imran ahmed salafi
مبتدی
- شمولیت
- فروری 15، 2017
- پیغامات
- 8
- ری ایکشن اسکور
- 4
- پوائنٹ
- 19
دین اسلام کے مصادر اصلیہ جن سے عقائد،احکام،مسائل و معاملات وغیرہ اخذ کئے جائیں گے وہ صرف دو ہیں اور وہ دونوں وحی الہی ہیں.پہلا مصدر اللہ کی کتاب اور دوسرا مصدر اللہ کے رسول ﷺ کی احادیث مبارکہ ہے۔امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں " ولا يلزم قول بكل حال إلا بكتاب الله ، أو سنة رسوله صلى الله عليه وسلم ، وما سواهما تبع لهما "ترجمہ : " كتاب اللہ يا سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے علاوہ كوئى قول ہر حال ميں لازم نہيں، اور ان دونوں كے علاوہ جو كچھ ہے وہ ان دونوں كے تابع ہے "(دیکھیں جماع العلم /11)
امت اسلامیہ کے مجتہدعلماءکرام نے ان دونوں مصادر اصلیہ کی روشنی میں کچھ اصول اخذ کئے تاکہ ان پر نت نئے جدیدمسائل و احکام کی بنا کی جاسکے وہ اصول اجماع اور قیاس کے نام سے جانے جاتے ہیں.امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا " وليس لأحد أبداً أن يقول في شيء : حَلَّ ولا حَرُم إلا من جهة العلم ، وجهة العلم : الخبر في الكتاب أو السنة ، أو الإجماع ، أو القياس " ترجمہ : " كسى كے ليے كبھى يہ جائز نہيں كہ كسى چيز كے متعلق بغير علم كے حلت اور حرام كا كہے، اور جہت علم يہ ہے كہ: كتاب و سنت يا اجماع يا قياس كى خبر ركھتا ہو "(دیکھیں الرسالۃ/39).
عرف عام میں علماءو مجتہدین کے یہاں ان دو نوں مصادر اصلیہ اور ان دونوں اصولوں کو تشریع اسلامی کے مصادر کہے جاتے ہیں۔
آج امت اسلامیہ کی اکثریت تشریع اسلامی کے مصادر سے واقف نہ ہونے کی وجہ سےعقائد اور احکام و مسائل میں اختلاف سے دو چار نظر آرہی ہے،مسلمانوں کی اکثریت نے اپنے لئے اسوہ اور نمونہ اپنے بنائے ہو ئےخودساختہ اماموں کو بنا لیا ہے اورعقائد اور احکام و مسائل کی معرفت کیلئے شریعت کے اصل مصادر کے بجائے اپنے خود ساختہ ائمہ کی آراء کو ترجیح دینے لگى،یہاں تک کہ کتاب و سنت کے دلائل سے ناواقفیت کی بنیاد پر ایک دوسرے پر کفر کے فتوی تک لگادئے۔العیاذ باللہ
اللہ رب العزت نے اپنے پسندیدہ دین کی ترویج و اشاعت کیلئے کائنات کی سب سے عظیم شخصیت کا انتخاب کیا جنہوں نے وحی الہی کو مکمل طورپر اپنی امت تک پہنچادیا۔ آپ کے بعد آپ پر جان ومال قربان کرنے والے اصحاب کرام رضی اللہ عنھم نے اس دین کی دعوت کا بیڑا اٹھایا اور امت محمدیہ تک اللہ کی طرف سے آئے پیغام کو احسن طریقے سے پہنچایا۔ ہر بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی سنت نبویہ کو دنیا والوں تک پہونچایا۔ان کے بعد تابعین پھر اتباع تابعین اور ان کے بعد ائمہ دین نے تبلیغ دین کا فریضہ انجام دیا اور یہ سلسلہ آج تک چلا آریا ہے۔ صحابہ سے لیکرتابعین وتبع تابعین تک سبھوں نے عقائد اور احکام کے باب میں شریعت اسلامیہ کے بنیادی مصادر پر اعتماد کیا اور الحمد للہ ہر طرح کے اختلاف وانتشار سے محفوظ رہے ۔
لیکن آج مسلمانوں کی اکثر جماعتیں شریعت اسلامیہ کے اصل مصادر پر مکمل اعتماد نہیں کرتى جس کی بنیاد پرامت میں بھیانک اختلاف وانتشار پائے جاتے ہیں اور سبھی جماعتیں اپنے آپ کو حق پر سمجھتی ہیں اور اس پہ خوش ہیں،ہم بڑے ہی مخلصانہ ارادے سے مسلمانوں میں فرقہ اور اماموں کے نام پر مسلک بنانے والوں سے سوال پوچھنا چاہتے ہیں کہ آپ نے شریعت کے اصل مصادر کو چھوڑ کر جن کے آراء پر مکمل اعتماد کیا ہے ،کیا اللہ تعالی نے ان کے آراء پر اعتماد کا حکم دیا ہے؟ کیا اللہ کے رسول ﷺ نے ان کے آراءپر اعتماد کا حکم دیا ہے؟کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے ایسے کسی شخص کے نام کی تصریح کی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے بعد جن کے آراء پر اعتماد کیا جائے؟کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے کتاب و سنت کے دلائل کی موجودگی میں کبار صحابہ کے آراء پر اعتماد کیا ہے؟کیاآپ کے خود ساختہ امام جنہیں آپ نے اپنا پیشوا بنالیا وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے دین کے احکام و مسائل کی زیادہ معرفت رکھتے ہیں؟کیا ِآپ کے خودساختہ امام کے آراء قرآن اور اللہ کے رسول ﷺ کے فرامین کی طرح معصوم عن الخطا ہیں؟کیا ہمارے خودساختہ اماموں کے آراء علمائے امت کے نزدیک متفقہ ہیں ؟
یہ سوالات اور ایسے ہی بہت سارے سوالات ہیں جو ذہنوں میں گونجتے ہیں مقلدین کے پاس جن کا تسلی بخش جواب نہیں ہے ۔
آہ! اس امت کو ہمارے خیرخواہ نبی محمد ﷺ نے کتاب و سنت جیسی روشن شاہراہ پر چھوڑا اور آپ کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور پھر دیگر اسلاف کرام نے اس کتاب و سنت کے شمع کو روشن کئے رکھامگر آج ہم اپنے بناوٹی مسلک کی حقانیت کو ثابت کرنے میں کوشاں ونازاں ہیں اوراپنے مسلکی انا کو سکون پہونچانے کیلئے کتاب و سنت میں بے جا تاویلات سے بھی گریز نہیں کرتے۔
امت اسلامیہ کے مجتہدعلماءکرام نے ان دونوں مصادر اصلیہ کی روشنی میں کچھ اصول اخذ کئے تاکہ ان پر نت نئے جدیدمسائل و احکام کی بنا کی جاسکے وہ اصول اجماع اور قیاس کے نام سے جانے جاتے ہیں.امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا " وليس لأحد أبداً أن يقول في شيء : حَلَّ ولا حَرُم إلا من جهة العلم ، وجهة العلم : الخبر في الكتاب أو السنة ، أو الإجماع ، أو القياس " ترجمہ : " كسى كے ليے كبھى يہ جائز نہيں كہ كسى چيز كے متعلق بغير علم كے حلت اور حرام كا كہے، اور جہت علم يہ ہے كہ: كتاب و سنت يا اجماع يا قياس كى خبر ركھتا ہو "(دیکھیں الرسالۃ/39).
عرف عام میں علماءو مجتہدین کے یہاں ان دو نوں مصادر اصلیہ اور ان دونوں اصولوں کو تشریع اسلامی کے مصادر کہے جاتے ہیں۔
آج امت اسلامیہ کی اکثریت تشریع اسلامی کے مصادر سے واقف نہ ہونے کی وجہ سےعقائد اور احکام و مسائل میں اختلاف سے دو چار نظر آرہی ہے،مسلمانوں کی اکثریت نے اپنے لئے اسوہ اور نمونہ اپنے بنائے ہو ئےخودساختہ اماموں کو بنا لیا ہے اورعقائد اور احکام و مسائل کی معرفت کیلئے شریعت کے اصل مصادر کے بجائے اپنے خود ساختہ ائمہ کی آراء کو ترجیح دینے لگى،یہاں تک کہ کتاب و سنت کے دلائل سے ناواقفیت کی بنیاد پر ایک دوسرے پر کفر کے فتوی تک لگادئے۔العیاذ باللہ
اللہ رب العزت نے اپنے پسندیدہ دین کی ترویج و اشاعت کیلئے کائنات کی سب سے عظیم شخصیت کا انتخاب کیا جنہوں نے وحی الہی کو مکمل طورپر اپنی امت تک پہنچادیا۔ آپ کے بعد آپ پر جان ومال قربان کرنے والے اصحاب کرام رضی اللہ عنھم نے اس دین کی دعوت کا بیڑا اٹھایا اور امت محمدیہ تک اللہ کی طرف سے آئے پیغام کو احسن طریقے سے پہنچایا۔ ہر بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی سنت نبویہ کو دنیا والوں تک پہونچایا۔ان کے بعد تابعین پھر اتباع تابعین اور ان کے بعد ائمہ دین نے تبلیغ دین کا فریضہ انجام دیا اور یہ سلسلہ آج تک چلا آریا ہے۔ صحابہ سے لیکرتابعین وتبع تابعین تک سبھوں نے عقائد اور احکام کے باب میں شریعت اسلامیہ کے بنیادی مصادر پر اعتماد کیا اور الحمد للہ ہر طرح کے اختلاف وانتشار سے محفوظ رہے ۔
لیکن آج مسلمانوں کی اکثر جماعتیں شریعت اسلامیہ کے اصل مصادر پر مکمل اعتماد نہیں کرتى جس کی بنیاد پرامت میں بھیانک اختلاف وانتشار پائے جاتے ہیں اور سبھی جماعتیں اپنے آپ کو حق پر سمجھتی ہیں اور اس پہ خوش ہیں،ہم بڑے ہی مخلصانہ ارادے سے مسلمانوں میں فرقہ اور اماموں کے نام پر مسلک بنانے والوں سے سوال پوچھنا چاہتے ہیں کہ آپ نے شریعت کے اصل مصادر کو چھوڑ کر جن کے آراء پر مکمل اعتماد کیا ہے ،کیا اللہ تعالی نے ان کے آراء پر اعتماد کا حکم دیا ہے؟ کیا اللہ کے رسول ﷺ نے ان کے آراءپر اعتماد کا حکم دیا ہے؟کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے ایسے کسی شخص کے نام کی تصریح کی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے بعد جن کے آراء پر اعتماد کیا جائے؟کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے کتاب و سنت کے دلائل کی موجودگی میں کبار صحابہ کے آراء پر اعتماد کیا ہے؟کیاآپ کے خود ساختہ امام جنہیں آپ نے اپنا پیشوا بنالیا وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے دین کے احکام و مسائل کی زیادہ معرفت رکھتے ہیں؟کیا ِآپ کے خودساختہ امام کے آراء قرآن اور اللہ کے رسول ﷺ کے فرامین کی طرح معصوم عن الخطا ہیں؟کیا ہمارے خودساختہ اماموں کے آراء علمائے امت کے نزدیک متفقہ ہیں ؟
یہ سوالات اور ایسے ہی بہت سارے سوالات ہیں جو ذہنوں میں گونجتے ہیں مقلدین کے پاس جن کا تسلی بخش جواب نہیں ہے ۔
آہ! اس امت کو ہمارے خیرخواہ نبی محمد ﷺ نے کتاب و سنت جیسی روشن شاہراہ پر چھوڑا اور آپ کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور پھر دیگر اسلاف کرام نے اس کتاب و سنت کے شمع کو روشن کئے رکھامگر آج ہم اپنے بناوٹی مسلک کی حقانیت کو ثابت کرنے میں کوشاں ونازاں ہیں اوراپنے مسلکی انا کو سکون پہونچانے کیلئے کتاب و سنت میں بے جا تاویلات سے بھی گریز نہیں کرتے۔
اللہ ہم سب کو کتاب و سنت پر عمل کی توفیق دے۔آمین
تحریر : عمران احمد بن ریاض الدین سلفی
داعی و مبلغ اسلامک دعوہ سنٹر طائف
رابطہ : 966506116251+
تحریر : عمران احمد بن ریاض الدین سلفی
داعی و مبلغ اسلامک دعوہ سنٹر طائف
رابطہ : 966506116251+