• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دنیا کے و ہ10 مقامات جو گوگل آپ سے چھپانا چاہتاہے

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
966
ری ایکشن اسکور
2,912
پوائنٹ
225
نیویارک(نیوزڈیسک)آپ گوگل ارتھ پر بہت مزے سے دنیا بھر کے نقشے اور تصاویر دیکھتے ہیں۔اصل میں یہ تمام نقشے خلائی سیٹیلائیٹ سے بنائی جاتی ہیں اور ہمیں یہ علم ہوتا رہتا ہے کہ فلاں جگہ کیا چیز ہے یا فلاں جگہ کیسی ہے۔ لیکن دنیا میں کچھ مقامات ایسے بھی ہیں جو گوگل آپ کو نہیں دکھاتا جس کی مختلف وجوہات ہیں جیسے سیکیورٹی اور اس ملک کی درخواست جہاں یہ مقامات واقع ہیں۔آئیے آپ کو کچھ ایسے ہی مقامات کے بارے میں بتاتے ہیں۔


شمسی ائیر فیلڈ،پاکستان
2009ءمیں کچھ ایسی تصاویر دکھائی گئیں جن سے اندازہ ہوا کہ امریکہ کے ڈرون اس ائیر فیلڈ میں کھڑے ہیں جس کے بعد پوری دنیا میں بہت واویلا مچا جبکہ گوگل نے یہ تصاویر اور علاقے کو گوگل ارتھ میں blurrکردیا۔

Severnaya Zemlya،روس
اگر آپ روس میں واقع بحر منجمد شمالی کو دیکھیں تو آپ کو کبھی بھی یہ علاقہ واضح نظر نہیں آئے گا بلکہ اس پر برف نظر آئے گی۔حقیق میں یہ برف نہیں ہے بلکہ گوگل نے یہ علاقہ لوگوں کی نظروں سے چھپا رکھا ہے۔

تائیوان کے فوجی تنصیبات

سیکیورٹی وجوہات کی وجہ سے تائیون کی حکومت نے گوگل کو درخواست کی تھی کہ ان کی تنصیبات کو گوگل ارتھ پر نہ دکھایا جائے کہ اس طرح ان کے دشمنوں کو فائدہ ہو سکتا ہے۔

امریکہ اور میکسیکو کا بارڈر
یہ علاقہ امریکہ اور میکسیکو کے درمیان انسانی اور منشیات کی سمگلنگ کی وجہ سے بہت مشہور ہے اور جرائم پیشہ عناصر اس کے بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں لہذا اس علاقے کو گوگل نے دھندلا دیا ہے تا کہ سمگلرز کو کوئی مدد نہ مل سکے۔

مارکولی نیوکلئیر پلانٹ،فرانس
اس پلانٹ میں یورینیم اور پلوٹینیم کا ذخیرہ ہے جبکہ ماضی میں یہاں نیوکلیائی پلانٹ بھی تھا۔سیکیورٹی وجوہات کی بناءپر فرانس نے اس علاقے کو گوگل سے درخواست کے بعد دھندلا دیا ہے۔

وولکل ائیر بیس، نیدر لینڈز
ہالینڈ میں فوجی سرگرمیاں اکثر مشکوک رہی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اس ائیر بیس میں 22نیوکلیائی ہتھیار رکھے گئے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ یہ بم ہیروشیما اور ناگا ساکی پر گرائے گئے بموں سے چار گنا زیادہ طاقتور ہیں۔

پورٹ لاوﺅز جیل، آئرلینڈ
اس جیل میں آئر لینڈ کے خطرناک ترین قیدی رکھے گئے ہیں لہذااس کی حفاظت کے لئے ہر وقت فوجی دستے گشت کرتے رہتے ہیںجبکہ کسی بھی طرح کے جہاز کو یہاں آنے کی پابندی ہے۔جبکہ گوگل ارتھ پر دکھائی جانے والی تصاویر دس سال پرانی ہیں۔

میشائل اے اے ایف بلڈنگ،یوٹا،امریکہ
اس عمارت کے گرد 48مربع کلومیٹر تک صحرا ہے ۔یہ علاقہ دوسری جنگ عظیم میں نیوکلیائی اور کیمیائی ہتھیاروں کو جانچنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔کہا جاتا ہے کہ اب بھی یہاں کچھ ایسی سرگرمیاں کی جاتی ہیں جس کی وجہ سے اس علاقے کو گوگل ارتھ پر دھندلا دیا گیا ہے۔


سپین
جنوبی سپین کے علاقے El Ejidoکو سفید کرکے بالکل دھندلا دیا گیا ہے۔کہا جاتا ہے کہ یہاں سپین اپنی فوجی سرگرمیاں سرانجام دیتا ہے جس کی وجہ سے اسے نہیں دکھایا جاتا۔
  1. HAARP،اٹلانٹا
امریکی تحقیقاتی ادارے میں 180موسمیاتی انٹیناءلگائے گئے ہیں ۔اس ادارے کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہاں سے بیٹھ کردنیا کے لوگوں کے دماغ کو کنٹرول کرنے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں 2010ءکے سیلاب بھی یہاں سے بیٹھے موسمیاتی کنٹرول کے ذریعے لائے گئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
یہ جو آخر 10نمبر میں ہے اس پر اہل علم کچھ فرمائیں گے تو بہت مہر بانی ہو گی جزاک اللہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
HAARP
High Frequency Active Auroral Research Program
کا مخفف ہے۔
اس موضوع کو سمجھنے کے لیے پہلے آپ کو
ہائی highفریکوئنسی
اور
لو lowفریکوئنسی، وغیرہ
کے بارے میں بنیادی باتیں جاننا ہوں گی۔
بہرحال آسان مثال سے سمجھا دیتا ہوں۔
مائیکرو ویو اوون کا استعمال تو آپ جانتے ہی ہیں جس میں کھانا وغیرہ گرم کیا جاتا ہے۔
یہ آلہ ایک ہائی فریکوئنسی پیدا کرتا ہے جس کی وجہ سے کھانے کے اجزاء میں زبردست قسم کا ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور اس ارتعاش کی بناء پر کھانے کے اجزاء آپس میں رگڑ کھاتے ہیں اور یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ کسی بھی چیز کو جب رگڑا جاتا ہے تو وہ گرم ہوجاتی ہے۔ اس لیے کھانے کے اجزاء بھی آپسی رگڑ کی وجہ سے گرم ہوجاتے ہیں۔
مزید جاری رہے گا، ان شاء اللہ!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
محترم ہابیل بھائی!
لیں جی ایک مضمون اس بارے میں مل گیا ہے جس کی وجہ سے میرا وقت بچ گیا ہے۔ اس مضمو ن کو آسان فہم بنانے کی کوشش بھی کی ہے۔

بنیادی طور پر ہارپ (HAARP)امریکی ریاست الاسکا میں چلنے والے ایک ریسرچ پروجیکٹ کا نام ہے جو 23 سے 35 ایکڑ رقبے پر لگائے گئے 180ٹاورز اور انٹینوں پر مشتمل ہے، جس سے 3بلین واٹ طاقتور برقناتیسی لہریں(Electromagnetic waves) پیدا کی جا سکتی ہیں۔ ہارپ (HAARP) انگلش کے الفاظ "ہائی فریکوئنسی ایکٹیو ایرورل ریسرچ پروگرام....High Frequency Active Auroral Research Program.... کا مخفف ہے۔
اس پروجیکٹ کی بنیاد 1993ءمیں رکھی گئی، جس کے مقاصد میں مصنوعی موسمی تبدیلیوں ، زمینی ذخائر کی تلاش اور وائرلیس کمیونیکیشن کی ٹیکنالوجی کا حصول تھا۔ سائنس کے بین الاقوامی قوانین کے مطابق کسی بھی نئی سائنسی ایجاد کو رجسٹر کروانا اور اس کی بنیادی تشریح کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس پروجیکٹ سے متعلق کچھ کامیابیوں کو بین الاقوامی سائنسی Patents میں 1995ءسے 2000ءکے درمیان رجسٹر کروایا گیا، جن کی تعداد تقریباََ 12ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا یہ ٹیکنالوجی مکمل طور پر انسانیت اور انسانی معاشروں کے لئے فائدہ مند اور محفوظ ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب اس موضوع میں مل سکے گا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کی بنیادی سائنس کیا ہے ؟
1۔ زمین کے اوپر فضا کی مختلف تہوں میں سے ایک تہہ کا نام آئنوسفیرIonospher ہے جس کی موٹائی سطح زمین سے 70سے 300کلو میٹر تک ہے، جو بے شمارمثبت اور منفی آئنز پر مشتمل ہے۔ الاسکا میں موجود اس پروجیکٹ کے کیمپ سے مختلف پاور اور فریکوئنسی کی Electromagnetic Wavesکو بڑے Antennasکی مدد سے Ionosphere میں بھیجا جاتا ہے، جس سے وہاں بہت زیادہ مصنوعی حدت پیدا کر کے موسم میں غیر معمولی تبدیلیاں پیدا کی جاتی ہیں۔ اس کی مدد سے ایک طرف کسی خطے کو بارشوں سے بالکل محروم کر کے بنجر بنایا جا سکتا ہے اور دوسری طرف کسی خطے میں حد سے زیادہ بارشوں سے مصنوعی سیلاب بھی پیدا کیا جا سکتا ہے۔
2۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے دنیا کے مختلف خطوں میں زیر زمین ذخائر کی موجود گی اور ان کی مقدار کا اندازہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لئے مختلف فریکوئنسی اور پاور کیElectromagnetic waves زمین میں موجود Tectonic plates سے ٹکرا ئی جاتی ہیں اور ٹکرا کر واپس آنے والی ویوز سے مطلوبہ معلومات اخذ کی جاتی ہیں۔ تیل ، گیس اور دوسرے زیر زمین ذخائر کی تلاش کے لئے بھیجی جانے والی ویوز کی انرجی مختلف رکھی جاتی ہے، اس لئے ان ویوز کی مدد سے زیرِ زمین ایسی جگہ، جہاں زلزلے کے امکانات پہلے سے پائے جاتے ہیں: اُن کو Trigger کیا جا سکتا ہے ۔ مزید برآں اس ٹیکنالوجی سے زلزلے پیدا کرنے کے حوالے سے سائنسدانوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
3۔ اس پروجیکٹ کی مدد سے Ionosphereکا درجہ حرارت بہت زیادہ بڑھا دیا جاتا ہے۔ جس سے.... انتہائی کم سطح کی فریکوئنسی کی لہریں پیدا کر کے اُن کا رُخ زمین کی طرف موڑ دیا جاتا ہے ۔ ای ایل ایف ویوز کی خاصیت یہ ہے کہ وہ ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرنے کے باوجود پھیلتی نہیں ہیں (یعنی ان کا پھیلاؤ بہت کم ہوتا ہے)اور اپنی توانائی ضائع نہیں کرتیں۔ اس لئے ان کی مدد سے انرجی کی بہت بڑی مقدار کو زمین یا فضا کے کچھ حصے پر فوکس کر کے منتقل کر نے سے بہت زیادہ درجہ حرارت کا پلازمہ ( مادہ کی چوتھی شکل جو بہت زیادہ آئنز اور الیکٹرانز پر مشتمل ہوتی ہے ) پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اس سے جنگلوں میں آگ لگائی جا سکتی ہے ، اڑتے جہاز کے انجن کو آگ لگا کر گرایا جا سکتا ہے اور گلیشئیرز کو مصنوعی طور پر پگھلا کر سیلاب پیدا کئے جا سکتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
4۔ انسانی ذہن اور دل بہت کم فریکوئنسی کی ویوز پیدا کرتے ہیں، کیونکہ اس ٹیکنالوجی سے Indirectطریقے سے ELFویوز پیدا کی جا سکتی ہیں، اس لئے حیات دانوں کا کہنا ہے کہ اگر زمین یا زمین کی فضا میں بہت بڑے پیمانے پر ان ویوز کا استعمال کیا گیا تو وہ انسانی ذہن اور دماغ کو متاثر کر سکتی ہیں، جس کے نتائج انسانی صحت کے لئے خطرناک ثابت ہوں گے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے انسانیت کو کیا ممکنہ خطرات لاحق ہو سکتے ہیں؟ کیونکہ اس پروجیکٹ کو امریکی ڈیفنس اتھارٹی کی مالی معاونت حاصل ہے، اس لئے اس پروجیکٹ سے حاصل ہونے والی ٹیکنالوجی کا اسی ادارے کے پاس ہونا بھی یقینی ہے جو اس کا استعمال اپنے کسی بھی بین الاقوامی سیاسی ، معاشی اور ملٹری جارحانہ مقصد کے حصول کے لئے کر سکتے ہیں۔ بین الاقوامی سائنسی Patentsکی روشنی میں سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ اس ٹیکنالوجی سے غیر معمولی موسمی تبدیلیاں پیدا کر کے شدید بارشیں، طوفان اور سیلاب پیدا کئے جا سکتے ہیں، لیکن آیا اس ٹیکنالوجی سے زلزلے پیدا کئے جا سکتے ہیں ؟ یہ وہ سوال ہے جس میں سائنسدانوں میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے، کیونکہ سائنسدانوں کی یہ رائے سائنسی Patentsکی روشنی میں ہے، اس لئے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس ریسرچ کے بہت زیادہ خفیہ کام کو ان Patents کا حصہ نہ بنایا گیا ہو اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ بہت زیادہ خفیہ کام کو کوئی بھی ادارہ سائنسی میگزین میں شائع کرنے کی اجازت نہیں دیتا، لیکن میرے خیال میں اگر کسی جگہ زلزلے کے زیرزمین امکانات پہلے سے موجود ہیں تو اس کو قبل از وقت اس ٹیکنالوجی کی مدد سے حرکت ضرور دی جاسکتی ہے
مجموعی طور پر ایشیا آج ابھرتی طاقت ہے جو مستقبل میں امریکہ سمیت پورے یورپ کے لئے ہر میدان میں چیلنج ثابت ہو سکتا ہے، اس لئے ایشیا کی ابھرتی طاقتوں کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے اور ایشیا میں امریکی طفیلی ریاستوں کو اپنے ہاتھ سے نکلنے سے روکنے کے لئے اس ٹیکنالوجی کے استعمال کی آراءبہرحال موجود ہیں۔ Patentsکی روشنی میں امریکہ یہ ٹیکنالوجی 2000ءکے آخر تک حاصل کر چکا تھا، اس لئے 2000ءسے اب تک ایشیا کے مختلف خظوں میں آنے والے سیلاب، طوفان اور غیر معمولی موسمی تبدیلیاں تمام سوالیہ نشان ہیں اور ان کے پیچھے اس ٹیکنالوجی کے استعمال کا قیاس بہر کیف موجود ہے۔ جیسے افغانستان میں 2002ءمیں آنے والا زلزلہ، پاکستان میں 2005ءمیں آنے والا زلزلہ اور 2010ءکا سیلاب، جس میں 70ارب ڈالر کا نقصان ہوا، فطری نہیں تھے۔ چین میں 2008ءاور 2010ءمیں آنے والے زلزلے ، جاپان میں2011ءمیں آنے والے سونامی اور زلزلے بھی مصنوعی نظر آتے ہیں۔
سائنس اور ٹیکنالوجی انسانیت کی مشترکہ میراث ہے، یعنی ان کی ترقی سے انسانیت کو بحیثیت مجموعی فائدہ پہنچنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ ایک محدود طبقہ تو اس سے فائدہ اٹھائے اور باقی اکثریتی طبقے کے لئے وہ عذاب ثابت ہو۔ سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے سرپرست امریکہ کی انسان دشمن پالیسیوں میں جنونیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ دنیا میں سب سے پہلے ایٹم بم کا استعمال، پھر ہارپ ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے والا وہ واحد ملک ہے۔ امریکہ کوپہلے کسی دوسرے ملک پر حملہ کرنے کے لئے UNOسے کوئی Resolutionپاس کروانا پڑتی ہے یا دوسرے ممالک کو اعتماد میں لینا پڑتا ہے، لیکن اس ٹیکنالوجی کے استعمال کے لئے اسے اس تکلیف دہ عمل سے گزرنے کی ضرورت نہیں پڑتی، وہ دنیا کو بے خبر رکھتے ہوئے کسی بھی ملک کے خلاف اس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتا ہے۔ اس پروجیکٹ کے تمام Parametersکا اندازہ تو شائد نہیں، لیکن اس پروجیکٹ کے خطرات کا علم اکثر ممالک کو ہے۔ اسی سلسلے میں یورپی یونین ایک قرارداد پاس کر چکی ہے کہ امریکہ اس پروجیکٹ پرمزید کام اس وقت تک روک دے، جب تک اس کے انسانی صحت اور ماحول پر اثرات کا مکمل جائزہ نہ لے لیا جائے۔ اسی طرح چین، روس ، ایران اور وینزویلا بھی اس پروجیکٹ پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم امریکہ کا مقابلہ اور امریکہ کی اس جیسی دیگر انسانیت کش ٹیکنالوجیز کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟ یہ بات واضح ہے کہ سائنس، ٹیکنالوجی اور ملٹری میدانوں میں ہم اس سے بہت پیچھے ہیں، لیکن اقتصادی اور سیاسی میدان متبادل راستہ ہو سکتے ہیں ۔ اس سلسلے میں ایشیائی اقوام بشمول پاکستان ،کو چاہیے کہ وہ پہلے مرحلے میں امریکی سامراج سے مکمل سیای و اقتصادی آزادی حاصل کریں اور سامراجی بلاک سے نکل کر علاقائی بلاک میں شامل ہوں۔ دوسرے مرحلے میں یورپی یونین کی طرز پر ایشیا میں علاقائی ممالک پر مبنی ایشیاٹک فیڈریشن کی بنیاد رکھی جائے۔ جہاں سے مشترکہ سیاسی، اقتصادی اور تجارتی پالیسیاں بنائی جائیں اور بین الاقوامی مارکیٹ میں اپنی مشترکہ کرنسی کا اجراءکیا جائے تا کہ بین الاقوامی مارکیٹ اور ایشیا میں جو بڑی منڈی ہے۔ ڈالر کو شکست دی جا سکے ۔ ایشیا میں علاقائی ممالک پر مشتمل تنظیم کا پیدا ہونا امریکہ کی ایشیا میں سیاسی شکست ہے۔ اس طرح اس پلیٹ فارم سے کی جانے والی مشترکہ معاشی اور تجارتی پالیسیوں سے امریکہ کو معاشی شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایشیا سے امریکی سیاست اور معیشت کی شکست کا مطلب اس کی بین الاقوامی اجارہ داری کا خاتمہ ہے
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
مائیکرو ویو اوون کا استعمال تو آپ جانتے ہی ہیں جس میں کھانا وغیرہ گرم کیا جاتا ہے۔
یہ آلہ ایک ہائی فریکوئنسی پیدا کرتا ہے جس کی وجہ سے کھانے کے اجزاء میں زبردست قسم کا ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور اس ارتعاش کی بناء پر کھانے کے اجزاء آپس میں رگڑ کھاتے ہیں اور یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ کسی بھی چیز کو جب رگڑا جاتا ہے تو وہ گرم ہوجاتی ہے۔ اس لیے کھانے کے اجزاء بھی آپسی رگڑ کی وجہ سے گرم ہوجاتے ہیں۔
مزید جاری رہے گا، ان شاء اللہ!
اس کی مثال کو سمجھانے کے لیے کوئی ویڈیو کا ربط دے دیں ، تاکہ ہم خود بھی مشاہدہ کرسکے ۔ اگر ممکن ہو ۔
 
Last edited by a moderator:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اس کی مثال کو سمجھانے کے لیے کوئی ویڈیو کا ربط دے دیں ، تاکہ ہم خود بھی مشاہدہ کرسکے ۔ اگر ممکن ہو ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اور یہاں پر مزید ویڈیوز موجود ہیں۔
میرے خیال سے فورم پر پہلی مرتبہ وڈیو شئیر کی ہے کوئی غلطی ہو تو بتا دیں۔ جزاک اللہ خیرا۔
 

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
966
ری ایکشن اسکور
2,912
پوائنٹ
225
3۔ اس پروجیکٹ کی مدد سے Ionosphereکا درجہ حرارت بہت زیادہ بڑھا دیا جاتا ہے۔ جس سے.... انتہائی کم سطح کی فریکوئنسی کی لہریں پیدا کر کے اُن کا رُخ زمین کی طرف موڑ دیا جاتا ہے ۔ ای ایل ایف ویوز کی خاصیت یہ ہے کہ وہ ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرنے کے باوجود پھیلتی نہیں ہیں (یعنی ان کا پھیلاؤ بہت کم ہوتا ہے)اور اپنی توانائی ضائع نہیں کرتیں۔ اس لئے ان کی مدد سے انرجی کی بہت بڑی مقدار کو زمین یا فضا کے کچھ حصے پر فوکس کر کے منتقل کر نے سے بہت زیادہ درجہ حرارت کا پلازمہ ( مادہ کی چوتھی شکل جو بہت زیادہ آئنز اور الیکٹرانز پر مشتمل ہوتی ہے ) پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اس سے جنگلوں میں آگ لگائی جا سکتی ہے ، اڑتے جہاز کے انجن کو آگ لگا کر گرایا جا سکتا ہے اور گلیشئیرز کو مصنوعی طور پر پگھلا کر سیلاب پیدا کئے جا سکتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
4۔ انسانی ذہن اور دل بہت کم فریکوئنسی کی ویوز پیدا کرتے ہیں، کیونکہ اس ٹیکنالوجی سے Indirectطریقے سے ELFویوز پیدا کی جا سکتی ہیں، اس لئے حیات دانوں کا کہنا ہے کہ اگر زمین یا زمین کی فضا میں بہت بڑے پیمانے پر ان ویوز کا استعمال کیا گیا تو وہ انسانی ذہن اور دماغ کو متاثر کر سکتی ہیں، جس کے نتائج انسانی صحت کے لئے خطرناک ثابت ہوں گے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے انسانیت کو کیا ممکنہ خطرات لاحق ہو سکتے ہیں؟ کیونکہ اس پروجیکٹ کو امریکی ڈیفنس اتھارٹی کی مالی معاونت حاصل ہے، اس لئے اس پروجیکٹ سے حاصل ہونے والی ٹیکنالوجی کا اسی ادارے کے پاس ہونا بھی یقینی ہے جو اس کا استعمال اپنے کسی بھی بین الاقوامی سیاسی ، معاشی اور ملٹری جارحانہ مقصد کے حصول کے لئے کر سکتے ہیں۔ بین الاقوامی سائنسی Patentsکی روشنی میں سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ اس ٹیکنالوجی سے غیر معمولی موسمی تبدیلیاں پیدا کر کے شدید بارشیں، طوفان اور سیلاب پیدا کئے جا سکتے ہیں، لیکن آیا اس ٹیکنالوجی سے زلزلے پیدا کئے جا سکتے ہیں ؟ یہ وہ سوال ہے جس میں سائنسدانوں میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے، کیونکہ سائنسدانوں کی یہ رائے سائنسی Patentsکی روشنی میں ہے، اس لئے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس ریسرچ کے بہت زیادہ خفیہ کام کو ان Patents کا حصہ نہ بنایا گیا ہو اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ بہت زیادہ خفیہ کام کو کوئی بھی ادارہ سائنسی میگزین میں شائع کرنے کی اجازت نہیں دیتا، لیکن میرے خیال میں اگر کسی جگہ زلزلے کے زیرزمین امکانات پہلے سے موجود ہیں تو اس کو قبل از وقت اس ٹیکنالوجی کی مدد سے حرکت ضرور دی جاسکتی ہے
مجموعی طور پر ایشیا آج ابھرتی طاقت ہے جو مستقبل میں امریکہ سمیت پورے یورپ کے لئے ہر میدان میں چیلنج ثابت ہو سکتا ہے، اس لئے ایشیا کی ابھرتی طاقتوں کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے اور ایشیا میں امریکی طفیلی ریاستوں کو اپنے ہاتھ سے نکلنے سے روکنے کے لئے اس ٹیکنالوجی کے استعمال کی آراءبہرحال موجود ہیں۔ Patentsکی روشنی میں امریکہ یہ ٹیکنالوجی 2000ءکے آخر تک حاصل کر چکا تھا، اس لئے 2000ءسے اب تک ایشیا کے مختلف خظوں میں آنے والے سیلاب، طوفان اور غیر معمولی موسمی تبدیلیاں تمام سوالیہ نشان ہیں اور ان کے پیچھے اس ٹیکنالوجی کے استعمال کا قیاس بہر کیف موجود ہے۔ جیسے افغانستان میں 2002ءمیں آنے والا زلزلہ، پاکستان میں 2005ءمیں آنے والا زلزلہ اور 2010ءکا سیلاب، جس میں 70ارب ڈالر کا نقصان ہوا، فطری نہیں تھے۔ چین میں 2008ءاور 2010ءمیں آنے والے زلزلے ، جاپان میں2011ءمیں آنے والے سونامی اور زلزلے بھی مصنوعی نظر آتے ہیں۔
سائنس اور ٹیکنالوجی انسانیت کی مشترکہ میراث ہے، یعنی ان کی ترقی سے انسانیت کو بحیثیت مجموعی فائدہ پہنچنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ ایک محدود طبقہ تو اس سے فائدہ اٹھائے اور باقی اکثریتی طبقے کے لئے وہ عذاب ثابت ہو۔ سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے سرپرست امریکہ کی انسان دشمن پالیسیوں میں جنونیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ دنیا میں سب سے پہلے ایٹم بم کا استعمال، پھر ہارپ ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے والا وہ واحد ملک ہے۔ امریکہ کوپہلے کسی دوسرے ملک پر حملہ کرنے کے لئے UNOسے کوئی Resolutionپاس کروانا پڑتی ہے یا دوسرے ممالک کو اعتماد میں لینا پڑتا ہے، لیکن اس ٹیکنالوجی کے استعمال کے لئے اسے اس تکلیف دہ عمل سے گزرنے کی ضرورت نہیں پڑتی، وہ دنیا کو بے خبر رکھتے ہوئے کسی بھی ملک کے خلاف اس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتا ہے۔ اس پروجیکٹ کے تمام Parametersکا اندازہ تو شائد نہیں، لیکن اس پروجیکٹ کے خطرات کا علم اکثر ممالک کو ہے۔ اسی سلسلے میں یورپی یونین ایک قرارداد پاس کر چکی ہے کہ امریکہ اس پروجیکٹ پرمزید کام اس وقت تک روک دے، جب تک اس کے انسانی صحت اور ماحول پر اثرات کا مکمل جائزہ نہ لے لیا جائے۔ اسی طرح چین، روس ، ایران اور وینزویلا بھی اس پروجیکٹ پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم امریکہ کا مقابلہ اور امریکہ کی اس جیسی دیگر انسانیت کش ٹیکنالوجیز کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟ یہ بات واضح ہے کہ سائنس، ٹیکنالوجی اور ملٹری میدانوں میں ہم اس سے بہت پیچھے ہیں، لیکن اقتصادی اور سیاسی میدان متبادل راستہ ہو سکتے ہیں ۔ اس سلسلے میں ایشیائی اقوام بشمول پاکستان ،کو چاہیے کہ وہ پہلے مرحلے میں امریکی سامراج سے مکمل سیای و اقتصادی آزادی حاصل کریں اور سامراجی بلاک سے نکل کر علاقائی بلاک میں شامل ہوں۔ دوسرے مرحلے میں یورپی یونین کی طرز پر ایشیا میں علاقائی ممالک پر مبنی ایشیاٹک فیڈریشن کی بنیاد رکھی جائے۔ جہاں سے مشترکہ سیاسی، اقتصادی اور تجارتی پالیسیاں بنائی جائیں اور بین الاقوامی مارکیٹ میں اپنی مشترکہ کرنسی کا اجراءکیا جائے تا کہ بین الاقوامی مارکیٹ اور ایشیا میں جو بڑی منڈی ہے۔ ڈالر کو شکست دی جا سکے ۔ ایشیا میں علاقائی ممالک پر مشتمل تنظیم کا پیدا ہونا امریکہ کی ایشیا میں سیاسی شکست ہے۔ اس طرح اس پلیٹ فارم سے کی جانے والی مشترکہ معاشی اور تجارتی پالیسیوں سے امریکہ کو معاشی شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایشیا سے امریکی سیاست اور معیشت کی شکست کا مطلب اس کی بین الاقوامی اجارہ داری کا خاتمہ ہے[/QUOTE]
محترم ہابیل بھائی!
لیں جی ایک مضمون اس بارے میں مل گیا ہے جس کی وجہ سے میرا وقت بچ گیا ہے۔ اس مضمو ن کو آسان فہم بنانے کی کوشش بھی کی ہے۔

بنیادی طور پر ہارپ (HAARP)امریکی ریاست الاسکا میں چلنے والے ایک ریسرچ پروجیکٹ کا نام ہے جو 23 سے 35 ایکڑ رقبے پر لگائے گئے 180ٹاورز اور انٹینوں پر مشتمل ہے، جس سے 3بلین واٹ طاقتور برقناتیسی لہریں(Electromagnetic waves) پیدا کی جا سکتی ہیں۔ ہارپ (HAARP) انگلش کے الفاظ "ہائی فریکوئنسی ایکٹیو ایرورل ریسرچ پروگرام....High Frequency Active Auroral Research Program.... کا مخفف ہے۔
اس پروجیکٹ کی بنیاد 1993ءمیں رکھی گئی، جس کے مقاصد میں مصنوعی موسمی تبدیلیوں ، زمینی ذخائر کی تلاش اور وائرلیس کمیونیکیشن کی ٹیکنالوجی کا حصول تھا۔ سائنس کے بین الاقوامی قوانین کے مطابق کسی بھی نئی سائنسی ایجاد کو رجسٹر کروانا اور اس کی بنیادی تشریح کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس پروجیکٹ سے متعلق کچھ کامیابیوں کو بین الاقوامی سائنسی Patents میں 1995ءسے 2000ءکے درمیان رجسٹر کروایا گیا، جن کی تعداد تقریباََ 12ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا یہ ٹیکنالوجی مکمل طور پر انسانیت اور انسانی معاشروں کے لئے فائدہ مند اور محفوظ ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب اس موضوع میں مل سکے گا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کی بنیادی سائنس کیا ہے ؟
1۔ زمین کے اوپر فضا کی مختلف تہوں میں سے ایک تہہ کا نام آئنوسفیرIonospher ہے جس کی موٹائی سطح زمین سے 70سے 300کلو میٹر تک ہے، جو بے شمارمثبت اور منفی آئنز پر مشتمل ہے۔ الاسکا میں موجود اس پروجیکٹ کے کیمپ سے مختلف پاور اور فریکوئنسی کی Electromagnetic Wavesکو بڑے Antennasکی مدد سے Ionosphere میں بھیجا جاتا ہے، جس سے وہاں بہت زیادہ مصنوعی حدت پیدا کر کے موسم میں غیر معمولی تبدیلیاں پیدا کی جاتی ہیں۔ اس کی مدد سے ایک طرف کسی خطے کو بارشوں سے بالکل محروم کر کے بنجر بنایا جا سکتا ہے اور دوسری طرف کسی خطے میں حد سے زیادہ بارشوں سے مصنوعی سیلاب بھی پیدا کیا جا سکتا ہے۔
2۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے دنیا کے مختلف خطوں میں زیر زمین ذخائر کی موجود گی اور ان کی مقدار کا اندازہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لئے مختلف فریکوئنسی اور پاور کیElectromagnetic waves زمین میں موجود Tectonic plates سے ٹکرا ئی جاتی ہیں اور ٹکرا کر واپس آنے والی ویوز سے مطلوبہ معلومات اخذ کی جاتی ہیں۔ تیل ، گیس اور دوسرے زیر زمین ذخائر کی تلاش کے لئے بھیجی جانے والی ویوز کی انرجی مختلف رکھی جاتی ہے، اس لئے ان ویوز کی مدد سے زیرِ زمین ایسی جگہ، جہاں زلزلے کے امکانات پہلے سے پائے جاتے ہیں: اُن کو Trigger کیا جا سکتا ہے ۔ مزید برآں اس ٹیکنالوجی سے زلزلے پیدا کرنے کے حوالے سے سائنسدانوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
3۔ اس پروجیکٹ کی مدد سے Ionosphereکا درجہ حرارت بہت زیادہ بڑھا دیا جاتا ہے۔ جس سے.... انتہائی کم سطح کی فریکوئنسی کی لہریں پیدا کر کے اُن کا رُخ زمین کی طرف موڑ دیا جاتا ہے ۔ ای ایل ایف ویوز کی خاصیت یہ ہے کہ وہ ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرنے کے باوجود پھیلتی نہیں ہیں (یعنی ان کا پھیلاؤ بہت کم ہوتا ہے)اور اپنی توانائی ضائع نہیں کرتیں۔ اس لئے ان کی مدد سے انرجی کی بہت بڑی مقدار کو زمین یا فضا کے کچھ حصے پر فوکس کر کے منتقل کر نے سے بہت زیادہ درجہ حرارت کا پلازمہ ( مادہ کی چوتھی شکل جو بہت زیادہ آئنز اور الیکٹرانز پر مشتمل ہوتی ہے ) پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اس سے جنگلوں میں آگ لگائی جا سکتی ہے ، اڑتے جہاز کے انجن کو آگ لگا کر گرایا جا سکتا ہے اور گلیشئیرز کو مصنوعی طور پر پگھلا کر سیلاب پیدا کئے جا سکتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
4۔ انسانی ذہن اور دل بہت کم فریکوئنسی کی ویوز پیدا کرتے ہیں، کیونکہ اس ٹیکنالوجی سے Indirectطریقے سے ELFویوز پیدا کی جا سکتی ہیں، اس لئے حیات دانوں کا کہنا ہے کہ اگر زمین یا زمین کی فضا میں بہت بڑے پیمانے پر ان ویوز کا استعمال کیا گیا تو وہ انسانی ذہن اور دماغ کو متاثر کر سکتی ہیں، جس کے نتائج انسانی صحت کے لئے خطرناک ثابت ہوں گے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے انسانیت کو کیا ممکنہ خطرات لاحق ہو سکتے ہیں؟ کیونکہ اس پروجیکٹ کو امریکی ڈیفنس اتھارٹی کی مالی معاونت حاصل ہے، اس لئے اس پروجیکٹ سے حاصل ہونے والی ٹیکنالوجی کا اسی ادارے کے پاس ہونا بھی یقینی ہے جو اس کا استعمال اپنے کسی بھی بین الاقوامی سیاسی ، معاشی اور ملٹری جارحانہ مقصد کے حصول کے لئے کر سکتے ہیں۔ بین الاقوامی سائنسی Patentsکی روشنی میں سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ اس ٹیکنالوجی سے غیر معمولی موسمی تبدیلیاں پیدا کر کے شدید بارشیں، طوفان اور سیلاب پیدا کئے جا سکتے ہیں، لیکن آیا اس ٹیکنالوجی سے زلزلے پیدا کئے جا سکتے ہیں ؟ یہ وہ سوال ہے جس میں سائنسدانوں میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے، کیونکہ سائنسدانوں کی یہ رائے سائنسی Patentsکی روشنی میں ہے، اس لئے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس ریسرچ کے بہت زیادہ خفیہ کام کو ان Patents کا حصہ نہ بنایا گیا ہو اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ بہت زیادہ خفیہ کام کو کوئی بھی ادارہ سائنسی میگزین میں شائع کرنے کی اجازت نہیں دیتا، لیکن میرے خیال میں اگر کسی جگہ زلزلے کے زیرزمین امکانات پہلے سے موجود ہیں تو اس کو قبل از وقت اس ٹیکنالوجی کی مدد سے حرکت ضرور دی جاسکتی ہے
مجموعی طور پر ایشیا آج ابھرتی طاقت ہے جو مستقبل میں امریکہ سمیت پورے یورپ کے لئے ہر میدان میں چیلنج ثابت ہو سکتا ہے، اس لئے ایشیا کی ابھرتی طاقتوں کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے اور ایشیا میں امریکی طفیلی ریاستوں کو اپنے ہاتھ سے نکلنے سے روکنے کے لئے اس ٹیکنالوجی کے استعمال کی آراءبہرحال موجود ہیں۔ Patentsکی روشنی میں امریکہ یہ ٹیکنالوجی 2000ءکے آخر تک حاصل کر چکا تھا، اس لئے 2000ءسے اب تک ایشیا کے مختلف خظوں میں آنے والے سیلاب، طوفان اور غیر معمولی موسمی تبدیلیاں تمام سوالیہ نشان ہیں اور ان کے پیچھے اس ٹیکنالوجی کے استعمال کا قیاس بہر کیف موجود ہے۔ جیسے افغانستان میں 2002ءمیں آنے والا زلزلہ، پاکستان میں 2005ءمیں آنے والا زلزلہ اور 2010ءکا سیلاب، جس میں 70ارب ڈالر کا نقصان ہوا، فطری نہیں تھے۔ چین میں 2008ءاور 2010ءمیں آنے والے زلزلے ، جاپان میں2011ءمیں آنے والے سونامی اور زلزلے بھی مصنوعی نظر آتے ہیں۔
سائنس اور ٹیکنالوجی انسانیت کی مشترکہ میراث ہے، یعنی ان کی ترقی سے انسانیت کو بحیثیت مجموعی فائدہ پہنچنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ ایک محدود طبقہ تو اس سے فائدہ اٹھائے اور باقی اکثریتی طبقے کے لئے وہ عذاب ثابت ہو۔ سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے سرپرست امریکہ کی انسان دشمن پالیسیوں میں جنونیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ دنیا میں سب سے پہلے ایٹم بم کا استعمال، پھر ہارپ ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے والا وہ واحد ملک ہے۔ امریکہ کوپہلے کسی دوسرے ملک پر حملہ کرنے کے لئے UNOسے کوئی Resolutionپاس کروانا پڑتی ہے یا دوسرے ممالک کو اعتماد میں لینا پڑتا ہے، لیکن اس ٹیکنالوجی کے استعمال کے لئے اسے اس تکلیف دہ عمل سے گزرنے کی ضرورت نہیں پڑتی، وہ دنیا کو بے خبر رکھتے ہوئے کسی بھی ملک کے خلاف اس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتا ہے۔ اس پروجیکٹ کے تمام Parametersکا اندازہ تو شائد نہیں، لیکن اس پروجیکٹ کے خطرات کا علم اکثر ممالک کو ہے۔ اسی سلسلے میں یورپی یونین ایک قرارداد پاس کر چکی ہے کہ امریکہ اس پروجیکٹ پرمزید کام اس وقت تک روک دے، جب تک اس کے انسانی صحت اور ماحول پر اثرات کا مکمل جائزہ نہ لے لیا جائے۔ اسی طرح چین، روس ، ایران اور وینزویلا بھی اس پروجیکٹ پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم امریکہ کا مقابلہ اور امریکہ کی اس جیسی دیگر انسانیت کش ٹیکنالوجیز کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟ یہ بات واضح ہے کہ سائنس، ٹیکنالوجی اور ملٹری میدانوں میں ہم اس سے بہت پیچھے ہیں، لیکن اقتصادی اور سیاسی میدان متبادل راستہ ہو سکتے ہیں ۔ اس سلسلے میں ایشیائی اقوام بشمول پاکستان ،کو چاہیے کہ وہ پہلے مرحلے میں امریکی سامراج سے مکمل سیای و اقتصادی آزادی حاصل کریں اور سامراجی بلاک سے نکل کر علاقائی بلاک میں شامل ہوں۔ دوسرے مرحلے میں یورپی یونین کی طرز پر ایشیا میں علاقائی ممالک پر مبنی ایشیاٹک فیڈریشن کی بنیاد رکھی جائے۔ جہاں سے مشترکہ سیاسی، اقتصادی اور تجارتی پالیسیاں بنائی جائیں اور بین الاقوامی مارکیٹ میں اپنی مشترکہ کرنسی کا اجراءکیا جائے تا کہ بین الاقوامی مارکیٹ اور ایشیا میں جو بڑی منڈی ہے۔ ڈالر کو شکست دی جا سکے ۔ ایشیا میں علاقائی ممالک پر مشتمل تنظیم کا پیدا ہونا امریکہ کی ایشیا میں سیاسی شکست ہے۔ اس طرح اس پلیٹ فارم سے کی جانے والی مشترکہ معاشی اور تجارتی پالیسیوں سے امریکہ کو معاشی شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایشیا سے امریکی سیاست اور معیشت کی شکست کا مطلب اس کی بین الاقوامی اجارہ داری کا خاتمہ ہے
واللہ یہ تو دجال کی نشانی ہے اس کے بارے بھی ایسا ہی ذکر ملتا ہے وہ جہاں چاہے گا بارش بر سائے گا اور جس جگہ کو چاہے گا اسے تباہ کر دے گا

بہت شکریہ نعیم بھائی اللہ آپ اجر عظیم عطا فرمائے آمین
 
Top