کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
خواہش نفس سے چھٹکارا
امام ابن قیم الجوزیہؒؔٓ
ترجمہ: محمد اَرشد کاشمیری
ترجمہ: محمد اَرشد کاشمیری
اسی لئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کا ذکر حرفِ مذمت کے ساتھ کیا ہے اور سنت میں بھی اس کی مذمت بیان کی گئی ہے اور جہاں کہیں اس کو بطور مدح ذکر کیا گیا ہے وہاں یہ اِتباع سے موصوف ہے، جیسے حدیث ِمبارکہ ہے:خواہش طبیعت کا ایسی چیز کی طرف مائل ہونا ہے جو اس کی ہدایت کا باعث بنتی ہے۔ خواہش کو انسان کی ضرورتِ بقا کے پیش نظر پیدا کیا گیا ہے، اگر انسان میں کھانے، پینے اور نکاح کی طرف میلان نہ ہوتا تو وہ نہ کھاتا، نہ پیتا اور نہ ہی نکاح کرتا، لہٰذا خواہش آدمی کو اس کے ارادے کی تکمیل پر اُبھارتی ہے جیسے غضب اذیت میں مبتلا کرنے والی چیز سے روکتا ہے تو جس طرح غصہ کی نہ مطلقاً مذمت کی جا سکتی ہے اور نہ ہی مدح، اسی طرح خواہش کو بھی مطلقاً مذموم یا ممدوح قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جب انسان پر خواہش نفس، شہوت اور غضب کی پیروی غالب آجائے تو وہ نفع کی حد پر ہی نہیں رکتا اسی لئے خواہش، شہوت اور غضب کو مذموم ٹھہرایا جاتا ہے کیونکہ عموماً اس میں نقصان کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ بہت کم لوگ ان چیزوں میں عدل کرتے ہیں اور حَدّ مُنتفِع پر رکتے ہیں۔ اسی طرح ایسی طبیعت سے متصف لوگ شاذر ونادِر ہوتے ہیں جن کے مزاج میں ہر طرح کا اعتدال ہوتا ہے۔ کسی ایک چیز کا غلبہ ضرور افراط وتفریط کی طرف لے جاتا ہے۔ ناصح یہی چاہتا ہے کہ شہوت اور غضب کی قوت کو ہر اعتبار سے معتدل بنایا جائے یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ جس کا وجود پوری دنیا میں ما سوائے چند افراد کے کہیں نہیں پایا جاتا۔
مشہور کہاوَت ہے:’’ لَا یُؤمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّیٰ یَکُونَ ہَوَاہُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِہٖ ‘‘ (السّنۃ لابن أبی عاصم: ۱۴)
’’تم میں کوئی ایک مومن نہیں ہو سکتا حتیٰ کہ اس کی خواہشات اس کے تابع ہوجائیں جو میں آیا ہوں۔‘‘
امام شعبیؒ فرماتے ہیں:’’خواہش نفس ایسی گھات ہے جس سے نہیں بچا جاسکتا۔‘‘
جب یہ لفظ مطلق آئے تو اس سے مراد موجودہ لذت ہوتی ہے، قطع نظر اس کے کہ آخرت میں اس کا انجام کیاہے۔ خواہش، عجلت میں نفع دینے والی چیزوں کی طرف مائل کرتی ہے اگرچہ اکثر اَوقات جلد اور تاخیر سے فائدہ دینے والی چیزیں خواہش کی پیروی کے باعث ملامت کرنے والی باتوں کا سبب بنتی ہیں، آخرت کی ندامت سے قبل دنیا میں بھی نادم ہونا پڑتا ہے۔ خواہش، ہویٰ پرست کواس میں غور وفکر کرنے سے اندھا کردیتی ہے حالانکہ مروت، دین اور عقل ایسی لذت سے منع کرتے ہیں جس کے پیچھے دکھ اور درد ہوں اور رہی شہوت کی بات تو وہ ندامت کو ورثہ میں لیے پھرتی ہے۔ جب کوئی انسان ایسا کرنا چاہتا ہے تو یہی عقل، دین اور مروت میں سے ہر ایک اس کو ایسا کرنے سے منع کرتی ہے۔ اور فرمانبردار وہ شخص ہے جو خواہش، شہوت اور غضب پر غلبہ حاصل کرلے۔’’الہویٰ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ اپنی پیروی کرنے والے کو بلندی سے پستی کی طرف لے جاتی ہے۔‘‘
جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر بچے سے اس کی من پسند چیز لے لی جائے تو وہ کم عقلی کے باعث اس کا برا مناتا ہے اور ایسے ہی وہ شخص ہے جس کا ایمان کمزور ہوتا ہے جب اس کی خواہش پوری نہیں ہوتی تو اس کی حالت اسی بچے کی طرح ہوتی ہے، اگرچہ دین میں کمزوری کے باعث اس خواہش کی تکمیل جس میں مروت نہیں ہوتی وہ مروت کی کمزوری کے باعث خواہش کے عدم تکمیل پر برا اَثر لیتا ہے حالانکہ اگر وہ اپنا مقصود حاصل کرے تو اس کی مروت کو یہی خواہش تباہ کردے گی۔ اسی کے متعلق امام شافعی ؒ فرماتے ہیں:
جانداروں میں سے جس مکلف کا، خواہش کے ذریعے امتحان لیا جاتا ہے تو ہر وقت رونما ہونے والے حوادث اس میں دو حاکم پیدا کردیتے ہیں: ایک حاکم عقل اور دوسرا دین ہے۔ اب مکلف کے لیے ضروری ہے کہ وہ خواہش نفس کے متعلق حوادثات کو ہمیشہ تنقید کے لیے ان دو حاکموں کے پا س لے جائے تاکہ وہ خواہشات، جن کے پیچھے امن ہے اور وہ، جن سے پیچھے تکلیف ہے، میں فر ق کیا جا سکے۔ سوال یہ ہے کہ ان خواہشات میں گھرا ہوا شخص کس طرح چھٹکارا حاصل کر سکتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان خواہشات نفسانیہ سے چھٹکارا صرف اللہ تعالیٰ کی خاص مدد اور توفیق ہی سے ممکن ہے۔لو علِمتُ أنَّ المائَ البارِدَ یثْلمُ مُروئَ تي لَمَا شربتُہ۔
’’اگر میں جان لیتا کہ ٹھنڈا پانی میری مروّت، کامل مردانگی کو تباہ کردے گا تو میں کبھی بھی نہ پیتا۔‘‘