یہ بات
سرفراز فیضی بھائی نے پہلے بھی لکھی تھی اور میں اس کا جواب دے چکا ہوں، جسے
یہاں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے، وہ جواب یہاں بھی پوسٹ کر رہا ہوں۔
ہماری جیت یہ نہیں کہ ہم نے کسی کو "دلائل" دیے اور وہ لاجواب ہوگیا
لیکن دلائل دینے کے بعد مخالف کا ان دلائل کے جواب نہ دے سکنا بھی ایک طرح کی جیت ہے۔
ابراہیم علیہ السلام نے ایک کافر کو کہا:
إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ۔۔۔سورۃ البقرۃ
ترجمہ:جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ میرا رب تو وه ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے،
اس نے جواب میں کہا:
قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ۔۔۔سورۃ البقرۃ
ترجمہ:وه کہنے لگا میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں
حالانکہ یہ اس کافر کا دعویٰ تھا حقیقت میں وہ زندگی اور موت کا مالک نہیں تھا۔ پھر ابراہیم علیہ السلام نے کہا:
قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّـهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ
ترجمہ: ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے تو اسے مغرب کی جانب سے لے آ
اس پر وہ کافر لا جواب ہو گیا، نہ صرف لا جواب بلکہ:
فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ ۗ۔۔۔سورۃ البقرۃ
ترجمہ: اب تو وه کافر بھونچکا ره گیا
تو لہذا اس سے ثابت ہوا کہ اگر کوئی حق پر ہے اور اس کا مخالف حق بات کے مقابلے میں لاجواب ہے تو یہ حقیقی جیت ہے۔
ہماری جیت یہ ہے کہ ہم نے کسی کو" دلائل" دیے اور وہ قائل ہوگیا۔
اگر ہر طرح کے عقلی و نقلی دلائل دینے کے بعد بھی کوئی ان دلائل سے قائل نہ ہو، تو کیا اس کو اپنی ہار سمجھیں گے، ہرگز نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر اور کون زیادہ دلائل دے سکتا ہے۔ لیکن بہت سارے لوگ قائل نہیں ہوئے (ایمان نہیں لائے) اور کیفیت یہ تھی کہ:
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَىٰ آثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَـٰذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا ﴿٦﴾۔۔۔سورة الكهف
ترجمه: پس اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ ﻻئیں تو کیا آپ ان کے پیچھے اسی رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے؟
دعوت میں سامنے والے کو ہرانا نہیں اس کو جیت جانا ہمارا مقصد ہونا چاہیے ۔
دعوت احسن انداز سے ضرور دینی چاہئے، لیکن جب حق و باطل کا ٹاکرا ہو تو پھر باطل کو اللہ کے فضل سے ہرانا چاہئے، اور باطل کا ہارنا ہی اصل مقصد ہونا چاہئے۔
وَقَالَ مُوسَىٰ يَا فِرْعَوْنُ إِنِّي رَسُولٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٠٤﴾حَقِيقٌ عَلَىٰ أَن لَّا أَقُولَ عَلَى اللَّـهِ إِلَّا الْحَقَّ ۚ قَدْ جِئْتُكُم بِبَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ فَأَرْسِلْ مَعِيَ بَنِي إِسْرَائِيلَ ﴿١٠٥﴾ قَالَ إِن كُنتَ جِئْتَ بِآيَةٍ فَأْتِ بِهَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ ﴿١٠٦﴾ فَأَلْقَىٰ عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ ثُعْبَانٌ مُّبِينٌ ﴿١٠٧﴾ وَنَزَعَ يَدَهُ فَإِذَا هِيَ بَيْضَاءُ لِلنَّاظِرِينَ ﴿١٠٨﴾ قَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِ فِرْعَوْنَ إِنَّ هَـٰذَا لَسَاحِرٌ عَلِيمٌ ﴿١٠٩﴾ يُرِيدُ أَن يُخْرِجَكُم مِّنْ أَرْضِكُمْ ۖ فَمَاذَا تَأْمُرُونَ ﴿١١٠﴾ قَالُوا أَرْجِهْ وَأَخَاهُ وَأَرْسِلْ فِي الْمَدَائِنِ حَاشِرِينَ ﴿١١١﴾ يَأْتُوكَ بِكُلِّ سَاحِرٍ عَلِيمٍ ﴿١١٢﴾ وَجَاءَ السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوا إِنَّ لَنَا لَأَجْرًا إِن كُنَّا نَحْنُ الْغَالِبِينَ ﴿١١٣﴾ قَالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ ﴿١١٤﴾ قَالُوا يَا مُوسَىٰ إِمَّا أَن تُلْقِيَ وَإِمَّا أَن نَّكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ ﴿١١٥﴾ قَالَ أَلْقُوا ۖ فَلَمَّا أَلْقَوْا سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ وَجَاءُوا بِسِحْرٍ عَظِيمٍ ﴿١١٦﴾ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ أَنْ أَلْقِ عَصَاكَ ۖ فَإِذَا هِيَ تَلْقَفُ مَا يَأْفِكُونَ ﴿١١٧﴾ فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١١٨﴾ فَغُلِبُوا هُنَالِكَ وَانقَلَبُوا صَاغِرِينَ ﴿١١٩﴾ وَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سَاجِدِينَ ﴿١٢٠﴾قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٢١﴾ رَبِّ مُوسَىٰ وَهَارُونَ ﴿١٢٢﴾۔۔۔سورة الاعراف
ترجمه: اور موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اے فرعون! میں رب العالمین کی طرف سے پیغمبر ہوں (104)میرے لیے یہی شایان ہے کہ بجز سچ کے اللہ کی طرف کوئی بات منسوب نہ کروں، میں تمہارے پاس
تمہارے رب کی طرف سے ایک بڑی دلیل بھی ﻻیا ہوں، سو تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے (105) فرعون نے کہا، اگر
آپ کوئی معجزه لے کر آئے ہیں تو اس کو اب پیش کیجئے! اگر آپ سچے ہیں (106)
پس آپ نے اپنا عصا ڈال دیا، سو دفعتاً وه صاف ایک اﮊدھا بن گیا (107) اور اپنا ہاتھ باہر نکالا سو وه یکایک سب دیکھنے والوں کے روبرو بہت ہی چمکتا ہوا ہو گیا (108) قوم فرعون میں جو سردار لوگ تھے انہوں نے کہا کہ واقعی یہ شخص بڑا ماہر جادوگر ہے (109) یہ چاہتا ہے کہ تم کو تمہاری سرزمین سے باہر کر دے سو تم لوگ کیا مشوره دیتے ہو (110) انہوں نے کہا کہ آپ ان کو اور ان کے بھائی کو مہلت دیجئے اور شہروں میں ہرکاروں کو بھیج دیجئے (111) کہ وه سب ماہر جادو گروں کو آپ کے پاس ﻻ کر حاضر کر دیں (112)
اور وه جادوگر فرعون کے پاس حاضر ہوئے، کہنے لگے کہ اگر ہم غالب آئے تو ہم کو کوئی بڑا صلہ ملے گا؟ (113) فرعون نے کہا کہ ہاں اور تم مقرب لوگوں میں داخل ہو جاؤ گے (114)
ان ساحروں نے عرض کیا کہ اے موسیٰ! خواه آپ ڈالئے اور یا ہم ہی ڈالیں؟ (115) (موسیٰ علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم ہی ڈالو، پس جب انہوں نے ڈاﻻ تو لوگوں کی نظر بندی کر دی اور ان پر ہیبت غالب کر دی اور ایک طرح کا بڑا جادو دکھلایا (116) اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ اپنا عصا ڈال دیجئے! سو عصا کا ڈالنا تھا کہ اس نے ان کے سارے بنے بنائے کھیل کو نگلنا شروع کیا (117) پس حق ﻇاہر ہوگیا اور انہوں نے جو کچھ بنایا تھا سب جاتا رہا (118) پس وه لوگ اس موقع پر ہار گئے اور خوب ذلیل ہوکر پھرے (119)
اور وه جو ساحر تھے سجده میں گر گئے (120)کہنے لگے کہ ہم ایمان ﻻئے رب العالمین پر (121) جو موسیٰ اور ہارون کا بھی رب ہے (122)
مزید وہاں دیکھ لیں۔