یقیناً ابن تیمیہ رحمہ اللہ بالکل بجا ارشاد فرمایا کہ لوگوں سے قتال اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بغض وعدوات ظاہر ہوگیا ۔ چنانچہ عصر حاضر میں ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ ایسے گروہوں سے ولایت اور محبت رکھتے ہیں جو کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے کھلے دشمن اور ان پر تبرہ کرنے والے ہیں جو کہ عصرِ حاضر میں سب سے بڑا تکفیری گروہ رکھتے ہیں وہ ہیں دینِ اسلام سے مرتد روافض جو کہ یہ دعویٰ کرتے ہیں سوائے پانچ صحابہ کے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مرتد ہوگئے تھے۔تو میرے بھائیوں کیا اس دور میں مرتد رافضیوں سے بڑا کوئی تکفیری گروہ اس سرزمین پر موجود ہے؟؟؟ ہرگز نہیں عصرِ حاضر میں سب سے بڑا تکفیری گروہ روافض کا ہے اس کے بعد وہ لوگ بھی تکفیری ہیں جو ان روافض کے ہمنواء ہیں جو ان کی محبت میں ان کو شہداء تک کے درجے پر فائز کرنے سے نہیں چوکتے۔ اسی فورم پر جماعۃ الدعوۃ کے کارکن کی طرف سے اپ لوڈ کیا جانے والے پوسٹر ان کے انہی خیالات کا مظہر ہے۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ان مرتد رافضیوں نے مسلمانوں سے ہمیشہ جنگ کی ان کی یہ جنگ ہمیشہ خفیہ ہوتی تھی ۔ یہ بیرونی حملہ آوروں کا مسلمانوں کے خلاف ساتھ دیتے تھے ۔مسلمانوں کی جاسوسی کرتے تھے ۔ ان کے امراء جہاد کی ریکی کرتے تھے ۔ اور ان کی خبروں کو بیرونی کافروں تک پہنچاتے تھے ۔ یہاں تک کہ انہوں نے چوری چھپے مسلمان امراء جہاد کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے جن کو شہید کرنے کے لئے روافض نے حتی الامکان کوششیں کیں۔اللہ تعالیٰ نے ہر بار ان کی کوششوں کو خاک میں ملادیا۔ ماضی میں اور موجودہ دور میں یہ رافضی مرتدین یہود کے سب سے بڑے حلیف رہے ہیں ۔اور آج بھی یہی صورتحال ہے۔مجاہدین کے دشمن رافضیوں کو تکفیری قرار دینے کی بجائے مجاہدین کو تکفیری قرار دیتے ہیں ۔ کتنے ہی پوسٹر اس فورم پر جماعۃ الدعوۃ کے کارکنان نے مجاہدین کو تکفیری ثابت کرنے کے لئے شائع کئے ہیں ۔ لیکن آج تک ایک بھی پوسٹر انہوں نے مرتد رافضیوں کے خلاف شائع نہیں کیا جو کہ ماضی میں بھی اور حال میں بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مرتد قرار دیتے ہیں۔کیونکہ جماعۃ الدعوۃ اور ان کے امیر جناب انجینئر حافظ محمد سعید صاحب کی ولایت اور محبت مرتد روافض کے ساتھ ہے اس بات کو ملک کا ایک ایک فرد جانتا ہے کہ مرتد روافض جماعۃ الدعوۃ کے جلسوں میں شریک ہوتے ہیں اور اپنے عقائد کے مطابق یاعلی مدد کے نعرے جماعۃ الدعوۃ کے اسٹیجوں سے بلند کرتے ہیں۔کیا یہ تمام باتیں اہل علم سے چھپی ہوئی ہیں ۔ ہرگز نہیں !یہ تمام باتیں اب سوشل میڈیا کے صفحات کا حصہ بن چکی ہیں۔بسم اللہ الرحمن الرحیم
{{{کیا خوارج آج بھی موجود ہیں؟ }}}
امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
کانوا أهل سيف وقتال، ظهرت مخالفتهم للجماعة؛ حين کانوا يقاتلون الناس. وأما اليوم فلا يعرفهم أکثر الناس.. . . ومروقهم من الدين خروجهم باستحلالهم دماء المسلمين وأموالهم. (ابن تيمية، النبوات : 222)
''وہ اسلحہ سے لیس اور بغاوت پر آمادہ تھے، جب وہ لوگوں سے قتال کرنے لگے تو اُن کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت سے مخالفت و عداوت ظاہر ہوگئی۔ تاہم عصرِ حاضر میں (بظاہر دین کا لبادہ اوڑھنے کی وجہ سے) لوگوں کی اکثریت انہیں پہچان نہیں پاتی۔ ۔ ۔ ۔ وہ دین سے نکل گئے کیوں کہ وہ مسلمانوں کے خون اور اَموال (جان و مال) کو حلال و مباح قرار دیتے تھے"۔
امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں
وهؤلاء الخوارج ليسوا ذلک المعسکر المخصوص المعروف فی التاريخ، بل يخرجون إلی زمن الدجّال.(ابن تيميه، مجموع فتاوٰی، 28 : 495، 496)
"اور یہ خوارج (سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے عہد کا) وہ مخصوص لشکر نہیں ہے جو تاریخ میں معروف ہے بلکہ یہ دجال کے زمانے تک پیدا ہوتے اور نکلتے رہیں گے۔"
پھر آخر میں ابن تیمہ رحمہ اللہ فیصلہ کن طور پر لکھتے ہیں:
وتخصيصه صلی الله عليه وآله وسلم للفئة التی خرجت فی زمن علی بن أبی طالب، إنما هو لمعان قامت بهم، وکل من وجدت فيه تلک المعانی ألحق بهم، لأن التخصيص بالذکر لم يکن لاختصاصهم بالحکم، بل لحاجة المخاطبين فی زمنه عليه الصلاة والسلام إلی تعيينهم.
(ابن تيميه، مجموع فتاوٰی، 28 : 476، 477)
اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُس ایک گروہ کو خاص فرمانا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں نکلا تھا، اس کے کئی معانی ہیں جو ان پر صادق آتے ہیں۔ ہر وہ شخص یا گروہ جس میں وہ صفات پائی جائیں اسے بھی ان کے ساتھ ملایا جائے گا۔ کیونکہ ان کا خاص طور پر ذکر کرنا ان کے ساتھ حکم کو خاص کرنے کے لئے نہیں تھا بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کے ان مخاطبین کو (مستقبل میں) ان خوارج کے تعین کی حاجت تھی"۔
یقیناً اگر حکام نے اپنے ممالک میں اسلامی قوانین کا نفاذ کیا ہوا ہے ۔ اور وہ کسی صلیبی اور مجوسی اتحاد میں شامل نہیں ہیں تو ان کے خلاف قتال کرنا جائز نہیں ہے۔لیکن اگر حکمران ظالم ہوں جائر ہوں تو خود امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک ان کے خلاف خروج جائز ہوجاتا ہے ۔ جس کی متعدد مثالیں ہم اسی فورم پر اپنے پوسٹوں میں جماعۃ الدعوۃ کے کارکنان سے بحث کے دوران پیش کرچکے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ صاحبِ پوسٹ کا اشارہ پاکستان میں جاری وساری صورتحال کی طرف ہے۔تو ہمارا اس پوسٹ کو تحریر کرنے والے کو جواب یہ ہے کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہ کب کہا کہ اگر خود کو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے والا مسلمان ملک کا حکم صلیبیوں کے لشکر کا سپاہی بن جائے تو اسکے خلاف قتال وخروج نہیں ہے۔دیکھیں جس طرح ان مسلمان ملکوں کے حکمران کلمہ پڑھتے ہیں لیکن ان کے ولایت امریکہ اور صلیبی اتحاد ناٹو کے ساتھ ہے ۔ اسی طرح تاتاری بھی کلمہ گو تھے لیکن ان کے متعلق شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کیا فرماتے ہیں آپ بھی ملاحظہ کیجئے:دین محمدیہ میں شریعت اسلامی کے احیاء و نفاذ کے لئے کفار مشرکین سے قتل و قتال کا راستہ بلا شبہ ایک حقیقت ہے مگر مسلمان ملکوں ،ریاستوں میں اپنے ہی حکام کے خلاف قتل و قتال سے شریعت کے نفاذ کی تحریک کھڑی کرنا اور مسلمانوں میں امن و عامہ کو تباہی سے دوچار کرنا خالصتا خوارج کا عقیدہ و منہج ہے اور خارجیوں کا کام ہے ، چاہے وہ کس بھی دور میں کیوں نہ ہو۔اس پر تاریخ گواہ ہے۔
ہم اپنی اس تحریر کا اختتام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اسی قول پر کرتے ہیں کہ
"وکل من وجدت فيه تلک المعانی ألحق بهم"،(9)
"ہر وہ شخص یا گروہ جس میں وہ صفات پائی جائیں اسے بھی ان کے ساتھ ملایا جائے گا"۔
اللہ تمام مسلمانوں پر رحم فرمائے۔ آمین
تو اس شخص کے متعلق خود غور فرمالیں کہ جو اس بات کا اعتقاد اورنظریہ رکھتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جنگ وقتال کرنا میرے دین ومذہب میں شامل ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ ثانی الذکر شخص کفر وارتداد میں کہیں زیادہ آگے بڑھا ہوا ہے ۔'(وَنَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکَ)شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ''الاِخْتِیَارَاتُ الفِقھِیَّۃ '' میں فرماتے ہیں :
''من جَمَّزَ اِلٰی مُعَسْکَرِ التُّتَرِ وَ لَحِقَ بِھِمْ ارْتَدَّ وَ حَلَّ دَمُہُ وَ مَالُہٗ ، فَاِذَا کَانَ ھَذَا فِی مُجَرَّدِ اللُّحُوْقِ بِالْمُشْرِکِیْنَ فَکَیْفَ بِمَنْ اعْتَقَدَ مَعَ ذَالِکَ أَنَّ جِھَادَھُمْ وَ قِتَالَھُمْ لِأَھْلِ الْاِسْلَامِ دِیْنُ یُدَانُ بِہِ ، ھَذَا أَوْلٰی بِالْکُفْرِ وَالرِّدَّۃِ۔''
''جو شخص تاتاریوں کے معسکر (چھاؤنی)کی طرف بھاگا بھاگا جاتا ہے اور ان سے جاملتا ہے ،وہ شخص مرتد ہوجاتا ہے اور اس کا خون بہانا اور اس کا مال اپنے قبضہ میں لینا جائز ہے ۔مشرکین کے ساتھ صرف جاملنے کا یہ حکم ہے کہ وہ مرتد ہوجاتا ہے اور اس کو قتل کرنا اور اس کا مال قبضہ میں لینا جائز ہے ۔