• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ديوبنديوں کے چند خطرناک عقاعد

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
------------​
aqeeda.jpg

ديوبنديوں کے چند خطرناک عقاعد

ہندستان کا ايک شہر ديوبند ہے۔ جس کی نسبت تين قسم کے لوگ ہيں:

(1) ديوبند کا رہنے والا، چاہے ہندو ہو يا مسلمان (2) مدرسہ ديوبند کا پڑھا ہوا يا فارغ تحصيل (3) علماء ديوبند کا

ہم عقيدہ و ہم مسلک شخص پہلا ذکر ميری اس بحث سے خارج ہے، دوسرا ذکر اگر علماء ديوبند کا ہم عقيدہ و ہم مسلک نہيں ہے تو وہ بھی اس بحث سے خارج ہے اور اگر وہ ہم عقيدہ و ہم مسلک ہے تو وہ بھی اس ميں شامل ہے۔ تيسرے کا اور علماء ديوبند کا ايک ہی حکم ہے۔ ميں علماء ديوبند کے چند خطرناک عقاعد پر روشنی ڈال رہا ہوں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ديوبند کی بدعت دين ميں انتہائی شديد اور خطرناک ہے۔

1

عقيدہ وحدت الوجود

حاجی امداد اللہ (مہاجر مکی) نے کہا ہے کہ: " نکتہ شناسا مسئلہ وحدت الوجود حق و صحيح ہے۔ اس مسئلے ميں کوئی شک و شبہ نہيں ہے۔ فقير و مشائخ فقير اور جن لوگوں فقير سے بعيت کی ہے سب کا اعتقاد يہی ہے مولوي قاسم مرحوم و مولوي رشيد احمد و مولوي يعقوب، مولوي احمد حسن صاحب ہم فقير کے عزيز ہيں اور فقير سے تعلق رکھتے ہيں۔ "

( شمائم امداديہ ص 32 و کليات امداديہ ص 218)

وحدت الوجود کا مطلب يے ہے کہ: تمام موجودات کو اللہ کا وجود خيال کرنا۔ اور وجود ماسوی کو محض اعتباری سمجھنا، جيسے قطرہ حباب ، موج اور قعر وغيرہ سب کو پانی معلوم کرنا۔

(حسن اللغات فارسی اردو ص 641)

صوفيوں کی اصطلاح ميں تمام موجودات کو اللہ کا وجود ماننا اور ماسوا کے وجود کو محض اعتباری سمجھنا۔ ( علمی اردو لغت، تصنيف وارث سرہندی ص 1551)
حاجی امداداللہ مہاجر مکی کے بارے ميں اشرف علی تھانوی فرماتے ہيں کہ: "حضرت صاحب کے وہی عقاعد ہيں جو اہل حق کے ہيں"

(امداد فتاوی ج5 ص270)

حاجی امداد اللہ صاحب لکھتے ہيں کہ:

"اس مرتبے ميں خدا کا خليفہ ہو کر لوگوں کو اس تک پہنچا تاہے اور ظاہر ميں بندہ اور باطن ميں خدا ہوجاتا ہے اس مقام کو برزخ البرازخ کہتے ہيں"

( کليات امداديہ/ ضياء القلوب ص 35،36)

حاجی صاحب مزيد لکہتے ہيں کہ: اور اس کے بعد اس کو ہوہوہو کے ذکر ميں اس قدر منہک ہوجانا چاہئے کہ خود مذکور (اللہ) ہو جا ئے۔

(کليات امداديہ ص18)

رشيد احمد گنگوہی نے اللہ پاک کو مخاطب ہوتے ہوئے لکھا ہے: "يا اللہ معاف فرمانا کہ حضرت کے ارشاد سے تحرير ہوا ہے۔ جھوٹا ہوں کچھ نہيں ہوں۔ تيرا ضل ہے۔ تيرا ہی وجود ہے، ميں کيا ہوں، کچھ نہيں ہوں اور جو ميں ہوں وہ تو ہے اور ميں اور توخود شرک در شرک ہے"۔ استغفراللہ

(مکاتب رشيديہ ص10 و فضائل صدقات حصہ دوم ص 556)

ضامن علی جلال آبادی نے ايک زانيہ عورت کو کہا: " بی تم شرماتی کيوں ہو؟ کرنے والا کون اور کرانے والا کون؟ وہ تو وہی ہے" استغفراللہ

(تذکرۃ الرشيديہ ج2 ص 242)

اس ضامن علی کے بارے ميں رشيد احمد گنگوہی نے مسکرا کر فرمايا: " ضامن علی جلال آبادی تو توحيد ہی ميں غرق تھے"

(ايضا'' ص 242)

خلاصہ يہ ہے کہ ديوبندی حضرات اس وحدت الو جود کے قائل ہيں جس ميں خالق و مخلوق، عابد و معبود، اور خدا
اور بندے کے درميان فرق مٹا ديا جاتا ہے۔

2

شرکيہ عقائد

حاجی امداد اللہ اپنے پير نور محمد کے بارے ميں فرماتے ہيں:

" آسرا دنيا ميں ہے ازبس تمہاری ذات کا تم سوا اوروں سے ہرگز نہيں ہے التجا بلکہ دن محشر کے بھی جس وقت قاضی ہو خدا آپ کا دامن پکڑ کر يہ کہوں گا برملا اے شہ نور محمد وقت ہے امداد کا"

(شمائم امداديہ ص83،84 امداد المشتاق، فقرہ: 288 )

حاجی صاحب نے رسول اللہ ۖ کے بارے ميں فرمايا ہے:

" يا رسول کبريا فرياد ہے يا محمد مصطفیۖ فرياد ہے آپ کی امداد ہو ميرا يا نبیۖ حال ابتر ہو فرياد ہے سخت مشکل ميں پھنسا ہوں آج کل اے ميرے مشکل کشا فرياد ہے

( کليات امداديہ ص 90،91)

محمد يوسف لدھيانوی ديوبندی لکھتے ہيں کہ: يہی عقيدہ بريلويوں کا ہے ليکن ديوبندی اور بريلوی اختلاف کی کوئی بنياد ميرے علم ميں نہيں ہے۔

(اختلاف امت اور صراط مسطقيم ج 1 ص 38 )

ظاھر ہے اگر دونوں کے عقائد ہی ايک جيسے ہيں تو يہ جگھڑا اور تماشا کس بات کا، کيا يہ سيدھے سادھے مسمانوں کو بيو قوف بنانے کا طريقہ نہيں ہے! اللہ بچائے ان صوفيوں اور بدعتيوں سے۔آمين

3

اکابر پرستی اور غلو

ديوبندی حضرات اپنے اکابر کے بارے ميں سخت غلو کرتے ہيں، مولوی محمد الياس ديوبندی، بانی جماعت تبليغ کی نانی کے بارے ميں لکھتے ہيں:

" جس وقت انتقال ہوا تو ان کپڑوں ميں کہ جن ميں آپ کا پاخانہ لگ گيا تھا عجيب و غريب مہک تھی کہ آج تک کسی نے ايسی خوشبو نہيں سونگھی" (تزکرہ مشائخ ديوبند ص 96، تصنيف مفتی عزيز الرحمان) اس گندگی کے بارے ميں عاشق الاہی ديوبندی ميرٹھی نے لکھا ہے کہ: " پوتڑے نکالے گئے جو نيچے رکھہ ديے جاتے تھے تو ان ميں بدبو کی جگہ خوشبو اور ايسی نرالی مہک پھوٹتی تھی کہ ايک دوسرے کو سونگھتا اور ہر مرد اور عورت تعجب کرتا تھا چنانچہ بغير دھلوائے ان کو تبرک بنا کر رکھہ ديا گيا۔

(تزکرۃ الخليل ص 96،97)

پا خانہ کو ديوبنديوں کا تبرک بنا کر رکھنا تو آپ نے پڑھ ليا۔ اب آئیے ان کی نبیۖ کے شان ميں گستاخيوں پر بھی نظر کار فرما ئیے۔

4

گستاخياں

ماسٹر امين اوکاڑوی ديوبندی ايک صحيح حديث کا مذاق اڑاتے ہوئے لکھتے ہيں:

" ليکن آپۖ نماز پڑھتے رہے اور کتيا سامنے کھيلتی رہی، اور ساتھ گدھی بھی تھی، دونوں کی شرمگاہوں پر بھی نظر پڑتی رہی" ( مجموعہ رسائل ج3 ص 350 طبع ستمبر 1994) بعض اوقات نبیۖ سری نمازوں میں ايک دو آيات جحرآ پڑھ ليتے تھے اس کے بارے ميں اشرف علی تھانوی لکھتے ہيں کہ:

" اور ميرے نزديک اصل وجہ یہ ہے کہ آپ پر ذوق کی حالت غالب ہوئی تھی جس ميں یہ جہر واقع ہوجاتا تھا اور جب کہ آدمی پر غلبہ ہوتا ہے تو پھر اس کو خبر نہيں رہتی کہ کيا کر رہا ہے"

( تقرير ترمزی ص 711)

يہ دو حوالے بطور نمونہ لکھے گئے ہيں ورنہ ديوبنديوں کی گستاخياں بہت زيادہ ہيں۔

5

ختم نبوت پر ڈاکہ

ہميں مسجدوں سے نکالنے والوں کا ختم نبوت کے بارے ميں عجيب و غريب عقيدہ ہے۔ محمد قاسم نانوتوی بانی مدرسہ ديوبند صاحب لکھتے ہيں کہ: " بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبی صلعم بھی کوئی نبی پيدا ہوتو پھر بھی خاتميت محمّد ميں فرق نہيں آئے گا۔

(تحذيرالناس ص 34)

قاری محمد طيب ديوبندی نے لکھا ہے کہ: "تو یہاں ختم نبوت کا يہ معنی سن لينا کہ نبوت کا دروازہ بند ہو گيا تو يہ دنيا کو دھوکہ دينا ہے۔ نبوت مکمل ہو گئی وہی کام دے گی قيامت تک، نہ يہ کہ منقطع ہو گئی اور دنيا ميں اندھيرا چھاگيا۔

( خطبات حکيم الااسلام ج1 ص39)

حالانکہ صحيح حديث ميں آيا ہے کہ: { ان الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت} بيشک رسالت و نبوت منقطع ہو گئی ( الترمزی 2272 وقال صحيح غريب) رہا يہ کہنا کہ" اندھيرا پھيل گيا" تو يہ طيب صاحب کی گپ ہے جس کا حقيقت سے کوئی تعلق نہيں۔

نماز بھی خلاف سنت

ديوبنديوں کی نماز سنت کے مخالف ہوتی ہے مثلا بھول جانے کی صورت ميں ان کا امام صرف ايک طرف: دائيں طرف سلام پھير کر سجدہ سہو کرتا ہے جس کوئی ثبوت قرآن، حديث، اجماع يا آثار سلف ميں نہيں ہے، يہ لوگ نماز بھی انتہائی ليٹ کر کے پڑھتے ہيں۔ جس کا مشاہدہ ہر ديوبندی مکتب فکر کی مسجد ميں کيا جا سکتا ہے۔ ايک صحيح حديث کا خلاصہ يہ ہے کہ "اگر ( صحيح عقيدہ) امراء ( حکمران) نماز ليٹ کر کے پڑھيں تو اپنی نماز اول وقت ميں پڑھ لينی چاھيے۔ اور اس کے بعد اگر کوئی ان کے ساتھ نماز پائے تو دوبارہ نفل سمجھ کر پڑھ لے۔

( صحيح مسلم کتاب المساجد ح 642)

اس کے علاوہ ان کے علماء اتنی جلدی اور تيز نماز پڑھتے ہيں کہ رکوع اور سجود ميں ارکان کا بلکل خيال نہيں رکھا جاتا، بلکہ نماز صرف ايک پريڈ معلوم ہوتی ہے، اور رمضان مبارک ميں تراويح ميں تو حد کر جاتے ہيں اور قرات ميں يعلمون تعلمون کے علاوہ کچھ سمجہ ميں نہيں آتا۔ حالانکہ اللہ عزوجل نے فرمايا ہے کہ: " قرآن کو ٹھر ٹھر کر پڑھا کرو" ان حضرات کے عقاعد ميں بہت ہی زيادہ شرک و بدعت ہوتی ہے اور تنقيد کا نشانہ بناتے ہيں بريلوی حضرات کو، حالانکہ ديوبندی اور بريلوی حضرات کے عقاعد ميں فرق زيادہ نہيں ہے۔ يہ لوگ سيدھے سادھے مسلمانوں کو يہ کہ کر دھوکا ديتے ہيں کہ ہم بدعت، شرک، وليوں سے مانگنا، پيروں کی مزاروں پہ اميديں لے کر جانآ يا ان جيسے بہت سے عقاعد سے بري ہيں۔ حالانکہ ايسا نہی ہے، اگر آپ ان اوپر بيان کيے حضراتکی کتب کا مطعلہکريں گے تو ساری حقيقت سامنے آجائے کی۔ اور اگر آپ ان سے علماء کے ايسےعقاعد کی نشاندہی کرائيں گے تو دو قسموں کا جواب ملے گا، ايک یہ کہ ہمارے علماؤں کے کہنے کا یہ مطلب نہیں ہے اور دوسرا کہ مگر ہمارے عقاعد ان جيسے نہيں ہيں۔

1- اگر ان کے کہنے کا يہ مطلب نہی ہے تو کيا وہ حضرات چائنيز يا جيپنيز زبان ميں بات کرتے تھے يا لکھتے تھے جو آپ کی سمجھ سے باہر تھا ؟ 2- اگر آپ کے عقاعد ان اوپر بيان کيے حضرات جيسے نہيں ہيں تو ان سے اپنا تعلق ختم کرنے کا اعلان کيوں نہيں کرتے؟ يا اپنے مدرسوں ميں ان کی کتب کيوں پڑھاتے ہو؟ جيسے ہمارے کچھ حضرات (نواب صديق حسن خان، مياں نذير حسين، نواب وحيد الزماں، مير نور حسن، مولوی محمد حسين اور مولوی ثنااللہ) نے چند کتابيں لکھيں ہيں مگر ہم ان کو اور ان کی کتابوں کو نہيں مانتے اور کہتے ہيں کہ ان کی کتابوں کو آگ لگا دو۔ کيونکہ ہم صرف قرآن اور صحيح حديث کی پيروی کرتے ہيں نہ کہ کسی امام يہ عالم کی جو قرآن اور صحيح حديث سے ہٹ کے بات کرے گا۔ اس بات کا ثبوت خود ديوبندی عالم ماسٹر امين اوکاڑوی اپنی لکھی ہوئی کتاب سے ملتا ہے کہ:اگرچہ وہ يہ کہتے ہيں کہ ہم نے قرآن اور حديث کے مسائل لکھے ہيں ليکن غير مقلدين کی تمام جماعتوں کے علماء اور عوام بالاتفاق ان کتابوں کو غلط قرار دے کر مسترد کر چکے ہيں اور بار بار اپنی تقريروں کہتے ہيں کہ ان کتابوں کو آگ لگا دو۔

( مجموعہ رسائل ج1 ص 22، تحقيق مسئلہ تقليد ص 6)

تو اس سے پتا چلتا ہے کہ ہمارے نزديک صرف اور صرف قرآن اور صحيح حديث کی اہميت ہے نہ کہ کسی فقہ کے امام کی يا کسی فرقہ کے علماء کی۔

ميری گذارش ہے آپ مسلمان بہنوں اور بھائيوں سے یہ فقہ پرستی اور فرقہ پرستی کو چھوڑديں اور صرف قرآن اور حديث کے دامن کو پکڑيں آپ کبھی بھی گمراہ نہيں ہونگے يہ اللہ عزوجل کا وعدہ ہے۔ ان شا اللہ
.
 
Top