے ایسا کیا تو وہ بدعتی ہے نبی کریم (ﷺ)کی سنت اور ان کےطریقے پر نہیں۔
(35- چوروں (ڈاکوؤں) اور خوارج سے قتال کرنا جائز ہے اگرو ہ کسی شخص کی جان ومال کے درپے ہوں تو اسے چاہیے کہ اپنی جان ومال کی حفاظت کے لئے ان سے لڑے اور ان کا دفاع کرے جس قدر بھی اس کی طاقت ہو۔ مگر اس کے لئے یہ جائز نہیں کہ اگر وہ اسے چھوڑ کر بھاگ جائیں تو انہیں طلب کرے یا ان کا پیچھا کرے،یہ حق سوائے مسلمانوں کےحکمرانوں کے اور کسی کا نہیں۔ اسے بس چاہیے کہ وہ اپنے جگہ پر اپنا دفاع کرے اور اپنی اس کوشش کے بارے میں یہ نیت رکھے کہ کسی کو قتل نہیں کرنا، لیکن اگر اس کے ہاتھوں اپنا دفاع کرتے ہوئے لڑائی میں کوئی قتل ہوجائےتو اللہ تعالی نے اس مقتول (چور وغیرہ) کو رفع دفع کردیا، اور اگر یہ دفاع کرنے والا اس حالت میں کہ وہ اپنی جان ومال کا دفاع کررہا تھا قتل ہوجائے تو اس کی شہادت کی امید کی جاتی ہے۔ اس بارے میں جو احادیث اور تمام آثار آئے ہیں ان میں صرف اس سے (موقع پر) لڑنے کا حکم ہے، اس کے (لازمی) قتل کرنے یا اس کا پیچھا کرنے کا حکم نہیں دیا گیا، اور نہ ہی اس پر خود حملہ آور ہونے کا، اگر وہ گر جائے یا زخمی ہوجائے، یاپھر اسے بطور قیدی قید کرلے تو اس کے لئے جائز نہیں کہ اسے قتل کردے، اور نہ ہی اس پر حد قائم کرے، بلکہ اس کا معاملہ اس حاکم تک لے جائے جسے اللہ تعالی نے اس کا ذمہ دار بنایا ہے، اور وہی اس کے بارے میں فیصلہ کرے گا۔
(36امام احمد نے)فرمایا کہ ہم اہلِ قبلہ میں سے کسی کے بارے میں اس کے عمل کی بناء پر جو وہ کرتا ہے (قطعی طور پر) جنت یا جہنم کی گواہی نہیں دیتے، (بلکہ) نیکوکار کے لئے (جنت کی) امید رکھتے ہیں اور گنہگار کے لئے (جہنم) کا خدشہ رکھتے ہیں، اور (ساتھ ہی)اس کے لئے اللہ تعالی کی رحمت کی امید بھی رکھتے ہیں۔
اقتباس:
اصول السنۃ از امام اہل السنہ احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ
اصول السنۃ از امام اہل السنہ احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ