کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
دہشت گردی کا شکار صرف مسلم ممالک
22 دسمبر 2015 کالم: ریاض احمد چوھدری
دہشت گردی کے عالمی انڈیکس کے مطابق دہشت گردی کے واقعات دنیا بھر میں بڑھ رہے ہیں، جس کا نتیجہ عالمی بدامنی، بے چینی اور عدم تحفظ کا احساس ہے۔ دنیا بھر میں دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار مسلمان ہیں۔ برطانوی اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کے شکار ملکوں میں دس سرفہرست ممالک ہیں۔
ہلاکتوں کے اعتبار سے عراق سرفہرست رہا۔
گلوبل ٹیررازم انڈیکس ظاہر کرتا ہے کہ عالمی طور پر اسی فیصد ہلاکتیں صرف پانچ ممالک میں ہوئیں۔
2014ء میں دنیا بھر میں دہشت گرد حملوں میں 32658 افراد ہلاک ہوئے جو 2013ء کے مقابلے میں 80 فیصد زیادہ تھے۔
گذشتہ سال دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ ٹاپ دس میں سات مسلم اکثریتی ممالک ہیں۔
برطانوی اخبار ’’انڈی پینڈنٹ‘‘ کے مطابق جی ٹی آئی رپورٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2014ء میں دہشت گردی کی مجموعی ہلاکتوں میں 78 فیصد ہلاکتیں پانچ ممالک عراق، افغانستان، نائیجیریا، پاکستان اور شام میں ہوئیں۔
گذشتہ برس دہشت گردی کی کارروائیوں میں سب سے زیادہ متاثر ملک عراق رہا۔
گلوبل ٹیرر ازم انڈیکس کے اعداد و شمار کے مطابق 2014ء میں عراق میں دہشت گردی سے 9929 ہلاکتیں ہوئیں۔
کسی ایک ملک میں یہ ایک سال میں سب سے زیادہ ہلاکتیں تھیں۔
160 ممالک کے اعداد و شمار میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ گذشتہ برس سب سے زیادہ دہشت گردی کی کارروائیاں نائیجیریا میں ہوئیں، جہاں 2014ء میں دہشت گردی میں 7512 افراد مارے گئے۔ یہ ہلاکتیں 2013ء کے مقابلے میں تین سو فی صد زیادہ تھیں۔ نائیجیریا میں تقریباً نصف مسلمان اور نصف عیسائی ہیں۔
دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ گیارہ میں دس ممالک میں مہاجرین اور اندرونی نقل مکانی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
گلوبل پیس انڈیکس کی رپورٹ بتاتی ہے کہ دنیا میں مسلح جنگوں کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد ساڑھے تین گنا بڑھی ہے۔
2010 ء میں ہلاکتوں کی تعداد 49 ہزار تھی، جو 2014 ء میں بڑھ کر ایک لاکھ 80 ہزار ہوگئی۔
یوں گزشتہ سال دہشت گردی میں مرنے والوں کی تعداد میں نو فیصد اضافہ ہوا ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ دہشت گردی کا شکار ہونے والے ممالک میں سرفہرست مسلم ممالک ہیں، جو دہشت گردی کے مراکز بنتے جا رہے ہیں، جبکہ مغربی ممالک مزید پرامن ہورہے ہیں۔
ایک وقت وہ تھا جب مسلم دنیا میں امن کا یہ عالم تھا کہ کوئی عورت تن تنہا مدینہ سے حرا تک کا سفر مال و جان کے خطرے کے بغیر کرلیا کرتی تھی۔ اس کے بعد بھی اگرچہ مسلمان حکمران رفاہی اسلامی ریاست کے اصولوں پر پوری طرح کاربند نہ رہے، لیکن پھر بھی داخلی امن کی حالت کافی حد تک مستحکم تھی۔
افسوسناک بات تو یہ ہے کہ بہت سے مسلم ممالک میں مسلمان سے مسلمان جنگ کرتا نظر آتا ہے۔
افغانستان، عراق، صومالیہ، شام اور دیگر کئی مسلم ممالک میں ایک نبیؐ، ایک قرآن اور ایک مذہب کے ماننے والے اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔ دنیا میں اور بھی بہت سے ممالک ہیں، لیکن بدامنی صرف مسلم ممالک کا مقدر بنی ہوئی ہے۔
اسلامی ممالک شورش زدہ ممالک میں تو سرفہرست ہیں، جبکہ پُرامن ممالک کی فہرست کی آخری سطروں میں بھی نام دکھائی نہیں دیتا۔ مشرق وسطیٰ کو امن کے لحاظ سے 2014ء کا سب سے متشدد خطہ قرار دیا گیا ہے، جب کہ مغرب امن کی تاریخی سطح کے بالکل قریب ہے۔ انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کے ایگزیکٹو چیئرمین سٹیو کیلیلیا کا کہنا ہے:
’’ مغربی یورپ کے ممالک پہلے کی نسبت زیادہ پُرامن ہوتے جا رہے ہیں۔ آئس لینڈ دنیا کا سب سے زیادہ پُرامن، جبکہ شام دنیا میں سب سے زیادہ تشدد کا شکار ملک ہے، جبکہ لیبیا کی پوزیشن میں گزشتہ برس کی نسبت زبردست گراوٹ آئی ہے‘‘۔
دہشت گردی کی کارروائیاں اور مذہبی انتہاپسندی مسلم دنیا کو تقسیم کرنے کا موجب بن رہی ہے۔ دہشت گردی میں اضافے کی بڑی وجہ عراق اور شام میں داعش اور مختلف مسلم ممالک میں دیگر عسکریت پسند تنظیموں کی کارروائیاں ہیں۔ لیکن یہ بھی حقائق ہیں کہ مسلم ممالک میں اودھم مچانے والی عسکری تنظیموں کو امریکا اور اسرائیل نے ہمیشہ تعاون فراہم کیا ہے۔ امریکا کی سی آئی اے اور اسرائیل کی موساد، انتہاپسندوں کی تربیت کر کے پوری دنیا میں دہشت گردی کے لیے ان کا استعمال کرتی ہیں۔ اقوام متحدہ میں شام کے نمائندے نے بھی گزشتہ دنوں اس بات کی توثیق کی ہے کہ دہشت گردوں کو اسرائیل کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ بڑھتی ہوئی دہشت گردی سے مسلم دنیا کی سلامتی اور استحکام کے حوالے سے سنگین چیلنج پیدا ہو گئے ہیں،جو وقت گزرنے کے ساتھ مزید سنگین ہوسکتے ہیں۔ دہشت گردی کا بنیادی علاج تو تعلیم کا فروغ ہے، لیکن فوری علاج علمائے کرام کر سکتے ہیں۔ علمائے کرام عوام کو بتائیں کہ اسلام میں کسی بے گناہ انسان کا قتل نہ صرف حرام ہے، بلکہ پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ دہشت گردی کی ممانعت سے متعلق اسلامی احکامات کی تشہیر اگر لوگوں کی مادری زبان میں کی جائے تو بلاشبہ بتدریج حالات میں تبدیلی آسکتی ہے اور دہشت گردی کی بیخ کنی ممکن ہوسکتی ہے۔
عالمی امن سے متعلق سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صرف گزشتہ برس تشدد، جنگوں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال سے منسلک اخراجات 140 کھرب ڈالر سے زیادہ رہے ہیں اور یہ رقم عالمی مجموعی پیداوار کے 13 فیصد سے زیادہ ہے۔ ان اخراجات کا حجم برازیل، کینیڈا، فرانس، جرمنی، برطانیہ اور اسپین کی مجموعی معیشتوں سے بھی زیادہ ہے۔ اندازہ لگائیے کہ اگر ساری نہیں تو اس سے نصف رقم بھی مسلم دنیا میں تعلیم کے فروغ پر خرچ کی جاتی تو دہشت گردی کا مقابلہ کرنا کس قدر آسان ہو جاتا؟
دہشت گردی اب تمام مسلم ممالک کا اجتماعی مسئلہ بن گیا ہے۔ دہشت گردی کے مسئلے کے حل کے لیے مختلف ملکوں کے سربراہ ایک دوسرے کے ملکوں کے دورے کر رہے ہیں۔ پاکستانی افواج کے سربراہ جنرل راحیل شریف بھی قیادت سنبھالنے کے بعد سے دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے مسلسل ہیں۔ سرحدوں کی نگرانی، دہشت گردوں کی فنڈنگ روکنے اور ان کی معاون شخصیات اور این جی اوز پر ہاتھ ڈالنے جیسے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ انہی اقدامات کی بدولت پاکستان کافی حد تک دہشت گردی پر قابو پانے میں کامیاب ہوسکا ہے، اگر پوری مسلم دنیا دہشت گردی کے خلاف مضبوط لائحہ عمل طے کرلے تو مسلم دنیا سے دہشت گردی کی بیخ کنی ہوسکتی ہے۔