دجال کا فتنہ دنیا کا سب سے بڑا فتنہ ہے ، اس دنیا میں آنے والے تمام نبیوں نے اپنی امت کو اس خطرناک فتنے سے متنبہ کیا ہے ، پھر چونکہ ہم آخری امت ہیں لہذا اس کا ظہور ہمارے ہی اندر ہونا ہے، اس لئے ہر مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ دجال سے بچنے کے جو ممکن وسائل ہو سکتے ہیں اس کا علم حاصل کرے اور اس کو اپنانے کی پوری کوشش کرے ، ذیل میں وہ چند اہم وسائل بیان کئے جاتے ہیں جنہیں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دجال سے بچنے کے لئے بیان فرمایا ہے ، وباللہ التوفیق۔
1—اللہ سے تعلق ۔
یہ سب سے اہم وسیلہ ہے کہ کمزور اور مجبور انسان اپنے خالق ومالک اور اللہ قہار وجبار کا سہارا لے ، اس طرح کہ حتی الامکان اس کے فرامین پر عمل پیرا رہے اور اس کی نافرمانی کے کاموں سے بچتا رہے۔
وَمَنْ يَعْتَصِمْ بِاللَّهِ فَقَدْ هُدِيَ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (101)آل عمران۔
اور جو شخص اللہ تعالی[کے دین] کو مظبوط تھام لے تو بلا شبہ اسے سیدھی راہ دکھا دی گئی
فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَاعْتَصَمُوا بِهِ فَسَيُدْخِلُهُمْ فِي رَحْمَةٍ مِنْهُ وَفَضْلٍ وَيَهْدِيهِمْ إِلَيْهِ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا (175) النساء،.پس جو لوگ ایمان لائے اور اسے مظبوط پکڑ لیا تو وہ عنقریب اپنی رحمت اور فضل میں لے لیگا اور انہیں سیدھی راہ دکھا دے گا۔
2—اللہ تعالی کے اسما٫ وصفات پر غور۔
اللہ تعالی کا ایک نام "قادر" ہے جسکے معنی ہیں ہر چیز پر قدرت رکھنے والا، اسی طرح اس کا ایک نام"جبار" ہے جسکا معنی ہے ایسا غالب وزور آور جو اپنا حکم نافذ کردے اور اس میں کوئی رکاوٹ نہ بن سکے، اسی طرح اللہ تعالی کا ایک نام"قہار" بھی ہے، جس کا معنی ہے وہ غالب ذات کہ دنیا کی ساری مخلوقات اسے تابع اور اس کے سامنے مجبور ہیں۔
لہذآ جو شخص ان معنوں پر غور کرے گا اس کا ایمان ہوگا کہ اللہ پر غالب آنے والا کوئی نہیں ہے۔
3—ذکر اذکار کا اہتمام۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دجال کے فتنے سے بچنے کے لئے کچھ ذکر ودعا بتلائے ہیں ان کا اہتمام کرنے والا کبھی بھی دجال کے فتنے کا شکار نہ ہوگا۔
ا—سورہ کہف کی ابتدائی دس آیتیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے: جو شخص سورہ کہف کی ابتدائی دس آیتیں یاد کرےگا اور اس کو پڑھے گا تو وہ دجال کے فتنے سے محفوظ رہے گا۔ {صحیح مسلم} ۔:
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجًا (1) قَيِّمًا لِيُنْذِرَ بَأْسًا شَدِيدًا مِنْ لَدُنْهُ وَيُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا حَسَنًا (2) مَاكِثِينَ فِيهِ أَبَدًا (3) وَيُنْذِرَ الَّذِينَ قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا (4) مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ وَلَا لِآبَائِهِمْ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِنْ يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا (5) فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا (6) إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا (7) وَإِنَّا لَجَاعِلُونَ مَا عَلَيْهَا صَعِيدًا جُرُزًا (8) أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا (9) إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ فَقَالُوا رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا (10)
ب—ہر نماز کے آخر [تشہد] میں یہ دعا پڑھی جائے۔
اللهم إني أعوذ بك من عذاب القبر وأعوذ بك من فتنة المسيح الدجال وأعوذ بك من فتنة المحيا وفتنة الممات اللهم إني أعوذ بك من المأثم والمغرم ) صحيح البخاري:798 ، صحيح مسلم:589.
ج— اگر دجال سے کسی کا سامنا ہو جائے تو اس کے چکر میں نہ پھنسے بلکہ اسے دیکھکر کہے : تو جھوٹا ہے، تو میرا رب نہیں ہے میرا رب اللہ تعالی ہے اسی ہم بھروسہ کرتے ہیں اسی کی طرف ہم رجوع کرتے ہیں ، ہم تیرے شر سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔چنانچہ جو شخص ایسا کہے گا اسپر دجال کو زور نہ چلے گا۔ مسند احمد 5/372۔
4—نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرے۔
کیونکہ اللہ کے نیک بندوں پر دجال کی چالیں اور اسکی شعبدہ بازیاں پوشیدہ نہ رہیں گی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:اگر میری زندگی میں دجال کا خروج ہوا تو میں اس کے لئے کافی ہوں اور اگر میری وفات کے بعد نکلا تو اللہ تعالی میری امت کو اس کے نیک لوگوں کے ذریعہ بچالےگا۔المعجم الطبرانی۔
5—دجال سے دوری۔
اگر کسی کو دجال کا خروج مل جائے تو وہ اس سے دور بھاگے اور اسکے قریب جانے کی کوشش نہ کرے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ جو دجال کے بارے میں سن لے اس سے دور بھاگنے کی کوشش کرے ، اس کے قریب نہ جائے ۔
6—حرمیں شریفین میں سکونت۔
اس لئے کہ دجال کا داخلہ شہر مکہ اور مدینہ میں ممنوع ہے۔
1—اللہ سے تعلق ۔
یہ سب سے اہم وسیلہ ہے کہ کمزور اور مجبور انسان اپنے خالق ومالک اور اللہ قہار وجبار کا سہارا لے ، اس طرح کہ حتی الامکان اس کے فرامین پر عمل پیرا رہے اور اس کی نافرمانی کے کاموں سے بچتا رہے۔
وَمَنْ يَعْتَصِمْ بِاللَّهِ فَقَدْ هُدِيَ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (101)آل عمران۔
اور جو شخص اللہ تعالی[کے دین] کو مظبوط تھام لے تو بلا شبہ اسے سیدھی راہ دکھا دی گئی
فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَاعْتَصَمُوا بِهِ فَسَيُدْخِلُهُمْ فِي رَحْمَةٍ مِنْهُ وَفَضْلٍ وَيَهْدِيهِمْ إِلَيْهِ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا (175) النساء،.پس جو لوگ ایمان لائے اور اسے مظبوط پکڑ لیا تو وہ عنقریب اپنی رحمت اور فضل میں لے لیگا اور انہیں سیدھی راہ دکھا دے گا۔
2—اللہ تعالی کے اسما٫ وصفات پر غور۔
اللہ تعالی کا ایک نام "قادر" ہے جسکے معنی ہیں ہر چیز پر قدرت رکھنے والا، اسی طرح اس کا ایک نام"جبار" ہے جسکا معنی ہے ایسا غالب وزور آور جو اپنا حکم نافذ کردے اور اس میں کوئی رکاوٹ نہ بن سکے، اسی طرح اللہ تعالی کا ایک نام"قہار" بھی ہے، جس کا معنی ہے وہ غالب ذات کہ دنیا کی ساری مخلوقات اسے تابع اور اس کے سامنے مجبور ہیں۔
لہذآ جو شخص ان معنوں پر غور کرے گا اس کا ایمان ہوگا کہ اللہ پر غالب آنے والا کوئی نہیں ہے۔
3—ذکر اذکار کا اہتمام۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دجال کے فتنے سے بچنے کے لئے کچھ ذکر ودعا بتلائے ہیں ان کا اہتمام کرنے والا کبھی بھی دجال کے فتنے کا شکار نہ ہوگا۔
ا—سورہ کہف کی ابتدائی دس آیتیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے: جو شخص سورہ کہف کی ابتدائی دس آیتیں یاد کرےگا اور اس کو پڑھے گا تو وہ دجال کے فتنے سے محفوظ رہے گا۔ {صحیح مسلم} ۔:
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجًا (1) قَيِّمًا لِيُنْذِرَ بَأْسًا شَدِيدًا مِنْ لَدُنْهُ وَيُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا حَسَنًا (2) مَاكِثِينَ فِيهِ أَبَدًا (3) وَيُنْذِرَ الَّذِينَ قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا (4) مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ وَلَا لِآبَائِهِمْ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِنْ يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا (5) فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا (6) إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا (7) وَإِنَّا لَجَاعِلُونَ مَا عَلَيْهَا صَعِيدًا جُرُزًا (8) أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا (9) إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ فَقَالُوا رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا (10)
ب—ہر نماز کے آخر [تشہد] میں یہ دعا پڑھی جائے۔
اللهم إني أعوذ بك من عذاب القبر وأعوذ بك من فتنة المسيح الدجال وأعوذ بك من فتنة المحيا وفتنة الممات اللهم إني أعوذ بك من المأثم والمغرم ) صحيح البخاري:798 ، صحيح مسلم:589.
ج— اگر دجال سے کسی کا سامنا ہو جائے تو اس کے چکر میں نہ پھنسے بلکہ اسے دیکھکر کہے : تو جھوٹا ہے، تو میرا رب نہیں ہے میرا رب اللہ تعالی ہے اسی ہم بھروسہ کرتے ہیں اسی کی طرف ہم رجوع کرتے ہیں ، ہم تیرے شر سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔چنانچہ جو شخص ایسا کہے گا اسپر دجال کو زور نہ چلے گا۔ مسند احمد 5/372۔
4—نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرے۔
کیونکہ اللہ کے نیک بندوں پر دجال کی چالیں اور اسکی شعبدہ بازیاں پوشیدہ نہ رہیں گی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:اگر میری زندگی میں دجال کا خروج ہوا تو میں اس کے لئے کافی ہوں اور اگر میری وفات کے بعد نکلا تو اللہ تعالی میری امت کو اس کے نیک لوگوں کے ذریعہ بچالےگا۔المعجم الطبرانی۔
5—دجال سے دوری۔
اگر کسی کو دجال کا خروج مل جائے تو وہ اس سے دور بھاگے اور اسکے قریب جانے کی کوشش نہ کرے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ جو دجال کے بارے میں سن لے اس سے دور بھاگنے کی کوشش کرے ، اس کے قریب نہ جائے ۔
6—حرمیں شریفین میں سکونت۔
اس لئے کہ دجال کا داخلہ شہر مکہ اور مدینہ میں ممنوع ہے۔