• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دہشت گردی براستہ مذہبی شدت پسندی!

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
دہشت گردی براستہ مذہبی شدت پسندی!

کالم، عطاء الحق قاسمی: ہفتہ 27 صفر 1436هـ - 20 دسمبر 2014م

دہشت گردی ہمارے ہاں یونہی پروان نہیں چڑھی، ہم لوگوں نے خود ’’جہادی‘‘ گروپ تیار کئے، بعد میں جب یہ جن بوتل سے باہر آیا تو ہم نے ان میں سے کسی کو اچھے دہشت گرد اور کسی کو برے دہشت گرد قرار دے ڈالا۔ ان کی ذہنی تربیت کے لئے وہ لاکھوں روایات کافی تھیں جن میں سے کچھ من گھڑت تھیں اور کچھ کمزور تھیں۔ امام بخاریؒ اور کچھ دوسرے محدثین نے محنت شاقہ سے کام لیتے ہوئے بے شمار حدیثوں کو رد کیا جو حضور پاک ﷺ سے منسوب کی گئی تھیں۔ اس کے باوجود ابھی بے شمار مواد ہماری کتابوں میں موجود ہے جو ملک دشمن اور اسلام دشمن اپنے ناپاک مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس صورتحال کا خوفناک پہلو یہ ہے کہ ابھی تک علماء کے کسی بورڈ نے ان روایات کی چھان بین کا اہم کام نہیں کیا جو حضور پاک ﷺ سے منسوب کی گئیں، چنانچہ ہر فرقے کو اپنے مطلب کی ’’ضعیف روایات‘‘ مل جاتی ہیں، بلکہ اگر آج کوئی گروہ دس بیس مزید فرقے بھی بنانا چاہے تو اسے ان فرقوں کی حقانیت ثابت کرنے کے لئے زیادہ تردد نہیں کرنا پڑے گا۔ ان کے لئے پورا میٹریل کتابوں میں تیار پڑا ہے۔ واعظ اور ذاکر حضرات کی دکانداری انہی روایات کے بل بوتے پر چلتی ہے، وہ یہ روایات بے دریغ استعمال کرتے چلے جاتے ہیں اور نعرہ ہائے تکبیر اور نعرہ ہائے حیدری میں اس کی داد ان سامعین سے وصول پاتے ہیں، جن کے اپنے مقاصد کے لئے بھی یہ روایات نعمت غیر مترقبہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔۔۔ مسلم امہ اس وقت انہی روایات میں جکڑے ہوئے ’’اسلام‘‘ کی پیروکار ہے، انہی روایات کی وجہ سے نہ ہی شدت پسندی میں اضافہ ہو رہا ہے، فرقہ پرستی کا مرض ہماری شریانوں میں لہو کی طرح پھیل رہا ہے اور دہشت گرد گروہ انہی روایات کی بنیاد پر جنت کے ٹکٹ کٹوا رہے ہیں چنانچہ صورتحال

؎ یہ امت روایات میں کھو گئی
حقیقت خرافات میں کھو گئی

کی عملی تصویر بن کر رہ گئی ہے:

اب میں ایک ’’حدیث‘‘ بیان کر رہا ہوں، جسے پڑھ کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے اور اگر آپ اسے سچ سمجھ بیٹھیں گے تو آپ کا ایمان ڈگمگا جائے گا اس سے آپ کو یہ اندازہ ہو گا کہ بے بنیاد روایات کے علاوہ روایات میں تحریف کر کے بھی مسلمانوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ اس کی ایک مثال فیس بک پر طالبان کے ترجمان محمد خراسانی کا وہ پیغام بھی ہے جس کا متن یہ ہے: طالبان کے ترجمان محمد خراسانی کا کہنا ہے کہ مجاہدین کو ہدایات دی گئی تھیں کہ وہ صرف بڑے بچوں کا قتال کریں۔ پشاور کی کارروائی سنت نبوی ﷺ کے عین مطابق ہے۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے بھی بنو قریظہ کے قتال کے وقت یہی شرط مبارک عائد کی تھی کہ صرف ان بچوں کو قتل کیا جائے جن کے زیر ناف بال دکھائی دینا شروع ہو گئے ہیں، بچوں اور عورتوں کا قتل عین رسول پاک ﷺ کی تعلیم کے مطابق ہے، اعتراض کرنے والے صحیح بخاری جلد پانچ حدیث ایک سو اڑتالیس کا مطالعہ کریں‘‘ یہ ’’حدیث‘‘ جس طرح حوالوں کے ساتھ بیان کی گئی، میں ایک دفعہ تو لرز کر رہ گیا،

پہلے میں نے سوچا کہ کسی عالم دین سے رجوع کرتا ہوں مگر پھر خیال آیا کہ وہ کہیں صحیح بخاری کا نام سنتے ہی تاویلات کے ساتھ اس کی تصدیق نہ کر دیں چنانچہ میں نے اپنے منجھلے بیٹے علی عثمان قاسمی کو فون کیا جس نے ہائیڈل برگ یونیورسٹی جرمنی سے RELIGION IN SOUTH ASIA کے موضوع پر ڈاکٹریٹ اور لندن یونیورسٹی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ہے، اس نے بتایا کہ یہ حدیث غلط ’’کوٹ‘‘ کی گئی ہے، اصل واقعہ یہ ہے کہ غزوہ خندق میں یہودیوں کے قبیلہ بنو قریظہ کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ تھا کہ وہ کسی جنگ میں مشرکین کا ساتھ نہیں دیں گے لیکن جب غزوہ خندق کے دوران ایک بھگدڑ سی مچی تو بنو قریظہ نے یہ سمجھ کر کہ مسلمان شکست کھا رہے ہیں، ان پر عقب سے حملہ کر دیا۔ جب غزوہ اپنے اختتام کو پہنچا تو بنو قریظہ کو معاہدے کی خلاف ورزی کی سزا دینے کے لئے ان کے قبیلے کا محاصرہ کیا گیا جو 25 دن جاری رہا، بالآخر بنو قریظہ نے خود کو مسلمانوں کے سپرد کر دیا اور معاہدے کی خلاف ورزی پر سزا کے لئے اوس قبیلے کے سردار سعد بن معاذ کو ثالث مقرر کیا اور کہا کہ اس کا ہر فیصلہ ان کے لئے قابل قبول ہو گا۔ سعد بن معاذ نے یہودیوں کی مقدس کتاب تورات کے مطابق اپنا فیصلہ سنایا اور وہ یہ تھا کہ بنو قریظہ کے سارے مرد قتل کر دیئے جائیں اور عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا جائے یہ اصل واقعہ تھا مگر اس میں تحریف کر کے پشاور کے سانحہ عظیم کا جواز پیش کیا گیا۔

مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اس طرح کے لوگ قیامت کے روز حضور پاک ﷺ کا سامنا کیسے کریں گے، لیکن کیا انہیں اس کی پرواہ ہے بھی کہ نہیں۔ میرے خیال میں نہیں۔۔۔ یہ ان کا مسئلہ ہی نہیں لگتا۔

پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کے جو منبع ہیں ان میں سے کچھ بظاہر بالکل بے ضرر ہیں بلکہ اگر ان ذرائع کو صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تو ہمارا ملک جنت کا نمونہ بن سکتا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ شرعی وضع قطع کے پیران عظام کے علاوہ ان دنوں پڑھے لکھے لوگ ماڈرن قسم کے مرشدوں کی طرف ہی کھنچے چلے جا رہے ہیں۔ وہ ان کے پاس اپنے دنیاوی مسائل کے حل کے لئے جاتے ہیں اور وہ انہیں پڑھنے کے لئے کچھ وظائف بتا دیتے ہیں۔ اسی طرح خواتین بھی مختلف مقامات پر مذہبی مجلسیں منعقد کرتی ہیں۔ جہاں کوئی خاتون اسلام کے بارے میں گفتگو کرتی ہے مدرسوں کے علاوہ ہر گھر میں قاری صاحب بچوں کو قرآن ناظرہ پڑھانے کے لئے آتے ہیں۔

ہماری نصاب کی کتابوں میں خواہ وہ سائنس ہی کی کتاب کیوں نہ ہو، مذہبی تعلیم دی جا رہی ہے لیکن ان سب افعال کا نیٹ رزلٹ کیا ہے؟ کیا ہمارا معاشرہ ان اچھے کاموں کی بدولت اچھا ہوتا جا رہا ہے، اس کا باطن روشن ہو رہا ہے وہ نفرت، کدورت، حسد، غیبت، ملاوٹ، کرپشن، اسمگلنگ، فرقہ پرستی دہشت گردی، قتل و غارت گری اور اس طرح کی دوسری لعنتوں سے پاک ہو گیا ہے یا کم از کم اس میں کچھ کمی آئی ہے؟ آپ اپنے اردگرد اس سوال کا جواب تلاش کریں تو پتہ چلے گا کہ زیادہ سے زیادہ صرف ظاہر بدلا ہے، باطن کی کثافت وہیں کی وہیں ہے۔

کیا کریں تبصرہ کہ تاب نہیں
دن بھی تاریک ہو گیا صاحب
ہم کہاں سے کہاں تک آ پہنچے
دین تضحیک ہو گیا صاحب!

اور اب آخر میں میرا سوال اس کمیٹی سے ہے جو دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے تشکیل دی گئی ہے اور وہ سوال یہ ہے کہ کیا وہ اس فساد کی جڑوں تک پہنچ بھی سکے گی کہ نہیں کہ۔

اس میں دو چار سخت مقامات بھی آتے ہیں!
پس نوشت: ابھی ابھی مجھے ایک ایس ایم ایس موصول ہوا ہے۔ آپ بھی پڑھ لیجئے:۔ حکومت نے دہشت گردی کی روک تھام کے لئے جو کمیٹی بنائی ہے اس کے خلوص اور اہلیت کو جانچنے کے لئے دیکھنا ہو گا کہ وہ سات دنوں کے اندر ندر لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز کے خلاف کیا فیصلہ کرتی ہے
(واضح رہے کہ مولانا نے پشاور کے سانحہ کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا ہے)۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اس صورتحال کا خوفناک پہلو یہ ہے کہ ابھی تک علماء کے کسی بورڈ نے ان روایات کی چھان بین کا اہم کام نہیں کیا جو حضور پاک ﷺ سے منسوب کی گئیں، چنانچہ ہر فرقے کو اپنے مطلب کی ’’ضعیف روایات‘‘ مل جاتی ہیں،
یہ جملہ لکھنے سے پہلے بھی اگر کم از کم اپنے بیٹے سے رابطہ کرلیتے تو یقینا یہ کبھی نہ لکھتے ۔
’’ اہم کام ‘‘ سے قاسمی صاحب کی پتہ نہیں کیا مراد ہے ۔۔؟ زیادہ دور کیا جانا ہے شیخ البانی کے سلسلہ صحیحہ و ضعیفہ کے بارے میں ہی کسی سے معلومات لے لیتے ۔
شاید قاسمی صاحب کی مراد ہے کہ ’’ ضعیف روایات ‘‘ کو دریا برد کردینا چاہیے ۔ حالانکہ ایک پڑھا لکھا آدمی جو جدید ترین خبریں تلاش کرسکتا ہے ، اگر ذرا ذوق شوق رکھتا ہو تو مطلوبہ حدیث کی صحت و ضعف کے بارے میں علماء کی رائے بھی جان سکتا ہے ۔
اور پھر ’’ چوٹی کا کالم نگار ، مبصر و تجزیہ کار ‘‘ بننے کے لیے انگریزی سیکھنا ، لکھنا ، پڑھنا اور انگریزی لٹریچر کا مطالعہ تو ضروری ٹھہرتا ہے لیکن اسلامی موضوعات پر لب کشائی کرنے کے لیے اسلام کی بنیادی زبان ’’ عربی ‘‘ کی معرفت حاصل کرنا چنداں ضروری نہیں سمجھا جاتا ۔ چند قرآنی آیات کو بطریق صحیح تلاوت نہ کرسکنے والے یہ مفکرین و دانشور اپنی جہالت کی بنیاد پر علماء کی کوشش و کاوشوں کے ساتھ مذاق فرمانےکی سعی لاحاصل کرتے نظر آتے ہیں ۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
علمائے کرام سے مؤدبانہ گزارش

جمعرات 3 ربیع الاول 1436هـ - 25 دسمبر 2014م
عطاء الحق قاسمی


یورنیورسٹیاں اہل علم کے ہاتھ میں ہونا چاہیں۔ مگر کچھ عرصے سے کچھ جہلاء بھی اس پر قابض ہو چکے ہیں، بعض اوقات علم بھی تو جہالت ہی کی ایک قسم ہوتا ہے، تاہم چند یونیورسٹیوں کا انتظام و انصرام ان لوگوں کے پاس ہی ہے جو نہ صرف یہ کہ عالم ہیں بلکہ عالم کی ایک صفت اس کا عاجز ہونا بھی ان میں پائی جاتی ہے۔ سرگودھا یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری اسی کیٹیگری میں آتے ہیں۔ گزشتہ ایک کالم میں میں نے طالبان کے ایک ترجمان کی طرف سے بچوں کے قتال کے حق میں دی گئی صحیح بخاری کی ایک روایت کے بارے میں بتایا تھا کہ روایت میں تحریف کی گئی ہے اصل روایت اس سے مختلف ہے اور میں نے اس کی تفصیل بھی بیان کی تھی۔ ڈاکٹر اکرم چوہدری نے میرے نام اپنے خط میں اس حوالے سے مزید کچھ اہم باتیں کی ہیں، آپ یہ خط ملاحظہ فرمائیں:

محترمی و مکرمی عطاء الحق قاسمی صاحب

السلام علیکم و بعد!

مؤقر روزنامہ جنگ میں کل آپ کا کالم بعنوان ’’دہشت گردی براستہ مذہبی شدت پسندی‘‘ پڑھا۔ آپ مبارک باد کے مستحق ہیں کہ آپ نے طالبان کے ترجمان محمد خراسانی کو مسکت اور شافی جواب دے کر پوری پاکستانی قوم کی ترجمانی کی ہے۔ محمد خراسانی نے بخاری شریف میں وارد حدیث کی غلط توجیہہ کرتے ہوئے پشاور کے واقعہ کو سنت نبوی ﷺ کے عین مطابق قرار دیا ہے جو کہ تاریخی حقائق کے بالکل منافی ہے۔ غزوہ احزاب میں یہودی قبیلہ بنو قریظہ کی بدعہدی کو اسلامی ورثے کی اکثر کتب کے ساتھ ساتھ ابو عبداللہ محمد بن عمر الواقدی کی مغازی الرسول ﷺ اور ابن سعد کی الطبقات الکبریٰ میں خاص طور پر موضوع بنایا گیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ قبیلہ بنو قریظہ میثاق مدینہ کے دستخط کنندگان قبائل میں سے ایک تھا اور وہ جنگ اورامن دونوں حالتوں میں مسلمانوں کا ساتھ دینے کا پابند تھا۔ اس دور میں عالمی سطح پر جنگ میں حلیف قبائل میں سے کسی کی بدعہدی کی سزا موت تھی یہی سبب ہے کہ غزوہ احزاب/ خندق کے بعد یہود کو execute کیا گیا جسے مستشرقین (Orientalists) نے بھی بالعموم موضوع بحث نہیں بنایا اور سب سے اہم جسے ابن سعد نے الطبقات میں نقل کیا ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ یہود میں سے صرف ’’مقاتلہ‘‘ (لڑنے والے لوگوں) کو قتل کیا جائے۔ میثاق مدینہ کی شرائط میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ہر مذہب کے لوگوں کا فیصلہ ان کی شریعت اور روایت کے مطابق کیا جائے گا، بنو قریظہ کے مطالبہ پر بنو اوس کی جلیل القدر شخصیت حضرت سعدؓ بن معاذ کو جج مقرر کیا گیا جنہوں نے توریت کے مطابق یہود کے قتل کا حکم دیا۔

واقدی نے اس سلسلہ میں ایک دلچسپ روایت بھی نقل کی ہے کہ آپؐ کی طبعی رحمدلی کے سبب کئی صحابہ کرام کو یہ گمان گزرا کہ آپؐ یہود کو معاف فرمانا چاہتے ہیں تو سعدؓ بن معاذ اور سعدؓ بن عبادہ (سعدین) آپؐ کے پاس حاضر ہوئے اور کہا ’’اگر یہود کو معاف کرنے کے بارے میں آپؐ کو آسمان سے وحی آ گئی ہے تو وہی کریں جس کا حکم دیا گیا ہے اور اگر وحی نہیں ہے تو ہماری درخواست یہ ہے کہ ان بدعہد یہود کو قتل کردیا جائے‘‘ اور آپؐ نے یہود کے قتل کا حکم دیا۔

بنو قریظہ کو ان کی بدعہدی پر سزا دینا اور پشاور میں اسکول کے معصوم بچوں کو قتل کرنا کسی طور بھی ایک دوسرے سے مشابہہ معاملات نہیں ہیں اور نہ ہی اس بہیمانہ جرم کو بنو قریظہ کے معاملے پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔

محترم قاسمی صاحب! پشاور کے اندوہ ناک واقعے کے بعد سبھی اہل درد، اصلاح احوال کے لیے یک زبان ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو آپ ارباب اختیار کی توجہ دینی تعلیم کو عصری تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی جانب مبذول کرا دیں، تاکہ فرقہ واریت اور دہشت گردی کے عفریت سے اہالیان پاکستان کی جان چھوٹ جائے۔ (شکریہ)

والسلام…آپ کا…… پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری
وائس چانسلر، یونیورسٹی آف سرگودھا، سرگودھا

آپ نے ڈاکٹر اکرم چوہدری کا عالمانہ مکتوب پڑھا اب آپ سوچیں کہ انسانیت کے جو قاتل رسول پاکؐ کے اسم گرامی کو بھی اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے استعمال کرنے سے باز نہیں آتے کیا انہیں مسلمان کہلانے کا حق حاصل ہے چہ جائیکہ وہ ہمیں ’’مسلمان‘‘ بنانے کی کوشش کریں۔ مگر اس معاملے کا ایک پہلو اور بھی ہے اور وہ یہ کہ حضور پاکؐ کی وفات کے بعد اغیار نے لاکھوں کی تعداد میں احادیث وضع کیں۔ جنہیں ہمارے محدثین نے تحقیق کے کڑے معیاروں پر پرکھا اور پھر ان میں سے کسی کو صحیح کسی کو کمزور اور کسی کو من گھڑت قرار دیا۔ اس سے پہلے حضرت عمر فاروقؓ نے احادیث کے کئی جعلی مجموعے جلا دیئے تھے، ان کے بعد ہمارے محدثین نے بھی حدیث کی روایت میں بہت احتیاط سے کام لیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسماء الرجال ان کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے وہ کسی حدیث کے راوی کی سات پشتوں تک کی تحقیق کرتے تھے کہ وہ اور اس کے آبائو اجداد کس کردار کے حامل تھے۔ اور یوں کیا ان کی روایت پر اعتماد کیا جا سکتا ہے؟

مگر اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے انسان دیکھنے میں کچھ اور اندر سے کچھ اور ہوتے ہیں۔ یہ بات صحیح ہے کہ عربوں کے حافظے کی بہت دھومیں تھیں اور کہا جاتا ہے کہ وہ کئی نسلوں تک سنی ہوئی کوئی بات من و عن بیان کرنے پر قادر تھے لیکن ظاہر اور باطن کے فرق کے علاوہ سفر در سفر روایت میں سہواً اونچ نیچ بھی ہوسکتی ہے۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں تجویز کیا تھا کہ علما کا ایک بورڈ احادیث کے تمام مجموعوں کا ایک بار پھر جائزہ لے اور اس میں سے جو احادیث قرآن پاک کی تعلیمات اور حضور اکرمؐ کی سیرت طیبہ کے منافی ہوں ان کی تاویل کرنے کی بجائے انہیں مسترد کر دیا جائے۔ میرے نزدیک بہت سی روایات ایسی بھی ہیں جنہیں گستاخانہ کہا جا سکتا ہے۔ حضور پاکؐ کی ذات اقدس پر مختلف غیر مسلم مصنفین نے جو ناپاک حملے کئے ہیں وہ انہی روایات کا سہارا لے کر کئے ہیں۔ ہمارے مذہب کا چہرہ بھی اپنوں کی طرف سے انہی روایات پر اصرار کے نتیجے میں مسخ کیا گیا ہے اور دہشت گردی کا عفریت بھی اسی ذہن کی پیداوار ہے جو ان روایات میں پل کر جوان ہوا ہے۔ علماے کرام سے میری مؤدبانہ درخواست ہے کہ خدا کے لئے کچھ کیجئے ورنہ مجھے آنے والے دن آج کے دن سے بھی برے نظر آ رہے ہیں۔
 
Top