محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
ديور تو موت ہے !!!
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمانا كہ:
" ديور تو موت ہے "
اس كا معنى يہ ہے كہ اس سے خطرہ اور خوف دوسرے شخص سے بھى زيادہ ہے، اور اس سے برائى متوقع ہے، اور فتنہ و خرابى زيادہ ہے كيونكہ اس كا بغير كسى روك ٹوك اور ممانعت كے عورت تك پہنچنا اور اس سے خلوت كرنا ممكن ہے، بخلاف اجنبى شخص كے اس كا ايسا كرنا ممكن نہيں.
يہاں الحمو سے مراد خاوند كے قريبى رشتہ دار مرد ہيں جن ميں خاوند كا باپ اور خاوند كى اولاد شامل نہيں، خاوند كے والد اور اس كے بيٹے بيوى كے محرم ہيں، اور ان سے خلوت جائز ہے، انہيں موت كا وصف نہيں جاتا.
تو يہاں اس سے مراد خاوند كا بھائى يعنى ديور اور چچا زاد بھائى اور بھتيجا، اور چچا ہے، اسى طرح دوسرے مرد جو عورت كے محرم نہيں، عام لوگوں كى عادت ہے كہ وہ اس ميں كوتاہى اور تساہل سے كام ليتے ہيں.
چنانچہ ديور بھابھى كے ساتھ خلوت كرتا ہے، تو يہى موت ہے، اور كسى دوسرے اجنبى سے زيادہ ديور كو منع كرنا زيادہ اولى ہے، جو ہم بيان كر چكے ہيں، جو ميں بيان كيا ہے اس حديث كى شرح ميں صحيح بھى يہى ہے ....
ابن الاعرابى كہتے ہيں:
" يہ كلمہ عرب كى كلام ميں بالكل اسى طرح كہا جاتا ہے جس طرح يہ كہا جائے كہ شير موت ہے، يعنى شير سے ملنا ايسے ہى ہے جيسے موت "
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمانا كہ:
" ديور تو موت ہے "
اس كا معنى يہ ہے كہ اس سے خطرہ اور خوف دوسرے شخص سے بھى زيادہ ہے، اور اس سے برائى متوقع ہے، اور فتنہ و خرابى زيادہ ہے كيونكہ اس كا بغير كسى روك ٹوك اور ممانعت كے عورت تك پہنچنا اور اس سے خلوت كرنا ممكن ہے، بخلاف اجنبى شخص كے اس كا ايسا كرنا ممكن نہيں.
يہاں الحمو سے مراد خاوند كے قريبى رشتہ دار مرد ہيں جن ميں خاوند كا باپ اور خاوند كى اولاد شامل نہيں، خاوند كے والد اور اس كے بيٹے بيوى كے محرم ہيں، اور ان سے خلوت جائز ہے، انہيں موت كا وصف نہيں جاتا.
تو يہاں اس سے مراد خاوند كا بھائى يعنى ديور اور چچا زاد بھائى اور بھتيجا، اور چچا ہے، اسى طرح دوسرے مرد جو عورت كے محرم نہيں، عام لوگوں كى عادت ہے كہ وہ اس ميں كوتاہى اور تساہل سے كام ليتے ہيں.
چنانچہ ديور بھابھى كے ساتھ خلوت كرتا ہے، تو يہى موت ہے، اور كسى دوسرے اجنبى سے زيادہ ديور كو منع كرنا زيادہ اولى ہے، جو ہم بيان كر چكے ہيں، جو ميں بيان كيا ہے اس حديث كى شرح ميں صحيح بھى يہى ہے ....
ابن الاعرابى كہتے ہيں:
" يہ كلمہ عرب كى كلام ميں بالكل اسى طرح كہا جاتا ہے جس طرح يہ كہا جائے كہ شير موت ہے، يعنى شير سے ملنا ايسے ہى ہے جيسے موت "