• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دنیا کی مشہور دیوار

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
دنیا کی مشہور دیوار


دیوارِ گریہ

یہودیوں کی مشہور دیوارِگریہ اور مسلمانوں کی اس سے بھی معروف دیوارِبراق قدیم یروشیلم کے مغربی حصہ پر واقع ہے۔ دیوارِ گریہ یہودیوں کے لئے وہ مقدس مقام ہے جہاں بیٹھ کر وہ اپنے ماضی اور اپنی کمزوریوں کو یاد کر کے پشیمان ہوتے ہیں۔ یہودیوں کا موقف ہے کہ دراصل گرجا گھر کی بارہا تباہیوں کے بعد گرجا گھر کا کوئی بھی حصہ اگر مکمل تباہی سے بچا رہ جاتا تھا تو وہ یہی دیوارِ گریہ تھی۔ کئی یہودی علما کا یہ بھی کہنا ہے کہ دیوارِگریہ کی تعمیر حضرت سلیمانؑ نے عظیم گرجا گھر کے ساتھ ہی کی تھی اس لئے یہ اس عظیم گرجا گھر کا ہی حصہ ہے۔ یہودی لیٹ اینٹیقٹی کے ایک تاریخی حوالے کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ چاہے سارا گرجا گھر تباہ ہو جائے یہ دیوار ضرور بچی رہے گی۔ان کے مطابق اس کی طرف منہ کر کے خاموشی سے دعا کرتے ہوئے رونے کی صورت میں دعا ضرور قبول ہو گی۔


یہودی یہاں آتے ہیں، روتے ہیں۔ اپنی پیغامات چھوڑ جاتے ہیں۔ اسے چومتے ہیں ۔ اس مقدس جگہ پر جوتے اتارنے کا حکم ہے مگر حیران کن طور پر معذور افراد گائیڈ کرنے والے کتوں کی مدد سے یہاں چل پھر سکتے ہیں۔ ایک خواجہ سرا یہودی کو یہاں نہ زنانہ حصے سے اندر گھسنے کی اجازت دی گئی اور نہ مردانہ۔ اس کی درزوں میں انگلی ڈالنے کی ممانعت ہے کہ اس کی درزیں مقدس سمجھی جاتی ہیں۔ یہودی یہاں پر کپڑے بھی سیتے ہیں۔

دیوارِ گریہ کی تاریخ


عہد نامہ قدیم کے مطابق مصر سے نکلنے کے بعد یہودی کئی سال حالتِ سفر میں رہے۔ اور بہت سی سفری صعوبتوں کو برداشت کیا۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے حضرت داودؑ کو نبوت کے درجے پر فائز کیا اور آل عمران کی بادشاہت بخشی۔ یہودی اب تک اپنے مقدس اوراق اور زیارات اپنے ساتھ رکھنے کے عادی تھے چنانچہ حضرت داودؑ نے اللہ تعالیٰ سے ایک مستقل مستقر کی فرمائش کی تو اللہ تعالیٰ نے فلسطین کے خطے کو پسند فرمایا۔ مگر یہودیوں کے مقدس عظیم گرجا گھر کی تعمیر فرزندِ داودؑ حضرت سلیمانؑ نے کی۔

کہتے ہیں 586 قبلِ مسیح میں بابلیوں نے جب یروشیلم پر حملہ کیا تو انہوں نے یروشیلم اور اس کے عظیم گرجا گھر کو مکمل طور سے اس طرح سے تباہ کر دیا کہ عظیم گرجا گھر تو کیا شہر تک کا نام و نشان مٹ گیا۔ اس واقعے کا ذکر عہد نامہ جدید میں بھی آتا ہے۔ بہرحال کہتے ہیں کہ ستر سال بعد 516 قبلِ مسیح میں گرجا گھر کی دوبارہ تعمیر کی گئی۔


انیس قبل مسیح میں روم کے کٹھ پتلی حکمران ہیروڈ عظیم نے گرجا کی تعمیرِنو کی اور اس کو مزید وسیع کر دیا تو اس کے مغربی کنارے پر ایک دیوار تعمیر کی۔ یہودیوں کے مطابق موجودہ مغربی دیوارِ گریہ اسی دیوارکی باقیات ہے اور اسی کی بنیادوں پر تعمیر ہے۔ یہاں ایک اور اہم بات کہ یہودی، عیسائی اور رومن مورخوں کے مطابق ۷۰ عیسوی میں پہلی یہودی روما جنگ کے بعد رومن نے عظیم گرجا گھر سمیت پورے یروشیلم کی اس طرح سے اینٹ سے اینٹ بجائی کہ شہر کا نام و نشان مٹ گیا اور یہودیوں کا یروشیلم میں داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا۔


تین سو سال بعد سلطنت روما کے کرسچین ہو جانے کے بعد یہودیوں کو سال میں صرف ایک بار”آو” کے ماہ کی نو تاریخ کو یروشیلم میں داخلے کی اجازت مل گئی۔ اس وقت، جی ہاں سال میں صرف ایک بار یہودی یروشیلم میں داخل ہوتے مغربی حصے پر آتے، روتے، مذہبی رسوم ادا کرتے، کپڑے وغیرہ سیتے اور روتے دہوتے واپس چلے جاتے، یہی وہ مقام تھا جہاں دیوارِ گریہ موجود ہے۔


سال 425 عیسوی میں گلیلیو کے یہودی نے رومن حکمرانوں سے یروشیلم میں دوبارہ داخل ہونے اور رہنے کی اجازت مانگی جو بالآخر دے دی گئی۔

جب مسلمانوں نے عہدِ فاروقی میں قبلہ اول بنا خون بہائے فتح کر لیا تو یہودیوں کو زیادہ آزادی حاصل ہو گئی۔ مسلمان کہتے ہیں موجودہ دیوارِ گریہ ہی وہ مقام ہے جسے حضرت عمر رضی اللہ تعالی نے بطورِ دیوارِ براق شناخت کیا تھا جہاں سرکارِ دوجہاں نبی پاک ﷺ نے معراجِ پاک کے موقع پراپنا فرس باندھا تھا۔ چنانچہ دیوارِ گریہ کا مقام مسلمانوں کے لئے بھی مقدس قرار پایا۔مسلمان علما کا موقف ہے کہ یہودیوں کی دیوارِ گریہ کا اصل مقام تو شہر کی تباہی کے بعد گم چکا ہے جب کہ مسلمانوں کے قبضے میں آنے کے بعد سے کبھی بھی شہر کو تہہ و بالا نہیں کیا گیا۔اور یہ شہر اسی طرح سے آباد ہے ماسوائے صلیبی جنگوں کے جب کرسچین نے شہر پر قبضے کے باوجود عمارات کو تباہ و برباد نہیں کیا۔ سلطان صلاح الدین اور اسکے جانیشینوں اور بعد ازاں ترکی سلطانوں اور خلیفہ نے اس مقدس شہر کے لئے آزاد پالیسی رکھی اور تمام قوموں، رنگ نسلوں اور مذہب کے لوگوں کو یروشیلم میں آزادانہ آنے جانے کی اجازت دے دی۔

یہ نیکی تھی یا غلطی ترک سلطانوں نے 1496 میں سپین سے بے دخل ہونے والے یہودیوں کو بھی یروشیلم میں رہائش کی اجازت دے دی۔ سلطان سلیمان عالیشان نے تو یروشیلم کی حالت دیکھ کر اس دور کے مکمل شہر اور آج کے قدیم شہر کے گرد ایک مکمل فصیل کی تعمیر کا حکم دے دیا۔ کہتے ہیں اس نے تو عظیم قدیم گرجا گھر کی بنیادوں کی تلاش کی بھی سعی لا حاصل کی۔ کئی یہودی علما کی کتب میں سلیمان عالیشان کی ان کوششوں کا ذکر ہے۔ اس نے ناصرف یہودیوں کو یہاں رہنے کی اجازت دی بلکہ انہیں یہاں عبادت کی بھی اجازت مل گئی۔


یوں 1625 میں یہاں پہلی بار یہودیوں کے ماتم کا باقاعدہ ریکارڈڈ آغاز ہوا۔ عظیم گرجا سے متصل مراکش راہداری کے نام کی جگہ سے یہودیوں کو یہاں آنے جانے کی اجازت بھی مل گئی۔ اجازت ملنے کے بعد یہاں مقدس اوراق اور زیارات بھی یہودی عوام کو دکھائی جانے لگیں تو رش بڑھنے کے ساتھ ساتھ شور و غوغا بھی بڑھنے لگا۔ بالآخر سلطنت ِترک کے مقامی گورنر خدیوو ابراہیم پاشا نے 1840 کے ایک فرمان کے ذریعے یہاں پر رش لگانے اور شور کرنے پر پابندی لگا دی۔


سال 1889 میں ترک خلیفہ حمید نے یہودیوں کو بے ضرر جانتے ہوئے انہیں ان کی مذہبی عبادتگاہوں میں آنے جانے اور عبادت کرنے کی مکمل آزادی دے دی۔ اس کے بعد کئی صاحبِ حثیت یہودیوں نے دیوارِ گریہ کے نواحی علاقے کو خریدنے کی آفر کیں مگر ایسا نہ ہو پایا۔ پہلی جنگِ عظیم کے دوران عربوں کے زیرِ اثر ترکوں نے یہودیوں کے آنے جانے اور موم بتیاں جلانے کی بھی پابندی لگا دی۔ پہلی جنگِ عظیم کا اختتامی حصہ تھا اور برٹش نے یروشیلم بالآخر ترکوں سے چھین لیا۔ یہودیوں نے کچھ ہی عرصے بعد دیوار سے ملحقہ علاقوں کو خریدنے کی آفر کر دی۔ یہودیوں کی گرینڈ کونسل اور امریکہ میں مقیم یہودی کروڑ پتی پیسہ پانی کی طرح بہانے کو تیار تھے۔ مگر برٹش نے معاملے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ایسا نہ کیا۔
سال 1920 میں پہلی دفعہ دیوار کی وجہ سے مسلم یہودی فسادات کا خدشہ محسوس کیا گیا اگرچہ معاملہ پر امن طریقے سے ہی نبٹ گیا۔
انگریزوں نے 1922 سے ہی دیوارِ گریہ کے پاس کرسیاں رکھنے اور عورتوں اور مردوں کے علیحدہ حصے بنانے پر پابندی لگا رکھی تھی۔
سال 1928 میں یہودیوں نے جب برملا اس حکم کی نفی کی تو برٹش فوجیوں کو سختی کرنا پڑی۔ یہودیوں کی نیت سے واقف مسلمانوں نے یکجہتی کا مظاہرہ کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہودیوں کی نیت اس بہانےعظیم گرجا گھر اور اسکے ساتھ ساتھ مسجدِ اقصیٰ پر قبضہ جمانے کی بھی ہے۔
1929 میں بات عرب یہودی فسادات پر جا پہنچی۔ برٹش نے معاملات کو سلجھانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے۔


بالآخر 1930 میں برٹش نے معاملے کو ایک معاہدے کی طرز پر سلجھانے کی کوشش کی اور ہر دو فریق کے حصوں کی حد بندی کر دی گئی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برٹش نے شورش زدہ اور جھگڑے والے علاقوں سے نکلنے کا فیصلہ کیا ۔
سال1948 کی پہلی عرب اسرائیلی جنگ کے عالمی طاقتوں کے تصفیے کے بعد بعد یروشیلم کا دیوارِ گریہ کا حصہ اردن کے حصے آ گیا۔
مگر ۱۹۶۷ کی چھ روزہ عرب اسرائیلی جنگ کے بعد یہودی اس دیوار اور اس سے ملحقہ علاقوں پر آسانی سے قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
پانچویں اسرائیلی وزیر نے اس فتح کو عظیم کامیابی قرار دیتے ہوئے مراکش راہداری اور تمام ملحقہ حصون کو گرا کر یہودی عمارات کی تعمیر کا حکم دیا جسے فوری پورا کیا گیا۔

اور تب سے اب تک یہ دیوار یہودیوں کی عبادت گاہ بلکہ گریہ گاہ ہے۔ وہ یہاں آتے ہیں، روتے ہیں، گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔ مسلمان کہتے ہیں کہ یہ تو وہ دیوار ہی نہیں جو یہودی اسے سمجھتے ہیں وہ تو تاریخ کے حادثات میں کھو چکی ہے، دوسرا اس کا یہودیوں کے مذہب سے بنیادی اور اصولی طور پر کوئی لینا دینا ہی نہیں کیونکہ خود یہودیوں کی تاریخ کے مطابق ہیروڈ عظیم ایک نیم پاگل سا حکمران تھا جس نے اپنے پورے خاندان کو قتل کر ڈالا۔

خرم عزیز، لاہور، نیو پیپر

ح
 
Top