کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے سائے
دنیا کے کئی تھنک ٹینک اور تحقیقی ادارے بنگال کے مدرسہ ماڈل کا مطالعہ کر رہے ہیں
بھارت کی ریاست مغربی بنگال میں پہلا انگریزی میڈیم مدرسہ شروع ہو گیا ہے۔ بنگال کے مدرسے پہلے ہی بر صغیر کے مدرسوں سے مختلف رہے ہیں۔
یہاں اسلامیات اور عربی کی تعلیم تو لازمی طور پر دی ہی جاتی ہے لیکن اس کے ساتھ ان کا نصاب وہ ہے جو جدید سیکولر سکولوں میں رائج ہے تاکہ یہاں کے بچے باقی تمام بچوں کی طرح دنیا میں آگے بڑھ سکیں۔
ندیہ ضلع میں کھلنے والے پہلے انگلش میڈیم مدرسے میں تقریبا 15 فی صد بچے ہندو ہیں۔ اسلامیات اور عربی اور قرآن وغیرہ کی تعلیم غیر مسلم بچوں کے لیے بھی لازمی ہے۔
بنگال کے مدرسوں کا تعلیمی معیار بہت اچھا ہے اور یہاں غریب طلبہ کا خاص خیال رکھا جاتا ہے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہزاروں ہندو بچے بھی ان مدرسوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
یہ مدرسے قدامت پسندی اور سخت گیریت کے بجائے مذہبی رواداری اور مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کا ذریعہ بنے ہوئے ہیںاور معاشرے کو بہترین افراد دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کئی تھنک ٹینک اور تحقیقی ادارے بنگال کے مدرسہ ماڈل کا مطالعہ کر رہے ہیں۔
دوسری جانب بھارت کی مغربی ریاست مہاراشٹر میں انجینیرنگ کی تعلیم حاصل کرنے والے بعض مسلم نوجوانوں کے بارے میں شبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ مذہب کے نام پر جنگ کے لیے عراق کے داعش (آئی ایس آئی ایس) باغی گروپ میں شامل ہو گئے ہیں۔
بھارتی مسلمان ابھی تک بین الاقوامی دہشتگرد تنظیموں یا تحریکوں سے بچے ہوۓ تھے
اطلاعات کے مطابق مہاراشٹر کے کلیان اور تھانے قصبے کے چار نوجوان مئی کے اواخر میں مذہبی مقامات کی زیارت کے لیے ایک بڑے گروپ کے ساتھ بغداد گئے تھے۔ اطلاعات کے مطابق بغداد میں چاروں نوجوانوں نے ایک ٹیکسی لی اور وہاں سے وہ فلوجہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ اس کے بعد سے ان کا کچھ پتہ نہیں ہے۔
ان میں سے ایک نے ایک مختصر خط میں صرف اتنا لکھا ہے کہ وہ خدا کی راہ میں لڑنے کے لیے نکلا ہے۔ اس نوجوان کے والدین نے بھارت کے وزیر داخلہ سے ملاقات کی اور ان سے اپنے بیٹے کو واپس لانے میں مدد کی اپیل کی ہے اور ان سے "جہاد کے لیے ورغلانے" والی تنظیم اور افراد کے خلاف کاروائی کرنے کی بھی درخواست کی ہے۔
ان چاروں نوجوانوں کے بارے میں کوئی بھی بات وثوق کے ساتھ نہیں کی جا سکتی کیونکہ بیشتر اطلاعات میڈیا اور مقامی لوگوں کے حوالے سے سامنے آئی ہیں۔ لیکن اگر یہ چاروں واقعی داعش گروپ میں شامل ہوئے ہیں تو یہ مذہب پرمبنی کسی بین اقوامی گروہ میں بھارتی مسلمانون کی شمولیت کا پہلا واقعہ ہو گا۔
بھارتی مسلمان ابھی تک بین الاقوامی دہشتگرد تنظیموں یا تحریکوں سے بچے ہوۓ تھے۔ کشمیر کی حالیہ 20 سالہ مسلح علیحدگی پسندی کی تحریک میں دنیا کے کئی ممالک کے شہری پائے گئے تھے لیکن پوری تحریک کے دوران بھارت کا ایک بھی مسلم اس تحریک کا حصہ نہیں بنا تھا۔
مسلمانوں کو بھی گہرائی سے اس بات کا جائزہ لینا ہو گا کہ وہ کون سے عناصر ہیں جو بھارتی مسلمانوں میں جہادی نظریات کو ہوا دے رہے ہیں
آج بھارت کے ایک سرکردہ اخبار نے کرناٹک کے بلال حسین نامی کسی شخص کی تصویر شائع کی ہے اور بتایا ہے کہ یہ حال میں افغانستان میں لڑتے ہوئے مارا گیا ہے۔ اخبار کے مطابق یہ شخص بھارتی پولیس کو اندرون ملک دہشت گردی کے بعض واقعات میں مطلوب تھا۔
اگر یہ اطلاعات صحیح ہیں تو یہ بھارت کی حکومت کے لیے فکر کی بات تو ہے ہی بھارت کے مسلمانوں کے لیے بھی ایک خطرناک صورتحال ہے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو بھی گہرائی سے اس بات کا جائزہ لینا ہو گا کہ وہ کون سے عناصر ہیں جو بھارتی مسلمانوں میں جہادی نظریات کو ہوا دے رہے ہیں۔
شکیل اختر، دہلی: ہفتہ 19 جولائی 2014