• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دجالی نظاموں کے سایے میں امت کا قفسِ زر

ابن انور

مبتدی
شمولیت
نومبر 01، 2022
پیغامات
5
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
17
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

دجالی نظاموں کے سایے میں امت کا قفسِ زر

جب تک چشمِ بصیرت پر غفلت کی گرد جمی رہے، تب تک امرِ باطل بھی جلوۂ حق محسوس ہوتا ہے۔ مگر جو صاحبِ دل و دانا ہو، وہ جانتا ہے کہ ملوکِ عصرِ حاضر، جو بلادِ اسلامیہ کی مسندوں پر جلوہ‌افروز ہیں، دراصل طوقِ عبودیتِ صہیون و صلیب کو حرزِ جاں بنائے ہوئے ہیں۔ یہ وہی طائفۂ حکّام ہے جن کی کرسیوں پر استعمارِ مغرب کا نشانِ زر مہر ثبت ہے، اور جن کے تاج، نہ زمزم کی خوشبو رکھتے ہیں، نہ توحید کا وقار، بلکہ سرمایۂ دجال کے سایۂ فتنہ میں تراشے گئے ہیں۔

ان کے پاس جو قوتِ شمشیر ہے، جو لوح و عَلم سے محروم ہے، دراصل وہی افواج ہیں جنہیں طاغوتِ اکبر نے زرِ ناپاک سے تشکیل دیا، ان کی وردی کا دھاگا بھی اگر کھولا جائے، تو اس میں قطر و واشنگٹن کی سازشیں سلائی ہوئی پائی جائیں۔ ان افواج کی بنیادیں کعبہ و قبۃ الصخرہ کے پتھروں پر نہیں، بلکہ وائٹ ہاؤس و پینٹاگون کی اینٹوں پر رکھی گئی ہیں۔

تمہیں اگر شک ہو، تو محض افغان دَیار کی تازہ مثال ہی کافی ہے۔ طالبان کہلانے والے جن کے سینوں میں کبھی غیرتِ ایوبی کا ہلکا سا چراغ ٹمٹماتا تھا، آج انہی کے قدموں تلے وہ لشکر پروان چڑھ رہا ہے، جس کی آبیاری گزشتہ چند برسوں میں طاغوتِ اعظم نے چھ ارب ڈالر کی بارش سے کی۔ یہاں تک کہ اس فوج کی قبائیں بھی، جنہیں لباسِ مجاہد سمجھا جائے، درحقیقت قطر و امارات کی نذر ہیں؛ اور وہ بھی واشنگٹن کی انگلی تھامے۔

ان افواج کا مقصد نہ بیت المقدس کی آزادی ہے، نہ کفر کے قلعوں کی مسماری؛ بلکہ ان کا اصل مصرف یہی ہے کہ شرقِ خراسان کی سرحدوں پر پہرہ دے کر دجالی نظام کو مداخلتِ حق سے مامون رکھ سکیں۔

اے دیدۂ بیدار رکھنے والو! تم اگر حقیقت کو جانچنا چاہو، تو زر رسانی کے گوشوارے دیکھو، مالی پشت پناہی کے سوتے پر نظر دوڑاؤ، اور طوافِ افواج میں چھپی غلامی کی داستان پڑھو؛ ہر سطر میں تمہیں طاغوت کی مہریں، اور نفاق کے دستخط ملیں گے۔

یہی وہ عساکرِ مستعار ہیں، جن کی نوکِ نیزہ پر صرف دشمنانِ حق کا علم بلند نہیں، بلکہ اُمتِ مسلمہ کے قلب و قالب کو پارہ پارہ کرنے والی حد بندیاں اور سرحدی دیواریں بھی انہی کے نیزوں کی چھاؤں میں پروان چڑھتی ہیں۔ ان سرحدات کا ماحصل نہ تو شریعت کا سایہ ہے، نہ خلافتِ راشدہ کا تسلسل؛ بلکہ یہ سب کفریہ خرائط وہ نقشے ہیں، جو استعمار کے خیمۂ سیاہ میں بنائے گئے اور ہمارے اذہان و افکار پر مسلط کر دیے گئے۔

ان ہی افواج کے آہنی پنجوں سے وہ رنگ برنگی جھنڈیاں لہرائی گئیں، جنہیں ہم نے اپنی شناخت سمجھ کر قبول کیا، حالانکہ وہ سب دراصل امتِ واحدہ کی لاش پر چسپاں کیے گئے سیاسی کفن ہیں۔ ہر ملک کا ایک نام، ہر نام کے ساتھ ایک پرچم، اور ہر پرچم کے سائے تلے ایک قفس؛ گویا اسلام کا شہباز، ہر جگہ پنجرے میں بند کر دیا گیا ہو، اور اس پنجرے کا دربان خود اس کے اپنے جسم سے نکلی ہوئی افواج ہوں۔

اور اگر کوئی آزاد منش، کسی قیدِ سرحد سے باہر نکلنے کی سعی کرے، یا وحدتِ اسلامی کا نعرہ بلند کرے تو ان ہی افواجِ مدفون الضمیر کے ہاتھوں یا تو قتل کر دیا جاتا ہے، یا زندانِ طاغوت میں محبوس کر دیا جاتا ہے، تا کہ کوئی خورشیدِ خلافت افق سے طلوع نہ ہو، اور کوئی پرچمِ توحید کفر کے ایوانوں پر سایہ نہ کرے۔

ایں ستم بالائے ستم، کہ زنجیر بھی ہماری اپنی بنائی ہوئی نہ تھی، اور پہرہ بھی اپنے ہی سپاہیوں سے لگوایا گیا — مگر شورِ غلامی کو "حفاظتِ وطن" کا نام دے کر عقلوں کو مسخ کیا گیا۔ وا عجبا! کہ جس فوج کو "حارسِ ملت" کہا گیا، وہی دراصل "حاجبِ توحید" نکلی!

اے اصحابِ بصیرت و اربابِ فہم! جان لو کہ یہ جو ہم پر مسلط ہے، وہ محض کوئی نظامِ معیشت یا طرزِ حکمرانی نہیں، بلکہ ایک ہمہ‌گیر دجّالی تانا بانا ہے، جس کی رگوں میں استعمار کا زہر اور صہیون کا خمیر جاری و ساری ہے۔ اس کے تاروپود میں ایسی فریب خوردہ دانش پنہاں ہے کہ جاہل کو شعور کا دھوکہ دیتی ہے، اور اہلِ شعور کو شک میں مبتلا کر دیتی ہے۔

یہ نظام، دراصل ایک لطیف مگر مہلک قفس ہے — ایسا قفس جس کی سلاخیں فولاد سے نہیں، بلکہ قومی سرحدات، جغرافیائی افتراق، اور رنگ برنگے پرچموں کے نازک، مگر کاری دھاگوں سے بنی گئی ہیں۔ اس قفس پر جو محافظ مقرر ہیں، وہ محض عساکر نہیں، بلکہ ایسے مرتد پہرہ دار ہیں، جن کے نیزے طاغوت کی قسم کھاتے ہیں، اور جن کے قدم دجّال کے اشارے پر جنبش کرتے ہیں۔

اے صاحبانِ ایمان! فرضِ عین یہ ہے کہ اس قفس کو توڑا جائے، اس کے دربانوں کے خلاف وہ جہاد بپا کیا جائے جو بندگیِ ربّ العالمین کو مظاہرِ طاغوت سے نجات دلائے، وگرنہ بیتُ المقدس کا آہو، کشمیر کا شہید، و بوسنیا کی بیوہ، سب ہماری بے بسی پر نوحہ کناں رہیں گے۔

اور یہ جو ہم مظاہروں، احتجاجوں، و قراردادوں میں آنسو بہاتے ہیں — یہ دراصل اسی دجّالی مشینری کی مٹھاس آلود چُوسنیاں ہیں، جو ہمارے غیرت مند دہن کو وقتی تسکین دیتی ہیں، تاکہ ہم اصل معرکہ، اصل جہاد، اور اصل معمارِ خلافت کے راستے سے ہٹے رہیں۔

یاد رکھو، زخم کے گرد پانی چھڑکنے سے ناسور نہیں جاتا، جب تک نشتر ہاتھ میں نہ ہو، اور کفر کے وجود میں نہ اتارا جائے۔

واہ افسوس! کہ ہم نے اسلام کی سادہ و صافی، وحی سے منور، اور فطرت سے ہم آہنگ راہوں کو ترک کرکے اُن مہلک و مہجور رستوں پر اپنا سفر جاری رکھا، جو جمہور کے نام پر جَہل کے میناروں سے نکل کر شرکِ نظم و نسق کی کوکھ سے پھوٹے۔

احتجاج و مظاہرہ یہ افعال نو پیدا، نہ قرآن کے احکام میں مکنون ہیں، نہ سنتِ مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کی ضیاء بار راہوں میں جلوہ گر۔ یہ سب دراصل جمہوری نظام کے زہرآلود پھل ہیں، جنہیں چکانے کے بعد اُمت کے ذہن و ذوق میں نہ تو غیرت باقی رہی، نہ فہمِ شرعی۔

اے اصحابِ فکر! ذرا آنکھ کھول کر دیکھیے کہ کیونکر یہ مشرک جمہوری ٹولہ، جو نہ ربِ قدیر کو حَکَم مانتا ہے، نہ شریعتِ محمدی کو دستورِ کامل، ہمیں محض ایک مفعول قوم میں تبدیل کر چکا ہے۔ وہ ہمیں مکرِ جمہوریت کا مشروب پلاتا ہے۔ کبھی احتجاج کا، کبھی ووٹ کا، کبھی جھنڈے لہرا کر نعرے لگانے کا تاکہ ہمارے دلوں کی سوزش کو وقتی ٹھنڈک ملے، اور ہم اصلی دوا، یعنی قتال فی سبیل اللہ، اور طاغوت شکن انقلاب کی فکر سے غافل رہیں۔

یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ ہم نے توحید کے تیغ زن راستے کو چھوڑ کر دجّالی فریب کی چمک دمک کو اختیار کیا، اور جو راستہ سنت کا تھا، اسے چھوڑ کر جمہوریت کے بازار کی رونقوں میں گم ہو گئے۔

حسبنا اللہ و نعم الوکیل!
کہ ہم نے ربِ کعبہ کو تو یاد رکھا، مگر اس کے راستوں کو ترک کر کے، کفری راہوں میں تسکین کی جھونپڑی تلاشنے لگے۔
 
Top