• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

داؤد علیہ السلام پر غیر عورت سے محبت کی بدترین تہمت

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
دوائے شافی --- ابن قیم ---​

داؤد علیہ السلام پر غیر عورت سے محبت کی بدترین تہمت

یہ ایک جھوٹا و اسرائیلی روایات پر مبنی واقعہ ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں اور یہ الله کے نبی داؤد علیہ السلام کی شان میں بدترین گستاخی ہے اور ان پر ایک بہت بڑی تہمت - لیکن ابن قیم صاحب نے عورتوں سے عشق ہو جانے کے استدلال میں اس کو پیش کیا ہے


dwaya shafi.jpg
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
اس حوالے سے مندرجہ ذیل کو بھی پڑھئیے

1.jpg
2.jpg
3.jpg
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
دوائے شافی --- ابن قیم ---​

داؤد علیہ السلام پر غیر عورت سے محبت کی بدترین تہمت

یہ ایک جھوٹا و اسرائیلی روایات پر مبنی واقعہ ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں اور یہ الله کے نبی داؤد علیہ السلام کی شان میں بدترین گستاخی ہے اور ان پر ایک بہت بڑی تہمت - لیکن ابن قیم صاحب نے عورتوں سے عشق ہو جانے کے استدلال میں اس کو پیش کیا ہے


جہان تک شادی کرنے کا معاملہ تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے اور اگر یہ محبت کسی دین داری کی وجہ سے ہو تو یہ ایک صالح عمل ہے جس کی شریعت نے حوصلہ افزائی کی ہے جہاں تک ان واقعات کا تعلق ہے تو یہ قابل غور بلکہ قابل تردید ہیں جن وقوع ایک نبی سے نا ممکن ہے،اس کی تفصیل درج ذیل ہے:
یہ تمام رویا ت اسرائیلی ہیں اور اسرائیلی روایات کے بارے امام ابن کثیر نے لکھا ہے :( بحوالہ : مقدمة تفسیر ابن کثیر )
اسرائیلیات کی تین قسمیں ہیں:
(1) وہ روایات ، جن کی سچائی قرآن و سنت کے دوسرے دلائل سے ثابت ہے۔
مثلاً : فرعون کا غرق ہونا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا کوہِ طور پر تشریف لے جانا وغیرہ۔
(2) وہ روایات جن کا جھوٹ ہونا قرآن و سنت کے دوسرے دلائل سے ثابت ہے۔
مثلاً : اسرائیلی روایات میں مذکور ہے کہ ۔۔۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنی آخری عمر میں (معاذاللہ) مرتد ہو گئے تھے۔ جبکہ اس کی تردید قرآن کریم سے ثابت ہے :
وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَـكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُواْ
سلیمان (علیہ السلام) نے (کوئی) کفر نہیں کیا بلکہ کفر تو شیطانوں نے کیا
( سورة البقرة : 2 ، آیت : 102 )
اسی طرح مثلاً : اسرائیلی روایات میں مذکور ہے کہ (معاذ اللہ) حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اپنے سپہ سالار "اوریا" کی بیوی سے زنا کیا ، اسے (اوریا) مختلف تدبیروں سے مروا کر اس کی بیوی سے نکاح کر لیا۔ یہ بھی کھلا جھوٹ ہے اور اس قسم کی روایتوں کو غلط سمجھنا لازم ہے۔

(3) وہ روایات جن کے بارے میں قرآن و سنت اور دوسرے شرعی دلائل خاموش ہیں جیسے کہ تورات کے احکام وغیرہ۔ ایسی روایات کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم یہ ہے کہ ان کے بارے میں سکوت اختیار کیا جائے۔ نہ ان کی تصدیق کی جائے اور نہ تکذیب۔
البتہ اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے کہ آیا ایسی روایات کو نقل کرنا جائز بھی ہے یا نہیں؟
حافظ ابن کثیر نے قولِ فیصل یہ بیان کیا ہے کہ :
انہیں نقل کرنا جائز تو ہے ، لیکن اس سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ شرعی اعتبار سے وہ حجت نہیں ہے !!
حضرت داؤد کا ازدواج قرآن کریم میں خدا وند سبحان.سورۂ ص میں فرماتاہے:
(اصبر علیٰ ما یقولون و اذکر عبدنا داود ذا الأید انہ اوّاب٭ انا سخرنا الجبال معہ یسبحن بالعشی و الاشراق٭ و الطیر محشورة کل لہ أواب٭ و شددنا ملکہ و آتینا ہ الحکمة و فصل الخطاب٭ و ھل أتٰاک نبؤ الخصم اذ تسوروا المحراب٭ اذ دخلوا علیٰ داود ففزع منھم قالوا لا تخف خصمان بغی بعضنا علیٰ بعض فاحکم بیننا بالحق ولا تشطط و اھدنا الیٰ سواء الصراط٭ ان ھذا اخی لہ تسع و تسعون نعجة ولی نعجة واحدة فقال اکفلنیھا و عزنی فی الخطاب٭ قال لقد ظلمک بسؤال نعجتک الیٰ نعاجہ و ان کثیراً من الخلطاء لیبغی بعضھم علیٰ بعض الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات و قلیل ما ھم و ظن داود انما فتناہ فاستغفر ربہ و خرّ راکعاً و اناب٭ فغفرنا لہ ذلک و ان لہ عندنا لزلفیٰ و حسن مآب٭ یا داود انا جعلناک خلیفة فی الارض فاحکم بین الناس بالحق و لا تتبع الھویٰ فیضلک عن سبیل اللہ ان الذین یضلون عن سبیل اللہ لھم عذاب شدید بما نسوا یوم الحساب)
آپ ان لوگوں کی باتوں پر صبر کریںاور ہمارے بندہ داؤد کو جو صاحب قدرت اور بہت توبہ کرنے والے تھے ،یاد کریں، ہم نے پہاڑوں کو ان کاتابع بنایا کہ صبح و شام ان کے ہمراہ تسبیح کرتے تھے پرندوں کو بھی ان کا تابع بنایا کہ سب کے سب ان کے پاس آتے تھے اور ان کی حکومت کو ثابت و پائدار بنایا اور انہیں حکمت عطا کی اور عادلانہ قضاوت بخشی، آیا شکوہ کرنے والوں کی داستان کہ جب محراب کی دیوار پھاند کر آگئے آپ تک پہنچی ہے؟ اس وقت جب داؤد کے پاس آئے اور وہ ان کے دیدار سے خوفزدہ ہوئے؛ انہوں نے کہا: نہ ڈرو ہم دو آدمی شاکی ہیں کہ ہم میں سے ایک نے دوسرے پر ظلم کیا ہے اب تم ہمارے در میان عادلانہ فیصلہ کرو اور حق سے دور نہ ہوجائو اور ہمیں راہِ راست کی ہدایت کرو یہ میرا بھائی ہے ، اس کے پاس ٩٩ بھیڑیں ہیں اور میرے پاس صرف ایک ہی ہے وہ اصرار کرتا ہے کہ وہ ایک بھی میں اسے دیدوں اور بات کرنے میں مجھ پر غالب آ گیا ہے داؤد نے کہا: یقینا اس نے اپنے گوسفندوں (بھیڑوں)میں اضافہ کے لئے جو تم سے درخواست کی ہے اس نے تم پر ظلم کیا ہے اور بہت سارے شرکاء ایک دوسرے پرظلم کرتے ہیں مگروہ لوگ کہ جنہوں نے ایمان قبول کیا اور عمل صالح انجام دیا لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے داؤد نے یہ سمجھا کہ ہم نے ان کا امتحان لیا تو انہوں نے خدا سے طلب مغفرت کی اور سجدہ میں گر پڑے اور توبہ و انابت شروع کر دی، تو ہم نے اس کی انہیں معافی دی، وہ میرے نزدیک بلند مرتبہ اور نیک انجام بندہ ہے اے دائود! ہم نے تم کو زمین پراپناجانشین بنایا؛ لہٰذا لوگوں کے درمیان حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو اور خواہشات کا اتباع نہ کرو کہ وہ راہ خدا سے منحرف کردیں ، بیشک جو لوگ راہ خدا سے بھٹک جاتے ہیں ان کے لئے شدید عذاب ہے کہ انہوں نے روز حساب کو یکسر بھلا دیا ہے ۔(١)
روایات ان آیات کی تاویل میں جو حضرت دائودکے فیصلہ اور قضاوت کو بیان کرتی ہیں، بہت زیادہ ہیں، ذیل میں ہم صرف اس کے تین نمونے ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
١۔ وہب بن منبہّ کی روایت

طبری نے آیات کی تاویل میں وہب بن منبہ کی روایت ذکر کی ہے:
..............
(١) ص ١٧۔ ٢٦
جب بنی اسرائیل حضرت دائود کے پاس جمع ہوئے تو خدا وند عالم نے ان پر زبور نازل کی اور انہیں آہنگری کافن سکھایا اور لو ہے کو ان کے لئے نرم و ملائم بنا دیا، نیز پہاڑوں اور پرندوںکو حکم دیا کہ جب وہ تسبیح کریں تو تم بھی ان کے ساتھ تسبیح کرو ( منجملہ ان کے ذکر کیا ہے )کہ خدا وند عالم نے اپنی کسی مخلوق کو حضرت دائود کی طرح آواز نہیں دی ہے ( جو لحن داؤد کے نام سے مشہور ہے) وہ جب بھی زبور کی تلاوت کرتے تھے اس وقت کی یوں منظر کشی کی ہے کہ پرندے ان سے اس درجہ قریب ہو جاتے تھے کہ آپ ان کی گردن پکڑ لیتے تھے اور وہ ان کی آواز پر خاموشی اور اطمینان سے کان لگائے رہتے تھے وہ ( دائود) بہت بڑے مجاہد اور اور عبادت گز ار تھے اور بنی اسرائیل کے درمیان حا کم تھے اور خدا کے بنائے ہوئے خلیفہ اور نبی تھے جو خدا کے حکم کے مطابق فیصلہ کرتے تھے، انبیاء میں زیادہ زحمت کش اور کثرت سے گریہ کرنے والے تھے. اس کے بعد اس عورت کے فتنہ میں مبتلا ہو گئے، ان کی ایک مخصوص محراب تھی جس میں تنہا زبور کی تلاوت کرتے اور نماز پڑھتے تھے اور اس کے نیچے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا چھوٹا سا باغ تھا او روہ عورت کہ داؤد جس کے چکر میں آ گئے اسی شخص کے پاس تھی۔
وہ جب اس دن اپنی محراب میں تشریف لے گئے ، کہا : آج رات تک میرے پاس کوئی نہیں آئے گا، کوئی چیز میری تنہائی میں خلل انداز نہ ہو ،پھر محراب میں داخل ہو ئے اور زبور کھول کر اس کی تلاوت میں مشغول ہو گئے محراب میں ایک کھڑکی یا روشن دان تھا جس سے مذکورہ باغیچہ دکھائی دیتا تھا جب حضرت داؤد علیہ السلام زبور کی تلاوت کر رہے تھے تو ان کی سامنے ایک زریں کبوتر کھڑکی پر آکربیٹھ گیاآپ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور حیرت کی، پھر انہیں اپنی کہی ہوئی بات یاد آئی کہ کوئی چیز ان کی عبادت میں رکاوٹ اور مانع نہ بنے'' پھر اپنا سر نیچے جھکایا اور زبور پڑھنے لگے اور جو کبوتر حضرت داؤد کے امتحان اور آزمائش کے لئے آیا تھا ، کھڑکی سے اٹھ کر حضرت داؤد کے سامنے بیٹھ گیا، انہوں نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تووہ کچھ پیچھے ہٹ
گیا، اس کا پیچھا کیا تو کبوتر کھڑکی کی طرف اڑ گیاآپ اسے پکڑ نے کے لئے کھڑکی کی طرف گئے تو کبوتر باغیچہ کی طرف پرواز کر گیا آپ نے اس کا نگاہ سے پیچھا کیا کہ وہ کہاں بیٹھتا ہے تو اس عورت کو نہانے دھونے میں مشغول پایا ایسی عورت جو حسن و جمال ، خوبصورتی اور نازک اندامی میں بے مثال تھی، خدا اس کے حال سے زیادہ واقف ہے کہتے ہیں : جب اس عورت نے حضرت داؤد کو دیکھا تو اپنے بال پریشان کر دئے اور اس سے اپنا جسم چھپایا، پھر ان کا دل بے قابو ہو گیاتو اپنی زبور اور قیام گاہ کی طرف متوجہ ہوئے اور ایساہوا کہ اس عورت کی یاد دل سے محو نہیں ہوئی ،اس فتنہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس عورت کے شوہر کو جنگ پربھیج دیا اور لشکر کے کمانڈر کو (اہل کتاب کے خیال کے مطابق )حکم دیا کہ اسے مہلکوں میں آگے رکھ کر اس کا کام تمام کر دے تاکہ اپنی مراد پا سکیں،ان کے پاس ٩٩ بیویاں تھیں اس عورت کے شوہر کے مرنے کے بعد اس سے خواستگاری کی اور شادی کرلی ، خدا وند عالم نے جبکہ وہ محراب عبادت میں تھے، دو فرشتوں کو آپس میں لڑتے جھگڑتے ان کے پاس بھیجا تاکہ ہمسایہ کے ساتھ ان کے اس کرتوت کا ایک نمونہ دکھائے دائود نے جب ان دونوں کو محراب میں اپنے سر پر کھڑا دیکھا تو خوفزدہ ہوئے اور کہا: کس چیز نے تم کو میرے سر پر سوار کیا ہے ؟ بولے، گھبرائو نہیں، ہم جھگڑنے اور تمہارے ساتھ بد سلوکی کرنے نہیں آئے ہیں ''ہم دو آدمی اس بات پر شاکی ہیں کہ ہم میں سے ایک نے دوسرے پر ظلم کیا ہے '' '' ہم اس لئے آئے ہیں تاکہ ہمارے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ قضاوت کرو اور حق سے دو رنہ ہوجائو اور ہمیں راہِ راست کی ہدایت کرو یعنی ہمیں راہ حق پر چلائو اور غیر حق سے بچائو، جو فرشتہ اس عورت کے شوہر ' 'اور یا بن حنانیا'' کی طرف سے گفتگو کر رہا تھااس نے کہا: ''یہ میرا بھائی ہے '' یعنی میرا برادر دینی ہے '' اس کے پاس ٩٩ بھیڑ ہیں اور میرے پاس صرف ایک بھیڑ ہے ، لیکن یہ چاہتا ہے کہ اس ایک کوبھی میں اسے دیدوں یعنی اس کے حوالے کر دوں اور بات میں مجھ پر غالب آ گیا ہے اور مجھ سے بزور کہتا ہے کیونکہ مجھ سے قوی اور توانا ہے ، اس نے میری بھیڑ اپنی بھیڑوں کے ساتھ رکھ لی ہے اور مجھے خالی ہاتھ چھوڑ دیا ہے ، داؤد ناراض ہوئے اور خاموش شاکی( مدعی علیہ ) سے بولے: اگر یہ جو کچھ کہہ رہا ہے سچ ہے ، تو کلہاڑی سے تمہاری ناک توڑ دوں گا، پھر اپنے آپ میں آئے اور خاموش ہو گئے اور سمجھے کہ اس سے مراد اس کام کا اظہار ہے جو ''اوریا'' کی بیوی کے سلسلے میں انجام دیا ہے پھر گریہ و زاری کے ساتھ سجدہ میں گر پڑے اور توبہ و انابت میں مشغول ہو گئے وہ اسی طرح سے چالیس روز روزہ کی حالت میںبھوکے ، پیاسے سجدہ میں پڑے رہے یہاں تک کہ ان کے آنسوئوں سے چہرے کے پاس سبزہ اُگ گیا اور چہرے اور گوشت پر سجدے کا نشان پڑ گیا خدا وند عالم نے انہیں معاف کیااور ان کی توبہ قبول کی۔
وہ لوگ ایسا خیال کرتے ہیں کہ ا نہوں نے کہا: خدایا جو میں نے اس عورت کے حق میں جنایت انجام دی ہے تونے معاف کر دیا، لیکن اس مظلوم کے خون کا کیا ہوگا؟( اہل کتاب کے گمان کے مطابق) ان سے کہا گیا: اے دائود! جان لو کہ تمہارے رب نے اس کے خون کے بارے میں ظلم نہیں کیا ہے ، لیکن بہت جلد ہی اس کے بارے میں تم سے سوال کرے گا اور اس کی دیت دے گا اور اس کا بار تمہارے کاندھے سے اٹھا دے گا یعنی تمہیں سبکدوش کر دے گا، مصیبت ٹلنے کے بعد آپ نے اپنے گناہ کو داہنے ہاتھ کی ہتھیلی پرظاہر کر لیااور جب بھی کھانا کھاتے یا پانی پیتے تھے اسے دیکھتے اور گریہ کرتے تھے اور جب لوگوں سے گفتگو کرنے کے لئے آمادہ ہوتے تھے، اپنا ہاتھ کھول کر لوگوں کے سامنے پیش کرتے تھے تاکہ ان کے گناہ کی علامت لوگ دیکھیں۔(١)
٢۔ حسن بصری کی روایت

طبری اور سیوطی نے آیات کی تفسیرمیں حسن بصری سے نقل کیاہے کہ انہوں نے کہا :
داؤد نے اپنی زندگی کے ایام چار حصوں میں تقسیم کئے : ایک دن اپنی عورتوں سے مخصوص رکھا، ایک دن عبادت، ایک دن کو بنی اسرائیل کے درمیان قضاوت اورفیصلہ کے لئے اور ایک دن خودبنی اسرائیل کے لئے تاکہ وہ لوگ انہیں اور یہ ان لوگوں کو وعظ و نصیحت کریں، وہ ان کو اور وہ لوگ انہیں رلائیں، ایک مرتبہ جب بنی اسرائیل کا دن آیا تو کہا : موعظہ کرو ، کہا: آیا کوئی دن انسان کے لئے ایسا گز رتا ہے جس میں وہ گناہ نہیں کرتا ہے ؟ داؤد نے اپنے اندر محسوس کیا کہ وہ اس کی صلاحیت رکھتے ہیں جب عبادت کا دن آیا دروازوں کو بند کر لیا اور یہ حکم دیا کہ کوئی میرے پاس نہ آئے ، پھر توریت پڑھنے میں مشغول ہو گئے ابھی قرائت کر ہی رہے تھے کہ ایک سنہرا کبوتر خوبصورت اوردیدہ زیب رنگوں کے ساتھ ان کے سامنے آیا تو انہوں نے اسے پکڑنا چاہا وہ اڑ کر کچھ دو رچلا گیا اور اتنا دور کہ ان کی دسترس سے باہر ہوگیا اور کچھ دور زمین پر بیٹھ گیاوہ اس درجہ کبوتر کے پیچھے پڑے کہ اوپر سے ان کی نظر ایک عورت پر پڑی جو غسل کرنے میں مشغول تھی اسکے جسم کی ساخت اور خوبصورتی نے انہیں حیرت میں ڈال دیا ، جب اس عورت نے کوئی سایہ محسوس کیا تو اپنے جسم کو بالوں سے چھپا لیا تو ان کی حیرت اور استعجاب میں مزید اضافہ ہو گیا. اور انہوں نے اس کے شوہر کو اس سے پہلے ایک کمانڈربناکر اپنے بعض سپاہیوں کے ہمراہ محاذ جنگ پر بھیجا تھا اس کو خط لکھا کہ وہ ایسی ویسی جگہ روانہ ہو جائے اور وہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں سے واپسی ممکن نہیں تھی، اس نے حکم کی تعمیل کی اور وہ قتل ہو گیا تو انہوں نے ( داؤد ) اس سے شادی رچا لی۔(٢)
..............
(١) تفسیری طبری، ج٢٣، ص ٩٥۔ ٩٦، طبع دار المعرفة ، بیروت.
(٢) تفسیر طبری ، ج ٢٣ ص ٩٦، طبع دار المعرفة ، بیروت ؛ سیوطی ، ج٥ ص ١٤٨ ، یہ طبری کی عبارت ہے ۔
٣۔یزید رقاشی کی انس بن مالک سے روایت
طبری اور سیوطی نے آیات کی تفسیر میں اپنی سند کے ساتھ یزید رقاشی سے انہوں نے انس بن مالک سے ایک روایت نقل کی ہے کہ جس کا خلاصہ یہ ہے : یزید رقاشی کہتا ہے : میں نے انس بن مالک سے سنا کہ انہوں نے کہا:
میں نے پیغمبر اکرمۖ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جب داؤد نے اس عورت کو دیکھا تو بنی اسرائیل کو جنگ کے لئے روانہ کیا اور لشکر کے کمانڈر کو تاکید کر دی کہ: جب دشمن کے قریب پہنچ جانا تو فلاں ( اوریا) کو تابوت کے سامنے تلوار سے ما ر ڈالو، اس زمانے میں تابوت کو کامیابی کے لئے لیجایا جاتا تھا اور جو تابوت کے سامنے جاتا تھا واپس نہیں آتا تھا یا تو قتل ہو جاتا تھا یا دشمن اس سے فرار کر جاتا تھا آخر کار وہ مارا گیا اور حضرت دائود نے ا س عورت سے شادی کر لی۔
پھر دو فرشتے حضرت داؤد کے پاس آئے اور وہ چالیس دن تک سجدہ میں پڑے رہے حتی کہ ان کے آنسوئوں سے سبزہ اگ آیا اور زمین پرا ن کے چہرے کے نشان پڑ گئے، انہوں نے سجدہ میں کہا: میرے خدا! داؤد نے ایسی لغزش کی ہے کہ مشرق و مغرب کے فاصلہ سے بھی زیادہ دو ر ہے ،خدایا!اگر ضعیف و ناتوان داؤد پر رحم نہیں کرے گا اور اس کی خطا معاف نہیں کرے گا تو اسکے بعد لوگوں کی زبانوں پر اسکے گناہوں کا چرچا ہوگا جبرئیل چالیس د ن کے بعد آئے اورکہا : اے دائود! خد ا نے تمہیں معاف کر دیا، داؤد نے کہا: میں جانتا ہو ں کہ خدا عادل ہے اور ذرہ برابر عدل سے منحرف نہیں ہوتا اگر فلاں ( اوریا) قیامت کے دن آکر کہے: اے میرے خدا! میرا خون داودکی گردن پر ہے، تو میں کیا کروں گا؟ جبرئیل نے کہا: میں نے تمہارے رب سے اس سلسلے میں سوال نہیں کیا ہے ، اگر چاہتے ہو تو ایسا کروں، کہا: ہاں ، سوال کرو، جبرئیل اوپر گئے اور داؤد سجدہ میں چلے گئے کچھ دیربعد نیچے آکر کہنے لگے: اے دائود! جس کے لئے تم نے مجھے بھیجا تھا میں نے خد اسے سوال کیا تو اس نے فرمایاداؤد سے کہو: خدا تم دو آدمیوں کو قیامت کے دن حاضر کرے گااور اس ( مظلوم) سے کہے گا جو تمہارا خون داؤد کی گردن پر ہے اسے میرے لئے معاف کر دو، وہ کہے گا: خدایا! میں نے معاف کیا ، پھر خدافرمائے گا: اس کے بدلے میں بہشت میں جو چاہتے ہو انتخاب کر لو اورجس چیز کی خواہش ہو وہ تمہارے لئے حاضرہے...۔(١)
..............
(١)تفسیر طبری ج٢٣، ص ٩٦ طبع دار المعفة ، بیروت؛ سیوطی ، ج٥ ص ٣٠٠۔ ٣٠١
اللہ کے نبی دائود کے بارے میں تفاسیر میں منقول روایات اس طرح سے تھیں کہ جن کو ہم نے ملاحظہ کیا اب ہم اس کے اسناد کی چھان بین کریں گے۔
روایات کے اسناد کی چھان بین

١۔وہب بن منبہ: اس کا باپ ایرانی تھا شاہ کسریٰ نے اسے یمن بھیجا تھا۔ اس کے بارے میں ابن سعد کی طبقات میں خلاصہ اس طرح ہے :
وہب نے کہا ہے میں نے آسمان سے نازل شدہ بانوے ٩٢ کتابیں پڑھی ہیں ؛ ان میں سے ٧٢ عدد کلیساؤں اور لوگوں کے ہاتھ میں ہیں اور بیس عدد ایسی ہیں کہ بہت کم لوگ جانتے ہیں و ہ ١١٠ھ میں فوت کر گیا ہے ۔
ڈاکٹرجواد علی فرماتے ہیں: کہا جاتا ہے کہ وہب کی اصل و اساس یہودی ہے ، وہ اپنے خیال خام میں یونانی ، سریانی ، حمیری اور پرانی کتابوں کو پڑھنا خوب جانتا تھااور کشف الظنون میں ''قصص الانبیائ'' نامی کتاب کواسی کی تالیف میں شمار کیا ہے ۔(١)
٢۔ حسن بصری : ابو سعید، اس کا باپ زید بن ثابت کا غلام تھا وہ حضرت عمر کی خلافت کے آخری دو سال میں پیدا ہوا، بصرہ میں زندگی گز اری اور ١١٠ھ میں وفات کر گیا، فصاحت و بلاغت میں بلند مقام رکھتا تھا لوگوں اورخلافت کے نزدیک اس کی ایک حیثیت اور شان تھی اور بصرہ میں مکتب خلفاء کا پیشوا شمار ہوتا تھا۔(٢)
اس کی روایات کی اہمیت : میزان الاعتدال(٣) میں اس کے بعض حالات زندگی کی شرح کچھ اس طرح ہے :
..............
(١) طبقات ابن سعد، طبع یورپ ، ج ٥ ص ٣٩٥ اور کشف الظنون، ص ١٣٢٨؛ تاریخ العرب قبل الاسلام ( اسلام سے پہلے)، ڈاکٹر جواد علی، ج١ ص ٤٤.
(٢) میں اس کی سوانح کی طرف مراجعہ کیا جائے وفیات الاعیان، ابن خلکان طبع اول، ج١ ص ٣٥٤، طبقات ابن سعد، طبع یورپ ج ٧، ق١، ص ١٢٠ ملاحظہ ہو۔
(٣) ج١ ص ٥٢٧، شمارۂ ترجمہ ١٩٦٨
اس نے جو بھی حدیث دوسروں سے روایت کی ہے بے اعتبار اور ضعیف ہے ، کیونکہ ضرورت کے مطابق سند بنا لیتا تھا، بالخصوص ایسے لوگوں سے احادیث جیسے ابو ہریرہ اور اس جیسے لوگوں سے کہ یقینا اس نے ان سے کچھ نہیں سنا ہے محدثین نے ابوہریرہ سے اس کی روایات کو بے سند روایات کے زمرہ میں قرار دیاہے ،اورخد ابہتر جانتا ہے۔
یعنی :حسن نے جب بھی ( عن فلاں) کے ذریعہ کوئی روایت کی ہے وہ ضعیف ہے اس لئے کہ وہ یہ کہنے پر کہ '' میں نے فلاں سے سنا'' مجبور تھا، بالخصوص ایسے راوی جن سے اس نے کچھ نہیں سنا ہے جیسے اس کا ابو ہریرہ سے اور اس جیسے لوگوں سیبلا واسطہ روایت کرنا جبکہ حسن نے ان کو دیکھا نہیں ہے لیکن بلا واسطہ ان سے روایت کر تاہے ۔
ابن سعد کی طبقات میں اس کے بعض حالات زندگی علی بن زید کے توسط مذکور ہیں:
میں نے حسن بصری سے حدیث نقل کی اور اس نے اسی حدیث کودوسروں سے نقل کرتا تھا ، میں نے اس سے کہا اے ابو سعید کس نے تم سے یہ حدیث روایت کی ہے ؟ کہا: میں نہیں جانتا ، میں نے کہا: میں نے ہی اسے تم سے روایت کی ہے۔
اسی طرح ذکر کیا گیا ہے : اس سے کہا گیا: یہ جو تم لوگوں کو فتوے دیتے ہو اسکا مستند احادیث ہیں، یا پھرتمہارے ذاتی نظریات و خیالات کا نتیجہ ہیں؟ کہا: نہیں خدا کی قسم ایسا نہیں ہے کہ جو فتوی بھی دوں اسے میں نے سنا ہی ہو بلکہ میری رائے اور نظر ( لوگوں کیلئے) خود ان کی رائے اور نظر سے ان کیلئے بہتر ہے ۔(١)

..............
(١) دونوں ہی روایت ابن سعد کی طبقات میں ہیں ، ج٨، ص ١٢٠، طبع یورپ اور ج ٧ ، ص ١٢٠ پر بھی مذکور ہے ۔
حلال کرکے ایک دوسرے میں مشتبہ کر دیاہے،روزہ کو افطار اور افطارکو روزہ میں بدل ڈالا ہے ۔(١)
٣۔ یزید بن ابان رقاشی:یہ بصرہ کا رہنے والا ایک قصہ گو اور زاہد ِ گریاں بیوقوف تھا ۔
مزّی کی تہذیب الکمال اور ابن حجر کی تہذیب التہذیب میں اس کے حالات زندگی کا خلاصہ اس طرح ہے :
الف۔ اس کے زہد کے بارے میں : وہ اپنے آپ کو بھوکا اور پیاسا رکھتا تھا، اس کا جسم ضعیف بدن نحیف اور رنگ نیلاہو گیا تھا روتا تھا اور اپنے اطراف و جوانب والوں کو رلاتا تھامثال کے طور پر کہتا تھا: آئو تشنگی کے دن ٹھنڈے پانی پر گریہ کریں وہ کہتا تھا: ٹھنڈے پانی پر ظہر کے وقت سلام ، راوی کہتا ہے : وہ ایسے کام کرتا تھا جنہیں نہ پیغمبر ۖنے کہا ہے اور نہ ہی انجام دیا ہے ۔خدا وند سبحان فرماتا ہے :
(قل من حرم زینة اللہ التی اخرج لعبادہ و الطیبات من الرزق قل ھی للذینآمنوا فی الحیاة الدنیا...)
کہو: کس نے اللہ کی زینتوں اور پاکیزہ رزق کو جسے خدا نے اپنے بندوں کے لے خلق کیا ہے حرام کیا ہے ؟!
کہو: یہ سب دنیاوی زندگی میں مومنین کے لئے ہے ...(٢)
ب۔ اس کے نظریات: اس کا اعتقاد ضعیف اور مذہب قدری تھا۔(٣)
ج۔ اس کی روایات کی قیمت: ''شعبہ'' نامی ایک راوی کے بقول کہ اس نے کہا: چوری کرنا میرے نزدیک اس سے روایت کرنے سے زیادہ محبوب ہے ۔
اس کی روایات کے بارے میں کہاگیا ہے : اس کی روایات منکر اور مجہول ہیں، اس کی روایتیں متروک ہیں اور تحریر نہیں کی جاتیں ۔
ابو حاتم نے کہا: وہ ایک گریہ کرنے والا واعظ تھا، انس سے اس نے زیادہ روایت کی ہے ،اوریہ محل تامل و اشکال ہے، اس کی حدیث ضعیف ہے۔
تہذیب التہذیب میں مذکور ہے: ابن حبان کہتے ہیں: وہ خدا کے بندوں میں شب میں رونے والوں میں ایک اچھا بندہ تھا لیکن صحیح حدیث ضبط کرنے میں عبادت خدا کی وجہ سے غافل رہ گیا، وہ بھی اس طرح سے کہ حسن کی بات کو بر عکس کردیتا تھا اور اسے انس کے قول کی جگہ پر پیغمبر اکرمۖ کے نام سے قرار دے دیتا تھا،
..............
(١) وفیات الاعیان میں واصل بن عطا کے حالت زندگی اور ابن ابی العوجاء کے حالات کتاب ''ایک سو پچاس جعلی صحابی'' کی ج ١،زندقہ و زنادقہ کی بحث میں. اور ''الکنی و الالقاب'' میں ملاحظہ ہو۔
(٢)اعراف٣٢
(٣)طبقات ابن سعد چاپ یورپ ج٧ق٢ ص ١٣
اس کے قول سے روایت کرنا روا نہیں ہے مگر یہ کہ حیرت کا اظہار کرنا مقصود ہو، یزید بن ابان ١٢٠ھ سے پہلے فوت ہواہے۔(١)
روایات کے متن کی چھان بین

١۔ وہب کی روایت: روایت کا خلاصہ: اللہ کے نبی داؤد نے کچھ ایام عبادت سے مخصوص کئے اورخلوت نشینی اختیار کی اورتوریت کی تلاوت میں مشغول ہو گئے ،اچانک ان کے سامنے ایک سنہرا کبوتر نمودار ہوا انہوں نے پکڑنا چاہا،لیکن اڑ کر کچھ پیچھے بیٹھ گیا داؤد اس کے چکر میں پڑ گئے اوریہاں تک کہ اس کا پیچھا کیا اسی اثنا میں اوریا ہمسایہ کی بیوی پر اچانک نگاہ پڑ گئی تو دیکھا کہ وہ نہا رہی ہے اس کے حسن و جمال سے حیرت زدہ ہو گئے ، جب عورت نے ان کے وجود کا احساس کیا تو خودکو اپنے بالوں کے اندر چھپا لیا اور یہ داؤد کی حیرت میں مزید اضافہ کا باعث ہوا،اس کے شوہر کو میدان جنگ میں بھیج کر قتل کرانے کا پلان بنایا اور اس سے شادی رچا لی پھر دو فرشتے ان کے پاس آئے اور اس کے بعد قرآن کریم کی بیان کردہ داستان ملاحظہ ہو۔
یہ راوی ایک بار کہتا ہے : ( وہب نے کہا) ، دوسری بار کہتا ہے :( اہل کتاب کے خیال کے مطابق) ان باتوں سے اس کی ذمہ داری سے خود کو دور کرتا ہے جب ہم توریت کے سموئیل کی دوسری کتاب گیارہویں اور بارہویں باب کی طرف رجوع کرتے ہیں تو یہ داستان اس طرح ہے کہ : داؤد ''تشجیع''اوریا کی بیوی ''یتشبع''کو چھت سے دیکھتے ہیں اور اس کے حسن کو دیکھ کر لہلوٹ ہوجاتے ہیں اسے اپنے گھر بلاتے ہیں اور اس سے ہمبستری (مجامعت) کرتے ہیں اور یہ عورت ان سے زنا کے ذریعہ حاملہ ہو جاتی ہے وغیرہ...ملاحظہ کیجئے:
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب عصر کے وقت حضرت دائود اپنے بستر سے اٹھ کر بادشاہ کے گھر کی چھت پر ٹہل رہے تھے چھت کی پشت سے ایک عورت کو حمام میں دیکھا ، وہ عورت نہایت حسین و جمیل اور بلا کی خوبصورت تھی، پھر دائود نے فرستادہ کے ذریعہ اس عورت کے بارے میں سوال کیا لوگوں نے اس کے بارے میں کہا کہ یہ الیعام کی بیٹی اور یا کی بیوی ہے ، دائود نے اس کے پاس افراد بھیجے وہ اس کو پکڑ کر ان کے پاس لے آئے اور دائود اس سے ہمبستر ہوئے اور وہ اپنی نجاست سے پاک ہوئی اور اپنے گھر لوٹ گئی اور دائود کے
..............
(١)تہذیب التہذیب ج١١ ص ٣٠٩۔٣١١
فرستادہ کو مخبر بنایااور کہامیںحاملہ ہوںلہٰذادائودنے''یوآب''کے پاس کہدیا کہ ''اوریاحتی'' کو میرے پاس بھیج دو تو''یوآب'' نے اوریا کو دائود کے پاس بھیج دیا اور جب اوریا ان کے پاس پہنچا تو دائود نے ''یوآب''سے قوم اور جنگ کی سلامتی کے بارے میں سوال کیا، پھر دائود نے اوریا سے کہا: گھر جاکر پیر دھو ؤپھر ''اوریا'' بادشاہ کے گھر سے باہر گیا اس کے پیچھے بادشاہ کا دسترخوان روانہ کیا گیا لیکن اوریا اپنے گھر جانے کے بجائے بادشاہ کی دہلیز پر تمام بندوں کے ہمراہ سو رہا ،دائود کو خبر دی گئی کہ اوریا اپنے گھر نہیں گیا ہے تو دائود نے اوریا سے سوال کیا کہ کیا تم سفر سے واپس نہیں آئے ہو پھر اپنے گھر کیوں نہیں گئے ؟اوریا نے دائود سے عرض کی کہ تابوت، اسرائیل اور یہودا اپنے خیموں میں موجود ہیں اور میرے آقا ''یوآب'' اور میرے آقا کے غلام بیابانوں میں خیمہ نشین ہیں کیا میں ایسے میں اپنے گھر لوٹ جاتا اور کھانے پینے اور بیوی کے ساتھ سونے میں مشغول ہو جاتا! آپ کی حیات نیز آپ کی جان کی قسم ہے کہ یہ کام ہرگز نہیں کروں گا، دائود نے''اوریا'' سے کہا آج بھی تم یہیں رہو کل تمہیں بھیج دوں گا لہٰذا اوریا اس دن اور اسکے بعد ایک دن یروشلم میں رہا اور حضرت دائود نے اسکو دعوت دی، ان کے سامنے کھایا پیا اور مست ہوگیا پھر شام کے وقت باہر نکل گیا اور اپنے آقا کے غلاموں کے ساتھ سو گیا اور اپنے گھر نہیں گیا اور صبح تڑکے دائود نے ''یوآب'' کے نام خط لکھ کر اور یاکے ہاتھ روانہ کیا اس مکتوب میںیہ مضمون لکھا تھا کہ اوریا کو سخت جنگ کے محاذ پر آگے آگے رکھنا اور تم اس کے پیچھے پیچھے چلنا تاکہ وہ مارا جائے اور وہیں پر ہلاک ہو جائے اور جب یوآب شہر کو اپنے محاصرہ میں لیتا تھا تو اوریا کو ایسی جگہ پر رکھتا تھا جہاں اسے علم ہوتاتھا کہ یہاں پر بہادر اور شجاع لوگوںسے سامنا ہوگا، شہر کے لوگ باہر نکلے اور ''یوآب'' سے جنگ کی، جناب دائود کی قوم سے بعض سپاہی اس جگہ کام آ گئے اور یا حتی بھی مارا گیا پھر ''یوآب'' نے حضرت دائود کے فرستادہ کو جنگ کے تمام حالات سے باخبر کیا اور قاصد کو حکم دیا کہ بادشاہ کوجاکر جنگ کی تمام روداد نقل کرنا اور اگر وہ غصہ سے لال پیلے ہو کر تم سے کہیں کہ کیوں جنگ کے لئے شہر سے قریب گئے ہو؟ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ محاصرہ کے کنارہ سے تیر چلا دیں گے؟ کون ہے جس نے ابی ملک بن یربوشت کو قتل کر ڈالا؟ کیا کسی عورت نے چکی کے اوپری پاٹ کو حصار کے کنارے سے تو نہیں پھینک دیا کہ تاباص میں مر گیا پھر کیوں حصار سے قریب ہو گئے؟ اس وقت کہنا کہ تیرا غلام ''اوریا حتی'' بھی مر گیا ہے قاصد روانہ ہو ااور دائود کے پاس آ کر ''یوآب'' کے کہنے کے مطابق انہیں آگاہ کیا اور قاصد نے دائود سے کہا لوگ ہم پر غالبہوکرہمارے پیچھے صحرا کی طرف آ گئے، ہم نے ان پر دروازہ کے منھ تک حملہ کیا اور تیر اندازوں نے تیرے بندوں پر حصار پر سے تیر چلائے اور بادشاہ کے بعض بندے مر گئے اور تمہارا بندہ''اوریا حِتِّی'' بھی مر گیا ہے، دائود نے قاصد سے کہا: ''یوآب'' سے کہو کہ اس واقعہ سے پریشان نہ ہو اس لئے کہ تلوار بلا تفریق ان کو ، ان کو ہلاک کرتی ہے لہٰذا شہر کاڈٹ کر مقابلہ کرو اور اسے ویران کر دو پھر اسے تسلی دو ،جب اوریا کی بیوی نے سنا کہ اس کا شوہر مر چکا ہے تو اپنے شوہر کے لئے سوگ منایا جب سوگ کے دن گز ر گئے تو دائود نے قاصد بھیج کر اسے اپنے گھر بلا لیااور وہ ان کی بیوی ہو گئی اور ان سے ایک بچہ ہوا لیکن جو کام دائود نے کیا وہ خدا کے نزدیک ناپسند قرار پایا۔
بارہواں باب:

خدا وند عالم نے ناتان کو دائود کے پاس بھیجا اس نے ان کے پاس آ کر کہا: کہ ایک شہر میں دو مرد تھے ایک امیر و دولتمند اور دوسرا فقیر و نادار ، دولتمند کے پاس بہت زیادہ بھیڑ اور گائیں تھیں اور فقیر کے پاس ایک مادہ بکری کے علاوہ کچھ نہیں تھا جس کو اس نے خرید کر پالا تھا وہ ان کے پاس اس کی اولاد کے ہمراہ بڑی ہوئی ان کی غذا سے کھاتی اور ان کے پیالے سے پیتی اور اس کی آغوش میں سوتی تھی وہ اس کے لئے لڑکی کی طرح تھی، ایک مسافر اس دولت مند کے پاس آیا اسے افسوس ہوا کہ اپنی گا یوں اور گوسفندوں میں سے ایک کو مسافر کے لئے ذبح کرے لہٰذا اس نے اس فقیر انسان کی بکری کو لے لیا اور مسافر کے لئے غذا کا انتظام کیا، پھر تو دائود کا غصہ اس پربھڑک چکا تھا ،ناتان سے کہا: حیات خدا وند کی قسم جس کسی نے ایسا کیا ہے وہ قتل کا حقدار ہے اور چونکہ اس نے ایسا کام کیا ہے اور کوئی رحم نہیں کیاہے لہٰذا اسے ایک کے عوض چار گنا و اپس کرنا چاہئے۔ ناتان نے دائود سے کہا وہ تم ہو اور اسرائیل کا خدا یہوہ یہ کہتا ہے کہ میں نے تجھے اسرائیل کا بادشاہ بنایا اور شائول کے ہاتھوں سے نجات دی اور تمہارے آقا کا گھر تمہیں دیا اور آقا کی عورتوں کو تمہاری آغوش کے حوالے کیا اور اسرایل و یہودا کے خاندان کو تمہیں بخشا اگر یہ کم ہوتا تو مزید اضافہ کرتا، پھر کیوںکلام خدا کو ذلیل کیا اور اس کی نظر میں برا کام انجام دیا اور ''اوریاحتی'' تلوار مار ی اور اس کی بیوی کو اپنی زوجیت میں لے لیا اور اسے بنی عمون کی شمشیر سے قتل کر ڈالا، لہٰذا اب شمشیر تمہارے گھر سے دورنہیں ہوگی کیونکہ تم نے میری توہین کی ہے اور ''اوریا حتی'' کی بیوی کو اپنی بیوی بنا لیا ہے ۔
خدا وند عالم نے اس طرح کہا ہے: اب میں تم پر تمہارے گھر سے برائی عارض کروں گا اور تمہارے سامنے تمہاری عورتوں کو لے کر تمہارے پڑوسیوں کو دیدوں گا اور وہ آفتاب کی روشنی میں تمہاری عورتوں کے ساتھ سوئیںگے کیونکہ تم نے یہ کام خفیہ طور پر انجام دیا لیکن میں یہ کام تمام اسرائیل کے سامنے اورروز روشن میںانجام دوں گا ،دائود نے ناتان سے کہا: میں خداوند عالم کی قسم میں گناہ کا مرتکب ہوا ہوں ،ناتان نے دائود سے کہا :خداوند عالم نے تمہاراگناہ معاف کیا ، تم نہیں مروگے لیکن چونکہ یہ امر دشمنان خدا کے کفر بولنے کا باعث ہوا ہے لہٰذا تمہاراجو بچہ پیدا ہوگا وہ مر جائے گا، پھر ناتان اپنے گھر گیا اور خداوند نے دائود کے ذریعہ اور یاکی بیوی سے پیدا ہونے والے بچہ کو بیماری میں مبتلا کر دیا پھر دائود نے بچہ کے لئے خدا سے دعا کی اور روزہ رکھا اور پوری رات زمین پر سوئے رہے، ان کے گھر کے بزرگ اٹھے تاکہ زمین سے انہیں اٹھائیں لیکن قبول نہیں کیا اور ان کے ساتھ روٹی بھی نہ کھائی، ساتویں دن بچہ مر گیا اور دائود کے خدام خوفزدہ ہو گئے کہ کیسے دائود کو اس بچہ کے مرنے کی اطلاع دیں، اس لئے کہاکہ ابھی بچہ زندہ تھا اور ہم نے اس سے باتیں کی ہیں کیونکہ اگر یہ خبر دیں کہ بچہ مر گیا ہے تو کس درجہ رنجیدہ ہوں گے اور جب دائود نے دیکھا کہ ان کے بندے آپس میں سرگوشی کر رہے ہیں تو سمجھ لیا کہ بچہ مر گیا ہے دائود نے اپنے خدام سے پوچھا بچہ مر چکا ہے ؟ کہا ہاں مر چکا ہے پھر اس وقت دائود نے زمین سے اٹھ کر غسل کیا اور نہا دھو کر تیل لگایا اور اپنا لباس بدلا اور خداوند کے گھر کی طرف گئے اور عبادت کی پھر اپنے گھر واپس آئے غذا طلب کی لوگوں نے حاضر کی تو آپ نے کھایا اور ان کے خادموں نے ان سے کہا کہ یہ کون سا کام تھاجو آپ نے انجام دیا جب بچہ زندہ تھا تو روزہ رکھا اور گریہ کیا اور جب مر گیا تو اٹھ کر کھانا کھایا انہوں نے کہا: جب بچہ زندہ تھا تو روزہ رکھا اور گریہ کیا اس لئے کہ میں نے سوچا کسے معلوم کہ شاید خداوند مجھ پر رحم کرے اور میرا بچہ زندہ بچ جائے لیکن اب جبکہ میرا بچہ مر چکا ہے کیوں روزہ رکھوں کیا میں اس کو دوبارہ واپس کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں؟ میں اس کے پاس جائوں گا لیکن وہ میرے پاس نہیں آئے گا۔
وہب کی روایت کا توریت میںسموئیل کی دوسری کتاب کی مذکور ہ باتوں سے مقایسہ کرنے سے نتیجہ نکلتا ہے کہ وہب نے بعض داستان توریت سے اور بعض داستان اسرائیل کی دیگر کتابوں سے ( کہ جن کو پڑھا تھا) لیاہے اور جیسا کہ خود بھی ان کتابوں کے پڑھنے کی خبر دی ہے اس طرح کی روایات علم حدیث میں روایات اسرائیلی یا اسرائیلیات سے موسوم ہیں۔
دوسرے۔ حسن بصری کی روایت: اس روایت کا خلاصہ وہی وہب کی روایت کا خلاصہ ہے، فرق صرف یہ ہے کہ حسن بصری نے ابتداء میں اضافہ کیاکہ داؤد نے اپنے اوقات چار حصوں میں بانٹ دئے تھے، ہمیں نہیں معلوم کہ آیا یہ خود اس کا خیال اور ابتکار تھا جو اس نے اضافہ کیا ہے یا دیگر اسرائیلی روایوں سے لیا ہے ۔
جو بھی صورت ہو حسن بصری نے اس روایت کی سند ذکر نہیں کی ہے اور اسے بغیر سند اور اصطلاحی اعتبار سے مرسل ذکر کیا ہے، اگر وہ روایت کے وقت اس کا ماخذ بھی بیان کردیتا اور کہتا کہ وہب بن منبہ سے یا اس کے علاوہ دیگر اسرائیلی راویوں سے روایت کرتا ہے تو مسئلہ آسان ہو جاتا اور محققین روایت کے ماخذ تک رسائی رکھتے اور آسانی سے سمجھ لیتے کہ یہ اسرائیلی روایات میں سے ہے، اس نے سند ذکر نہ کر کے محققین کے لئے مشکل کھڑی کردی ہے لیکن اس کے با وجود چونکہ اس کا شمارمکتب خلفاء میں عقائد کے حوالے سے رہنما اور پیشرو لوگوں میں ہوتا ہے ، اس کی روایت اسلامی عقائد کے سمجھنے میں دوگنا اثر رکھتی ہے۔
اسرائیلی روایات کے زیادہ تر راوی وہی کام کرتے ہیں جو حسن بصری نے کیا ہے ، یعنی اسرائیلی روایات کو بغیر سند اور ماخذ کے ذکر کرتے ہیں اور اس طرح سے ایسی روایتیں ان افراد کے لئے جو حدیث شناس نہیں ہین بہت سخت اور پیچیدہ ہو جاتی ہیں ۔
تیسرے۔ یزید رقاشی کی روایت: یزید بن ابان نے کہا ہے : یہ روایت اس نے انس صحابی سے دریافت کی ہے جسے اس نے رسول خداۖ سے سنی ہے یہ بات کہہ کر اس نے انس اور رسول خداۖ دونوں کی طرف جھوٹی نسبت دی ہے جبکہ اس کا سماج میں ظاہری حلیہ یہ ہے کہ وہ زاہد، عابد اور گریہ کرنے والا ہے۔
یقینا ایسی روایت کا اثر جسے یزید کی طرح عابد، زاہد ، گریہ کرنے والے افراد اپنے مواعظ اور داستانوں میں روایت کرتے ہیں کس قدر ہوگا؟ آیا علم حدیث میں مہارت نہ رکھنے والا سمجھ سکتا ہے کہ یزید رقاشی ، نے جو کچھ حسن بصری سے سنا پیغمبر ۖکے صحابی انس اور خود رسول خداۖ کی طرف جھوٹی نسبت دی ہے؟ بالخصوص اس کے بعدکہ بہت سے مفسرین جیسے طبری سے (جس کی وفات ٣١٠ھ ہوئی .اورسیوطی تک جس کی وفات ٩١١ھمیں ہوئی) پے در پے آتے ہیں اور اس افسانہ کو اپنی تفاسیر میں شامل کر دیتے ہیں، اس سے زیادہ افسوسناک یہ ہے کہ اپنی نقل میں جو کچھ اسرائیلی روایات کو یہاں ذکر کیا ہے اسی پر اکتفا نہیں کی ہے ، بلکہ اس کے نقل کے حدودکو ایسے راویوں سے دیگر صحابہ اور تابعین تک وسیع کر دیا ہے،
١۔ صحابی عبد اللہ بن عمروبن عاص، جس نے اہل کتاب کے نوشتہ جات کے عظیم خزانہ کو بعض جنگوں میں حاصل کیا اور وہ اس کتاب سے بغیر ذکرماخذ کے روایت کرتا تھا ۔
٢۔ صحابی تمیم داری، یہ راہب نصاری ہونے کے بعد اسلام لایا اورجمعہ کے ایام میں پیغمبرۖ کی مسجد میں نماز جمعہ کے موقع پر خلیفہ دوم عمرا بن خطابؓ کے خطبہ سے پہلے تقریر کرتا تھا اور یہ کام حضرت عثمانؓ کے دور میں ہفتہ میں دو مرتبہ انجام پاتا تھا۔
٣۔کعب الاحبار(تابعی) یہ حضرت عمرؓ کی خلافت کے دوران اسلام لایا اور اس دور کے مسلمان علماء کی ردیف میں شمار ہونے لگا۔
اس گروہ کے بعد دوسرے افراد نے مذکورہ افسانوں کو ان سے لیا اور قرآن کی تفسیر کا نام دیدیا جیسے:
..............
٤۔ مقاتل بن سلیمان مروزی ازدی (متوفی ١٥٠ھ )جو کتاب خدا کے مفسر کے نام سے مشہورہے ۔ شافعی نے اس کے بارے میں کہا ہے :
تمام لوگ تین آدمیوں کے مرہون منت ہیں :تفسیر میں مقاتل بن سلیمان کے، شعر میں زہیر بن ابی سلمیٰ کے اور کلام میں ابو حنیفہ کے!
اب دیکھنایہ ہے کہ جناب مقاتل نے مکتب خلفاء کی قابل اعتماد روایتوں میں کتنی اسرائیلی روایات کو جگہ دی ہے اور کتنی خود جعل کی ہے اور دوسروں کی طرف نسبت دی ہے، یہ توخدا جانتا ہے اور بس۔(١)
تحقیق کا نتیجہ

وہب بن منبہ نے اس کی روایت کو جوخد اکے نبی داود پر تہمت ، افترا اور کذب بیانی پر مشتمل ہے، اہل کتاب کی کتابوں سے نقل کر کے اس کا ماخذ بھی بتایا ہے ، لیکن مکتب خلفاء کے اماموں کے پیشوا حسن بصری نے اسے کسی ماخذ اور مدرک کے طرف اشارہ کئے بغیر روایت کیا ہے ، حدیث گو، قصہ پرداز، زاہد، عابد اور گریہ کناں یزید بن ابان نے فریب کاری سے اسے انس کی طرف نسبت دی ہے اور کہا ہے: انس نے اسے رسول خداۖ سے سنا ہے ۔
اس طرح کی تدلیس، فریب کاری، دھوکہ بازی اور اسرائیلی روایتوں کو صحابہ کی طرف نسبت دینا صرف اسی مورد میں منحصر نہیں ہے اورانہیں صحابہ سے مختص نہیں ہے اس جیسی اور اس سے بہت زیادہ روایات کی رسول خداۖ کے چچازاد بھائی عبد اللہ بن عباس کی طرف نسبت دی ہے ، یہ ایسی روایتیں ہیں جن کی تحقیق اور تجزیہ تطبیقی بحثوں کا محتاج ہے اور تفسیر سیوطی ، (الدر المنثور)کے آخری صفحہ کی طرف مراجعہ کرنے سے ان میں سے بعض موضوع ہمارے لئے واضح ہو جاتے ہیں۔
اس طرح جھوٹی خبروں کا سر چشمہ جس کی نسبت دائود کی طرف دی گئی توریت کے قصوں میں ملتا ہے اس طرح کی اسرائیلی روایات تدریجا ًاور زمانے کے ساتھ ساتھ تفسیر قرآن سے مخلوط ہو گئیں۔اورانہوں نے مسلمانوں کے اندر پیغمبر اکرمۖ اور انبیاء کرام کی سیرت کے حوالہ سے غلط نظریات ایجاد کر دئے یہ حضرت داؤد کے اوریا کی بیوہ سے شادی کرنے کی جھوٹی داستان تھی جس کی نسبت اللہ کے نبی دائود کی طر ف دی گئی ہے ۔
..............
(١)تاریخ بغداد ، ج ١٢، ص ١٦٠، ١٦٩، شمارہ ٧١٤٢؛ وفیات الاعیان ، ج ٤، ص ٢٤٠، اور ص ٢٤٢؛ تہذیب التہذیب ج ١٠، ص ٢٧٩، اور ص ٢٨٥؛ میزان الاعتدال ج ٤، ص ١٧٢، شمارہ ٧٨٤١.
آئندہ بحث میں زینب بنت جحش کے زید سے ازدواج اوراس کے بعد رسول اکرمۖ سے ازدواج کی صحیح داستان ذکر کریں گے۔
روایت میں پیغمبر اکرمۖ کا زینب سے شادی کرنا
آیہ'' و تخفی فی نفسک''( تم دل میں کچھ چھپاتے ہو )کی تفسیرمیں خازن کہتے ہیں: اس سلسلے میں صحیح ترین بات ایک روایت ہے جو سفیان بن عیینہ اور انہوں نے علی بن جدعان سے نقل کی ہے راوی علی بن حد عان نے کہا: زین العابدین علی بن الحسین نے مجھ سے سوال کیا : حسن بصری اللہ کے اس کلام:
(و تخفی فی نفسک ما اللہ مبدیہ و تخشی النا س واللہ احق ان تخشاہ)
(دل میں کچھ پوشیدہ رکھتے ہو کہ جس کو خداآشکار کر دیتا ہے ؛ اور لوگوں سے ڈر تے ہوجبکہ خدا اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرا جائے)۔
کے بارے میں کیا کہتاہے ؟ میں نے کہا: جب زید رسول خداۖ کی خدمت میں پہنچے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں زینب کو طلاق دینے کا مصمم ارادہ رکھتا ہوں، پیغمبرۖ حیرت زدہ ہو ئے اور فرمایا: اپنی بیوی کو طلاق نہ دو اور خدا سے ڈرو، علی بن الحسین نے فرمایا: ایسا نہیں ہے بلکہ خدا وند عالم نے پیغمبر اکرمۖ کو آگاہ کر دیا تھا کہ زینب عنقریب پیغمبر کی بیویوں کے زمرہ میں شامل ہوں گی اور زید انہیں طلاق دے دیں گے، جب زید حضرت کی خدمت میں آکر کہنے لگے کہ میں زینب کو طلاق دینا چاہتا ہوں تو حضرت نے فرمایا اسے اپنے پاس رکھوتب خدا وند متعال نے پیغمبر کوسرزنش کی کہ کیوں تم نے کہا کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھو!میں نے تو تمہیں آگاہ کر دیاتھا کہ عنقریب وہ تمہاری بیویوں کی صف میں شامل ہو جائیگی؟!
خازن کہتا ہے:
یہ تفسیر پیغمبروں کی شان و منزلت کے اعتبار سے زیادہ مناسب اور سزاوار ہے اور قرآن کی صریحی آیات سے ہم آہنگ ہے۔
زینب کی شادی کی مفصل داستان پہلے زید سے ، پھر پیغمبر اکرمۖ سے آیات و روایات میں اس طرح ہے :
الف۔ رسول خداۖ سے زینب کی شادی کے متعلق آیات:
(وما کان لمؤمن و لا مؤمنة اذا قضی اللہ ورسولہ امراً ان یکون لھم الخیرة من أمرھم و من یعص اللہ و رسولہ فقد ضل ضلالًا مبینا٭ و اذ تقول للذی انعم اللہ علیہ و انعمت علیہ امسک علیک زوجک و اتق اللہ و تخفی فی نفسک ما اللہ مبدیہ و تخشی الناس و اللہ احق ان تخشاہ فلما قضیٰ زید منھا وطراً زوجناکھا لکی لا یکون علیٰ المؤمنین حرج فی ازواج ادعیائھم اذا قضوا منھن وطرا و کان امر اللہ مفعولا٭ما کان علیٰ النبی من حرج فیما فرض اللہ لہ سنة اللہ فی الذین خلوا من قبل و کان امر اللہ قدرا مقدورا٭ الذین یبلغون رسالات اللہ و یخشونہ ولا یخشون احداً الا اللہ و کفیٰ باللہ حسیبا٭ما کان محمد أبا أحد من رجالکم و لٰکن رسول اللہ و خاتم النبیین و کان اللہ بکل شیء علیماً)
کسی مرد اور عورت کے لئے مناسب نہیں ہے کہ جب خدا اور اس کا رسول کسی امر کو لازم سمجھیں تو وہ اپنا اختیار دکھلائے اور جو کوئی خدا و رسول کی نافرمانی کرے تو وہ کھلی ضلالت و گمراہی میں ہے ۔
اور جب وہ شخص جس کو خد انے بھی نعمت سے نوازا اور تم نے بھی اس پر احسان کیا اس سے تم کہہ رہے تھے کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھواور خدا سے ڈرو اور د ل میں ایسی بات چھپائے رہے جس کوخدانے آشکار کر دیا اور لوگوں سے خوفزدہ ہوئے جبکہ اس بات کا زیادہ حقدار خدا ہے کہ اس سے ڈراجائے اور جب زید نے اس عورت سے اپنی بے نیازی کا اظہار کیا تو ہم نے اسے تمہارے حبالہ عقد میں دیدیا تاکہ منہ بولے بیٹے کی بیوی سے جب وہ اپنی ضرورت پوری کر چکے ( طلاق دیدے) تو شادی کرنے میں مومنین کو کسی دشواری اور مشکل کا سامنا نہ ہو؛ اور امر الٰہی بہرحال نافذہو کے رہتا ہے جوخدا نے معین کر دیا ہے اس میں پیغمبر ۖکے لئے کسی قسم کی کوئی دقت اور مشکل نہیں ہے ، یہ اللہ کی سنت گز شتہ لوگوں سے متعلق بھی ثابت تھی اور حکم الٰہی حساب و کتاب کے مطابق ہے، وہ گز شتہ افراد پیغامات الٰہی کی تبلیغ کرتے تھے اور اس سے ڈرتے تھے اور خدا کے علاوہ کسی سے خوف نہیں کھاتے تھے، اتنا ہی کافی ہے کہ خدا حساب لینے والا ہے ۔ (١)پیغمبرۖ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں اور خدا ہر چیز سے آگاہ ہے۔
مکتب خلفاء کی روایات میں مذکورہ آیات کی تاویل
طبری نے اس آیت کی تاویل میں وہب بن منبہ سے روایت کی ہے : پیغمبر اکرمۖ نے اپنی پھوپھی زاد
..............
(١)احزاب٣٦۔٤٠
بہن زینب بنت حجش کی شادی زید بن حارثہ سے کر دی ، ایک دن رسول خداۖ زید کے سراغ میں جب ان کے گھرکے دروازہ پر پہنچے تو اچانک ہو اچلی اور گھر کا پردہ اٹھ گیا،زینب جو اپنے کمرے میں کافی حجاب میں نہ تھیں نظر آگئیں تو پیغمبر ۖ کے دل میں ان کے حسن و جمال نے جگہ بنا لی، یہ واقعہ جب پیش آیا ...تو(یہاں تک کہ ) زید رسول اکرمۖ کی خدمت میں آ کر کہنے لگے یا رسول اللہ !میں زینب سے الگ ہونا چاہتا ہوں پیغمبر اکرمۖ نے فرمایا: تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ آیا اس کے بارے میں تمہیں کوئی شک و شبہ ہو گیا ہے ؟ کہا: نہیں خدا کی قسم میں اس سے متعلق مشکوک نہیںہوں اور اس سے خوبی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا ہے ..........آخرحدیث تک(١)
اس مضمون کی، حسن بصری سے بھی ایک روایت بیان ہوئی ہے کہ عنقریب( آیات کی تاویل کے میں اہل بیت کی روایات کے ضمن میں) اسے بیان کریںگے۔
دونوں روایات کی چھان بین
الف۔ دونوں روایت کی سند: یہ دونوں ہی روایتیں وھب بن منبہ اور حسن بصری سے منقول ہیں، ہم ان دونوں کی شرح حال بیان کر چکے ہیں، اسکے علاوہ کہیں گے: دونوں ہی''راوی'' رسول اکرمۖ کے سالوں بعد پیدا ہوئے ہیں پھر کس طرح رسول خداۖ کے زمانے کے واقعات اور حوادث بیان کرتے ہیں اور بغیر کسی مدرک اور ماخذ کے قطعی مسلمات کی طرح بیان کرتے ہیں؟!
ب۔ دونوں روایتوں کا:اصل نچوڑ یہ ہے کہ پیغمبر اکرمۖ اچانک زینب کے بے حجاب حسن و جمال کے دیدار سے حیرت زدہ ہوگئے اور دل میں زید کے طلاق دینے کے خواہشمند ہوئے لیکن اسے اپنے اندر مخفی رکھا۔
روایت کے بطلان کا بیان: زینب پیغمبر اکرمۖ کی پھوپھی زاد بہن تھی، حجاب کا حکم بھی پیغمبر اکرمۖ سے ازدواج کے بعد آیا ہے آنحضرت ۖنے اسے زید کے ساتھ ازدواج سے پہلے بارہا دیکھا تھا، لہٰذا جو ایسی بات کہتا ہے رسول خداۖ پر بہتان اور افترا پر دازی کرتا ہے، صحیح خبروہ ہے جسے ہم سیرت کی کتابوں سے ذکر کریں گے۔
..............
(١)تفسیر المیزان، طبع دار المعرفة بیروت، ج٢٢ ص ١٠۔١١
زید بن حارثہ کون ہیں؟
زید بن حارثہ کلبی کی بعض سر گز شت اس طرح ہے : زید زمانۂ جاہلیت میں اسیر ہوئے اور عرب کے بعض بازاروں میںانہیں بیچا گیا تو اسے خدیجہ کے لئے خریدلیا گیا۔
خدیجہ نے بعثت سے پہلے جبکہ وہ ٨ سال کے تھے رسول خداۖ کو بخش دیا، وہ پیغمبر ۖکے پاس پروان چڑھے اس کی خبر ان کے گھر والوںکو ملی تو ان کے باپ اور چچا انہیں آزاد کرانے کیلئے مکہ آئے اور پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوکر کہنے لگے: اے عبد المطلب کے فرزند اور اے ہاشم کے فرزند! اے اپنی قوم کے آقا کے فرزند !ہم آپ کے پا س اپنے فرزند کو لینے کے لئے آئے ہیں ہم پر احسان کیجئے اور اس کا عوض لینے سے در گز ر کیجئے! پیغمبر نے کہا کس کے بارے میں کہہ رہے ہو؟ بولے : زید بن حارثہ کے متعلق، فرمایا: کیوں نہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کریں؟ بولے کیا کریں؟ فرمایا: اسے آواز دو اور اسے اپنے اختیار پر چھوڑ دو، اگر تمہیں اختیار کر لے تو تمہارا ہے اور اگر مجھے اختیار کر لے تو خدا کی قسم میں ایسا نہیںہوں کہ اگر کوئی مجھے منتخب کرے تومیں کسی اور کو ترجیح دوں، بولے : یقینا آپ تو حد انصاف سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں، آپ نے ہم پر مہربانی کی،رسول خداۖ نے زید کو آواز دی اور فرمایا: ان لوگوں کو پہچانتے ہو کہا: ہاں ، یہ میرے والد اور وہ میرے چچا ہیں، فرمایا : میں بھی وہی ہوں جس کو پہچانتے ہواور میری مصاحبت کو دیکھاہے، ہم میں سے جس کا چاہو انتخاب کر لو، زید نے کہا: میں انہیں اختیار نہیں کرتا، میں ایسا نہیں ہوں کہ کسی اور کو آپ پر ترجیح دوںآپ میرے لئے باپ بھی ہیں اور چچا بھی،وہ سب بولے : تجھ پروائے ہو اے زید! کیا تم غلامی کو آزادی اور اپنے باپ اور گھر والوں پر ترجیح دیتے ہو؟ کہا: ہاں، میں نے ان میںایسی چیز دیکھی ہے کہ کبھی کسی کو ان پر ترجیح نہیں دے سکتا، جب رسول خداۖ نے ایسا دیکھا تو اسے بیت اللہ میں حجر کی طرف لے گئے اور فرمایا: اے حاضرین ! گواہ رہنا کہ زید میرا بیٹا ہے وہ میری میراث پائے گا اور میں اس کی ! جب زید کے باپ اور چچا نے یہ دیکھا تو مطمئن اور خوشحال واپس چلے گئے۔(١)
اس واقعہ کے بعد زید پیغمبر اکرمۖ سے منسوب ہو گئے اورلوگ انہیں زید بن محمد کہنے لگے۔ پیغمبر نے اپنی مربیہ کنیز'' ام ایمن'' کو ان کی زوجیت میں دیدیا اس سے مکہ میں اسامہ بن زید پیدا ہوئے ۔(٢)
..............
(١) اسد الغابة، ج٢ ص ٢٢٧۔٢٢٤
(٢) اسد الغابة ج٧ص ٣٠٣
یہ رسول خدا کے منھ بولے بیٹے زیدکی داستان تھی ،زینب سے پیغمبر کی شادی کا قصہ درج ذیل ہے ۔
رسول خداۖ کی پھوپھی زاد بہن زینب کا زید سے شادی کرنا
مدینہ ہجرت کرنے کے بعد کچھ صحابہ نے پیغمبرۖ کی پھوپھی زاد بہن زینب سے شادی کا پیغام دیا اس نے اپنے بھائی کو اس سلسلے میں مشورہ کرنے کے لئے رسول اکرمۖ کی خدمت میں بھیجا ، پیغمبر نے فرمایا: جو اسے کتاب خدا اور اس کے پیغمبرکی سنت کی تعلیم دے اس کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟
زینب نے پوچھا: وہ شخص کون ہے؟ جواب ملا: زید! زینب ناراض ہوئیں اور بولیں: آیا اپنی پھوپھی زاد بہن کو اپنے غلام کی زوجیت میں دیں گے؟ میں اس کے ساتھ شادی نہیں کروں گی! میں خاندانی لحاظ سے اس سے بہتر ہوں میں کنواری اور اپنی قوم میں بے شوہر ہوں۔ پھر خدا وند عالم نے یہ آیت نازل فرمائی:
(وما کان لمومن و لامومنة اذا قضی اللہ و رسولہ امرا ان یکون لھم الخیرة من امرھم و من یعص اللہ و رسولہ فقد ضل ضلالاً مبیناً)
کسی مومن مرد اور مومنہ عورت کو حق نہیں ہے کہ اللہ اور رسول جب کسی چیز کا فیصلہ کر دیں تو وہ اپنے اختیار کا مظاہرہ کرے اور جو خدا اور رسول کی نافرمانی کرے گا وہ کھلی ہوئی گمراہی میں ہے۔
زینب نے جیسے ہی یہ آیت سنی راضی ہو گئیں، پیغمبر نے ان کو حبش کی رہنے والی سیاہ فام ام ایمن ( مادر اسامہ بن زید )کے بعد زید کی زوجیت میں دید یا، زینب زید پر اپنی فوقیت اور برتری جتاتیں اس پر سختی کرتیں اور اس سے بدسلوکی کرتی تھیں اور زبان سے اذیت دیتی تھیں، زید نے پیغمبر سے شکوہ کیا اور اس کوشش میں تھے کہ اسے طلاق دیدیں۔ خدا کی مرضی بھی یہی تھی کہ زید کے بعد زینب پیغمبر کی زوجیت میں آجائیں، تاکہ اس کے ذریعہ منھ بولے بیٹے کی رسم کو مسلمانوں کے درمیان سے ختم کر دے اور وحی کے ذریعہ پیغمبر کو اطلاع بھی دے دی تھی ، پیغمبر بھی اس بات سے ڈرتے تھے کہ لوگ کہیں گے کہ اپنے بیٹے کی بیوی سے شادی کر لی ہے بنا بر ایںوحی کے راز کو اپنے دل میں چھپائے رکھا اور زید سے فرمایا ،خدا سے ڈرو اور اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھو! آخر کار زید اپنی بیوی زینب سے تنگ آ گئے اور اسے طلاق دیدی اور جب عدۂ طلاق پورا ہو گیا تو یہ پوری آ یتیں یکبارگی پیغمبر پر نازل ہوئیں اور واقعہ سے آگاہ کیا اور منھ بولے فرزند کے حکم کوشریعت اسلامیہ میں اس طرح بیان کیا:
(فلما قضیٰ زید منھا وطراً زوجنا کھا لکی لا یکون علیٰ المؤمنین حرج فی ازواج ادعیائھم...٭ ما کان محمد أبا أحد من رجالکم و لکن رسول اللہ و خاتم النبیین...)
جب زید نے اس عورت سے کنارہ کشی کی اور اپنی بے نیازی کا اظہار کیا تو ہم نے اسے تمہارے حبالۂ زوجیت میں دیدیا تاکہ مومنین کے درمیان منھ بولے بیٹے کی بیوی سے شادی کرنے پر کوئی مشکل نہ پیدا ہو، محمد تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ، لیکن اللہ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں۔(١)
خدا وند سبحان دیگر مومنین کے بارے میں بھی فرماتا ہے :
(وما جعل ادعیائکم ابنائکم ذلکم قولکم بأفوا ھکم واللہ یقول الحق و ھو یھدی السبیل٭ ادعوھم لآبائھم ھو اقسط عند اللہ فأِن لم تعلموا آبائھم فأِخوانکم فی الدین و موالیکم)
خدا وند عالم نے تمہارے منھ بولے بیٹے کو تمہارا حقیقی فرزند قرار نہیں دیاہے ؛ یہ تمہاری اپنی گفتگو ہے جو منہ سے نکالتے ہو، لیکن خدا حق کہتا ہے اور وہی تمہیں راہِ راست کی طرف ہدایت کرتا ہے، انہیں ان کے آباء کے نام سے پکار و کہ یہ خدا کے نزدیک انصاف سے زیادہ قریب ہے اور اگر ان کے آباء کو نہیںپہچانتے تو یہ لوگ تمہارے برادران دینی اور دوست ہیں۔ (٢)
ہم نے گز شتہ بحثوں میں ان آیات کے دو نمونے پیش کئے ہیں جن کی تاویل میں علماء نے غلط فہمی کی ہے ، اس غلط فہمی کا باعث بھی یہ تھا کہ انہوں نے انبیاء پر افترا پردازی کرنے والی روایات پر اعتماد کیا،آئندہ بحث میں ہم ان آیات کو ذکر کریں گے جن کی تاویل میں بعض لوگوں نے( کسی روایت سے استناد کئے بغیر) غلط فہمی کی ہے ۔
..............
(١) احزاب ٤٠۔٣٧
(٢) احزاب ٥۔٤
 
Top