• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خواہش نفس سے چھٹکارا

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
خواہش نفس سے چھٹکارا

امام ابن قیم الجوزیہؒؔٓ
ترجمہ: محمد اَرشد کاشمیری​

خواہش طبیعت کا ایسی چیز کی طرف مائل ہونا ہے جو اس کی ہدایت کا باعث بنتی ہے۔ خواہش کو انسان کی ضرورتِ بقا کے پیش نظر پیدا کیا گیا ہے، اگر انسان میں کھانے، پینے اور نکاح کی طرف میلان نہ ہوتا تو وہ نہ کھاتا، نہ پیتا اور نہ ہی نکاح کرتا، لہٰذا خواہش آدمی کو اس کے ارادے کی تکمیل پر اُبھارتی ہے جیسے غضب اذیت میں مبتلا کرنے والی چیز سے روکتا ہے تو جس طرح غصہ کی نہ مطلقاً مذمت کی جا سکتی ہے اور نہ ہی مدح، اسی طرح خواہش کو بھی مطلقاً مذموم یا ممدوح قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جب انسان پر خواہش نفس، شہوت اور غضب کی پیروی غالب آجائے تو وہ نفع کی حد پر ہی نہیں رکتا اسی لئے خواہش، شہوت اور غضب کو مذموم ٹھہرایا جاتا ہے کیونکہ عموماً اس میں نقصان کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ بہت کم لوگ ان چیزوں میں عدل کرتے ہیں اور حَدّ مُنتفِع پر رکتے ہیں۔ اسی طرح ایسی طبیعت سے متصف لوگ شاذر ونادِر ہوتے ہیں جن کے مزاج میں ہر طرح کا اعتدال ہوتا ہے۔ کسی ایک چیز کا غلبہ ضرور افراط وتفریط کی طرف لے جاتا ہے۔ ناصح یہی چاہتا ہے کہ شہوت اور غضب کی قوت کو ہر اعتبار سے معتدل بنایا جائے یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ جس کا وجود پوری دنیا میں ما سوائے چند افراد کے کہیں نہیں پایا جاتا۔
اسی لئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کا ذکر حرفِ مذمت کے ساتھ کیا ہے اور سنت میں بھی اس کی مذمت بیان کی گئی ہے اور جہاں کہیں اس کو بطور مدح ذکر کیا گیا ہے وہاں یہ اِتباع سے موصوف ہے، جیسے حدیث ِمبارکہ ہے:
’’ لَا یُؤمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّیٰ یَکُونَ ہَوَاہُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِہٖ ‘‘ (السّنۃ لابن أبی عاصم: ۱۴)
’’تم میں کوئی ایک مومن نہیں ہو سکتا حتیٰ کہ اس کی خواہشات اس کے تابع ہوجائیں جو میں آیا ہوں۔‘‘
مشہور کہاوَت ہے:
’’خواہش نفس ایسی گھات ہے جس سے نہیں بچا جاسکتا۔‘‘
امام شعبیؒ فرماتے ہیں:
’’الہویٰ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ اپنی پیروی کرنے والے کو بلندی سے پستی کی طرف لے جاتی ہے۔‘‘
جب یہ لفظ مطلق آئے تو اس سے مراد موجودہ لذت ہوتی ہے، قطع نظر اس کے کہ آخرت میں اس کا انجام کیاہے۔ خواہش، عجلت میں نفع دینے والی چیزوں کی طرف مائل کرتی ہے اگرچہ اکثر اَوقات جلد اور تاخیر سے فائدہ دینے والی چیزیں خواہش کی پیروی کے باعث ملامت کرنے والی باتوں کا سبب بنتی ہیں، آخرت کی ندامت سے قبل دنیا میں بھی نادم ہونا پڑتا ہے۔ خواہش، ہویٰ پرست کواس میں غور وفکر کرنے سے اندھا کردیتی ہے حالانکہ مروت، دین اور عقل ایسی لذت سے منع کرتے ہیں جس کے پیچھے دکھ اور درد ہوں اور رہی شہوت کی بات تو وہ ندامت کو ورثہ میں لیے پھرتی ہے۔ جب کوئی انسان ایسا کرنا چاہتا ہے تو یہی عقل، دین اور مروت میں سے ہر ایک اس کو ایسا کرنے سے منع کرتی ہے۔ اور فرمانبردار وہ شخص ہے جو خواہش، شہوت اور غضب پر غلبہ حاصل کرلے۔
جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر بچے سے اس کی من پسند چیز لے لی جائے تو وہ کم عقلی کے باعث اس کا برا مناتا ہے اور ایسے ہی وہ شخص ہے جس کا ایمان کمزور ہوتا ہے جب اس کی خواہش پوری نہیں ہوتی تو اس کی حالت اسی بچے کی طرح ہوتی ہے، اگرچہ دین میں کمزوری کے باعث اس خواہش کی تکمیل جس میں مروت نہیں ہوتی وہ مروت کی کمزوری کے باعث خواہش کے عدم تکمیل پر برا اَثر لیتا ہے حالانکہ اگر وہ اپنا مقصود حاصل کرے تو اس کی مروت کو یہی خواہش تباہ کردے گی۔ اسی کے متعلق امام شافعی ؒ فرماتے ہیں:
لو علِمتُ أنَّ المائَ البارِدَ یثْلمُ مُروئَ تي لَمَا شربتُہ۔
’’اگر میں جان لیتا کہ ٹھنڈا پانی میری مروّت، کامل مردانگی کو تباہ کردے گا تو میں کبھی بھی نہ پیتا۔‘‘
جانداروں میں سے جس مکلف کا، خواہش کے ذریعے امتحان لیا جاتا ہے تو ہر وقت رونما ہونے والے حوادث اس میں دو حاکم پیدا کردیتے ہیں: ایک حاکم عقل اور دوسرا دین ہے۔ اب مکلف کے لیے ضروری ہے کہ وہ خواہش نفس کے متعلق حوادثات کو ہمیشہ تنقید کے لیے ان دو حاکموں کے پا س لے جائے تاکہ وہ خواہشات، جن کے پیچھے امن ہے اور وہ، جن سے پیچھے تکلیف ہے، میں فر ق کیا جا سکے۔ سوال یہ ہے کہ ان خواہشات میں گھرا ہوا شخص کس طرح چھٹکارا حاصل کر سکتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان خواہشات نفسانیہ سے چھٹکارا صرف اللہ تعالیٰ کی خاص مدد اور توفیق ہی سے ممکن ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
ہاں اس کے لیے کچھ معاون اُمور ہیں: جو درج ذیل ہیں:
1۔انسان اپنے نفس کے حق میں اور خواہش کے خلاف پختہ عزم کر لے۔
2۔اس خواہش کے کھو جانے پر انسان اپنے نفس کو صبر کا گھونٹ پلا دے۔
3۔وہ قوتِ نفس پیدا کرے جو صبر کے گھونٹ کو پینے کے لیے انسان کو بہادر بنا دے۔ اور لمحے بھر کا صبر ہی بہادری ہے۔ صبر کے سبب ہی سے انسان بہترین زندگی پاتا ہے۔
4۔لمحہ بھر کا غورو فکر، جو اس کام کے نتیجے کو اچھا بنا دیتا ہے اور اس صبر کے گھونٹ کو باعث ِ شفا بنا دیتا ہے۔
5۔انسان کا اس خواہش کی پیروی سے متعلق تمام تکالیف اور پریشانیوں پر غور وفکر کرنا۔
6۔خواہش کے ترک پر اللہ تعالیٰ کے ہاں انسان کی قدر ومنزلت بڑھ جاتی ہے، لوگ اس کی دل سے عزت کرتے ہیں اور یہ چیز خواہش کی پیروی میں موجود لذت سے کہیں زیادہ بہتر اور نفع بخش ہے۔
7۔عفت کی چاشنی وحلاوت کو معصیت کی لذت پر ترجیح دینا۔
8۔دشمن پر غلبہ کی صورت میں خوشی اور شکست کی صورت میں غصہ، غم اور دکھ ہوتا ہے اور اس کی وجہ بھی خواہش کا پورا نہ ہونا ہے، جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے بندوں میں سے اس کو پسند کرتے ہیں جو اللہ کے دشمنوں کو شکست دے اور انہیں غصہ دلائے۔
کتابِ عزیز میں اِرشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ وَلَا یَطَئُونَ مَوْطِئًا یَّغِیظُ الْکُفَّارَ وَلَا یَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَّیْلًا اِلَّا کُتِبَ لَھُمْ بِہٖ عَمَلٌ صَالِح ‘‘ (التوبۃ: ۱۲۰)
’’اور جو کسی ایسی جگہ چلے جو کفار کے لئے موجب غیظ ہوا ہو اور دشمنوں کی جو کچھ خبر لی، ان سب پر ان کے نام نیک کام لکھا گیا۔‘‘
نیز فرمایا:
’’ لِیَغِیظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ ‘‘ (الفتح: ۲۹)
’’تاکہ وہ ان کی وجہ سے کافروں کو غصہ دلائے۔‘‘
اسی طرح فرمان باری تعالیٰ ہے:
’’ وَمَنْ یُہَاجِرْ فِي سَبِیلِ یَجِدْ فِي الْاَرض مُرَاغَمًا کَثِیرًا وَسَعَۃً ‘‘ (النسائ: ۱۰۰)
’’جو کوئی اللہ کی راہ میں وطن چھوڑے، وہ زمین میں بہت سی قیام کی جگہیں بھی پائے گا اور کشادگی بھی۔‘‘
یعنی ایسی جگہ جس میں اللہ کے دشمنوں کو شکست دی جائے اور سچی محبت کی علامت بھی یہی ہے کہ اللہ کے دشمنوں کو زیر کیا جائے اور انہیں غصہ دلایا جائے۔
9۔اس بات پر غورو فکر کہ وہ خواہشات کے لیے پیدا نہیں کیا گیا بلکہ اس کو ایک بڑے ہی عظیم مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے جس کا حصول ترک خواہشات کے بغیر ممکن نہیں۔
10۔اپنے نفس کے لیے ایسی چیز کو کبھی اختیار نہ کرے جو اس کو حیوانات سے بدتر بنا دے، کیونکہ حیوان اپنی طبیعت کے ساتھ نفع بخش اور نقصان دہ چیزوں میں تمیز کر لیتا ہے اور نفع بخش کو نقصان دہ پر ترجیح دیتا ہے جبکہ انسان کو تمیز کے لیے عقل جیسی عظیم نعمت عطا کی گئی ہے، اس کے باوجود اگر وہ نفع مند اور نقصان دہ چیزوں میںتمیز نہ کر سکے یا جاننے کے باوجود نقصان دہ کو ترجیح دے تو وہ چوپائیوں سے بھی بد تر ہو جاتا ہے۔
11۔وہ اپنے دل کو خواہش کی کھوج میں لگائے اور اندازہ کرے کہ اس سے، اس خواہش پرستی کے باعث، کتنے فضیلت والے کام فوت ہو گئے ہیں اور اسے کتنی ذلت اُٹھانی پڑی ہے۔ کتنی ہی ایسی مبارک لذتیں اس خواہش پرستی سے ضائع ہو گئیں اور کتنے بلند مقامات کو شہوت پرستی نے گھٹا دیا۔ انسان کے سر کو نیچا کر دیا اور اس کو قبیح ومذموم بنا دیا۔ اس خواہش پرستی نے اس کو ذلیل ورسوا کر دیا اور ایسی عار کو اس پر چسپاں کیا جسے کسی قسم کا محلول دھو نہیں سکتا۔ خواہش پر ست کی آنکھ اندھے کی آنکھ ہوتی ہے۔
12۔ہر صاحب عقل تصور کرے کہ جس چیز کی خواہش کر رہا ہے، اس سے وہ کیا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے؟ پھر اس کے حاصل ہو جانے کے بعد حالات کا جائزہ لے کہ اس نے کیا کھویا اور کیا پایا؟
13۔اس چیز کو پوری ایمانداری کے ساتھ دوسرے کے حق میں تصور کرے پھر اپنے نفس کو اس کی جگہ پر رکھ کر غور کرے، کیونکہ کسی چیزکا حکم اس سے ملتی جلتی چیزوں کا حکم ہوتا ہے۔
14۔نفس کے مقابلہ میں غور وفکر کرے اور اس کے متعلق اپنے دین اور عقل سے سوال کرے، ان دونوں کا جواب یہی ہو گا کہ خواہش نفس کی کوئی حیثیت نہیں۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود﷜ فرماتے ہیں:
إذا أعجب أحدَکم امرَأۃٌ فلیذکر مناتنھا
15۔انسان خواہش کی پیروی کی ذلت سے اپنے نفس کے حق میں خود دار ہو، کیونکہ جس نے بھی اپنی خواہش کی پیروی کی اس نے اپنے نفس میں اس کی ذلت کو ضرور پایا ہے۔ خواہش کی پیروی میں دھوکہ کھانے والا، اس کو بڑا خیال کرنے والا لوگوں میں سے مرتبہ کے لحاظ سے ذلیل ترین شخص ہے۔
16۔انسان کو چاہیے کہ وہ دین، عزت، مال اور مرتبہ کی سلامتی اور مطلوبہ لذت کو پانے کے درمیان موازنہ کرے، تو وہ ان کے درمیان کوئی نسبت نہیں پائے گا، لہٰذا پتہ چلا کہ ان چیزوں کے بدلے مطلوبہ لذت کو خریدنے والا لوگوں میں سے سب سے زیادہ بے وقوف ہے۔
17۔انسان کو اپنے نفس کے لیے خود دار ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنے دشمن کے قہر تلے نہ دب جائے کیونکہ جب شیطان کسی میں عزم و ہمت کی کمزوری اور خواہش کی طرف میلان دیکھتا ہے تو اس کے دل میں اس کے لیے لالچ پیدا کر دیتا ہے۔ وہ اس کو پچھاڑتا ہے اور خواہش کی لگام پہنا دیتا ہے اور جو چاہتا ہے اس سے کرواتا ہے، لیکن جب وہ اس شخص میں شرفِ نفس، عزم کی قوت اور ہمت کی بلندی دیکھے تو اس کو نہیں بہکا سکتا۔
18۔اس سے باخبر ہونا چاہئے کہ خواہش جس چیز سے بھی ملتی ہے اس کو فاسد کرکے رکھ دیتی ہے، اگر یہ علم میں واقع ہو جائے تو اس کو بدعت اور ضلالت کی طرف لے جاتی ہے اور اس میں واقع شخص خواہش پرست بن جاتا ہے، اگر تقویٰ میں واقع ہو جائے تو یہ ریاکاری اور مخالفت ِسنت کی راہ دکھاتی ہے، اگر اس کی آمیزش حکومتی معاملات میں ہو تو حاکم کو ظلم کرنے اور حق سے روکنے پر مجبور کر دیتی ہے، اگر یہ تقسیم میں داخل ہو جائے تو اس کو عادلانہ تقسیم سے ظالمانہ تقسیم کی طرف پھیر دیتی ہے اور اگر عبادت میں داخل ہو تو اس کو طاعت اور قربت سے نکال دیتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جس کے ساتھ بھی ملتی ہے اس کو خراب کر دیتی ہے۔
19۔اس بات کا علم بھی ضروری ہے کہ انسان کے اندر شیطان کے داخل ہونے کا واحد راستہ خواہشات ہیں۔ شیطان انسان کے اندر داخل ہونے کے لیے اس کے گرد چکر لگاتا ہے کہ کہاں سے داخل ہو کر اس کے دل اور اعمال کو برباد کر دے تو سوائے خواہشات کے دروازے کے اس کو کوئی راستہ نہیں ملتا اور جب وہ ان خواہشات کے راستے سے جسم میں داخل ہو جاتا ہے تو وہ زہر کی طرح جسم کے ہر عضو میں سرایت کر جاتا ہے۔
20۔اللہ تعالیٰ نے خواہش نفس کو رسول پر نازل شدہ چیزوں (قرآن وحدیث) کے مخالف قرار دیا ہے اور اس خواہش کی پیروی کرنے والے کو رسول کی پیروی کرنے والے کے مقابلے میں ذکر کیا ہے۔ یوں لوگ دو قسموں میں منقسم ہیں: وحی کی پیروی کرنے والے اور خواہشات کے مطیع۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس کا ذکر ہے۔ فرمایا:
’’ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَجِیبُوا لَکَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا یَتَّبِعُوْنَ اَھْوَائَ ھُمْ ‘‘ (القصص: ۵۰)
’’اگر وہ آپﷺ کی نہ مانیں تو جان لیں کہ وہ اپنی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں۔‘‘
اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَائَ ھُمْ بَعْدَ الَّذِي جَائَ کَ مِنَ الْعِلْمِ مَالَکَ مِنَ اﷲِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِیرٍ ‘‘ (البقرۃ: ۱۲۰)
’’اگر آپﷺ نے علم آنے کے بعد ان کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کی طرف سے آپ کا نہ دوست ہوگا اور نہ مدد گار۔‘‘
21۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے متبع الھویٰ کو حیوانات میں سے حقیر ترین جانوروں کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ چنانچہ ایک مقام پر کتے کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا:
’’ وَاتَّبَعَ ھَوَاہُ فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ الْکَلْبِ … ‘‘ (الأعراف: ۱۷۶)
’’اس نے خواہش نفسانی کی پیروی کی تو اس کی مثال کتے کی مانند ہے …‘‘
دوسری جگہ گدھے کے ساتھ تشبیہ دی:
’’ کَاَنَّہُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنْفِرَۃٌ ۔ فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَۃٍ ‘‘ (المدّثر: ۵۰، ۵۱)
’’گویا کہ وہ بدکے گدھے ہیں، جو شیر سے بھاگے ہوں۔‘‘
اور کبھی خواہش پرستوں کی صورتوں کو بندروں اور خنزیروں کی شکل میں تبدیل کر دیا۔
22۔خواہشات کی پیروی کرنے والا اس لائق نہیں کہ اس کی اطاعت کی جائے اور وہ اقتدا اور اقتدار دونوں کے قابل نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کو امامت سے معزول قرار دیا ہے اور اس کی اطاعت سے منع فرمایا ہے۔ رہی معزول دینے کی بات تو اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل سیدنا ابراہیم2 کی دُعا کے جواب میں کہا تھا:
’’ لَا یَنَالُ عَہْدِي الظّٰلِمِینَ ‘‘ (البقرۃ: ۱۲۴)
یعنی میرا عہد ِامامت ظالموں کو نہیں پہنچ سکتا،
اور ہر خواہش پرست ظالم ہے، جیسا کہ فرمان الٰہی ہے:
’’ بَلِ اتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوآ اَھْوَاء ہُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ ‘‘ (الرّوم: ۲۹)
اور جہاں تک متبع الھویٰ کی اطاعت کا معاملہ ہے، تو اس سے منع کرتے ہوئے فرمایا:
’’ وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ھَوَاہُ ‘‘ (الکہف: ۲۸)
23۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے خواہشات کی پیروی کرنے والے کو بتوں کی پوجا کرنے والے کے قائم مقام قرار دیا ہے۔ فرمایا:
’’ اَرَئَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِِلٰہَہُ ہَوَاہُ ‘‘ (الفرقان: ۴۳)
اس بات کو اللہ نے انہیں الفاظ کے ساتھ دو مرتبہ دُہرایا ہے ۔ حسن بصریؒ فرماتے ہیں:
’’ایسا شخص منافق ہے جس کی خواہشات اس پر سوار ہو جائیں۔‘‘
نیز فرمایا: ’’وہ منافق ہے جو جس شے کی خواہش کرتا ہے اس پر سوار ہو جاتا ہے۔ منافق اپنی خواہشات کا غلام ہوتا ہے وہ جس چیز کی بھی خواہش کرے اسے کر گزرتا ہے۔‘‘
24۔خواہشات جہنم کا احاطہ ہیں جنہوں نے جہنم کو گھیر رکھا ہے، جو ان خواہشات میں واقع ہو گیا، وہ گویا جہنم میں داخل ہو گیا۔ جیسا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
’’ حُفَّتِ الْجَنَّۃُ بِالْمَکَارِہِ، وَحُفَّتِ النَّارُ بِالشَّہَوَاتِ ‘‘ (صحیح مسلم: ۲۸۲۳)
’’جنت کو تکالیف اور مشکلات سے، جبکہ جہنم کو شہوات سے گھیر لیا گیا ہے ۔‘‘
سیدنا اَبو ہریرہؓ سے مرفوع روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
’’جب اللہ تعالیٰ نے جنت کو بنایا تو جبریل﷤ سے فرمایا کہ جا کر جنت کو دیکھو اور جو کچھ میں نے اس میں جنتیوں کے لیے تیار کیا ہے اس کو بھی دیکھو۔ سیدنا جبریل ؑ نے جنت اور اس میں جنتیوں کے لیے تیار ساز وسامان دیکھا اور واپس آ کر اللہ تعالیٰ سے کہا: تیری عزت کی قسم تیرے بندوں میں سے جس نے بھی اس کے بارے میں سنا، وہ ضرور اس میں داخل ہو گا۔ پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے حکم دیا کہ اس جنت کو مشکلات اور تکالیف سے ڈھانپ دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے دوبارہ مشاہدہ کے لیے جبریل ؑ کو بھیجا، جب انہوں نے جنت کو تکالیف و مصائب سے ڈھانپا ہوا دیکھا تو واپس آ کر اللہ تعالیٰ سے گویا ہوئے: تیری عزت کی قسم! مجھے ڈر ہے کہ تیری اس جنت میں کوئی بھی داخل نہیں ہو سکے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جبریل ؑ کو نافرمانوں کے لیے تیار کردہ جہنم کی طرف بھیجا اور کہا کہ اس کو اور اسکے مکینوں کے لیے، جو کچھ میں نے تیار کیا وہ بھی دیکھ لو۔ آپ ؑ نے جہنم اور اس میں تیار سامان کو دیکھا، کہ آگ کے شعلے ایک دوسرے پر چڑھ رہے تھے۔ آپ ؑ نے واپس آکر اللہ تعالیٰ سے کہا: تیری عزت کی قسم! اس کے بارے میں سننے کے بعد اس میں کوئی شخص داخل نہیں ہو گا۔ پھر اللہ کے حکم سے جہنم کو شہوات سے گھیر لیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے جبریل ؑ کو دوبارہ جہنم کے نظارے کے لیے بھیجا، انہوں نے جب دیکھا کہ جہنم شہوات سے گھری پڑی ہے تو واپس آ کر سے کہا: تیری عزت کی قسم! مجھے ڈر لگتا ہے کہ اس سے کوئی بھی بچ نہیں سکے گا۔‘‘ (جامع ترمذي: ۲۵۶۰، وقال: حدیث حسن صحیح)
 
Top