کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
داعش کہاں سے آئی؟
دولت اسلامیہ فی العراق و شام نامی نئی تنظیم نے ابوبکر البغدادی کی رہنمائی میں کچھ مہینوں پہلے جنم لیا اور جیسے ہی یہ تنظیم عراق میں داخل ہوئی کامیابی نے اس کے قدم چومنا شروع کر دیئے۔
2 جنوری 2014ء کو الرفع کے علاوہ اس نے 20 عراقی شہروں پر قبضہ کر لیا۔ جس میں سب سے اہم شہر حلب تھا جہاں سے انہیں 3.5 ارب ڈالر کا اسلحہ مل گیا جس میں اپاچی ہیلی کاپٹر بھی تھے اور عراقی فوج میدان چھوڑ کر اس طرح بھاگی جیسے کوئی طے شدہ منصوبہ ہو۔
اس کے بعد ابوبکر البغدادی نے اپنے آپ کو تمام دُنیا کے مسلمانوں کا امیرالمومنین بنا لیا اور مسلمانوں کے لئے مقدس مقامات کو مسلکی بنا کر حملہ کرنے کا اعلان کیا۔ اس نے اپنے عزائم کا اعلان اس طرح کیا کہ وہ مسلمانوں کی پرانی سلطنت کا قیام چاہتے ہیں جو عراق، شام، اردن، اسرائیل اور ترکی کے کچھ علاقوں پر مشتمل تھی۔ یہ اسرائیل اور شام ترکی کے لئے بھی خطرہ کی گھنٹی تھی، بعد میں جا کر اس نے اسرائیل کے مقبوضہ علاقہ گولان ہائیٹس پر حملہ کر کے مسلمانوں کے سامنے اپنی معتبری ثابت کرنے کی کوشش کی، ساتھ ساتھ اس نے عراق، شام اور اردن کے علاوہ کردوں کے پیش مرگہ تنظیم کے اہلکاروں کو بھی مارنا شروع کر دیا۔
اب تک اس نے ایک امریکی صحافی جیمس فولی کو ایک داعش کے ایک برطانوی شہری نے قتل کرایا۔ اس کے بعد کرد پیش مرگہ کے دو کارکنوں کو ہلاک کر کے کردوں کو بھی چیلنج کر دیا۔
سوال یہ ہے کہ یہ داعش نامی تنظیم کہاں سے آئی، ہم نے اس پر تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اِس میں یورپی ممالک کے علاوہ امریکی رضا کار شامل ہیں۔ اس وقت حیرت ہوئی جب ہالینڈ اور دیگر یورپی ممالک نے کہا کہ داعش کے زخمی کارکن ہالینڈ کے راستے جائیں گے، پھر برطانیہ بھی خاموش رہا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ داعش کی تنظیم کی تربیت اردن میں ہوئی اور امریکہ کے نئے قدامت پسند دانشور بھی اس پر بہت خوش تھے، اُن کو اسرائیلی سرمایہ کاروں کی حمایت حاصل رہی ہے۔ ری پبلکن اور ڈیموکریٹک سیاسی جماعتوں کو بھی یہ سرمایہ کار حکومت میں لاتے رہے ہیں۔
امریکی صدر اوباما جنہوں نے اپنے منشور میں کشمیر اور مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ وہ اِس مسئلہ کو حل کرنے میں ناکام رہے اور جان کیری نے برملا اس میں ناکام ہونے کا اعتراف کیا اور اِس کی ذمہ داری اسرائیل پر ڈالی۔
اِس کے بعد امریکہ کی پالیسی اس سلسلے میں بے رُخی ہو گئی شاید اسی لئے کہ وہ کچھ اور سازش کرنے میں مصروف تھے تاہم داعش کی بڑھتی ہوئی پیش رفت کو روکنے کے لئے خلیج میں ایک بحری بیڑہ اور چند سو فوجی بغداد میں بھیج دیئے اور اس کے بعد اُن پر فضائی حملہ کیا اور آہستہ آہستہ عراق میں امریکہ اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کا تاثر دے رہا ہے۔ صرف اس لئے کہ داعش کے لوگ ایک حد سے آگے نہ بڑھیں اور امریکی مفادات کو نقصان نہ پہنچے جبکہ انہوں نے ایک آئل فیلڈ پر قبضہ بھی کر لیا ہے مگر امریکہ اُس کو ایک حد سے آگے نہیں جانے دے گا تاہم عراق، شام میدانِ جنگ بننے کے بعد کئی امریکی و برطانوی قلمکار لکھ رہے ہیں کہ عراق پر حملے کے وقت سابق صدر صدام حسین نے درست ہی کہا تھا کہ یہ ’’جنگوں کی ماں‘‘ ہے جہاں ایک جنگ کے بعد دوسری جنگ ہوتی رہے گی۔
’’داعش کے ساتھ‘‘ صدام کے آخری ساتھی عزت ابراہیم الدوری شامل ہیں تاہم اس کے مقاصد صرف وہ نہیں ہیں جن کا داعش نے اعلان کیا ہے بلکہ اِس کے سوا بھی ہیں۔ ایک تو یہ شام میں امریکہ اور عرب ممالک کو کامیابی حاصل نہیں ہو سکی کیونکہ روسی اور چینی مدد اُن کے ساتھ تھی مگر داعش اُس کو سخت نقصان پہنچا رہی ہے اور شام کے باغیوں نے بھی زور پکڑا ہے اور انہوں نے اقوام متحدہ کے درجنوں اہلکاروں کو قید کرلیا ہے۔
اس تنظیم کا مقصد صہیونی، یینون منصوبہ کو پایۂ تکمیل کو پہنچانا لگتا ہے جس میں عراق کے تین ٹکڑے شیعہ و سنی اور کرد عراق کرنا مقصود ہے۔ اس کے ساتھ شام کو بھی تقسیم کرنا ہے۔ شام میں اب تک 2 لاکھ شہری شہید ہو چکے ہیں اور 30 لاکھ کے قریب پناہ گزین بن چکے ہیں۔ شام کو کمزور کرنے کا مقصد ایران کو بھی نقصان پہنچانا تھا اور مصر کو بھی مسلمان اور عیسائی بنیادوں پر تقسیم کرنا مقصود ہے مگر عرب ممالک ’’شاطر‘‘ کے اصل منصوبہ سے ناواقف تھے جس کی وجہ سے وہ اب پریشانی کے عالم میں اپنے بچائو کی تدبیریں کرتے دکھائی دے رہے ہیں ورنہ پہلے ترکی کے ذریعے یہ مجاہدین شام اور عراق جاتے رہے ہیں۔
کسی بھی عرب یا مغربی ملک سے آتے تھے ترکی کے ہوٹلوں میں ٹھہرتے تھے کوئی 450 کلومیٹر کی سرحد اسی طرح کی سرحد جیسی پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہے ان مجاہدین کے لئے ہائی وے کا کام کرتی تھی اور عراق اورشام میں داخل ہو کر کہیں روپوش ہو جاتے تھے۔ یہاں تک کہ داعش کے تربیت یافتہ افراد آ پہنچے جو تقریباً 5 ہزار کے قریب تھے یہ منتظر مجاہدین داعش کے ساتھ مل گئے اب اُن کی تعداد دس سے 20 ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے۔ امریکہ اور یورپ میں کہا جا رہا ہے کہ یہ لوگ اس طرح سے قتل کررہے ہیں جو اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اس طرح عیسائیوں یا یزیدیوں کا قتل نہ تو اسپین میں ہوا اور نہ آسٹریا میں جب مسلمانوں نے یہ علاقے فتح کئے تھے اس پر ہمارا کہنا ہے کہ بدنام مسلمانوں کو کیا جارہا ہے جبکہ اصل میں صہیونی منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جارہا ہے جس میں مشرق وسطیٰ کی 1916ء کی سرحدوں کو تبدیل کرنا ہے۔
اس وقت ہاشمی خاندان کے ایک بھائی فیصل کو 1921ء میں عراق کا بادشاہ بنایا اور دوسرے بھائی عبداللہ کو اردن کا کیونکہ وہ سلطنت عثمانیہ کے خلاف برطانیہ کی مدد کرتے رہے تھے، اب وہ عیسائیوں کو مصر میں جمع کر رہے ہیں تاکہ مصر کو دو ریاستوں میں تقسیم کیا جا سکے ایک مسلمان مصر اور دوسرا عیسائی مصر۔ اس لئے امریکہ اور مغربی ممالک عیسائیوں کو قتل اور خوف و ہراس کرکے فرار ہو کر مصر میں جمع ہونے کی پذیرائی کر رہے ہیں بظاہر وہ اپنے عوام کو داعش کی طاقت اور اُس کے ظلم و ستم کی داستان سنا رہے ہیں جبکہ دراصل وہ ایک طے شدہ منصوبے پر کام کر رہے ہیں جس کا ہم نے کئی مرتبہ ذکر کیا ہے۔
نصرت مرزا: ہفتہ 11 ذیعقدہ 1435هـ - 6 ستمبر 2014م