بخاری سید
رکن
- شمولیت
- مارچ 03، 2013
- پیغامات
- 255
- ری ایکشن اسکور
- 470
- پوائنٹ
- 77
انیس سالہ عبدالطیف کا آبائی علاقہ تو اورکزئی ایجنسی ہے لیکن اُس کا خاندان گزشتہ کئی برس سے کوہاٹ میں رہائش اختیار کر چکا ہے۔
گزشتہ برس عبدالطیف گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے اورکزئی ایجنسی گئے جہاں ان کے چچا زاد بھائی نے انھیں ایک مرکز میں داخل کروا دیا۔
عبدالطیف کہتے ہیں کہ ’جنگل میں مرکز تھا جہاں مجھے تین ماہ تک لیکچر دیے جاتے رہےلیکچر میں بتایا گیا کہ حکومت سے جہاد فرض ہے۔بس میرا دماغی توازن ہی خراب ہوگیا ۔
عبدالطیف کو گزشتہ برس اس وقت خودکُش جیکٹ کے ساتھ گرفتار کیا گیا جب وہ کوہاٹ یونیورسٹی پر حملہ کرنے والے تھے۔
’ وہ کہتے تھے یونیورسٹی میں لڑکیاں سبق پڑھتی ہیں۔ یہ اسلام کے خلاف ہے۔ لڑکیاں پڑھیں گی تو سرکاری بندہ بن جائیں گی اسلام کی خلاف ورزی کریں گی اور ہمارے دینی ٹھکانے ختم کریں گی۔‘
عبدالطیف نے حال ہی میں ٹانک میں پاکستان کی فوج کی جانب سے قائم کیے گئے ادارے میں چار ماہ کی تربیت مکمل کی ہے۔
یہ ادارہ ان لوگوں کی بحالی کے لیے قائم کیا گیا ہے جنہیں مختلف اوقات میں سیکورٹی اداروں نے گرفتار کیا لیکن ان کے جرائم کی فہرست لمبی نہیں ہوتی اور وہ خود بھی اپنی اصلاح کے خواہشمند ہوتے ہیں ۔ ڈی ریڈیکلئزیشن ایمینسیپشن پروگرام (De-radicalization Emancipation Program) کے تحت اب تک ساٹھ افراد تربیت مکمل کرچکے ہیں ۔ ان لوگوں کو نہ صرف نفسیاتی مدد دی جاتی رہی بلکہ دینی حوالوں سے بھی ان کی اصلاح کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ آئندہ انھیں دین کے نام پر گمراہ نہ کیا جاسکے ۔
سید سجاد احمد کا تعلق ایک اعلی تعلیم یافتہ گھرانے سے ہے ۔ وہ کوہاٹ میں ایف ایس سی پری انجنئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہے تھے کہ ان کی ملاقات اپنے کالج کے باہر آنے والے شخص سے ہوئی ۔
وہ شخص ہمارے کالج کے باہر ہر روز موجود ہوا کرتا تھا ۔ اکثر اس کے موبائل پر نعتیں لگی ہوتیں ۔ پھر میری اس سے جان پہچان ہوگئی ۔ گھر والوں کو کچھ پتا نہیں تھا ۔ کالج آتے جاتے راستے میں وہ ہمیشہ میرے ساتھ ہوتا ۔ وہ اسلامی لیکچر دیتا تھا کہتا تھا آپ جنت میں جاؤ گے۔ آپ کے سب راستے آسان ہو جائیں گے اور آپ کی ہر خواہش پوری ہوگی۔
سجاد حسین کو پولیس وین پرگرینیڈ پھینکنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ۔
عبدالطیف کی طرح سجاد حسین نے بھی بحالی کے پروگرام کے دوران الیکڑیشن کا کام سیکھا ہے تاہم وہ تربیت مکمل کرنے کے بعد اپنے تعلیمی سلسلے کو بھی آگے بڑھانا چاہتے ہیں ۔
ادارے میں تربیت حاصل کرنے والوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہ انتہ اپسندوں کے نظریات پھیلانے کا کام کرتے رہے اورلوگوں کو انتہا پسندی پر اکُستاتے رہے۔ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اُن کے لیے مالی وسائل اکٹھا کرنے میں معاونت کرتے رہے ۔
جو ٹانک میں موجود اس فوجی ادارے سے تربیت حاصل کرتے ہیں انھیں مالی معاونت بھی دی جاتی ہے تاکہ وہ بعد میں اپنا کاوبار بھی کرسکیں ۔
سمیع اللہ کو اس ادارے سے فارغ التصحیل ہوئے چھ ماہ ہوچکے ہیں انھوں نے تربیت کے دوران سلائی کا کام سیکھا اور ٹانک میں درزی کی دکان کھول رکھی ہے ۔ سمیع اللہ کپڑوں کی سلائی کے ساتھ ساتھ پراپرٹی کا کام بھی کر رہے ہیں ۔
سمیع اللہ کہتے ہیں کہ ’جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے بعد بہت سے لوگ علاقے کو واپس آئے ہیں اس لیے پراپرٹی کا کام بھی اچھا چل رہا ہے ۔ ہم خود توپڑھ لکھ نہیں سکے لیکن اب بچوں کو پڑھانے کا ادارہ کیا ہوا ہے۔ محنت کرتے ہیں تاکہ بچے تعلیم حاصل کرکے ڈاکٹر بن جائے، فوج میں چلے جائیں اور پاکستان کی خدمت کریں۔‘
سینڑ میں زیر تربیت افراد سے بات چیت سے معلوم ہوا کہ انتہا پسندی کے لیے استعمال ہونے والے ان افراد کی اکثریت مذہب کے نام پر استعمال ہوئی غربت اور پسماندگی اور علاقے کا مجموعی ماحول بھی لوگوں پر اثرانداز ہوا۔
ادارے سے فارغ ہونے کے بعد اُن میں سے کتنے لوگ حقیقی طور پر نئی زندگی شروع کریں گے اور کتنے دوبارہ پرانی ڈگر پر چل پڑیں ظاہر ہے اس حوالے سے تو کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا ۔
لیکن ایک بات تو طے ہے کہ جب تک علاقے کے حالات میں مجموعی بہتری نہیں آئےگی انتہاپسندانہ سوچ کا خاتمہ نہیں ہوگا اور ان اقدامات کے خاطر خواہ نتائج بھی سامنے نہیں آسکیں گے ۔
فوجی آپریشن کے بعد جنوبی وزیرستان سے کچھ حد تک تشدد اور جنگ کا خاتمہ تو ہوچکا ہے لیکن محض جنگ کا نہ ہونا تو امن نہیں ۔ امن تو تحفظ کے احساس کا نام ہے اور اب یہ احساس صرف قبائلی علاقوں ہی نہیں بلکہ ملک کے دوسرے حصوں سے بھی معدوم ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔
ربط
گزشتہ برس عبدالطیف گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے اورکزئی ایجنسی گئے جہاں ان کے چچا زاد بھائی نے انھیں ایک مرکز میں داخل کروا دیا۔
عبدالطیف کہتے ہیں کہ ’جنگل میں مرکز تھا جہاں مجھے تین ماہ تک لیکچر دیے جاتے رہےلیکچر میں بتایا گیا کہ حکومت سے جہاد فرض ہے۔بس میرا دماغی توازن ہی خراب ہوگیا ۔
عبدالطیف کو گزشتہ برس اس وقت خودکُش جیکٹ کے ساتھ گرفتار کیا گیا جب وہ کوہاٹ یونیورسٹی پر حملہ کرنے والے تھے۔
’ وہ کہتے تھے یونیورسٹی میں لڑکیاں سبق پڑھتی ہیں۔ یہ اسلام کے خلاف ہے۔ لڑکیاں پڑھیں گی تو سرکاری بندہ بن جائیں گی اسلام کی خلاف ورزی کریں گی اور ہمارے دینی ٹھکانے ختم کریں گی۔‘
عبدالطیف نے حال ہی میں ٹانک میں پاکستان کی فوج کی جانب سے قائم کیے گئے ادارے میں چار ماہ کی تربیت مکمل کی ہے۔
یہ ادارہ ان لوگوں کی بحالی کے لیے قائم کیا گیا ہے جنہیں مختلف اوقات میں سیکورٹی اداروں نے گرفتار کیا لیکن ان کے جرائم کی فہرست لمبی نہیں ہوتی اور وہ خود بھی اپنی اصلاح کے خواہشمند ہوتے ہیں ۔ ڈی ریڈیکلئزیشن ایمینسیپشن پروگرام (De-radicalization Emancipation Program) کے تحت اب تک ساٹھ افراد تربیت مکمل کرچکے ہیں ۔ ان لوگوں کو نہ صرف نفسیاتی مدد دی جاتی رہی بلکہ دینی حوالوں سے بھی ان کی اصلاح کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ آئندہ انھیں دین کے نام پر گمراہ نہ کیا جاسکے ۔
سید سجاد احمد کا تعلق ایک اعلی تعلیم یافتہ گھرانے سے ہے ۔ وہ کوہاٹ میں ایف ایس سی پری انجنئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہے تھے کہ ان کی ملاقات اپنے کالج کے باہر آنے والے شخص سے ہوئی ۔
وہ شخص ہمارے کالج کے باہر ہر روز موجود ہوا کرتا تھا ۔ اکثر اس کے موبائل پر نعتیں لگی ہوتیں ۔ پھر میری اس سے جان پہچان ہوگئی ۔ گھر والوں کو کچھ پتا نہیں تھا ۔ کالج آتے جاتے راستے میں وہ ہمیشہ میرے ساتھ ہوتا ۔ وہ اسلامی لیکچر دیتا تھا کہتا تھا آپ جنت میں جاؤ گے۔ آپ کے سب راستے آسان ہو جائیں گے اور آپ کی ہر خواہش پوری ہوگی۔
سجاد حسین کو پولیس وین پرگرینیڈ پھینکنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ۔
عبدالطیف کی طرح سجاد حسین نے بھی بحالی کے پروگرام کے دوران الیکڑیشن کا کام سیکھا ہے تاہم وہ تربیت مکمل کرنے کے بعد اپنے تعلیمی سلسلے کو بھی آگے بڑھانا چاہتے ہیں ۔
ادارے میں تربیت حاصل کرنے والوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہ انتہ اپسندوں کے نظریات پھیلانے کا کام کرتے رہے اورلوگوں کو انتہا پسندی پر اکُستاتے رہے۔ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اُن کے لیے مالی وسائل اکٹھا کرنے میں معاونت کرتے رہے ۔
جو ٹانک میں موجود اس فوجی ادارے سے تربیت حاصل کرتے ہیں انھیں مالی معاونت بھی دی جاتی ہے تاکہ وہ بعد میں اپنا کاوبار بھی کرسکیں ۔
سمیع اللہ کو اس ادارے سے فارغ التصحیل ہوئے چھ ماہ ہوچکے ہیں انھوں نے تربیت کے دوران سلائی کا کام سیکھا اور ٹانک میں درزی کی دکان کھول رکھی ہے ۔ سمیع اللہ کپڑوں کی سلائی کے ساتھ ساتھ پراپرٹی کا کام بھی کر رہے ہیں ۔
سمیع اللہ کہتے ہیں کہ ’جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے بعد بہت سے لوگ علاقے کو واپس آئے ہیں اس لیے پراپرٹی کا کام بھی اچھا چل رہا ہے ۔ ہم خود توپڑھ لکھ نہیں سکے لیکن اب بچوں کو پڑھانے کا ادارہ کیا ہوا ہے۔ محنت کرتے ہیں تاکہ بچے تعلیم حاصل کرکے ڈاکٹر بن جائے، فوج میں چلے جائیں اور پاکستان کی خدمت کریں۔‘
سینڑ میں زیر تربیت افراد سے بات چیت سے معلوم ہوا کہ انتہا پسندی کے لیے استعمال ہونے والے ان افراد کی اکثریت مذہب کے نام پر استعمال ہوئی غربت اور پسماندگی اور علاقے کا مجموعی ماحول بھی لوگوں پر اثرانداز ہوا۔
ادارے سے فارغ ہونے کے بعد اُن میں سے کتنے لوگ حقیقی طور پر نئی زندگی شروع کریں گے اور کتنے دوبارہ پرانی ڈگر پر چل پڑیں ظاہر ہے اس حوالے سے تو کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا ۔
لیکن ایک بات تو طے ہے کہ جب تک علاقے کے حالات میں مجموعی بہتری نہیں آئےگی انتہاپسندانہ سوچ کا خاتمہ نہیں ہوگا اور ان اقدامات کے خاطر خواہ نتائج بھی سامنے نہیں آسکیں گے ۔
فوجی آپریشن کے بعد جنوبی وزیرستان سے کچھ حد تک تشدد اور جنگ کا خاتمہ تو ہوچکا ہے لیکن محض جنگ کا نہ ہونا تو امن نہیں ۔ امن تو تحفظ کے احساس کا نام ہے اور اب یہ احساس صرف قبائلی علاقوں ہی نہیں بلکہ ملک کے دوسرے حصوں سے بھی معدوم ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔
ربط