• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دار کا معنی اور دنیا کی دو دیار میں تقسیم

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
562
ری ایکشن اسکور
174
پوائنٹ
77
دار کا معنی اور دنیا کی دو دیار میں تقسیم

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

دنیا کی دو دیار میں تقسیم پر سلف و خلف کے علماء نے دار الاسلام اور دار الکفر کی اصطلاح کو استعمال فرمایا ہے، اور یہ وہ بنیادی تقسیم ہے جس کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی سنت پر ہے۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں اس پاک ذات کا ارشاد ہے:
وَالَّذِيْنَ تَبَوَّؤُ الدار وَالْاِيْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَيْهِمْ۔
ترجمہ: اور (ان لوگوں کے لیے بھی مالِ فے ہے ) جو ان (مہاجرین کے آنے) سے پہلے ایمان لاچکے تھے اور دار (الہجرت) میں مقیم تھے۔ جو بھی ہجرت کرکے ان کے پاس آئے وہ اس سے محبت کرتے ہیں۔

[سورۃ الحشر، آیت : ۹]

امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا:
"أي سكنوا دار الهجرة من قبل المهاجرين وآمنوا قبل كثير منهم"
یعنی جو لوگ مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی دار الہجرت میں سکونت پذیر تھے اور بہت سوں کے ایمان لانے سے پہلے ہی وہ ایمان لا چکے تھے۔(انتهى كلامه)

اور ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّـهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا فَأُولَـٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَسَاءَتْ مَصِيرًا

ترجمہ : جو لوگ اپنے آپ پر ظلم کرتے رہے جب فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہیں تو ان سے پوچھتے ہیں : تم کس حال میں مبتلا تھے ؟ وہ کہتے ہیں کہ '' ہم زمین میں کمزور و مجبور تھے۔ وہ جواب میں کہتے ہیں : کیا اللہ کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے ؟ ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے جو بہت بری جگہ ہے۔


[سورۃ النساء، آیت : ٩٧]

والهجرة إذا أُطْلِقت في الكتاب والسنة، فهي تعني الانتقال من دار الكفر إلى دار الإسلام
اور جب کتاب و سنت میں ہجرت کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس کا معنی دار الکفر سے دار الاسلام کی طرف منتقل ہو جانا ہے۔

اور جہاں تک سنت کی بات ہے تو دیار کی تقسیم کے حوالے سے متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں، جن میں سے ایک حدیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بریدہ بن الحصیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوع روایت کیا ہے:

ثُمَّ ادعُهم إلى الإسلامِ، فإن أجابوكَ فاقبَل منْهم وكُفَّ عنهُم، ثمَّ ادعُهم إلى التَّحوُّلِ مِن دارِهم إلى دارِ الـمُهاجرينَ، وأخبرهم أنَّهم إن فعلوا ذلِكَ فَلَهم ما للمُهاجرينَ، وعَلَيهِم مَا علَى الـمُهاجرينَ

ترجمہ: پھر تم انہیں اسلام کی طرف دعوت دو، پس اگر وہ تمہاری بات کا جواب دیں تو اسے قبول کرو اور ان کی طرف سے اپنا ہاتھ روک لو، پھر تم انہیں اپنے دار سے مہاجرین کے دار کی طرف نکل آنے کی دعوت دو اور انہیں بتلا دو کہ اگر انہوں نے یہ کر لیا تو ان کے لیے بھی وہ کچھ ہوگا جو مہاجرین کے لیے ہے اور ان پر بھی وہ کچھ ہوگا جو مہاجرین پر ہے۔


امام نسائی رحمہ اللہ نے صحیح اسناد کے ساتھ جابر بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا:

إن رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبا بكرٍ وعمرَ كانوا من المهاجرين، لأنهم هجروا المشركين، وكان من الأنصار مهاجرون، لأن المدينة كانت دارَ شركٍ، فجاؤوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة العقبة

بےشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما مہاجرین میں سے تھے، کیونکہ انہوں نے مشرکین کو چھوڑ دیا تھا، اور کچھ مہاجرین انصار میں سے بھی تھے اس لیے کہ مدینہ دار شرک تھا پس وہ عقبیٰ کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔


والله أعلم بالصواب و علمه أتم، والسلام
 
Top