باذوق
رکن
- شمولیت
- فروری 16، 2011
- پیغامات
- 888
- ری ایکشن اسکور
- 4,011
- پوائنٹ
- 289
ناصبی حضرات وہ ہیں جو بلاجواز اہل بیت (رضی اللہ عنہم) پر طعن و تشنیع کرتے ہیں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی صحیح بخاری پر ایک اعتراض یہ کیا گیا کہ انہوں نے ایک ناصبی سے روایت لی مگر اہل بیت کے امام جعفر صادق (رحمۃ اللہ علیہ) کے حوالے سے صحیح بخاری میں ایک بھی روایت موجود نہیں۔
ایسا ہی ایک اعتراض حبیب اللہ ڈیروی صاحب کی کتاب "ہدایہ علماء کی عدالت میں" کے صفحہ:161 پر ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے ۔۔۔
(1)
صحیح بخاری ، کتاب المناقب ، آن لائن لنک
حدثنا عصام بن خالد ، حدثنا حريز بن عثمان أنه سأل عبد الله بن بسر صاحب النبي صلى الله عليه وسلم ، قال : " أرأيت النبي صلى الله عليه وسلم كان شيخا ، قال : كان في عنفقته شعرات بيض " .
ہم سے عصام بن خالد نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے حریز بن عثمان نے بیان کیا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی عبداللہ بن بسر (رضی اللہ عنہ) سے پوچھا ، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بوڑھے ہو گئے تھے؟ انہوں نے کہا کہ آپ کی ٹھوڑی کے چند بال سفید ہو گئے تھے۔
(2)
صحیح بخاری ، کتاب المغازی ، آن لائن لنک
حدثنا علي بن عياش ، حدثنا حريز ، قال : حدثني عبد الواحد بن عبد الله النصري ، قال : سمعت واثلة بن الأسقع ، يقول : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " إن من أعظم الفرى أن يدعي الرجل إلى غير أبيه أو يري عينه ما لم تر أو ، يقول : على رسول الله صلى الله عليه وسلم ما لم يقل " .
ہم سے علی بن عیاش نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے عبدالواحد بن عبداللہ نصری نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے سنا ، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سب سے بڑا بہتان اور سخت جھوٹ یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے سوا کسی اور کو اپنا باپ کہے یا جو چیز اس نے خواب میں نہیں دیکھی ، اس کے دیکھنے کا دعویٰ کرے ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسی حدیث منسوب کرے جو آپ نے نہ فرمائی ہو ۔
اصول حدیث میں یہ معروف ہے کہ کسی (ثقہ) بدعتی سے روایت لینا ناجائز نہیں ہے۔
حبیب اللہ ڈیروی صاحب کے استاذ گرامی مولانا سرفراز صاحب صفدر اپنی مشہور مناظرانہ کتاب "احسن الکلام" میں لکھتے ہیں :
دوسرے ، ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس ناصبی راوی (حریز بن عثمان) کی وفات بھی ناصبیت پر ہی ہوئی تھی؟
حالانکہ امام بخاری (رحمۃ اللہ) خود فرماتے ہیں کہ : حریز (رحمۃ اللہ) نے ناصبیت سے رجوع کر لیا تھا۔
چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری کے مقدمہ "ھدی الساری" میں امام بخاری کے مشہور استاذ امام ابوالیمان حکم بن نافع الحمصی (جو حریز بن عثمان کے شاگرد اور ہموطن تھے) کا ایک قول ذکر کر کے لکھتے ہیں کہ :
وقال البخاري قال أبو اليمان كان حريز يتناول من رجل ثم ترك قلت فهذا أعدل الأقوال فلعله تاب
اعدل قول یہی ہے کہ حریز نے ناصبیت سے رجوع کر لیا تھا اور شاید انہوں نے ناصبیت سے توبہ کر لی تھی۔
ھدی الساری ، ج:1 ، ص:396 ، آن لائن لنک
اور پھر تہذیب التہذیب میں حافظ عسقلانی یہ بھی لکھتے ہیں کہ :
وإنما أخرج له البخاري لقول أبي اليمان أنه رجع عن النصب
امام بخاری نے ابوالیمان کے اس قول (کہ حریز بن عثمان نے ناصبیت سے رجوع کر لیا تھا) کی بنا پر حریز کی احادیث کی تخریج کی ہے۔
تہذیب التہذیب ، ج:2 ، ص:436 ، ڈاؤن لوڈ لنک
لہذا جب امام بخاری کے نزدیک حریز بن عثمان کا یہ رجوع ثابت ہے تو انہوں نے حریز سے روایات لے کر کوئی جرم نہیں کیا۔
حبیب اللہ ڈیروی صاحب نے "تہذیب" کے حوالے سے حریز پر ناصبیت کا اعتراض تو ضرور نقل کیا مگر اسی "تہذیب" میں امام بخاری نے اپنے استاذ کے حوالے حریز کے ناصبیت سے رجوع کرنے کی جو بات کہی ، اسے نقل کرنے سے شاید چوک گئے ہیں۔
***
علم حدیث کی دنیا میں یہ قول مشہور ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ نے صحیح بخاری میں تمام ہی ثقہ راویوں سے روایات نہیں لی ہیں۔ اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ امام بخاری نے تمام صحیح احادیث کا استیعاب "صحیح بخاری" میں نہیں کیا ہے۔
جیسا کہ حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
الموقظه ومن الثقات الذين لم يخرج لهم في الصحيحين خلق
ثقہ راویوں کی کثیر تعداد سے صحیحین میں روایت نہیں لی گئی ہے۔
بحوالہ : الموقظة , ص:81 ، آن لائن لنک
اور پھر ۔۔۔۔ فن حدیث کے ماہرین فرماتے ہیں کہ جس ثقہ راوی سے امام بخاری اپنی صحیح میں روایت نہ لیں تو وہ راوی باعث جرح نہیں ہوتا۔
جیسا کہ علامہ ماردینی لکھتے ہیں :
فلا يضره كون الشيخين لم يحتجا به فإنهما لم يلتزما الاخراج عن كل ثقة على ما عرف فلا يلزم من كونهما لم يحتجا به أن يكون ضعيفا
کہ اس راوی سے شیخین (امام بخاری و امام مسلم) کا احتجاج نہ کرنا (راوی کے) نقصان کا باعث نہیں کیونکہ انہوں (شیخین) نے ہر ثقہ راوی سے روایت لینے کا التزام نہیں کیا ، جیسا کہ معروف ہے۔ لہذا شیخین کا احتجاج نہ کرنا اس (راوی) کے ضعف کا باعث نہیں ہے۔
بحوالہ : الجوهر النقي , المؤلف: المارديني , الجزء: 1 , ص:192 ، آن لائن لنک
لہذا ثابت ہوا کہ حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ سے اگر امام بخاری رحمۃ اللہ نے "صحیح بخاری" میں کوئی روایت نہیں لی ہے تو انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا اور نہ ہی امام بخاری رحمۃ اللہ کے اس طرز عمل سے حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ کا کوئی ضعف ہی واضح ہوتا ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی صحیح بخاری پر ایک اعتراض یہ کیا گیا کہ انہوں نے ایک ناصبی سے روایت لی مگر اہل بیت کے امام جعفر صادق (رحمۃ اللہ علیہ) کے حوالے سے صحیح بخاری میں ایک بھی روایت موجود نہیں۔
ایسا ہی ایک اعتراض حبیب اللہ ڈیروی صاحب کی کتاب "ہدایہ علماء کی عدالت میں" کے صفحہ:161 پر ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے ۔۔۔
راقم کی ناقص معلومات کی حد تک صحیح بخاری میں حريز بن عثمان بن جبر بن أحمر بن أسعد سے مروی صرف 2 روایات یوں ملتی ہیں : (اردو تراجم : داؤد راز)امام بخاری نے ایک راوی سے جس کا نام حریز بن عثمان ہے ، صحیح بخاری میں روایت لی ہے جو ہر صبح کی نماز کے بعد 70 بار حضرت علی (رضی اللہ عنہ) پر لعنتیں بھیجتا تھا (تہذیب۔ ج:2 ، ص:270) مگر امام جعفر صادق (رحمۃ اللہ) سے صحیح بخاری میں روایت نہیں۔
(1)
صحیح بخاری ، کتاب المناقب ، آن لائن لنک
حدثنا عصام بن خالد ، حدثنا حريز بن عثمان أنه سأل عبد الله بن بسر صاحب النبي صلى الله عليه وسلم ، قال : " أرأيت النبي صلى الله عليه وسلم كان شيخا ، قال : كان في عنفقته شعرات بيض " .
ہم سے عصام بن خالد نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے حریز بن عثمان نے بیان کیا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی عبداللہ بن بسر (رضی اللہ عنہ) سے پوچھا ، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بوڑھے ہو گئے تھے؟ انہوں نے کہا کہ آپ کی ٹھوڑی کے چند بال سفید ہو گئے تھے۔
(2)
صحیح بخاری ، کتاب المغازی ، آن لائن لنک
حدثنا علي بن عياش ، حدثنا حريز ، قال : حدثني عبد الواحد بن عبد الله النصري ، قال : سمعت واثلة بن الأسقع ، يقول : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " إن من أعظم الفرى أن يدعي الرجل إلى غير أبيه أو يري عينه ما لم تر أو ، يقول : على رسول الله صلى الله عليه وسلم ما لم يقل " .
ہم سے علی بن عیاش نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے عبدالواحد بن عبداللہ نصری نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے سنا ، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سب سے بڑا بہتان اور سخت جھوٹ یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے سوا کسی اور کو اپنا باپ کہے یا جو چیز اس نے خواب میں نہیں دیکھی ، اس کے دیکھنے کا دعویٰ کرے ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسی حدیث منسوب کرے جو آپ نے نہ فرمائی ہو ۔
اصول حدیث میں یہ معروف ہے کہ کسی (ثقہ) بدعتی سے روایت لینا ناجائز نہیں ہے۔
حبیب اللہ ڈیروی صاحب کے استاذ گرامی مولانا سرفراز صاحب صفدر اپنی مشہور مناظرانہ کتاب "احسن الکلام" میں لکھتے ہیں :
لہذا اگر صحیح بخاری میں ناصبی بدعتی کی روایات موجود ہیں تو یہ کوئی خراب بات نہیں۔اصول حدیث کی رو سے ثقہ راوی کا خارجی یا جہمی یا مرجئی وغیرہ ہونا اس کی ثقاہت پر قطعاً اثرانداز نہیں ہوتا اور صحیحین میں ایسے راوی بکثرت موجود ہیں۔
بحوالہ : احسن الکلام ، ج:1 ، ص:30
دوسرے ، ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس ناصبی راوی (حریز بن عثمان) کی وفات بھی ناصبیت پر ہی ہوئی تھی؟
حالانکہ امام بخاری (رحمۃ اللہ) خود فرماتے ہیں کہ : حریز (رحمۃ اللہ) نے ناصبیت سے رجوع کر لیا تھا۔
چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری کے مقدمہ "ھدی الساری" میں امام بخاری کے مشہور استاذ امام ابوالیمان حکم بن نافع الحمصی (جو حریز بن عثمان کے شاگرد اور ہموطن تھے) کا ایک قول ذکر کر کے لکھتے ہیں کہ :
وقال البخاري قال أبو اليمان كان حريز يتناول من رجل ثم ترك قلت فهذا أعدل الأقوال فلعله تاب
اعدل قول یہی ہے کہ حریز نے ناصبیت سے رجوع کر لیا تھا اور شاید انہوں نے ناصبیت سے توبہ کر لی تھی۔
ھدی الساری ، ج:1 ، ص:396 ، آن لائن لنک
اور پھر تہذیب التہذیب میں حافظ عسقلانی یہ بھی لکھتے ہیں کہ :
وإنما أخرج له البخاري لقول أبي اليمان أنه رجع عن النصب
امام بخاری نے ابوالیمان کے اس قول (کہ حریز بن عثمان نے ناصبیت سے رجوع کر لیا تھا) کی بنا پر حریز کی احادیث کی تخریج کی ہے۔
تہذیب التہذیب ، ج:2 ، ص:436 ، ڈاؤن لوڈ لنک
لہذا جب امام بخاری کے نزدیک حریز بن عثمان کا یہ رجوع ثابت ہے تو انہوں نے حریز سے روایات لے کر کوئی جرم نہیں کیا۔
حبیب اللہ ڈیروی صاحب نے "تہذیب" کے حوالے سے حریز پر ناصبیت کا اعتراض تو ضرور نقل کیا مگر اسی "تہذیب" میں امام بخاری نے اپنے استاذ کے حوالے حریز کے ناصبیت سے رجوع کرنے کی جو بات کہی ، اسے نقل کرنے سے شاید چوک گئے ہیں۔
***
علم حدیث کی دنیا میں یہ قول مشہور ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ نے صحیح بخاری میں تمام ہی ثقہ راویوں سے روایات نہیں لی ہیں۔ اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ امام بخاری نے تمام صحیح احادیث کا استیعاب "صحیح بخاری" میں نہیں کیا ہے۔
جیسا کہ حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
الموقظه ومن الثقات الذين لم يخرج لهم في الصحيحين خلق
ثقہ راویوں کی کثیر تعداد سے صحیحین میں روایت نہیں لی گئی ہے۔
بحوالہ : الموقظة , ص:81 ، آن لائن لنک
اور پھر ۔۔۔۔ فن حدیث کے ماہرین فرماتے ہیں کہ جس ثقہ راوی سے امام بخاری اپنی صحیح میں روایت نہ لیں تو وہ راوی باعث جرح نہیں ہوتا۔
جیسا کہ علامہ ماردینی لکھتے ہیں :
فلا يضره كون الشيخين لم يحتجا به فإنهما لم يلتزما الاخراج عن كل ثقة على ما عرف فلا يلزم من كونهما لم يحتجا به أن يكون ضعيفا
کہ اس راوی سے شیخین (امام بخاری و امام مسلم) کا احتجاج نہ کرنا (راوی کے) نقصان کا باعث نہیں کیونکہ انہوں (شیخین) نے ہر ثقہ راوی سے روایت لینے کا التزام نہیں کیا ، جیسا کہ معروف ہے۔ لہذا شیخین کا احتجاج نہ کرنا اس (راوی) کے ضعف کا باعث نہیں ہے۔
بحوالہ : الجوهر النقي , المؤلف: المارديني , الجزء: 1 , ص:192 ، آن لائن لنک
لہذا ثابت ہوا کہ حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ سے اگر امام بخاری رحمۃ اللہ نے "صحیح بخاری" میں کوئی روایت نہیں لی ہے تو انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا اور نہ ہی امام بخاری رحمۃ اللہ کے اس طرز عمل سے حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ کا کوئی ضعف ہی واضح ہوتا ہے۔
شکریے کے ساتھ استفادہ بحوالہ کتاب : امام بخاری رحمۃ اللہ پر بعض اعتراضات کا جائزہ (ارشاد الحق اثری)