• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دار الاسلام و دار الکفر کی تعریف اور دار پر اسلام یا کفر کا حکم لگانے کی علت

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
564
ری ایکشن اسکور
174
پوائنٹ
77
دار الاسلام و دار الکفر کی تعریف اور دار پر اسلام یا کفر کا حکم لگانے کی علت

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

دار الاسلام ہر وہ شہر یا زمین کا ٹکڑا ہے جس پر اسلام کے احکام کی بالا دستی ہو، اس میں غلبہ، قوت اور کلمہ مسلمانوں کے لیے ہو، اگرچہ اس دار کے رہنے والے اکثر کافر ہی ہوں۔

دار الکفر ہر وہ شہر یا زمین کا ٹکڑا ہے کہ جس پر کفر کے احکام کی بالادستی ہو، اور اس میں غلبہ، قوت اور کلمہ کافروں کے لیے ہو، اگرچہ اس دار کے رہنے والے اکثر مسلمان ہی ہوں۔

امام ابن قيم الجوزية (ت ٧٥١هـ) رحمہ اللہ نے فرمایا:

قَالَ الْجُمْهُورُ: دَارُ الْإِسْلَامِ هِيَ الَّتِي نَزَلَهَا الْمُسْلِمُونَ، وَجَرَتْ عَلَيْهَا أَحْكَامُ الْإِسْلَامِ، وَمَا لَمْ تَجْرِ عَلَيْهِ أَحْكَامُ الْإِسْلَامِ لَمْ يَكُنْ دَارَ إِسْلَامٍ، وَإِنْ لَاصَقَهَا، فَهَذِهِ الطَّائِفُ قَرِيبَةٌ إِلَى مَكَّةَ جِدًّا وَلَمْ تَصِرْ دَارَ إِسْلَامٍ بِفَتْحِ مَكَّةَ، وَكَذَلِكَ السَّاحِلُ.

جمہور علماء کا کہنا ہے دار الاسلام وہ ہے کہ جہاں مسلمان جا کر رہائش پذیر ہو چکے ہوں اور وہاں اسلام کے احکام جاری ہو چکے ہوں، اور جس میں اسلام کے احکام جاری نہ ہوں تو وہ دار الاسلام نہیں، اگرچہ وہ اس سے ملحق ہی کیوں نا ہو، پس یہ رہا طائف جو مکہ سے بہت قریب تھا لیکن فتح مکہ کے ساتھ دار الاسلام قرار نہیں پایا، اور اسی طرح سے ساحل۔


[أحكام أهل الذمة، ج: ٢، ص: ٧٢٨]

امام ابن مفلح المقدسي الحنبلي (٧١٢ - ٧٦٣ هـ) رحمہ اللہ نے فرمایا:

فَصْل فِي تَحْقِيق دَار الْإِسْلَام وَدَار الْحَرْب فَكُلّ دَار غَلَبَ عَلَيْهَا أَحْكَام الْمُسْلِمِينَ فَدَارُ الْإِسْلَام وَإِنْ غَلَبَ عَلَيْهَا أَحْكَام الْكُفَّار فَدَارُ الْكُفْر وَلَا دَارَ لِغَيْرِهِمَا

یہ فصل دار الاسلام اور دار الحرب کی وضاحت میں ہے، پس ہر وہ دار جس پر مسلمانوں کے احکام کا غلبہ ہو تو وہ دار الاسلام ہے، اور اگر اس پر کفار کے احکام کا غلبہ ہو تو وہ دار الکفر ہے اور ان دونوں کے سوا اور کوئی دار نہیں۔


[الآداب الشرعية والمنح المرعية، ج: ١، ص: ١٩٠]

دار پر اسلام یا کفر کا حکم لگانے کی علت

علماء کے کلام سے بطریق استقراء یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے دار پر حکم لگانے کے لیے دو اسباب کو ذکر کیا ہے۔
  1. قوت اور غلبہ
  2. اس میں نافذ احکام کی قسم
امام ابن حزم الأندلسي (ت ٤٥٦هـ) رحمہ اللہ نے فرمایا:

وَقَوْلُ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «أَنَا بَرِيءٌ مِنْ كُلِّ مُسْلِمٍ أَقَامَ بَيْنَ أَظْهُرِ الْمُشْرِكِينَ» يُبَيِّنُ مَا قُلْنَاهُ، وَأَنَّهُ - عَلَيْهِ السَّلَامُ - إنَّمَا عَنَى بِذَلِكَ دَارَ الْحَرْبِ، وَإِلَّا فَقَدْ اسْتَعْمَلَ - عَلَيْهِ السَّلَامُ - عُمَّالَهُ عَلَى خَيْبَرَ، وَهُمْ كُلُّهُمْ يَهُودُ.

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان "أَنَا بَرِى۫ء مِن۫ كُلِّ مُس۫لِم أَقَامَ بَي۫نَ أَظ۫هُرِ المُش۫رِكي۫نَ" (میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکوں کے درمیان قیام پذیر ہے) سے ہماری بات کی وضاحت ہوتی ہے۔ اور اس سے آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی مراد دار الحرب ہے، وگرنہ تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے خیبر پر اپنے ملازمین کو مقرر فرمایا تھا جبکہ وہاں سب کے سب یہودی تھے۔


[المُحلَّى بالآثار، ج: ١٢، ص: ١٢٦]

اسی طرح ابن حزم رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں :

وَإِذَا كَانَ أَهْلُ الذِّمَّةِ فِي مَدَائِنِهِمْ لَا يُمَازِجُهُمْ غَيْرُهُمْ فَلَا يُسَمَّى السَّاكِنُ فِيهِمْ - لِإِمَارَةٍ عَلَيْهِمْ، أَوْ لِتِجَارَةٍ - بَيْنَهُمْ: كَافِرًا، وَلَا مُسِيئًا، بَلْ هُوَ مُسْلِمٌ حَسَنٌ، وَدَارُهُمْ دَارُ إسْلَامٍ، لَا دَارُ شِرْكٍ، لِأَنَّ الدَّارَ إنَّمَا تُنْسَبُ لِلْغَالِبِ عَلَيْهَا، وَالْحَاكِمُ فِيهَا، وَالْمَالِكُ لَهَا.

اور جب اہلِ ذمہ اپنے شہروں میں رہتے ہوں اور ان کے علاوہ اور لوگ ان میں خلط ملط بھی نہ ہوئے ہوں، تو ان کے درمیان رہنے والے کو -ان پر امیر ہونے کی وجہ سے یا ان سے تجارت کرنے کی وجہ سے- کافر یا گناہگار نہیں کہا جائے گا، بلکہ وہ ایک اچھا مسلمان ہے اور ان کا دار دار الاسلام ہے ناکہ دار الشرک، کیونکہ دار کی نسبت تو اس کے حکمران، مالک اور اس پر غلبہ پا لینے والے ہی کی طرف ہوتی ہے۔


[المُحلَّى بالآثار، ج: ١٢، ص: ١٢٦]

علامہ أبو بكر محمد بن أحمد بن أبي سهل السرخسي (ت ٤٨٣ هـ) رحمہ اللہ المعروف شمس الأئمة السرخسي فرماتے ہیں :

وَعَنْ أَبِي يُوسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَهُمَا اللَّهُ تَعَالَى إذَا أَظْهَرُوا أَحْكَامَ الشِّرْكِ فِيهَا فَقَدْ صَارَتْ دَارُهُمْ دَارَ حَرْبٍ؛ لِأَنَّ الْبُقْعَةَ إنَّمَا تُنْسَبُ إلَيْنَا أَوْ إلَيْهِمْ بِاعْتِبَارِ الْقُوَّةِ وَالْغَلَبَةِ، فَكُلُّ مَوْضِعٍ ظَهَرَ فِيهِ حُكْمُ الشِّرْكِ فَالْقُوَّةُ فِي ذَلِكَ الْمَوْضِعِ لِلْمُشْرِكِينَ فَكَانَتْ دَارَ حَرْبٍ، وَكُلُّ مَوْضِعٍ كَانَ الظَّاهِرُ فِيهِ حُكْمُ الْإِسْلَامِ فَالْقُوَّةُ فِيهِ لِلْمُسْلِمِينَ

ابو یوسف اور محمد بن حسن رحمہما اللہ تعالیٰ سے منقول ہے کہ جب وہ لوگ اپنے علاقے میں شرک کے احکام کو غالب کر دیں تو ان کا دار دار الحرب بن جائے گا، کیونکہ وہ علاقہ قوت اور غلبے کے اعتبار سے یا تو ہماری طرف منسوب ہوگا یا ان کی طرف، پس ہر وہ جگہ جس میں شرک کا حکم غالب ہو تو اس میں قوت مشرکین کی ہے پس وہ دار الحرب ہے، اور ہر وہ جگہ جس میں اسلام کا حکم غالب ہو تو اس میں قوت مسلمانوں کی ہے۔


[المبسوط للسرخسي، ج: ١، ص: ١١٤]

امام محمد بن علي الشوكاني (ت ١٢٥٠هـ) رحمہ اللہ نے فرمایا:

الاعتبار بظهور الكلمة فإن كانت الأوامر والنواهي في الدار لأهل الإسلام بحيث لا يستطيع من فيها من الكفار أن يتظاهر بكفره إلا لكونه مأذونا له بذلك من أهل الإسلام فهذه دار إسلام ولا يضر ظهور الخصال الكفرية فيها لأنها لم تظهر بقوة الكفار ولا بصولتهم كما هو مشاهد في أهل الذمة من اليهود والنصارى والمعاهدين الساكنين في المدائن الإسلامية وإذا كان الأمر العكس فالدار بالعكس.

دار پر حکم لگانے میں کلمے کے غلبے کا اعتبار کیا جائے گا ، پس اگر اس دار میں حکم دینے اور پابندی لگانے کا اختیار اہل اسلام کے پاس ہو، بایں طور کہ اس میں کفار اپنے کفر کا اظہار نا کر سکتے ہوں، سوائے اس کے کہ جس کی انہیں اہل اسلام کی طرف سے اجازت ملی ہو تو پس یہ دار ، دار الاسلام ہے، اور اس میں کفریہ اطوار کا ظہور نقصان دہ نہیں، اس لیے کہ یہ کفار کی قوت اور جنگ کے ساتھ ظاہر نہیں ہوتے، جیسا کہ اسلامی شہروں میں معاہدہ کر کے بسنے والے ذمی یہود و نصاری کا حال دیکھنے کو ملتا ہے، اور اگر معاملہ اس کے الٹ ہو تو دار کا حکم بھی اس کے الٹ ہوگا۔


[السيل الجرار المتدفق على حدائق الأزهار، ص: ٩٧٦]

والله أعلم بالصواب و علمه أتم، والسلام
 
Top