محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
سرمایہ دارانہ سودی نظام اور جمہوریت دو ایسے عفریت ہیں جن کے چہرے خوب صورت، جاذبِ نظر اور سحر انگیز ہیں لیکن ان کا باطن خون آشام، مکروہ اور ظلم وبربریت سے آلودہ ہے۔ ان دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے، ایک دوسرے کی مدد کے بغیر چل نہیں سکتے۔ ان دونوں بھیڑیوں کو بھیڑوں کے سامنے نرم خُو اور ہمدرد ثابت کرنے کے لیے ان کے پیسے پر چلنے والا میڈیا انھیں اس ڈریکولا کی طرح پیش کرتا ہے جو حسین وجمیل اور خوب صورت ملبوس زیبِ تن کیے ہوئے ہے۔ عوام اس کے حسن پر ریجھ کر اُس کے جال میں پھنستے ہیں تو اس کے خون چوسنے والے دانت اپنا کمال دکھانا شروع کر دیتے ہیں۔ ان بھیڑیوں نے میڈیا کو دو لفظ سکھائے ہیں: معاشی معاملات میں سرمایہ دارانہ نظام ایک تصور دیتا ہے جسے ٹرکل ڈاؤن (Trickle Down) کہتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ سرمایہ داروں کی جھولیاں بھر جاتی ہے تو خود بہ خود ان کی جھولیوں سے دولت اُبل اُبل کر باہر گرتی ہے جس سے عوام کو فائدہ پہنچتا ہے۔ جمہوریت کے بارے میں Weeding کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ گھاس میں جڑی بوٹیاں شامل ہوں تو مالی انھیں تلف کرتا رہتا ہے اور کئی برسوں کی محنت سے گھاس کا میدان صاف ہوجاتا ہے۔ اسی طرح بار بار الیکشن کروانے سے بہترین نمائندے سامنے آجاتے ہیں۔
یہ دونوں تصورات رات دن دانش وَروں کی گفتگو، تحریر، سیاسی راہنمائوں کے بیانات اور معاشی پنڈتوں کی تجزیہ کاری کے ذریعے عوام کے ذہنوں میں ٹھونسے جاتے ہیں۔ جہاں تک ٹرکل ڈاؤن کا تعلق ہے، اس کا یہ عالم ہے کہ اس وقت دنیا میں ساڑھے چار سو کے قریب افراد ایسے ہیں جن کی دولت اگر تقسیم کردی جائے تو دنیا سے قحط، بیماری، غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ ہوجائے گا اور ہر شہری کو سہولتیں دستیاب ہوجائیں۔ لیکن سرمایہ داروں کی جھولیاں بھی پھیلتی چلی جاتی ہیں۔ جہاں مزدور کو زیادہ پیسے دینے پڑیں وہاں سے وہ کاروبار ایسے علاقوں میں منتقل کردیتے ہیں جہاں غریب آبادی کی محنت کم سے کم پیسوں سے خریدی جاسکے۔ امریکا اور یورپ کی کون سی کمپنی ہے جس نے مشرق بعید، چین اور تائیوان میں اپنا کاروبار منتقل نہ کیا ہو اور پھر اپنے میڈیا کے ذریعے ان پر ایسا طرزِ زندگی مسلط نہ کیا ہو کہ وہ جو کمائیں ان سے برگر، پیزا، بائر، جینز، میک اپ اور دوسرا سامان کرید کر خون پسینے کی کمائی ان کو واپس کردیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کو سود کا گھن چکر چلاتا ہے۔ قرض، اقساط پر سامانِ تعیش اور کریڈٹ کارڈ وغیرہ کے ذریعے عام آدمی کو بھٹے کا وہ مزدور بنا دیا جاتا ہے جس سے غلامانہ جکڑ بندیوں سے نسل در نسل بھٹے پر ہی کام کروایا جاتا ہے۔ جس طرح بھٹہ مالک کا ایڈوانس ختم نہیں ہوتا، اسی طرح اس سرمایہ دارانہ سودی نظام میں قرض کی قسطیں ختم نہیں ہوتیں۔
سرمایہ دارانہ سودی نظام اپنے تحفظ کے لیے خوب صورت جال بنتا ہے۔ یہ جال اس قدر حسین ہے کہ ہر ملک کے عوام اس میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔ پوری دنیا میں اس نظام کی بقا کی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ جو نہیں مانتا وہ واجب القتل ہے۔ افغانستان اور عراق اس نظام کے دائرے میں نہیں آتے تھے، دونوں پر حملہ کیا گیا۔ ایک ملک میں پندرہ لاکھ انسانوں کو قتل کیا گیا، ایک آئین بنایا گیا، اپنی نگرانی میں الیکشن کروائے گئے۔ اور دوسرے ملک میں یہی کچھ دس لاکھ لوگوں کو قتل کرکے کے کیا گیا اور بتایا گیا کہ جاہلو! زندگی ایسے گزاری جاتی ہے۔ نہیں گزارو گے تو پھر حملہ کرکے تم کو سیدھے راستے پر لائیں گے۔
وہ ملک جنھیں ترقی یافتہ ملک کہا جاتا ہے، وہاں بھی اس نظام پر دو اِداروں کی آمریت ہے: ایک کارپوریٹ سرمایہ دار کا پیسہ اور دوسرا اُس کے زور پرچلنے والا میڈیا۔ امریکا، برطانیا، فرانس، جرمنی یا کسی اور ملک میں کوئی شخص کارپوریٹ کے سرمائے اور میڈیا کی مدد کے بغیر الیکشن جیتنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان ملکوں میں اقتدار پر پتلیوں کا رقص ہوتا ہے جس کی ڈوریاں ان سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہوتی ہیں جو اربوں ڈالر، پاؤنڈ یا یورو پارٹی فنڈ میں دیتے ہیں اور کثیر سرمائے سے ان پُتلیوں کی مہم میڈیا پر چلاتے ہیں۔ پہلے اعلیٰ خاندانوں کے افراد اس ڈرامے کے کردار ہو کر اسمبلیوں میں جاتے تھے لیکن پھر عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے عام آدمی کو آگے لایا جانے لگا۔ یہ عام آدمی ان تمام سرمایہ دارانہ سودی گماشتوں کے سامنے زیادہ بے بس ہوتے ہیں۔ آج تک کسی بڑے جمہوری ملک میں گزشتہ سو سالوں میں چہرے تو بدلتے رہے لیکن ان کی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ مزدوروں کا نام لینے والے کمیونسٹوں کے خلاف نہیں، غریب ملکوں میں فوجیں بھیج کر جنگیں کیں جن میں ویت نام، فلپائن اور جنوبی امریکا کے ملک شامل تھے۔ وہاں فوجیں بھیجنے والے حکمران عام موچی اور لوہار کے بیٹے تھے جو صدارت تک پہنچے لیکن اسی سرمایہ دارانہ سودی نظام کا تحفظ کرتے رہے اور ان کے اشاروں پر ناچتے رہے۔ بڑے بڑے سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور سرداروں کی جگہ ان عام آدمیوں کی اقتدار میں آمد کو Weeding کہتے ہیں، یعنی آہستہ آہستہ اقتدار عوام کو منتقل ہوجاتا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہوتا بلکہ اقتدار وہیں رہتا ہے اور سٹیج کے اداکار تبدیل ہوجاتے ہیں۔ غریب اور پس ماندہ ممالک میں تو سٹیج کے اداکار بدلنے میں بھی صدیاں لگ جاتی ہیں۔ جمہوریت کا یہ بیج اس ملک میں انگریز نے بویا لیکن اس سے پہلے اس نے نوازشات، زمینوں کی الاٹمنٹ اور مراعات کے ذریعے کئی سو ایسے خاندان پیدا کر دیے کہ سو سال گزرنے کے باوجود جمہوریت ان کے پاس یرغمال ہے۔
ان دونوں عفریتوں کی تین علامتیں ہیں: ایک آئین؛ انسانوں کا لکھا ہوا ایک مسودہ جس کی خلاف ورزی غداری ہے اور اس کی سزا موت ہے۔ دوسری علامت کاغذ کے نوٹ ہیں جن کے اتار چڑھاؤ سے لوگوں کی قسمت سے کھیلا جاتا ہے۔ اور تیسری علامت حکومت کا قرضہ ہے۔ یہ سارا گورکھ دھندا ہے۔ یہ نظام معاشی ماہرین، سیاسی علماء اور سماجی دانش وَروں کی محنت سے بنایا جاتا ہے اور پھر اس کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ یہ پورے کا پورا نظام صرف ایک چیز سے خوفزدہ ہوتا ہے، اسی سے کانپتا ہے اور وہ ہے عوام کا غیظ وغضب میں بپھرا ہوا ہجوم۔ اگر کسی ملک کے کثیر تعداد میں عوام ایک جگہ جمع ہوجائیں اور اس نظام کو بدلنے کا نعرہ بلند کریں تو ملک، جمہوریت اور امن کو خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔ سب ان کو امن، استحکام اور ملک کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ لیکن شاید اب مشرق ومغرب میں ہوا کچھ اور ہے۔ آنکھ رکھنے والے اور بصیرت کے حامل جانتے ہیں کہ اب بہت ہوچکا۔ اس سرمایہ دارانہ سودی نظام اور اُس کی پروردہ جمہوریت کے خاتمے کا وقت ہے۔ اللہ نے ان سب لوگوں کو خبردار کیا ہے جو سود کے نظام کے ساتھ ہیں کہ اگر تم اسے نہیں چھوڑتے تو پھر اللہ اُس کے رسول ﷺ کے ساتھ جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ۔ یہ اس مالک کائنات پر منحصر ہے کہ اُس کا فیصلہ کب اور کس وقت آتا ہے۔ لیکن آثار بتاتے ہیں کہ موت ان سب کے تعاقب میں ہے۔ قضا وقدر کے پرندے ابابلیوں کی صورت منڈلا رہے ہیں۔ بس ذرا کنکریاں گرانے کے حکم کی دیر ہے، سب کچھ کھائے ہوئے بھس کی مانند ہوجائے گا۔
یہ دونوں تصورات رات دن دانش وَروں کی گفتگو، تحریر، سیاسی راہنمائوں کے بیانات اور معاشی پنڈتوں کی تجزیہ کاری کے ذریعے عوام کے ذہنوں میں ٹھونسے جاتے ہیں۔ جہاں تک ٹرکل ڈاؤن کا تعلق ہے، اس کا یہ عالم ہے کہ اس وقت دنیا میں ساڑھے چار سو کے قریب افراد ایسے ہیں جن کی دولت اگر تقسیم کردی جائے تو دنیا سے قحط، بیماری، غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ ہوجائے گا اور ہر شہری کو سہولتیں دستیاب ہوجائیں۔ لیکن سرمایہ داروں کی جھولیاں بھی پھیلتی چلی جاتی ہیں۔ جہاں مزدور کو زیادہ پیسے دینے پڑیں وہاں سے وہ کاروبار ایسے علاقوں میں منتقل کردیتے ہیں جہاں غریب آبادی کی محنت کم سے کم پیسوں سے خریدی جاسکے۔ امریکا اور یورپ کی کون سی کمپنی ہے جس نے مشرق بعید، چین اور تائیوان میں اپنا کاروبار منتقل نہ کیا ہو اور پھر اپنے میڈیا کے ذریعے ان پر ایسا طرزِ زندگی مسلط نہ کیا ہو کہ وہ جو کمائیں ان سے برگر، پیزا، بائر، جینز، میک اپ اور دوسرا سامان کرید کر خون پسینے کی کمائی ان کو واپس کردیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کو سود کا گھن چکر چلاتا ہے۔ قرض، اقساط پر سامانِ تعیش اور کریڈٹ کارڈ وغیرہ کے ذریعے عام آدمی کو بھٹے کا وہ مزدور بنا دیا جاتا ہے جس سے غلامانہ جکڑ بندیوں سے نسل در نسل بھٹے پر ہی کام کروایا جاتا ہے۔ جس طرح بھٹہ مالک کا ایڈوانس ختم نہیں ہوتا، اسی طرح اس سرمایہ دارانہ سودی نظام میں قرض کی قسطیں ختم نہیں ہوتیں۔
سرمایہ دارانہ سودی نظام اپنے تحفظ کے لیے خوب صورت جال بنتا ہے۔ یہ جال اس قدر حسین ہے کہ ہر ملک کے عوام اس میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔ پوری دنیا میں اس نظام کی بقا کی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ جو نہیں مانتا وہ واجب القتل ہے۔ افغانستان اور عراق اس نظام کے دائرے میں نہیں آتے تھے، دونوں پر حملہ کیا گیا۔ ایک ملک میں پندرہ لاکھ انسانوں کو قتل کیا گیا، ایک آئین بنایا گیا، اپنی نگرانی میں الیکشن کروائے گئے۔ اور دوسرے ملک میں یہی کچھ دس لاکھ لوگوں کو قتل کرکے کے کیا گیا اور بتایا گیا کہ جاہلو! زندگی ایسے گزاری جاتی ہے۔ نہیں گزارو گے تو پھر حملہ کرکے تم کو سیدھے راستے پر لائیں گے۔
وہ ملک جنھیں ترقی یافتہ ملک کہا جاتا ہے، وہاں بھی اس نظام پر دو اِداروں کی آمریت ہے: ایک کارپوریٹ سرمایہ دار کا پیسہ اور دوسرا اُس کے زور پرچلنے والا میڈیا۔ امریکا، برطانیا، فرانس، جرمنی یا کسی اور ملک میں کوئی شخص کارپوریٹ کے سرمائے اور میڈیا کی مدد کے بغیر الیکشن جیتنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان ملکوں میں اقتدار پر پتلیوں کا رقص ہوتا ہے جس کی ڈوریاں ان سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہوتی ہیں جو اربوں ڈالر، پاؤنڈ یا یورو پارٹی فنڈ میں دیتے ہیں اور کثیر سرمائے سے ان پُتلیوں کی مہم میڈیا پر چلاتے ہیں۔ پہلے اعلیٰ خاندانوں کے افراد اس ڈرامے کے کردار ہو کر اسمبلیوں میں جاتے تھے لیکن پھر عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے عام آدمی کو آگے لایا جانے لگا۔ یہ عام آدمی ان تمام سرمایہ دارانہ سودی گماشتوں کے سامنے زیادہ بے بس ہوتے ہیں۔ آج تک کسی بڑے جمہوری ملک میں گزشتہ سو سالوں میں چہرے تو بدلتے رہے لیکن ان کی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ مزدوروں کا نام لینے والے کمیونسٹوں کے خلاف نہیں، غریب ملکوں میں فوجیں بھیج کر جنگیں کیں جن میں ویت نام، فلپائن اور جنوبی امریکا کے ملک شامل تھے۔ وہاں فوجیں بھیجنے والے حکمران عام موچی اور لوہار کے بیٹے تھے جو صدارت تک پہنچے لیکن اسی سرمایہ دارانہ سودی نظام کا تحفظ کرتے رہے اور ان کے اشاروں پر ناچتے رہے۔ بڑے بڑے سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور سرداروں کی جگہ ان عام آدمیوں کی اقتدار میں آمد کو Weeding کہتے ہیں، یعنی آہستہ آہستہ اقتدار عوام کو منتقل ہوجاتا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہوتا بلکہ اقتدار وہیں رہتا ہے اور سٹیج کے اداکار تبدیل ہوجاتے ہیں۔ غریب اور پس ماندہ ممالک میں تو سٹیج کے اداکار بدلنے میں بھی صدیاں لگ جاتی ہیں۔ جمہوریت کا یہ بیج اس ملک میں انگریز نے بویا لیکن اس سے پہلے اس نے نوازشات، زمینوں کی الاٹمنٹ اور مراعات کے ذریعے کئی سو ایسے خاندان پیدا کر دیے کہ سو سال گزرنے کے باوجود جمہوریت ان کے پاس یرغمال ہے۔
ان دونوں عفریتوں کی تین علامتیں ہیں: ایک آئین؛ انسانوں کا لکھا ہوا ایک مسودہ جس کی خلاف ورزی غداری ہے اور اس کی سزا موت ہے۔ دوسری علامت کاغذ کے نوٹ ہیں جن کے اتار چڑھاؤ سے لوگوں کی قسمت سے کھیلا جاتا ہے۔ اور تیسری علامت حکومت کا قرضہ ہے۔ یہ سارا گورکھ دھندا ہے۔ یہ نظام معاشی ماہرین، سیاسی علماء اور سماجی دانش وَروں کی محنت سے بنایا جاتا ہے اور پھر اس کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ یہ پورے کا پورا نظام صرف ایک چیز سے خوفزدہ ہوتا ہے، اسی سے کانپتا ہے اور وہ ہے عوام کا غیظ وغضب میں بپھرا ہوا ہجوم۔ اگر کسی ملک کے کثیر تعداد میں عوام ایک جگہ جمع ہوجائیں اور اس نظام کو بدلنے کا نعرہ بلند کریں تو ملک، جمہوریت اور امن کو خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔ سب ان کو امن، استحکام اور ملک کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ لیکن شاید اب مشرق ومغرب میں ہوا کچھ اور ہے۔ آنکھ رکھنے والے اور بصیرت کے حامل جانتے ہیں کہ اب بہت ہوچکا۔ اس سرمایہ دارانہ سودی نظام اور اُس کی پروردہ جمہوریت کے خاتمے کا وقت ہے۔ اللہ نے ان سب لوگوں کو خبردار کیا ہے جو سود کے نظام کے ساتھ ہیں کہ اگر تم اسے نہیں چھوڑتے تو پھر اللہ اُس کے رسول ﷺ کے ساتھ جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ۔ یہ اس مالک کائنات پر منحصر ہے کہ اُس کا فیصلہ کب اور کس وقت آتا ہے۔ لیکن آثار بتاتے ہیں کہ موت ان سب کے تعاقب میں ہے۔ قضا وقدر کے پرندے ابابلیوں کی صورت منڈلا رہے ہیں۔ بس ذرا کنکریاں گرانے کے حکم کی دیر ہے، سب کچھ کھائے ہوئے بھس کی مانند ہوجائے گا۔
(بہ شکریہ، روزنامہ ''دنیا''، پیر ۷ جنوری ۲۰۱۳ء)