خبردار ہوشیار ،یہ بات ذہن میں رکھنا کہ میرا چاچا پُلس میں ہے۔ لوگوں نے پُلس کو بدنام کرکے رکھا ہوا ہے کہ یہ لوگ دو نمبر ہوتے ہیں رشوت لیتے ہیں ،عوام پر ظلم کرتے ہیں ،مجرموں کی مدد کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں۔ میں آپ کو ایک بار پھر بتاتاچلوں کہ میرا چاچابھی پُلس میں ہے اور جب سے وہ پُلس میں بھرتی ہوا اس کے ساتھ ساتھ میرے بھی دن پھر گئے ہیں۔وہ لوگ جو پہلے ایک ’گولڈلیف ‘بھی ادھاری نہیں دیا کرتے تھے اب انکی دکان پر جائوتوپوری ’ڈیڑھ لیٹری‘کھول کر سامنے رکھ دیتے ہیں۔ پہلے جو مجھے اپنی دکان کے سامنے کھڑے بھی نہیں ہونے دیتے تھے اب ان کی دکان کے سامنے سے گزرو تو بینچ پر کپڑا مارتے ہوئے آؤ صاحب آؤصاحب کرتے ہیں۔ کیونکہ انہیں پتا ہے کہ،
میرا چاچا پُلس میں ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ پولیس والوں کو کوئی منہ نہیں لگاتا۔ لیکن ایسی کوئی بات نہیں ابھی کل ہی کی بات ہے کہ کرموں پھل فروش کی ریڑھی پر کھڑے ہوکر میں پوری درجن فروٹ کھا گیا اور پھر پیسے پوچھے تو کانوں کو ہاتھ لگا کر کہنے لگا ’’ توبہ توبہ اب کیا ہم آپ سے پیسے لیں گے ؟‘‘۔ یہ وہی بھوکا کرموں ہے جس نے ایک بار پورے ڈیڑھ کلومیٹرتک میرا پیچھا کیا تھا کیونکہ میں اسکی ریڑھی سے ایک آم’’ چُک‘‘ کے بھاگ گیا تھا۔ لیکن اب وہ میری بہت عزت کرتا ہے کیونکہ اسے پتا ہے کہ میں جب چاہوں پارکنگ ایریا میں ریڑھی لگا نے کر جرم میں اسے ریڑھی سمیت تھانے حاضر کرا سکتا ہوں کیونکہ،
میرا چاچا پُلس میں ہے۔
اسی طرح’ ملک بیکری ‘ والے جو پہلے سموسے کیساتھ چٹنی دینے سے بھی انکار کردیا کرتے تھے اب باقاعدگی کیساتھ سموسے اور تھیلا بھر کر چٹنی شاپر میں ڈال کر میرے ہاتھ میں پکڑا دیتے ہیں۔ کیونکہ انہیں پتا ہے کہ اگر اب ان پر گندے گھی میں چیزیں تلنے کا کیس ہوا تو ان کی خیرنہیں۔ اور اگر میرے چاچے نے فوڈ انسپیکٹر کو کال کردی تو اور بات نکل گئی تو دور تلک جائے گی۔
اب یہی دیکھ لیں کہ ہمارے شہر میں سائیکلیں بہت چوری ہوتی ہیں۔ لیکن غلطی سے بھی کبھی چور نہ پکڑا گیا۔ ایک دن میں بھی اپنی سائیکل دوکان کے باہر کھڑی کرکے اندر ٹوکن کھیل رہا تھا کہ کسی نے میری سائیکل اٹھالی۔ میں نے فوراََ چاچے کو مس بیل ماری اور وقوعہ سے آگاہ کر دیا۔ آپ یقین کریں کہ اگلے ہی دن سائیکل چور کا سگا ماما معذرت کیساتھ سائیکل بھی واپس کرگیا اور ساتھ پورے دو کلو کا مٹھائی کا ڈبہ بھی دے کر گیا۔ ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ ہمیں پتا ہوتا کہ سائیکل ’’اپنے بندے‘‘کی ہے تو ہم اٹھاتے ہی کیوں؟
جب سے میرا چاچا پولیس میں بھرتی ہوا ہے یقین کریں’ چرسیوں‘کا جینا محال ہو گیا ہے۔ میرے ایک دوست سے پچھلے ہفتے پوری آدھا پاؤ چرس پکڑی گئی تھی۔ وہ تو شکر ہے کہ اس نے مجھے کال کرکے بلا لیا اور میں نے اس کی جان صرف 20 ہزار میں چھڑوادی ورنہ میرا چاچا کبھی بھی اسے 50 ہزار سے کم میں نہ چھوڑتا اور چھترول وکھری ہونی تھی۔ اب وہ دوست جب بھی کبھی ملتا ہے فوراََ ’’دودھ پتی ‘‘ کا آرڈر دے دیتا ہے۔
ایک دفعہ میرے چاچے نے مجھے کہا کہ کسی طرح ایف اے کرلے تجھے بھی کہیں ’اڑا‘ دوں گا۔ میں نے جواب دیا کہ چاچا اگر مجھے بھی خود ایف اے کرکے ہی کہیں بھرتی ہونا ہے تو مجھے چاچے کا کیا فائدہ؟ میری یہ بات سن کر چاچا غصہ کھا گیا اور کہنے لگا کہ تو فکر نہ کر میں کچھ کرتا ہوں۔ اس کے بعد چاچے نے میرے کالج کے پرنسپل صاحب کو بتا دیا تھا کہ میرے بھتیجے کی اگر کسی نے ’بوٹی‘ پکڑنے کی کوشش کی تو مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا۔ ساتھ ہی پرنسپل صاحب کو اس بات سے بھی آگاہ کردیا کہ اگر ان کے بیٹے کا ’کیس ‘ کھل گیا تو وہ کہیں منہ دکھانے قابل نہیں رہیں گے۔ جس پر پرنسپل صاحب نے کہا ہے کہ آپ بس بچے کو پیپر کے لیے بھیج دیں باقی کام ہمارے پر چھوڑ دیں۔ یقین کریں کہ چاچے کے پولیس میں بھرتی ہونے سے پہلے میں کبھی کمرہ امتحان سے ’’باعزت بری‘‘نہیں ہوا تھا مگر اب تو بات ہی کچھ اور ہے۔ خلاصے کے خلاصے اور ساتھ میں مفت چائے۔ کیونکہ سب کو پتا ہے کہ،
میرا چاچا پُلس میں ہے۔
خیر یہ سب تو نارمل باتیں ہیں۔ میں آپ کو بخشو پٹواری کے بچے کا قصہ بتاتا ہوں۔ میرے چاچے کے پُلس میں بھرتی ہونے سے پہلے یہ بڑا اکڑا پھرا کرتا تھا ۔کئی بار مجھے بھی اس سے کُٹ پڑی تھی کیونکہ میں ان کے’ کماد‘ سے گنے توڑ کر بھاگ جایا کرتا تھا اور یہ میرے پیچھے اپنا ٹونی چھوڑ دیا کرتے تھے۔ جیسے ہی میرے چاچے نے پُلس میں جوائننگ دی تو اس پر ’ چوری‘ کا ایسا کیس بنوایا کہ نہ پوچھو۔ پھر کیا پٹواری ،کیا ’ابن ِپٹواری‘ اور کیا ان کا ٹونی سارے ہی سیدھے ہو گئے ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ان کی فصلوں کے آگے سے گزرو تو فوراََ کہتے ہیں ’’آؤ سرکار گنّاچوپو‘‘۔ کیونکہ اب انہیں پتا جو چل گیا ہے کہ،
میرا چاچا پُلس میں ہے۔
یہ سب فائدے تو میں نے بڑے مختصر کرکے بتائے ہیں بس میں ایک بار خود بھرتی ہوجاؤ ں پھر تفصیل سے ساری باتیں بتائوں گا۔ویسے بھی کسی کے سر پے اتنا شوخاہوتا بندہ اچھا نہیں لگتا۔
اب آپ ہی بتا ئیں کون کہتا ہے پولیس عوام کا خیال نہیں رکھتی ؟ اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو لوگ کیوں میری اور میرے چاچے کی اتنی عزت کرتے؟
عبدالقیوم
میرا چاچا پُلس میں ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ پولیس والوں کو کوئی منہ نہیں لگاتا۔ لیکن ایسی کوئی بات نہیں ابھی کل ہی کی بات ہے کہ کرموں پھل فروش کی ریڑھی پر کھڑے ہوکر میں پوری درجن فروٹ کھا گیا اور پھر پیسے پوچھے تو کانوں کو ہاتھ لگا کر کہنے لگا ’’ توبہ توبہ اب کیا ہم آپ سے پیسے لیں گے ؟‘‘۔ یہ وہی بھوکا کرموں ہے جس نے ایک بار پورے ڈیڑھ کلومیٹرتک میرا پیچھا کیا تھا کیونکہ میں اسکی ریڑھی سے ایک آم’’ چُک‘‘ کے بھاگ گیا تھا۔ لیکن اب وہ میری بہت عزت کرتا ہے کیونکہ اسے پتا ہے کہ میں جب چاہوں پارکنگ ایریا میں ریڑھی لگا نے کر جرم میں اسے ریڑھی سمیت تھانے حاضر کرا سکتا ہوں کیونکہ،
میرا چاچا پُلس میں ہے۔
اسی طرح’ ملک بیکری ‘ والے جو پہلے سموسے کیساتھ چٹنی دینے سے بھی انکار کردیا کرتے تھے اب باقاعدگی کیساتھ سموسے اور تھیلا بھر کر چٹنی شاپر میں ڈال کر میرے ہاتھ میں پکڑا دیتے ہیں۔ کیونکہ انہیں پتا ہے کہ اگر اب ان پر گندے گھی میں چیزیں تلنے کا کیس ہوا تو ان کی خیرنہیں۔ اور اگر میرے چاچے نے فوڈ انسپیکٹر کو کال کردی تو اور بات نکل گئی تو دور تلک جائے گی۔
اب یہی دیکھ لیں کہ ہمارے شہر میں سائیکلیں بہت چوری ہوتی ہیں۔ لیکن غلطی سے بھی کبھی چور نہ پکڑا گیا۔ ایک دن میں بھی اپنی سائیکل دوکان کے باہر کھڑی کرکے اندر ٹوکن کھیل رہا تھا کہ کسی نے میری سائیکل اٹھالی۔ میں نے فوراََ چاچے کو مس بیل ماری اور وقوعہ سے آگاہ کر دیا۔ آپ یقین کریں کہ اگلے ہی دن سائیکل چور کا سگا ماما معذرت کیساتھ سائیکل بھی واپس کرگیا اور ساتھ پورے دو کلو کا مٹھائی کا ڈبہ بھی دے کر گیا۔ ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ ہمیں پتا ہوتا کہ سائیکل ’’اپنے بندے‘‘کی ہے تو ہم اٹھاتے ہی کیوں؟
جب سے میرا چاچا پولیس میں بھرتی ہوا ہے یقین کریں’ چرسیوں‘کا جینا محال ہو گیا ہے۔ میرے ایک دوست سے پچھلے ہفتے پوری آدھا پاؤ چرس پکڑی گئی تھی۔ وہ تو شکر ہے کہ اس نے مجھے کال کرکے بلا لیا اور میں نے اس کی جان صرف 20 ہزار میں چھڑوادی ورنہ میرا چاچا کبھی بھی اسے 50 ہزار سے کم میں نہ چھوڑتا اور چھترول وکھری ہونی تھی۔ اب وہ دوست جب بھی کبھی ملتا ہے فوراََ ’’دودھ پتی ‘‘ کا آرڈر دے دیتا ہے۔
ایک دفعہ میرے چاچے نے مجھے کہا کہ کسی طرح ایف اے کرلے تجھے بھی کہیں ’اڑا‘ دوں گا۔ میں نے جواب دیا کہ چاچا اگر مجھے بھی خود ایف اے کرکے ہی کہیں بھرتی ہونا ہے تو مجھے چاچے کا کیا فائدہ؟ میری یہ بات سن کر چاچا غصہ کھا گیا اور کہنے لگا کہ تو فکر نہ کر میں کچھ کرتا ہوں۔ اس کے بعد چاچے نے میرے کالج کے پرنسپل صاحب کو بتا دیا تھا کہ میرے بھتیجے کی اگر کسی نے ’بوٹی‘ پکڑنے کی کوشش کی تو مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا۔ ساتھ ہی پرنسپل صاحب کو اس بات سے بھی آگاہ کردیا کہ اگر ان کے بیٹے کا ’کیس ‘ کھل گیا تو وہ کہیں منہ دکھانے قابل نہیں رہیں گے۔ جس پر پرنسپل صاحب نے کہا ہے کہ آپ بس بچے کو پیپر کے لیے بھیج دیں باقی کام ہمارے پر چھوڑ دیں۔ یقین کریں کہ چاچے کے پولیس میں بھرتی ہونے سے پہلے میں کبھی کمرہ امتحان سے ’’باعزت بری‘‘نہیں ہوا تھا مگر اب تو بات ہی کچھ اور ہے۔ خلاصے کے خلاصے اور ساتھ میں مفت چائے۔ کیونکہ سب کو پتا ہے کہ،
میرا چاچا پُلس میں ہے۔
خیر یہ سب تو نارمل باتیں ہیں۔ میں آپ کو بخشو پٹواری کے بچے کا قصہ بتاتا ہوں۔ میرے چاچے کے پُلس میں بھرتی ہونے سے پہلے یہ بڑا اکڑا پھرا کرتا تھا ۔کئی بار مجھے بھی اس سے کُٹ پڑی تھی کیونکہ میں ان کے’ کماد‘ سے گنے توڑ کر بھاگ جایا کرتا تھا اور یہ میرے پیچھے اپنا ٹونی چھوڑ دیا کرتے تھے۔ جیسے ہی میرے چاچے نے پُلس میں جوائننگ دی تو اس پر ’ چوری‘ کا ایسا کیس بنوایا کہ نہ پوچھو۔ پھر کیا پٹواری ،کیا ’ابن ِپٹواری‘ اور کیا ان کا ٹونی سارے ہی سیدھے ہو گئے ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ان کی فصلوں کے آگے سے گزرو تو فوراََ کہتے ہیں ’’آؤ سرکار گنّاچوپو‘‘۔ کیونکہ اب انہیں پتا جو چل گیا ہے کہ،
میرا چاچا پُلس میں ہے۔
یہ سب فائدے تو میں نے بڑے مختصر کرکے بتائے ہیں بس میں ایک بار خود بھرتی ہوجاؤ ں پھر تفصیل سے ساری باتیں بتائوں گا۔ویسے بھی کسی کے سر پے اتنا شوخاہوتا بندہ اچھا نہیں لگتا۔
اب آپ ہی بتا ئیں کون کہتا ہے پولیس عوام کا خیال نہیں رکھتی ؟ اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو لوگ کیوں میری اور میرے چاچے کی اتنی عزت کرتے؟
عبدالقیوم