ابو داؤد
مشہور رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 787
- ری ایکشن اسکور
- 218
- پوائنٹ
- 111
دعوت وجہاد، علماء پر مدخلی حملے، یوتھ کلب کا قضیہ
از قلم : حافظ ضیاء اللہ روپڑی
(لكل جعلنا منكم شرعة ومنهاجا)
ان کے تین عمومی طبقات ہیں.. پہلا ان کے زعیم ربیع مدخلی اور پھر رحیلی، رسلان اور طویل جیسوں کا، دوسرا حالیہ سالوں میں سعودی یونیورسٹیوں سے پڑھے ہوئے عجمی مدخلی جن میں فتنہ ھندوستان کے اجمل منظور، نارائن پوری جیسے جو متعصب مقلد ہیں اور خوارج کی طرح مُودی کی بجائے جہاد قدس پر طعن کے لیے متفرغ ہیں، اور دیسیوں میں کراچی کا خالد حذیفی، بروہی وغیرہ جبکہ اسلام آباد لاھور سے بھی کچھ متعالم ہیں جبکہ تیسرے طبقے میں ان سے متاثر کچھ بچے یا طلبہ علم ہیں جن میں اکثر مخلص اور اہل خیر ہیں، البتہ ان میں نصابی کتابوں کا عنصر زیادہ جبکہ مسائل دعوت وجہاد میں تاصیل علمی کا فقدان نیز دوسرے طبقے کی چکنی چپڑی باتوں کا اثر ہے۔
اس وقت منھج اہلحدیث جو علم وحی پر مبنی ایک عظیم وجامع مسلک ہے ان شرارتیوں کے حصار میں ہے جس سے دین کا نقصان ہورہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس میں ایک کردار سیاسی تنظیمات یا دیگر اہل علم کا بھی ہے جو ان کے بارے میں نرم رویہ رکھتے یا محض سیاسی قسم کا رد کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ جبکہ شرعی اُمور میں شرعی اصطلاحات ہی حکم شرعی بیان کرنے کے لیے اصل ہوتی ہیں، خصوصا ان کے عربی زعماء جو یہود کی دوستی اور الحاد کے نفاذ کے مؤید لیکن مسلسل علمائے جہاد قدس اور علمائے حق مثل شیخ جبرین، شیخ طریفی اور شیخ عبد اللہ سعد پر طعن زن رہتے ہیں، یہ نفاق سے آلودہ ہیں۔ قران کریم میں بیان کردہ منافقین کی صفات میں سے نمایاں ترین اہل حق پر استھزاء اور جہاد سے فرار اور اُس پر طعن ہے.. غزہ نے بھی منافقین کو بے نقاب کیا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے.. یاد رکھیے منافق ہمیشہ بناوٹی اخلاق اور میٹھی زبان کا رونا روتا اور تقدیس الہی کے پیچھے چُھپتا ہے۔ (ومن الناس من یُعجبک قوله فی الحیاة الدنیا ویشھد اللہ علی ما قلبہ.. الآیة)، بلکہ اللہ تعالی نے اُن کی باتوں کے متاثر کُن ہونے کا ذکر فرمایا (وإن یقولوا تسمع لقولھم..الآیة).. لیکن ساتھ ہی فرمادیا کہ یہ دشمن ہیں خبردار رہا جائے (ھم العدو فاحذرھم).. دلچسپ بات یہ ہے کہ تعبیر قرانی کے مطابق یہ لوگ خوبصورت اور شیریں کلام کے باوجود درحقیقت سخت جھگڑالو اور فسادی ہوتے ہیں(وھو الد الخصام واذا تولی سعی فی الارض لیفسد فیھا).. اور یہ صفات بدرجہ اتم آپ کو ان میں نظر آئیں گی۔ یہ بیک جنبش قلم اکابر اُمت سے لے کر عام علماء تک کسی کو بھی اخوانی، سروری، خارجی، بدعتی سرنگ کے چُوہے کا لقب دے دیں گے لیکن جب آپ ان کے نفاق کو ظاہر کریں کہ تم یہود ونصاری اور ہندؤوں کو چھوڑ کر مسلسل علمائے ربانی یا مجاھدین غزہ پر طعنہ زنی کرتے ہو تو یہ فورًا چیخ اُٹھیں گے، کہ دیکھو اہل مدرسہ کو بُرا کہ رہا وغیرہ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر آپکی نیت پر بھی حُکم لگائیں گے۔ جبکہ منافقین کا قرانی علاج ہی یہ ہے کہ بغیر مداہنت کے ان کے نفاق کو بے نقاب کیا جائے جیسا کہ سورة توبہ کا ایک نام “الفاضحة” اسی وجہ سے ہے کہ وہ “ومنھم”، “ومنھم” کے کلمہ سے ان کے اوصاف خبیثہ کو بیان کرتی چلی جاتی ہے۔
بلکہ منافقین سے جہاد قران کا ایک مستقل باب ہے جو جہاد کُفار سے جُدا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اسے مفصل اور منفرد کئی مقامات ہر بیان کیا کہ ان کے خلاف زبان و بیان حق کی سختی (واغلظ علیھم۔ سورة الاحزاب) ہی جہاد ہے تاکہ یہ یہود ونصاری کے گدھے بن کر اہل اسلام کے سادہ لوگوں کو گمراہ نہ کرسکیں جو بقول قران ان کو سُنتے اور متاثر ہوتے رہتے ہیں(وفیکم سماعون لھم)۔
ایک شرارت ان مداخلہ کی قلب الموازین کی کوشش بھی ہے، یعنی بعض چیزوں کو غرض بنا کر رد وقدح کرتے رہنا تاکہ اہم ترین مسائل سے توجہ ہٹی رہے اور یہ اس بنا پر منھج کے چمپئن نظر آئیں..
مثلًا بعض دعوتی تنظیموں کی منھجی اخطاء پر ان کے مسلسل ردود سے عوام یہ سمجھتے ہیں کہ یہ خود دعوت میں عین منھج نبوی پر ہیں جبکہ معاملہ اسکے برعکس ہے۔ پہلے تو یہ اصول جاننا چاہیے کہ قران کریم نے منسک اور منھاج دونوں کو شریعت کے تابع اور وحی نبوت کے ساتھ مختص کیا ہے، فرمایا (لكل جعلنا منكم شرعة ومنهاجا).. اور منھاج صرف دعوت کا نام نہیں بلکہ اس میں دعوت، جہاد، نھی عن المنکر سب شامل ہے۔ اگر مداخلہ جہاد دفاعی اور انکار مُنکر جیسے اجماعی فریضے کو ابراھیمی معاہدات کے گوبر تلے دبانا، اور اُمت کے معصوم خُون سے دین کے نام پر کھلواڑ کرنا چاہتے ہیں تو یقیناً یوتھ کلب کی سوچ اس باب میں ان جیسے منافقین سے کہیں بہتر ہے۔ اور ہمیں قول میں بھی عدل کا حُکم دیا گیا ہے (واذا قلتم فاعدلوا).. اگر ایک کی غلطی بیان ہوئی تو دوسرے کی بڑی غلطی کا بیان بھی واجب ورنہ کتمان حق کو مستلزم ہے۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ منھج دعوت میں بھی مدخلی طویل تقریریں تو چھوڑتے رہتے ہیں لیکن میں نے کسی کو منهج دعوت کے باب میں اصولی آیت مبارکہ اپنی صحیح تعبیر کے ساتھ پیش کرتے ہوئے نہیں دیکھا جس میں فرمایا گیا کہ (قُل ھذہ سبیلی ادعو الی اللہ علی بصیرة.. الآیة).. جس کی رُو سے ان کا دعوتی منھج جس میں حق وباطل کی تلبیس یا اہم ترین عقدی مسائل اور جامع صورت مسئلہ کو چھوڑ کر جزئیات پر فتوے جڑتے رہنا ثابت کرتا ہے کہ ان کا اپنا منھج نہ صرف لنگڑا ہے بلکہ یہ دعوت دین کے بھی ہرگز اہل نہیں ہیں۔
واضح رہے کہ بہت سے ایسے مسلمان گروہ جن کی منھجی اخطاء سنگین یا قلیل نوعیت کی ہوسکتی ہیں، ان کی اصلاح ضروری ہے مثلا اخوان، حماس، اور بعض دعوتی ادارے وغیرہ، لیکن جب معاملہ حرمت مسلم کا، دفاع مقدسات کا، دفاع شعائر اللہ کا، حمایت توحید الوہیت کا ہوگا تو ہم اصلاح کے ساتھ ساتھ ادنی ترین غیور مسلمان کے بھی ساتھ کھڑے ہونگے اور اس کے خلاف صبح وشام مداخلہ جیسی نشتر آمیز زبانوں سے کفار کی مدد نہیں کریں گے، کہ یہی منھج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور بالتبع منھج صحابہ ہے۔ اس کے سوا جو کچھ ہے وہ باطل یا نفاق ہے، اور منافق کو رازداں نہیں بنایا جاسکتا (لا تتخذوا بطانة من دونکم)، البتہ مخلص وغیر متعصب کو بنایا جاسکتا ہے، گرچہ وہ عارضی جہل کی وجہ سے کسی بدعت میں واقع ہوجائے۔
آخر میں خصوصا تمام اہلحدیث تعلیمی اور دعوتی جماعتوں کو نصیحت ہے کہ علمی اہلیت کے ساتھ دو بنیادی اصولوں کو ضرور اپنائیے، ایک دعوت دین کو ہر طبقے تک عام رکھیے خصوصا جو رغبت رکھتا ہو امیر ہو پھٹے کپڑوں والا فقیر، با اثر یا طاقتور طبقات تک محدود کرنا اللہ کے رسول کے لیے بھی جائز نہیں تھا نہ اس سے کبھی خیر پیدا ہوسکتی ہے۔ اس اصول کو جاننے کے لیے سورة (عبس وتولی) کی ابتدائی آیات میں تدبر کیجیے جو اس باب مں اصولی ہیں۔ یُوں بھی نبی کریم نے علم وحی کو بارش سے تشبیہ دی ہے جو سب پر برابر برستی ہے۔ یہی ہماری دعوت کی بھی وسعت ہونی چاہیے۔
دوسرا اصول یہ کہ کفار یا فُساق کی مشابہت سے مکمل گریز کیا جائے گرچہ لوگ اس پسند کرتے ہوں۔ یہ داعی کے وقار کے بھی منافی ہے اور گناہ قبیح بھی بحکم (من تشبہ بقوم فھو منھم)، لہذا اس سے کبھی برکت نہیں پیدا ہوسکتی۔
آخری بات:- بعض دوستوں کو میری بعض باتیں سخت معلوم ہوتی ہیں، لیکن یہ کسی ذاتی غرض وانتقام کی بنیاد پر ہیں نہ بے محل ہیں، ان شاء اللہ تعالی، بلکہ میں ایسے منافقین سے جو علم نبوت کے امین بن کر اُمت سے غداری کرتے ہیں نرمی برتنے کو جُرم عظیم سمجھتا اور انھیں بے نقاب کرنا عین عبادت سمجھتا ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا منافق کو “سردار” کہنا اللہ کو غضبناک کرتا ہے (اذا قال الرجل للمنافق يا سيد فقد اغضب ربه تبارك وتعالى)، اللہ ذوالجلال قران کریم میں جہاد سے فرار کے بعد اللہ کے نام پر حلف اٹھا کر نبی کریم کو راضی کرنے کی کوشش کرنے والوں کے بارے میں فرماتا ہے (انھم رجس) “یہ نرا گند ہیں”، تو ہم اس قبیل سے نرمی کیسے کرسکتے ہیں! ہاں جو طعنہ زنی کیے بغیر ہم سے کسی مسئلے کی شرعی جہت پر بات کرنا چاہتا ہے تو ہم حاضر ہیں اور اگر میری بات کے ضمن میں کسی مخلص کی دل آزاری ہوئی تو اس کے لیے بھی معذرت خواہ ہیں۔