• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دورانِ گفتگو لفظ "اگر" کا استعمال

شمولیت
فروری 21، 2019
پیغامات
53
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
56
یہ موضوع دراصل اظہار تمنا یا اظہار قیاس وامکان کے لیے استعمال کیے جانے والے الفاظ سے متعلق ہے، چاہے وہ الفاظ عربی میں ہوں یا اردو میں یا کسی اور زبان میں، اھل توحید ہونے کے ناطے ہمیں ہر اس لفظ کو دل وزبان سے ادا کرنے کے معاملے میں محتاط رہنا چاہیے جو تعلیمات عقیدہ اور اس کے لوازمات کے برخلاف ہو اور عقیدہ کے کسی بھی گوشے میں خلل پیدا کرنے کا باعث بنے
یہ ہماری کم علمی کہیں یا بے توجہی کہ ہم میں سے بہت سارے مسلمان "لو، لیت، اگر، کاش وغیرہ" جیسے الفاظ بلا سوچے سمجھے کسی بھی موقع پر استعمال کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے، ایسا نہیں ہے کہ ان جیسے الفاظ کا استعمال بالکل ہی خلاف عقیدہ ہے! نہیں، بلکہ کچھ مقامات ایسے ہیں جن میں استعمال جائز ہے، اور کچھ اس سے مانع ہیں۔
اس تحریر میں استعمال سے متعلق مثبت ومنفی انھیں مواقع کا بالاختصار ذکر کیا گیا ہے ملاحظہ فرمائیں۔
جواز کے مواقع:
1۔ بطور اخبار
مجرد کسی چیز کے سلسلے میں خبر دینا مقصود ہو تو لفظ "اگر" یا اس کے ہم معنی الفاظ کا استعمال جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔
مثلا کسی کا کہنا "لو زرتني لأكرمتك" اگر آپ میرے پاس آتے تو میں آپ کی عزت کرتا
اسی طرح کسی کا یہ کہنا کہ "اگر مجھے آپ کے آنے کا علم ہوتا تو میں آپ سے ملاقات کے لیے ضرور آتا" وغیرہ
ان جیسے حالات میں " اگر یا کاش" وغیرہ کا استعمال جائز ہے۔
جیسا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مقام پر بطور خبر اس کا استعمال کرنا ثابت ہے:
لَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِن أمْرِي ما اسْتَدْبَرْتُ ما أهْدَيْتُ، ولَوْلا أنَّ مَعِي الهَدْيَ لَأَحْلَلْتُ"
یعنی اگر میں اپنے معاملہ کو پہلے جان لیتا جو میں نے بعد میں جانا تو ھدی کا جانور نہ لاتا، اور اگر میرے پاس ھدی کا جانور نہ ہوتا تو میں حلال ہوجاتا۔
(صحيح البخاري ١٧٨٥)
اس طرح کی کئی دلائل موجود ہیں جن میں ایسے مواقع پہ اس کے استعمال کی صراحت ملتی ہے۔

2۔ " تمني" یعنی کسی چیز کی آرزو کرنا
اس معاملے میں بس دھیان یہ رکھنا ہے کہ اگر تمنا یا آرزو کسی خیر اور بھلے کام سے متعلق ہو تو استعمال بالکل جائز ہے، لیکن اگر تمنی کسی ایسے فعل سے متعلق ہو جو شر یا برائی پر دلالت کرے تو ایسے موقع پر لفظ "اگر" وغیرہ کا استعمال وناجائز ومذموم ہے۔
تمني بالخير کے جائز ہونے کی دلیل
جیسے رسولﷺ کا دو ایسے شخص کے سلسلے میں فرمانا جن میں سے ایک کو اللہ تعالی مال کثیر سے نوازا ہوتا ہے وہ اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کررہا ہوتا ہے اور وہیں دوسرا مال کی نعمت سے محروم آدمی یہ آرزو کرتے ہوئے کہہ رہا ہوتا ہے کہ: "لو أن لي مثل مال فلان لعملت فيه مثل عمل فلان" فقال رسولﷺ هما في الأجر سواء.
اے کاش اگر میرے پاس بھی ان کے جیسا مال ہوتا تو میں بھی ان کی طرح خیر کے کاموں میں خرچ کرتا، تو اللہ کے رسول نے فرمایا: یہ دونوں ہی اجر کے معاملے میں برابر ہیں۔
(صححه الألباني •صحيح الترمذي • 2325)
گویا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خیر کے کاموں کی آرزو کرنا تمنا کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ یہ محمود عمل ہے۔

ناجائز کے مواقع

1۔ تمني بالشر
یعنی کسی شر کی خواہش کرتے ہوئے یا کسی چیز کے مفقود ہوجانے پر حسرت وافسوس کرتے ہوئے "اگر یا کاش" یا ان جیسے ہم معنی الفاظ کا استعمال کرنا بالکل جائز نہیں ہے۔
مثلا کوئی کہے "لو قلت كذا لكان كذا" یعنی اگر میں ایسا کیا ہوتا تو ایسا ویسا ہوجاتا
اس کی دلیل مذکورہ بالا حدیث ہی میں موجود ہے۔
جس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک بندہ کو اللہ تعالی مال سے نوازا ہوتا ہے لیکن وہ علم کی دولت سے محروم ہے پھر وہ اپنے مال کو بلا علم بے دریغ خرچ کرتا ہے، اس معاملے میں نہ تو وہ اپنے رب سے ڈرتا ہے اور نہ ہی اس میں اس کا حق جانتا ہے، اور وہیں دوسرا شخص ہے جسے اللہ مال وعلم دونوں نعمتوں سے محروم رکھا ہوتا ہے وہ سامنے والے کو دیکھ کر کہہ رہا ہوتا ہے کہ "لو أن لي مالا لعملت فيه بعمل فلان"
اے کاش اگر میرے پاس بھی اس کے جیسا مال ہوتا تو میں بھی اسی کی طرح خرچ کرتا۔
ظاہر ہے یہ تمنی بالشر ہے اس لیے اسے اس کی نیت کے مطابق ہی بدلہ ملے گا، اس لے رسولﷺ نے فرمایا: فوزرهما سواء
(صححه الألباني •صحيح الترمذي • 2325)
یہ ہوئی تمنی کی بات اس کے علاوہ چند دوسرے مقامات پر بھی اس کا استعمال حرام ہے
مثلا شریعت پر اعتراض کرتے ہوئے اس کا استعمال کرنا جیسا کہ منافقین کا طریقہ رہا ہے، ان کا کہنا: لو أطاعونا ما قتلو
(اگر ہماری بات مانے ہوتے تو قتل نہ ہوتے
{آل عمران: 168}
اسی طرح تقدیر پر اعتراض کرتے ہوئے ان کا کہنا: لو كانوا عندنا ما ماتوا وما قتلوا
اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ ہی مرتے اور نہ قتل کئے جاتے!
{آل عمران: 156}
اسی طرح تقدیر کے خلاف معصیت پر احتجاج کرتے ہوئے مشرکین کا کہنا: لو شاء الله ما أشركنا
اگر اللہ چاہتے تو ہم شرک نہ کرتے
{الأنعام: 148}.
وقولهم: وقالوا لو شاء الرحمن ما عبدناهم {الزخرف: 20}.

یہ سارے مقامات ہیں جن میں "لو، لیت، اگر، کاش" اور ان جیسے ہم معنی الفاظ کا استعمال ناجائز اور حرام ہے
لہذا ایسے مقامات پہ حسرت وافسوس یا کسی شر کی تمنی وآرزو کرتے ہوئے ان جیسے الفاظ کے استعمال سے ہمیں بچنا چاہیے اور دوسروں کو بھی اس سے متنبہ کرنا چاہیے، یہ صفت عموما عورتوں میں زیادہ پائی جاتی ہے، کوئی اپنا آدمی اگر فوت ہو جائے تو گھر کی عورتیں یہ کہہ کر رو رہی ہوتی ہیں کہ اگر فلاں جگہ نہ جاتا تو ایسا نہ ہوتا، یا پہلے علاج کرلیا ہوتا تو نہ مرتا وغیرہ، ایسی صورت میں شیطان کو موقع مل جاتا ہے، پھر وہ طرح طرح سے دل میں وسوسے ڈالنا شروع کردیتا ہے، جس سے عجیب وغریب سوچ انسان کے ذہن میں پیدا ہونے لگتی ہے۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" المؤمِنُ القويُّ خيرٌ وأحبُ إلى اللَّهِ منَ المؤمنِ الضَّعيفِ وفي كلٍّ خيرٌ احرِص على ما ينفعُكَ واستعِن باللَّهِ ولا تعجِزْ فإن أصابَك شيءٌ فلا تقُلْ لو أنِّي فعلتُ كذا وَكذا ولَكن قل قدَّرَ اللَّهُ وما شاءَ فعلَ فإنَّ لو تفتحُ عملَ الشَّيطانِ

طاقتور مؤمن بہتر اور زیادہ پسندیدہ ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک ضعیف وکمزور مؤمن سے
اور ہر چیز میں خیر ہے سو تم اس چیز کے حریص بنو جو تمہیں نفع دے اور اللہ تعالیٰ کی مدد طلب کرو، اور عاجز نہ بنو۔ اگر تمہیں کوئی چیز لاحق ہو تو یہ نہ کہو کہ اگر میں ایسا کرتا تو ایسا ہوتا، لیکن کہو اللہ تعالیٰ نے جو مقدر کیا تھا اور جو چاہا وہی کیا، کیونکہ "لو " (اگر) شیطان کے عمل کا دروازہ کھول دیتا ہے
الألباني (١٤٢٠ هـ)، صحيح ابن ماجه ٦٤ • حسن • أخرجه مسلم (٢٦٦٤)، وابن ماجه (٧٩) واللفظ له، وأحمد (٨٧٧٧)، والنسائي في «السنن الكبرى» (١٠٤٥٧)
اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں یہ ان جیسے الفاظ کے استعمال سوچ سمجھ کر کرنے کی توفیق دے، خاص کر جہاں ممنوع ہے وہاں ان کے استعمال کرنے سے محفوظ رکھے آمین

✍⁩ ہدایت اللہ فارس
جامعہ نجران سعودیہ عربیہ
 
Top