محدث میڈیا
رکن
- شمولیت
- مارچ 02، 2023
- پیغامات
- 984
- ری ایکشن اسکور
- 33
- پوائنٹ
- 77
شریعت کا عام اصول یہی ہے کہ نماز مسجد میں ادا کی جائے گی، اور مسجدیں اسی مقصد کے لیے بنائی گئی ہیں۔
سيدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ فَلَمْ يَأْتِهِ، فَلَا صَلَاةَ لَهُ، إِلَّا مِنْ عُذْرٍ (سنن ابن ماجه، المساجد والجماعات: 793) (صحیح)
’’ جو شخص اذان سن کر (نماز کے لیے مسجد میں) نہیں آتا ، اس کی کوئی نماز نہیں، سوائے کسی عذر کی صورت کے۔‘‘
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ، فَيُحْطَبَ، ثُمَّ آمُرَ بِالصَّلاَةِ، فَيُؤَذَّنَ لَهَا، ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَيَؤُمَّ النَّاسَ، ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَى رِجَالٍ، فَأُحَرِّقَ عَلَيْهِمْ بُيُوتَهُمْ (صحيح البخاري، الأذان: 644، صحيح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة: 651)
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ کسی کو لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں تاکہ لکڑیوں کا ڈھیر لگ جائے، پھر نماز کے لیے کسی کو اذان دینے کے متعلق کہوں، پھر کسی شخص کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کا امام بنے اور میں خود ان لوگوں کے پاس جاؤں (جو جماعت میں شریک نہیں ہوتے)، پھر انہیں ان کے گھروں سمیت جلا دوں۔‘‘
سيدناابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک نابینا آدمی حاضر ہوا اور عرض کی : اے اللہ کےرسول ! میرے پاس کوئی لانے والا نہیں جو (ہاتھ سے پکڑ کر )مجھے مسجد میں لے آئے ۔ اس نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ اسے اجازت دی جائے کہ وہ اپنے گھر میں نماز پڑھ لے ۔ آپ نے اسے اجازت دے دی ، جب وہ واپس ہو ا تو آپ ﷺ نے اسے بلایا اور فرمایا :
هَلْ تَسْمَعُ النِّدَاءَ بِالصَّلَاةِ؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: «فَأَجِبْ (صحیح مسلم، المساجد ومواضع الصلاۃ: 653)
’’کیا تم نماز کا بلاوا (اذان )سنتے ہو؟ ‘‘ اس نے عرض کی :جی ہاں ۔ آپ نے فرمایا:’’تو اس پر لبیک کہو۔‘
مذکوہ بالا احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنا لازمی ہے۔ اگر کسی بھی جگہ نماز کی جماعت کروا لینا درست ہوتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس نابینے صحابی کو اجازت دے دیتے کہ وہ اپنے اہل خانہ کو اکٹھا کر کے گھر میں ہی نماز کی جماعت کروا لے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت نہیں دی۔ اس لیے جو شخص اذان کی آواز سنے اس پر واجب ہے کہ وہ مسجد میں آکر باجماعت نماز ادا کرے۔
سيدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ فَلَمْ يَأْتِهِ، فَلَا صَلَاةَ لَهُ، إِلَّا مِنْ عُذْرٍ (سنن ابن ماجه، المساجد والجماعات: 793) (صحیح)
’’ جو شخص اذان سن کر (نماز کے لیے مسجد میں) نہیں آتا ، اس کی کوئی نماز نہیں، سوائے کسی عذر کی صورت کے۔‘‘
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ، فَيُحْطَبَ، ثُمَّ آمُرَ بِالصَّلاَةِ، فَيُؤَذَّنَ لَهَا، ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَيَؤُمَّ النَّاسَ، ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَى رِجَالٍ، فَأُحَرِّقَ عَلَيْهِمْ بُيُوتَهُمْ (صحيح البخاري، الأذان: 644، صحيح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة: 651)
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ کسی کو لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں تاکہ لکڑیوں کا ڈھیر لگ جائے، پھر نماز کے لیے کسی کو اذان دینے کے متعلق کہوں، پھر کسی شخص کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کا امام بنے اور میں خود ان لوگوں کے پاس جاؤں (جو جماعت میں شریک نہیں ہوتے)، پھر انہیں ان کے گھروں سمیت جلا دوں۔‘‘
سيدناابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک نابینا آدمی حاضر ہوا اور عرض کی : اے اللہ کےرسول ! میرے پاس کوئی لانے والا نہیں جو (ہاتھ سے پکڑ کر )مجھے مسجد میں لے آئے ۔ اس نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ اسے اجازت دی جائے کہ وہ اپنے گھر میں نماز پڑھ لے ۔ آپ نے اسے اجازت دے دی ، جب وہ واپس ہو ا تو آپ ﷺ نے اسے بلایا اور فرمایا :
هَلْ تَسْمَعُ النِّدَاءَ بِالصَّلَاةِ؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: «فَأَجِبْ (صحیح مسلم، المساجد ومواضع الصلاۃ: 653)
’’کیا تم نماز کا بلاوا (اذان )سنتے ہو؟ ‘‘ اس نے عرض کی :جی ہاں ۔ آپ نے فرمایا:’’تو اس پر لبیک کہو۔‘
مذکوہ بالا احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنا لازمی ہے۔ اگر کسی بھی جگہ نماز کی جماعت کروا لینا درست ہوتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس نابینے صحابی کو اجازت دے دیتے کہ وہ اپنے اہل خانہ کو اکٹھا کر کے گھر میں ہی نماز کی جماعت کروا لے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت نہیں دی۔ اس لیے جو شخص اذان کی آواز سنے اس پر واجب ہے کہ وہ مسجد میں آکر باجماعت نماز ادا کرے۔
- لہذا اگر دکان کے قریب مسجد موجود ہو تو انسان پر واجب ہے کہ نماز کے لیے مسجد میں جائے ۔ اگر ہر دکان دار اپنی دکان میں ہی جماعت کروانا شروع کر دے، تو مسجد خالی ہو جائے گی، اور یہ شریعت کے مقصد کے سراسر خلاف ہے۔ شریعت کا مقصد ہے کہ تمام اہل محلہ مسجد میں جا کر باجماعت نماز ادا کریں۔
- مسجد میں نماز ادا کرنے کے لیے چل کر جانے ، نماز کا انتظار کرنے، تحیۃ المسجد اور دیگر اعمال کا بہت زیادہ اجر وثواب بیان ہوا ہے، دکان میں نماز ادا کرنے کی صورت میں انسان اتنے زیادہ اجر وثواب سے محروم ہو جاتا ہے۔
- اگر مسجد دور ہے ، اذان کی آواز سنائی نہیں دیتی، تو پھر دکان میں باجماعت نماز کروائی جا سکتی ہے۔