• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ديوبند سے چند سوال

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
اسلام عليکم
اس ٹھريڈ ميں ميں صرف اکابر علماء ديوبند پر کچھ تحرير کرنا چاہونگا ٫

احباب ديوبندى جو اپنے آپ کو حنفى ديوبندى کہلواتے ہيں جب کہ اصل ميں يہ لوگ گمراہ کن مرجيئہ فرقے سےتعلق رکھتے ہيں ٫ جيساکہ خود عبد القادر جيلانى نے ان کا شمار گمراہ کن فرقوں ميں کيا ہے

ہشام بن عبد المک کے عہد ميں ايک شخص جعد بن درہم جس نے اللہ کى صفات کا اانکار کيا تھا کوفہ ميں جعد کا ايک شاگرد تھا ٫ جہم بن صفوان جو اگرچہ کوئي عالم نہيں تھا ٫ مگر بڑا چرب زبان اور فصيح اللسان تھا اس نے جعد بن درہم کے خيالات کي اشاعت نہايت زور و شور سے کي ٫ بہت سے لوگ اسکے ہم خيال ہوگئے تھے ٫ اس فرقے کا نام جہم کے نام سے منسوب ہوکر ( جہميہ ) ہوا ۔
جعد بن درہم کو خالد بن عبدااللہ القسري جو عراق کا حاکم تھا اس وقت عين بقرا عيد کے دن شہر واسط ميں يہ کہتے ہوئے جعد کو قتل کيا ۔ ( ايھا الناس اضحوا تقبل اللہ ضحاياکم انى مصنع بالجعد بن درہم انہ زعم ان اللہ لم يتخد ابراہيم خليلا و لم يکلم موسى تلکيما) ترجمہ ۔ لوگوں ! قربانياں کرو اللہ تعالى تمہاري قربانيوں کو قبول فرمائے ٫ مين جعد بن درہم کو ذبح کررہاہوں ٫ اس کا باطل گمان ہے کہ اللہ نے ابراہيم عليہ السلام کو دوست نہيں بنايا ٫ اور نہ ہي حضرت موسى عليہ السلام سے کلام کيا ٫٫


جعد بن درہم کو قتل کردينے پر حضرت حسن بصري اور ديگر علماء سلف نے خالد کا شکريہ ادا کيا تھا ٫

اور جہم بن صفوان کو بني اميہ کے آخري خليفہ مروان الحمار کے عہد حکومت ميں نصر بن يسار حاکم خراسان کے حکم پر قتل کرديا گيا تھا ۔ التحفة العراقية ص:68 العقيدة الأصفهانية ص:23 درء التعارض 5/244 الصواعق المرسلة 3/1071

بعض اہل علم کہتے ہيں اس روايت ميں ضعف ہے روايت معلق ہے ۔

جعد بن درہم اللہ کے باقى صفات کا بھي انکار کيا کرتا تھا ۔ جيسے ديوبند کہ اکابرين اور انکے مقلدين کرتے ہيں ۔

اللہ کہ صفات اوراستواء کي تعويل کرکے صفات اور اللہ کي جہت کا انکار کرتے ہيں ۔۔۔

علماء ديوبند کى معروف کتاب المہند على المفند جو کہ 60 علماء ديوبند سے مصدقا شدہ ہے کہ اس ميں جو عقائد درج ہيں وہ عقائد ہمارے اور ہمارے اکابرين کہ ہيں ۔
اس کتاب کے صفہ نمبر ۴۷ ميں سوال نمبر ۱۳ – ۱۴ کے جواب ميں انہونے اللہ کہ آسمانوں پر مستوى ہونے سے انکار کيا اور تعويليں کي اور اللہ تعالى کے آسمانوں پر مستوى ہونے پر انکار کيا ۔

دليل کہ لئے

آئيے اب
احناف کا اور امام ابو حنيفہ کا عقيدہ ديکھتے ہيں کہ ان کا کيا عقيدہ تھا استواء على العرش پر احناف کى معتبر کتاب فقہ اکبر کي شرح منح الروض الازھر فى شرح فقہ اکبر مصنف على بن سلطان محمد القارى صفہ نمبر ۳۳۳ ميں لکھتے ہيں کہ بلخى نے امام ابو حنيفہ سے پوچھا اگر کوءي يہ کہيں کہ مجھے نہيں پتہ کہ اللہ آسمانوں ميں ہے يا زميں پر ٫ امام ابوحنيفہ نے کہا اسنے کفر کہا کيونکہ اللہ تعالى قرآن ميں سورہ طہ آيت نمبر ۴ ميں فرماتا ہے ( الرحمن على العرش استوى ) اوراللہ کا عرش ۷ آسمانوں کے اوپر ہے ۔ بلخى نے کہا اگر وہ يہ کہے کہ اللہ عرش پر تو ہے مگر ميں يہ نہيں جانتا کہ عرش آسمانوں کے اوپر ہے يا زمين پر امام ابو حنيفہ نے کہا وہ کافر ہے ٫کيونکہ اس نے آسمانوں کا انکار کيا اور جس نے عرش کے آسمانوں پر انکار کيا سوائے کفر کہ کچھ نہ کيا۔

يہى عقيدہ انکى دوسرى کتاب عقيدہ طحاويہ ميں مذکور ہے کہ جس نے آسمان کا انکار کيا وہ کافر ہے ۔۔۔

ألسلام ميں بنيادى چيز عقيدہ ہے نہ کہ فروعى مسائل ٫ اب اگر کوئي مرزئي روزہ ٫ نماز ٫ زکاۃ ٫ يا حج سنت کے مطابق ادا کريں تو کيا انکى يہ اعمال اللہ کے يہاں قابل قبول ہونگے ؟ يا کوئي شيعہ عقيدۃ تو اسکا وہي شيعوں والا ہوں ہو مگر باقى معملات سنت کے مطابق ادا کريں تو کيا اسکے يہ اعمال قبول ہونگے؟

نہيں ہونگے کيونکہ اس کے عقائد ہى کفريہ ہيں ٫ ٹھيک اسي طرح سے ديوبندى مسائل تو امام ابو حنيفہ سے ليتے ہيں مگرعقائد نہيں ۔

اس سوال کےجواب پرديوبند يہ جواب ديتے ہيں کہ ہر فن کا ايک امام ہوتا ہے ۔

اب سوال يہاں يہ پيدا ہوتا ہے کہ عجيب سي بات ہے امام صاحب نے اہم ترين چيز کو چھوڑ کر اس چپز کي طرف تھک دوڑکي جوعقائد کہ بعد آتے ہيں۔ تو کيا امام صاحب کے نذيک فروعى مسائل مقدم تھےعقائد پر ؟
يہاں
ديوبند سے ايک سوال ہے اگر ان کے پاس کوئى شيعہ يا مرزئي يا ہندوں يا کوئى بھي کافر آجائے تو اس کو يہ سب سے پہلے کس چيزکي دعوت دے گے فرعى مسائل کى يا عقيدہ توحيد کى؟


يقينا ديوبند کا جواب ہوگا سب سے پہلے عقائد پھر مسائل ۔

اب مٍسئلہ يہاں يہ پيدا ہوتا ہے جو عقيدے کو نا سمھج سکے وہ معلات ميں کيسے صحيح ہوسکتا ہے ؟
امام صاحب نے اس بنيادى اور اساسى چيز کو چھوڑ کر ان مسائل ميں کيوں اتنى دلچسپى لى جن کا ان پر کوئى وبال نہ تھا نہ ہى اللہ ان سے باز پرست کرتے ٫ آخر وہ لوگ بھى تو جنت ميں جائے گے جو نہ تو علم تھے نہ ہيں اور نہ ہي امام تھے يا ہيں٫ پھر کہى وہي شيعيوں والا عقيدۃ تو نہيں کہ امام من جانب اللہ ہوتا ہے ؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
کیسے الٹے سیدھے سوال ہیں؟ میرے پیارے بھائی کوئی علمی بات کریں۔ کوئی اچھا سا سوال کریں تا کہ جواب دیتے ہوئے خوشی ہو۔
اب میں اگر کہوں کہ امام بخاری نے تفسیر پر کتاب کیوں نہیں لکھی۔ صرف چند حدیثیں تفسیر کے بارے میں لے آئے۔ تو یہ کوئی سوال ہوگا؟
میں کہوں جسے قرآن ہی نہیں سمجھ آیا وہ حدیث کیا بیان کرے گا تو یہ کوئی سوال ہے؟
یار کچھ انسانوں والا علمی کام کریں۔
 
Top