باذوق
رکن
- شمولیت
- فروری 16، 2011
- پیغامات
- 888
- ری ایکشن اسکور
- 4,010
- پوائنٹ
- 289
"حکمت" سے دعوت دینے کے ساتھ ساتھ دعوت میں "موعظت حسنہ" (نصیحتوں) کو اختیار کرنا بھی ضروری ہے۔ دوسری شرط وعظ و نصیحت میں اندازِ بیان کا جمال اور خوبصورتی ہے۔
موقع اور مقام کی مناسبت سے داعی کو گفتگو کرنا چاہئے تاکہ دعوت پرتاثیر ہو۔
اس اعتبار سے "حکمت" اور "موعظت حسنہ" دونوں کا ذکر ایسا ہی ہے جیسے "عام" کے بعد "خاص" کا ذکر ہو کیونکہ حسین اندازِ گفتگو میں حکمت کا مفہوم شامل ہوتا ہی ہے۔
پھر موعظت حسنہ ، ترغیب و ترہیب ہر دو امر کو شامل ہے۔ گویا حسین وعظ ، مخاطب کو محبت اور نرمی سے اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید دلانا اور اس کی عظمت اور شانِ قہاری سے ڈرانا ہے تاکہ مخاطب کے اندر اللہ تعالیٰ کی عظمت پیدا ہو جائے اور وہ اس کے احکام کی بجا آوری کے لیے مستعد ہو جائے۔
زمخشری (رحمۃ اللہ) کہتے ہیں کہ موعظت حسنہ یہ ہے کہ آپ کے مخاطب کو یہ احساس ہو جائے کہ آپ اس کے خیر خواہ ہیں ، اس کی بھلائی چاہنے والے ، اس کے لیے اس امر کے خواہاں ہیں جس میں اس کا فائدہ اور نفع ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ آپ ایسی گفتگو کریں کہ مخاطب کا دل خیر کے لیے پسیج جائے۔
گفتگو میں نرمی اور اسلوب بیان میں رقت ہر داعئ حق سے شرعاً مطلوب ہے چاہے اس کا مخاطب شدید سے شدید منکر ہی کیوں نہ ہو۔
حق تعالیٰ شانہ نے اپنے عظیم الشان پیغمبر موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بھائی ہارون علیہ السلام کو اس وقت کے سب سے بڑے منکر فرعون کے پاس دعوت کے لیے بھیجا تو انہیں نصیحت فرمائی کہ :
تم دونوں اس سے نرم بات کہنا شاید کہ وہ نصیحت حاصل کر لے یا اس میں خشیت پیدا ہو جائے۔
( طه:20 - آيت:44 )
موقع اور مقام کی مناسبت سے داعی کو گفتگو کرنا چاہئے تاکہ دعوت پرتاثیر ہو۔
اس اعتبار سے "حکمت" اور "موعظت حسنہ" دونوں کا ذکر ایسا ہی ہے جیسے "عام" کے بعد "خاص" کا ذکر ہو کیونکہ حسین اندازِ گفتگو میں حکمت کا مفہوم شامل ہوتا ہی ہے۔
پھر موعظت حسنہ ، ترغیب و ترہیب ہر دو امر کو شامل ہے۔ گویا حسین وعظ ، مخاطب کو محبت اور نرمی سے اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید دلانا اور اس کی عظمت اور شانِ قہاری سے ڈرانا ہے تاکہ مخاطب کے اندر اللہ تعالیٰ کی عظمت پیدا ہو جائے اور وہ اس کے احکام کی بجا آوری کے لیے مستعد ہو جائے۔
زمخشری (رحمۃ اللہ) کہتے ہیں کہ موعظت حسنہ یہ ہے کہ آپ کے مخاطب کو یہ احساس ہو جائے کہ آپ اس کے خیر خواہ ہیں ، اس کی بھلائی چاہنے والے ، اس کے لیے اس امر کے خواہاں ہیں جس میں اس کا فائدہ اور نفع ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ آپ ایسی گفتگو کریں کہ مخاطب کا دل خیر کے لیے پسیج جائے۔
گفتگو میں نرمی اور اسلوب بیان میں رقت ہر داعئ حق سے شرعاً مطلوب ہے چاہے اس کا مخاطب شدید سے شدید منکر ہی کیوں نہ ہو۔
حق تعالیٰ شانہ نے اپنے عظیم الشان پیغمبر موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بھائی ہارون علیہ السلام کو اس وقت کے سب سے بڑے منکر فرعون کے پاس دعوت کے لیے بھیجا تو انہیں نصیحت فرمائی کہ :
تم دونوں اس سے نرم بات کہنا شاید کہ وہ نصیحت حاصل کر لے یا اس میں خشیت پیدا ہو جائے۔
( طه:20 - آيت:44 )
اقتباس بشکریہ - ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ (مکہ مکرمہ)