• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خوارج ، امام اہل السنہ احمد بن حنبل رح کی نظر میں!

شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
بسم اللہ الرحمن الرحیم​

(29- امیر المؤمنین جو خلافت پر والی ومتمکن ہوجائے اور لوگ اس پر مجتمع ہوکر راضی ہوجائیں، یاپھر جو تلوار کے زور پر غالب ہوجائے یہاں تک کہ (اپنے آپ) خلیفہ بن بیٹھے، اور امیر المؤمنین (مسلمانوں کا حاکم) کہلایا جانے لگےتو اس کا حکم سننا اور اطاعت کرنا ہے خواہ نیک ہو یا بد۔

(30- امراء(حکام)خواہ نیک ہوںیابد،کےساتھ مل کر(ان کی سربراہی میں)تاقیام قیامت ،غزوہ (جہاد)باقی رہے گا، اسے چھوڑا نہیں جائے گا۔

(31- اسی طرح مال فئ کی تقسیم اور اقامتِ حدود ان آئمہ (حکام) کے ساتھ باقی رہے گی۔ کسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ ان پر طعن کرے یا ان سے (حکومت کے معاملے میں) تنازع کرے۔ انہیں صدقات (زکوۃ) ادا کرنا جائز ونافذ رہے گا۔ جو اس (زکوۃ)کو ان (حکام)کو ادا کردے تو یہ اس کے لئے کافی ہے۔ (یہ تمام باتیں ان حکام کے حق میں باقی رہیں گی)خواہ نیک ہو یا بد۔

(32- ان (حکام)اور جنہیں یہ امام مقرر کریں ان کے پیچھے نماز جمعہ جائز ہےاورباقی ہے مکمل دو رکعتیں۔ جس نے اپنی نماز کو (ان کے پیچھے پڑھنے کے بعد)لوٹایا تو وہ بدعتی، آثار کو ترک کرنے والا اور سنت کی مخالفت کرنے والا ہے۔ اگر وہ نیک وبد آئمہ کے پیچھے نماز کو جائز نہیں سمجھتا تو اس کے لئے جمعہ کی فضیلت میں سے کچھ بھی حصہ نہیں۔ سنت یہ ہےکہ ان کے ساتھ دو رکعتیں پڑھو، اور یہ یقین رکھو کہ یہ مکمل ادا ہوگئی ہے، اور تمہارے دل میں اس بارے میں کوئی شک بھی نہ ہو۔
(33- جو آئمہِ مسلمین(مسلمانوں کے حکام) پر خروج کریں جبکہ لوگ اس پر مجتمع ہوچکے ہوں اور اس کی خلافت (حکومت) کا اقرار کرتے ہوں کسی بھی طور پر، چاہے رضامندی سے ہو یا (جبراً) غلبہ حاصل کرلے (تو ایسے حکام پر بھی خروج کرنے والا) مسلمانوں کی حکومت واتحاد کو پارہ پارہ کرنے والا ہے، اور رسول اللہ (ﷺ) سے ثابت شدہ آثار (احادیث) کی مخالفت کرنے والا ہے۔ اگر وہ اسی خروج کی حالت میں موت پاتا ہے تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔

(34- سلطان (حاکم) سے قتال کرنا (تختہ الٹنا)جائز نہیں، اور نہ ہی کسی انسان کے لئے ان پر خروج جائز ہے۔ جس نے ایسا کیا تو وہ بدعتی ہے نبی کریم (ﷺ)کی سنت اور ان کےطریقے پر نہیں۔
(35- چوروں (ڈاکوؤں) اور خوارج سے قتال کرنا جائز ہے اگرو ہ کسی شخص کی جان ومال کے درپے ہوں تو اسے چاہیے کہ اپنی جان ومال کی حفاظت کے لئے ان سے لڑے اور ان کا دفاع کرے جس قدر بھی اس کی طاقت ہو۔ مگر اس کے لئے یہ جائز نہیں کہ اگر وہ اسے چھوڑ کر بھاگ جائیں تو انہیں طلب کرے یا ان کا پیچھا کرے،یہ حق سوائے مسلمانوں کےحکمرانوں کے اور کسی کا نہیں۔ اسے بس چاہیے کہ وہ اپنے جگہ پر اپنا دفاع کرے اور اپنی اس کوشش کے بارے میں یہ نیت رکھے کہ کسی کو قتل نہیں کرنا، لیکن اگر اس کے ہاتھوں اپنا دفاع کرتے ہوئے لڑائی میں کوئی قتل ہوجائےتو اللہ تعالی نے اس مقتول (چور وغیرہ) کو رفع دفع کردیا، اور اگر یہ دفاع کرنے والا اس حالت میں کہ وہ اپنی جان ومال کا دفاع کررہا تھا قتل ہوجائے تو اس کی شہادت کی امید کی جاتی ہے۔ اس بارے میں جو احادیث اور تمام آثار آئے ہیں ان میں صرف اس سے (موقع پر) لڑنے کا حکم ہے، اس کے (لازمی) قتل کرنے یا اس کا پیچھا کرنے کا حکم نہیں دیا گیا، اور نہ ہی اس پر خود حملہ آور ہونے کا، اگر وہ گر جائے یا زخمی ہوجائے، یاپھر اسے بطور قیدی قید کرلے تو اس کے لئے جائز نہیں کہ اسے قتل کردے، اور نہ ہی اس پر حد قائم کرے، بلکہ اس کا معاملہ اس حاکم تک لے جائے جسے اللہ تعالی نے اس کا ذمہ دار بنایا ہے، اور وہی اس کے بارے میں فیصلہ کرے گا۔
(36امام احمد نے)فرمایا کہ ہم اہلِ قبلہ میں سے کسی کے بارے میں اس کے عمل کی بناء پر جو وہ کرتا ہے (قطعی طور پر) جنت یا جہنم کی گواہی نہیں دیتے، (بلکہ) نیکوکار کے لئے (جنت کی) امید رکھتے ہیں اور گنہگار کے لئے (جہنم) کا خدشہ رکھتے ہیں، اور (ساتھ ہی)اس کے لئے اللہ تعالی کی رحمت کی امید بھی رکھتے ہیں۔
اقتباس:
اصول السنۃ از امام اہل السنہ احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ​
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
بسم اللہ الرحمن الرحیم​

(29- امیر المؤمنین جو خلافت پر والی ومتمکن ہوجائے اور لوگ اس پر مجتمع ہوکر راضی ہوجائیں، یاپھر جو تلوار کے زور پر غالب ہوجائے یہاں تک کہ (اپنے آپ) خلیفہ بن بیٹھے، اور امیر المؤمنین (مسلمانوں کا حاکم) کہلایا جانے لگےتو اس کا حکم سننا اور اطاعت کرنا ہے خواہ نیک ہو یا بد۔​
(30- امراء(حکام)خواہ نیک ہوںیابد،کےساتھ مل کر(ان کی سربراہی میں)تاقیام قیامت ،غزوہ (جہاد)باقی رہے گا، اسے چھوڑا نہیں جائے گا۔​
(31- اسی طرح مال فئ کی تقسیم اور اقامتِ حدود ان آئمہ (حکام) کے ساتھ باقی رہے گی۔ کسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ ان پر طعن کرے یا ان سے (حکومت کے معاملے میں) تنازع کرے۔ انہیں صدقات (زکوۃ) ادا کرنا جائز ونافذ رہے گا۔ جو اس (زکوۃ)کو ان (حکام)کو ادا کردے تو یہ اس کے لئے کافی ہے۔ (یہ تمام باتیں ان حکام کے حق میں باقی رہیں گی)خواہ نیک ہو یا بد۔​
(32- ان (حکام)اور جنہیں یہ امام مقرر کریں ان کے پیچھے نماز جمعہ جائز ہےاورباقی ہے مکمل دو رکعتیں۔ جس نے اپنی نماز کو (ان کے پیچھے پڑھنے کے بعد)لوٹایا تو وہ بدعتی، آثار کو ترک کرنے والا اور سنت کی مخالفت کرنے والا ہے۔ اگر وہ نیک وبد آئمہ کے پیچھے نماز کو جائز نہیں سمجھتا تو اس کے لئے جمعہ کی فضیلت میں سے کچھ بھی حصہ نہیں۔ سنت یہ ہےکہ ان کے ساتھ دو رکعتیں پڑھو، اور یہ یقین رکھو کہ یہ مکمل ادا ہوگئی ہے، اور تمہارے دل میں اس بارے میں کوئی شک بھی نہ ہو۔​
(33- جو آئمہِ مسلمین(مسلمانوں کے حکام) پر خروج کریں جبکہ لوگ اس پر مجتمع ہوچکے ہوں اور اس کی خلافت (حکومت) کا اقرار کرتے ہوں کسی بھی طور پر، چاہے رضامندی سے ہو یا (جبراً) غلبہ حاصل کرلے (تو ایسے حکام پر بھی خروج کرنے والا) مسلمانوں کی حکومت واتحاد کو پارہ پارہ کرنے والا ہے، اور رسول اللہ (ﷺ) سے ثابت شدہ آثار (احادیث) کی مخالفت کرنے والا ہے۔ اگر وہ اسی خروج کی حالت میں موت پاتا ہے تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔​
(34- سلطان (حاکم) سے قتال کرنا (تختہ الٹنا)جائز نہیں، اور نہ ہی کسی انسان کے لئے ان پر خروج جائز ہے۔ جس نے ایسا کیا تو وہ بدعتی ہے نبی کریم (ﷺ)کی سنت اور ان کےطریقے پر نہیں۔
(35- چوروں (ڈاکوؤں) اور خوارج سے قتال کرنا جائز ہے اگرو ہ کسی شخص کی جان ومال کے درپے ہوں تو اسے چاہیے کہ اپنی جان ومال کی حفاظت کے لئے ان سے لڑے اور ان کا دفاع کرے جس قدر بھی اس کی طاقت ہو۔ مگر اس کے لئے یہ جائز نہیں کہ اگر وہ اسے چھوڑ کر بھاگ جائیں تو انہیں طلب کرے یا ان کا پیچھا کرے،یہ حق سوائے مسلمانوں کےحکمرانوں کے اور کسی کا نہیں۔ اسے بس چاہیے کہ وہ اپنے جگہ پر اپنا دفاع کرے اور اپنی اس کوشش کے بارے میں یہ نیت رکھے کہ کسی کو قتل نہیں کرنا، لیکن اگر اس کے ہاتھوں اپنا دفاع کرتے ہوئے لڑائی میں کوئی قتل ہوجائےتو اللہ تعالی نے اس مقتول (چور وغیرہ) کو رفع دفع کردیا، اور اگر یہ دفاع کرنے والا اس حالت میں کہ وہ اپنی جان ومال کا دفاع کررہا تھا قتل ہوجائے تو اس کی شہادت کی امید کی جاتی ہے۔ اس بارے میں جو احادیث اور تمام آثار آئے ہیں ان میں صرف اس سے (موقع پر) لڑنے کا حکم ہے، اس کے (لازمی) قتل کرنے یا اس کا پیچھا کرنے کا حکم نہیں دیا گیا، اور نہ ہی اس پر خود حملہ آور ہونے کا، اگر وہ گر جائے یا زخمی ہوجائے، یاپھر اسے بطور قیدی قید کرلے تو اس کے لئے جائز نہیں کہ اسے قتل کردے، اور نہ ہی اس پر حد قائم کرے، بلکہ اس کا معاملہ اس حاکم تک لے جائے جسے اللہ تعالی نے اس کا ذمہ دار بنایا ہے، اور وہی اس کے بارے میں فیصلہ کرے گا۔​
(36امام احمد نے)فرمایا کہ ہم اہلِ قبلہ میں سے کسی کے بارے میں اس کے عمل کی بناء پر جو وہ کرتا ہے (قطعی طور پر) جنت یا جہنم کی گواہی نہیں دیتے، (بلکہ) نیکوکار کے لئے (جنت کی) امید رکھتے ہیں اور گنہگار کے لئے (جہنم) کا خدشہ رکھتے ہیں، اور (ساتھ ہی)اس کے لئے اللہ تعالی کی رحمت کی امید بھی رکھتے ہیں۔​

اقتباس:​
اصول السنۃ از امام اہل السنہ احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ​
بشرط ہے کہ حاکم مسلمان ہو - ورنہ حاکم کے قتل کی استثنائی حکم حدیث رسول صل الله علیہ وسلم سے ثابت ہے- ملاحظه فرمائیں یہ حدیث -

خِیَارُ اَءِمَّتِکُمُ الَّذِیْنَ تُحِبُّوْنَھُمْ وَیُحِبُّوْنَکُمْ وَتُصَّلُّوْنَ عَلَیْھِمْ وَیُصَلُّوْنَ عَلَیْکُمْ وَشِرَارُ اَءِمَّتِکُمُ الَّذِیْنَ تُبْغِضُوْنَھُمْ وَیُبْغِضُوْنَکُمْ وَتَلْعَنُوْنَھُمْ وَیَلْعَنُوْنَکُمْ فَقُلْنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اَفَلَا نُنَابِذُھُمْ بِالسَّیْفِ عِنْدَ ذٰلِکَ قَالَ لَا مَا اَقَامُوْا فِیْکُمُ الصَّلٰوۃَ اَلَامَنْ وُلِّیَ عَلَیْہِ وَالٍ فَرَاٰہُ یَاْتِیْ شَیْءًا مِّنْ مَّعْصِیَۃِ اللّٰہِ فَلْیَکْرَہْ مَا یَاْتِیْ مِنْ مَّعْصِیَۃِ اللّٰہِ وَلَا یَنْزَعَنَّ یَدًا مِنْ طَاعَۃٍ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب خیار الائمہ وشرارھم) تمھارے بہترین حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں اور جن کے لیے تم دعا کرو اور وہ تمھارے لیے دعا کریں، اور تمھارے بدترین حکمران وہ ہیں جن سے تم نفرت کرو اور وہ تم سے نفرت کریں اور تم ان پر لعنت بھیجو اور وہ تم پر لعنت بھیجیں۔ ہم نے پوچھا کہ یارسولؐ اللہ کیا ایسی حالت میں ہم تلوار کے ذریعے ان کا مقابلہ نہ کریں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، جب تک وہ تمھارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں اس وقت تک تم ان کے خلاف تلوار نہیں اُٹھا سکتے۔ سنو! جس شخص پر کوئی حکمران حکومت کر رہا ہو اور وہ اس میں اللہ کی نافرمانی دیکھے تو اللہ کی اس معصیت کو تو بُرا سمجھے (اور اس میں اس کی اطاعت بھی نہ کرے) لیکن معروف میں اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے''، یعنی خروج اور مسلح بغاوت نہ کرو۔

نماز چونکہ مومن کی پہچان اور ایمان کی علامت ہے، اس لیے فرمایا کہ جب تک وہ نماز قائم کرتے رہیں تو تم ان کے خلاف تلوار نہ اٹھاؤ۔ دوسری حدیث میں آیا ہے کہ جب تک تم ان کے اندر ایسا کھلا کفر نہ دیکھو جس کے کفر ہونے پر تمھارے پاس قطعی دلیل موجود ہو، اس وقت تک تم ان سے جھگڑا نہ کرو۔(بخاری ، کتاب الفتن، مسلم، کتاب الامارۃ)

اُم سلمہؓ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایسا زمانہ آرہا ہے کہ اس وقت تم پر ایسے لوگ حکومت کریں گے جن کے کچھ کام تم کو اچھے نظر آئیں گے اور کچھ کام بُرے نظر آئیں گے۔ پس جس نے ان کے بُرے کاموں کو بُرا سمجھا وہ بچ گیا اور جس نے ان پر اعتراض کیا وہ بھی بچ گیا لیکن جس نے ان کو پسند کیا اور ان کی پیروی کی وہ تباہ ہوگیا۔ صحابہؓ نے پوچھا: کیا ہم ان سے لڑائی شروع نہ کریں؟ آپؐ نے فرمایا: نہیں، جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب وجوب الانکار علی الامراء فیما یخالف الشرع وترک قتالھم ما صَلُّوْا)

امام نوویؒ نے مسلم کی شرح میں اس جگہ لکھا ہے کہ: فَفِیْہِ مَعْنَی مَا سَبَقَ اَنَّہٗ لَا یَجُوْزُ الْخُرُوْجُ عَلَی الْخُلَفَآءَ بِمُجَرَّدِ الظُّلْمِ اَوِ الْفِسْقِ مَا لَمْ یُغَیِّرُوْا شَیْءًا مِّنْ قَوَاعِدِ الْاِسْلَامِ (نووی شرح مسلم)۔ اس حدیث میں وہی مفہوم بیان ہوا ہے جس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے کہ امرا کے خلاف محض ان کے ظلم اور فسق کی وجہ سے خروج جائز نہیں ہے جب تک کہ وہ اسلام کے اصول و قواعد میں کوئی تغیر اور تبدیلی نہ کریں۔
 
Top