شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وأمّا التسبیح بما یجعل فی نظام من الخرز ونحوہ ، فمن الناس من کرہہ ومنہم من لم یکرہہ ، وإذا أحسنت فیہ النیّۃ فہو حسن غیر مکروہ ، وأمّا اتّخاذہ من غیر حاجۃ أو إظہارہ للناس مثل تعلیقہ فی العنق أو جعلہ کالسوار فی الید أو نحو ذلک ، فہذا إمّا ریاء للناس أو مظنّۃ المراء اۃ ومشابہۃ المرائین من غیر حاجۃ ، الأول محرّم ، والثانی أقلّ أحوالہ الکراہۃ ۔
''موتیوں وغیرہ کی لڑی کے ساتھ تسبیح کرنے کو بعض لوگوں نے مکروہ جانا ہے اور بعض نے اسے مکروہ نہیں سمجھا۔ جب اس فعل میں نیت اچھی ہو تو یہ اچھا ہی ہو گا، مکروہ نہیں ہو گا۔ ہاں اسے بغیر ضرورت کے یا لوگوں کو دکھانے کے لیے اختیار کرنا ، مثلاً اسے گردن میں لٹکا لینا یا ہاتھ میں کنگن کی طرح پہن لینا وغیرہ ۔۔۔ تو یہ یا تو ریا کاری کے لیے ہو گا یا اس میں ریاکاری کا خدشہ ہو گا اور ریاکاروں سے مشابہت لازم آئے گی۔ پہلی صورت حرام ہے اور دوسری کم از کم مکروہ ضرور ہے۔''(مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ : ٢٢/٥٠٦)