• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دلہن، ڈاکٹر ہی چاہیے

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
دلہن، ڈاکٹر ہی چاہیے

پاکستانی معاشرے میں کبھی دلہن کے لئے لمبا قد، گوری رنگت ، دلکش شخصیت اور اچھے خاندان سے ہونے کا معیار مانا جاتا تھا، آج دلہن کا ڈاکٹر یا ڈینٹسٹ ہو نا ضروری سمجھا جاتا ہے، کچھ عرصہ قبل والدین کے لئے بیٹی کی پرورش اور تعلیم اہم تھی لیکن اب ہر ایک چاہتا ہے کہ اس کی بیٹی یا بہو ڈاکٹر ہو، یہ الفاظ ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے نے ایک میڈیکل طالبہ کی والدہ کے حوالے سے نشر کیے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں ڈاکٹر لڑکیوں کے قبل از وقت کیرئیر کے خاتمے کی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ رپورٹ میں پاکستان میں طبی صورت حال کے بگاڑ کی وجہ یہ بتائی گئی کہ پاکستانی مرد چاہتا ہے کہ اس کی ہونے والی دلہن ڈاکٹر ہو، ڈاکٹر لڑکی سے شادی ان کے لئے سماج میں برتری کا احساس لیے ہوئے ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ ایسی دلہن میں ورکنگ وومن اور گھریلو خاتون جیسی دونوں خصوصیات مل جاتیں ہیں لیکن ایسا ممکن نہیں ، انہیں اپنے خاندان کی خاطر پروفیشنل زندگی کو خیر باد کہنا پڑتا ہے ۔ میڈیکل شعبے سے وابستہ لڑکیوں کی اکثریت شادی کے بعد اپنا کیریئر جاری نہیں رکھ پاتی جس سے طبی شعبہ شدید بحران کا شکار ہے۔

پاکستان کے میڈیکل کالجوں میں لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کے داخلے کی شرح بہت زیادہ ہے، یہ شرح اندازاً 30فی صد لڑکے اور 70فی صد لڑکیوں کے داخلے کی ہے۔ شادی کے بعد ان 70 فیصد خواتین ڈاکٹروں کی اکثریت عملی زندگی میں نہیں آتی جس کے باعث ملک ان کی خدمات سے محروم ہو جاتا ہے اور اسی وجہ سے طبی میدان میں ایک خلاء پیدا ہو جاتا ہے جسے پورا نہیں کیا جا رہا۔ پاکستان میں ڈاکٹروں کی شدید کمی پر ماہرین نے یہاں تک تجویز دی کہ میڈیکل کالجز میں داخلے کے لئے خواتین کے لئے کوٹا مخصو ص کیا جائے۔ ایک اکیڈمک ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ میڈیکل طلباء و طالبات کے لئے کچھ مدت تک کام کے بانڈ کی شرط عائد کی جائے، کم از کم دو سال تک انہیں کام کرنے کا پابند کیا جائے۔ امریکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ پاکستان میں میڈیکل کالجز میں 1991 میں صنفی امتیاز پر کوٹا ختم کر دیا گیا جس کے بعد مردوں کی تعد اد طبی کالجز میں بتدریج کم ہو گئی اور اب ان کالجز میں 80 سے 85 فی صد لڑکیاں زیر تعلیم ہیں، جب کہ امریکی میڈیکل کالجز میں خواتین کے داخلے کی شرح 47فی صد ہے۔ کراچی کے ڈاوٴ یونی ورسٹی میں 70فی صد طالبات ہیں۔ پاکستان بھر میں پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے پاس مجموعی طور پر 132988 ڈاکٹرز رجسٹرڈ ہیں ان میں سے 58789 لیڈی ڈاکٹرز ہیں۔ جب کہ طبی شعبے میں اسپیشلسٹ کی مجموعی تعداد 28686 ہے جن میں 7524 خواتین ہیں۔

لاہور کے ایک میڈیکل کالج کی ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ جب طالبات میڈٰکل کالج میں آتیں ہیں تو بہت پر جوش ہوتیں ہیں لیکن جیسے ہی ان کی شادی ہوتی ہے ، کبھی خاندان کبھی سسرال کے دباوٴ سے وہ فیلڈ چھوڑ جاتیں ہیں۔ ایک ڈینٹسٹ حرا ہاشمی کا کہنا تھا کہ یہ بات ایک سماجی حیثیت بن چکی ہے کہ لوگ اپنی بہو کو ایک ڈاکٹر کے طور پر بیان کریں، اگر کسی کو صرف ایک دلہن ڈاکٹر چاہیے کہ وہ صرف کھانا پکائے تو انہیں ایک ڈاکٹر لڑکی سے شادی نہیں کرنی چاہیے۔

کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں لڑکے پڑھتے نہیں اسی وجہ سے لڑکیوں کو میڈیکل اور دیگر شعبوں میں میرٹ پر زیادہ داخلے مل جاتے ہیں ، یہ کہنا کسی حد تک درست ہے تاہم لڑکیوں کے عملی زندگی میں نہ آنے کے باعث جو نقصان ملک کو پہنچ رہا ہے اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لڑکیوں پر تعلیم کے دروازے کبھی بند نہیں ہونے چاہیے، لیکن حکومت خواتین ڈاکٹروں کو عملی زندگی میں لانے سمیت دیگر پالیسیاں واضح کرے۔ معاشرے کو اس پر بھی سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا کہ ڈاکٹر دلہن کے رجحان نے اکثر والدین کی پریشانی میں اضافہ کر دیا ہے، جو اپنی بیٹیوں کی شادی کے حوالے سے فکرمند نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈاکٹر دلہن خاندانی مرتبے میں اضافے کا سبب ہوتی ہے لیکن شادی کے معاملے میں ہمیں اسے معیار نہیں بنانا چاہئے۔

محمدر فیق مانگٹ
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
دلہن، ڈاکٹر ہی چاہیے

پاکستانی معاشرے میں کبھی دلہن کے لئے لمبا قد، گوری رنگت ، دلکش شخصیت اور اچھے خاندان سے ہونے کا معیار مانا جاتا تھا، آج دلہن کا ڈاکٹر یا ڈینٹسٹ ہو نا ضروری سمجھا جاتا ہے، کچھ عرصہ قبل والدین کے لئے بیٹی کی پرورش اور تعلیم اہم تھی لیکن اب ہر ایک چاہتا ہے کہ اس کی بیٹی یا بہو ڈاکٹر ہو، یہ الفاظ ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے نے ایک میڈیکل طالبہ کی والدہ کے حوالے سے نشر کیے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں ڈاکٹر لڑکیوں کے قبل از وقت کیرئیر کے خاتمے کی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ رپورٹ میں پاکستان میں طبی صورت حال کے بگاڑ کی وجہ یہ بتائی گئی کہ پاکستانی مرد چاہتا ہے کہ اس کی ہونے والی دلہن ڈاکٹر ہو، ڈاکٹر لڑکی سے شادی ان کے لئے سماج میں برتری کا احساس لیے ہوئے ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ ایسی دلہن میں ورکنگ وومن اور گھریلو خاتون جیسی دونوں خصوصیات مل جاتیں ہیں لیکن ایسا ممکن نہیں ، انہیں اپنے خاندان کی خاطر پروفیشنل زندگی کو خیر باد کہنا پڑتا ہے ۔ میڈیکل شعبے سے وابستہ لڑکیوں کی اکثریت شادی کے بعد اپنا کیریئر جاری نہیں رکھ پاتی جس سے طبی شعبہ شدید بحران کا شکار ہے۔

پاکستان کے میڈیکل کالجوں میں لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کے داخلے کی شرح بہت زیادہ ہے، یہ شرح اندازاً 30فی صد لڑکے اور 70فی صد لڑکیوں کے داخلے کی ہے۔ شادی کے بعد ان 70 فیصد خواتین ڈاکٹروں کی اکثریت عملی زندگی میں نہیں آتی جس کے باعث ملک ان کی خدمات سے محروم ہو جاتا ہے اور اسی وجہ سے طبی میدان میں ایک خلاء پیدا ہو جاتا ہے جسے پورا نہیں کیا جا رہا۔ پاکستان میں ڈاکٹروں کی شدید کمی پر ماہرین نے یہاں تک تجویز دی کہ میڈیکل کالجز میں داخلے کے لئے خواتین کے لئے کوٹا مخصو ص کیا جائے۔ ایک اکیڈمک ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ میڈیکل طلباء و طالبات کے لئے کچھ مدت تک کام کے بانڈ کی شرط عائد کی جائے، کم از کم دو سال تک انہیں کام کرنے کا پابند کیا جائے۔ امریکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ پاکستان میں میڈیکل کالجز میں 1991 میں صنفی امتیاز پر کوٹا ختم کر دیا گیا جس کے بعد مردوں کی تعد اد طبی کالجز میں بتدریج کم ہو گئی اور اب ان کالجز میں 80 سے 85 فی صد لڑکیاں زیر تعلیم ہیں، جب کہ امریکی میڈیکل کالجز میں خواتین کے داخلے کی شرح 47فی صد ہے۔ کراچی کے ڈاوٴ یونی ورسٹی میں 70فی صد طالبات ہیں۔ پاکستان بھر میں پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے پاس مجموعی طور پر 132988 ڈاکٹرز رجسٹرڈ ہیں ان میں سے 58789 لیڈی ڈاکٹرز ہیں۔ جب کہ طبی شعبے میں اسپیشلسٹ کی مجموعی تعداد 28686 ہے جن میں 7524 خواتین ہیں۔

لاہور کے ایک میڈیکل کالج کی ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ جب طالبات میڈٰکل کالج میں آتیں ہیں تو بہت پر جوش ہوتیں ہیں لیکن جیسے ہی ان کی شادی ہوتی ہے ، کبھی خاندان کبھی سسرال کے دباوٴ سے وہ فیلڈ چھوڑ جاتیں ہیں۔ ایک ڈینٹسٹ حرا ہاشمی کا کہنا تھا کہ یہ بات ایک سماجی حیثیت بن چکی ہے کہ لوگ اپنی بہو کو ایک ڈاکٹر کے طور پر بیان کریں، اگر کسی کو صرف ایک دلہن ڈاکٹر چاہیے کہ وہ صرف کھانا پکائے تو انہیں ایک ڈاکٹر لڑکی سے شادی نہیں کرنی چاہیے۔

کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں لڑکے پڑھتے نہیں اسی وجہ سے لڑکیوں کو میڈیکل اور دیگر شعبوں میں میرٹ پر زیادہ داخلے مل جاتے ہیں ، یہ کہنا کسی حد تک درست ہے تاہم لڑکیوں کے عملی زندگی میں نہ آنے کے باعث جو نقصان ملک کو پہنچ رہا ہے اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لڑکیوں پر تعلیم کے دروازے کبھی بند نہیں ہونے چاہیے، لیکن حکومت خواتین ڈاکٹروں کو عملی زندگی میں لانے سمیت دیگر پالیسیاں واضح کرے۔ معاشرے کو اس پر بھی سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا کہ ڈاکٹر دلہن کے رجحان نے اکثر والدین کی پریشانی میں اضافہ کر دیا ہے، جو اپنی بیٹیوں کی شادی کے حوالے سے فکرمند نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈاکٹر دلہن خاندانی مرتبے میں اضافے کا سبب ہوتی ہے لیکن شادی کے معاملے میں ہمیں اسے معیار نہیں بنانا چاہئے۔

محمدر فیق مانگٹ
جناب ايك مشور ہے اگر مانے تو اگر آپ اس شعبے کو مرد اور خواتین کے الگ الگ کر دیں تو پھر والدین کو اور اس کے سسرال والوں کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا ، بہت سارےلوگ صرف مخلوط ماحول کی وجہ سے اپنی لرکیوں کو داکٹر نہین بناتے ۔ اگر کوئی مجبوری نہ ہو عورت کا علاج عورت کو اور مرد علاج مرد کو ہی کرنا چاہیے اگر یہ کام کر لیا جائے تو خاطر خواہ فائدہ ہو سکتا ہے
 

غازی

رکن
شمولیت
فروری 24، 2013
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
183
پوائنٹ
90
خواتین کا ڈاکٹر بننا بھی بہت ضروری ہے۔
تاکہ خواتین کے علاج کے لئے مردوں کے پاس نہ جانا پڑے۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
خواتین کا ڈاکٹر بننا بھی بہت ضروری ہے۔
تاکہ خواتین کے علاج کے لئے مردوں کے پاس نہ جانا پڑے۔
ہم نے کب کہا کہ خواتین ڈاکتر نہ بنے ہم تو کہتے ہیں کہ یہ مخلوط ما حول ختم کر دو پھر شریف لوگ بھی اپنی بیٹیوں کو خوشی سے ڈاکٹر بنائیں گے
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
بلکل ایسا ہی ہے۔۔۔کنعان بھائی "سٹیٹس " کے جنون نے اندھا کر دیا ہے ہمارے معاشرے کو۔
شادی کے معاملے میں معیار صرف دین ہے۔اللہ ہدایت دے۔آمین
 
Top