مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 461
- پوائنٹ
- 209
شولاپور سے شیخ معین شیخ سمیع نے ہمیں لکھا ہے کہ ہمارے معاشرے میں داعی ومبلغین کی کثرت ہےجس میں کچھ علماء و واعظین نماز کے پابند نہیں ہیں۔ تمباکو کا پرتکلف استعمال کرتے ہیں۔ منصب کیلئے تو ڑجوڑ کی سیاست کرتے ہیں۔ کردارکشی،بہتان تراشی،غیبت،حسد وجلن، جی حضوری اور چاپلوسی ان کا شیوہ ہے۔ الغرض عمل سے کورے اور وعظ کرنے میں ماہر سمجھے جاتے ہیں۔
سوال یہ ہیکہ کیا ایسے لوگوں کو وعظ ونصیحت کیلئے بلانا چاہیئے؟۔کیا ان علماء کی حوصلہ افزائی یا عزت افزائی کرنا چاہیئے؟۔ کیا ایسے لوگوں کو منصب دینا چاہئیے؟۔ براہ کرم اس سلسلے میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔
واقعی اس وقت ہرعلاقے میں علماء، واعظین، دعاۃ، مبلغین اور مدرسین کی کثرت ہے ۔تعلیمی ادارےسے لیکر تربیتی کیمپ کی کوئی کمی نہیں۔ اصلاحی تنظیموں کے ساتھ علمی اور دعوتی مراکز نے جہالت کا اندھیرا کافور ساکردیا ہے ۔ اس حقیقت کے ساتھ ساتھ یہ بھی اپنی جگہ ناقابل انکار سچائی ہے کہ آج کل اکثر دعاۃ ومبلغین اور علماء وواعظین میں ہزاروں خامیاں ہیں۔ کردار سے عاری ،میدان گفتار کے بے تاج بادشاہ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سماج میں علم کی روشن کرنیں تو پھوٹی ہیں مگر بے عملی کا اندھیرا اپنی جگہ باقی ہے۔
داعی ومبلغ کے لئے ضروری ہے کہ وہ علم کے ساتھ عمل کا پرتوہوکیونکہ اسی بات میں وزن واثرہوتا ہے جسے عملی تطبیق کے ساتھ پیش کی جائے ۔ اخلاص نیت ، تقوی،اجرت سے بے اعتنائی ،محاسبہ نفس، نرم وخوش اسلوبی دعاۃ کے ضروری اوصاف ہیں مگر شہرت اور دنیا طلبی کی وجہ سے ہمارے اندر، فساد، نفرت، حسد، کینہ، غیبت، جی حضوری جیسی بدترین صفات پیدا ہوگئی ہیں۔ ان برے اوٖصاف نے دیگر بدترین خصلت کو جنم دیا ۔مثلا عبادت سے دوری، دین کے نام پہ سیاست، تنظیم کے نام پہ منصب کا تنازع ۔ جب اس قسم کی خصلت کے داعی تبلیغ کرنے لگے تو آگے کا مجرمانہ مرحلہ اور بھی بھیانک ہوگیا۔ اسی بھیانک مرحلے کی پیداوارسود، جوا،اکل حرام، نشہ خوری، جائزوناجائز کی عدم تفریق ، کافروں سے دوستی مسلمانوں سے عداوت ، حقوق العباد کی پامالی بلکہ لوٹ مار اور غصب کا بازار گرم ہے۔
دعوت ،درس، بیان، وعظ اور امربالمعروف ونہی عن المنکر کے نام پہ جو لوگ تبلیغ کا فریضہ انجام دے رہے ہیں اس حال میں کہ ان کا دامن سود، بے ایمانی،غیبت،تمباکونوشی، الزام تراشی، چاپ لوسی ،حسد، منصب طلبی اور دنیا طلبی جیسی قبیح صفات سے ملوث ہے ایسے لوگوں کو تبلیغ کی ذمہ داری دینا نہ صرف دعوت دین کے اصول کے خلاف ہے بلکہ رسالت کی توہین ہے ۔ایسے علماء سوء کی پہلے اصلاح درکار ہے پھر انہیں میدان دعوت میں موعو کیاجائے۔ آج ایسے عالموں کی وجہ سے ہمارے وہ علماء بھی مشکوک نظروں سے دیکھے جارہے ہیں جن کے عمل میں اخلاص اور دل میں تقوی موجود ہے ۔ اگر کردارکش واعظین کی اصلاح نہ کی گئی ، انہیں ہرجگہ بلایاگیا، عزت وتوقیر کی گئی تو مخلص واعظین ودعاۃ سے گلہ شکوہ ہوتاہی رہے گا۔ عام لوگ علماء سوء کی مثال تمام علماء وخطباء پہ فٹ کرتے ہیں۔
اگر ہم دعوت وتبلیغ کا اثر دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں صرف مخلص اور باعمل اہل علم کو دینی ذمہ داری دینی ہوگی اور برے اوصاف کے لوگوں سے دینی مراکز، تبلیغی ادارے اور تربیتی تنظیموں کو پاک کرنا ہوگا۔ یا پہلے ان کی اصلاح کرنی ہوگی پھر کوئی عہدہ ومنصب دیا جائے گا۔
اللہ رب العزت سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں گفتار کے ساتھ کردار کا بھی غازی بنا۔ آمین