عمر اثری
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 29، 2015
- پیغامات
- 4,404
- ری ایکشن اسکور
- 1,137
- پوائنٹ
- 412
ذات پات کا زہر
تحریر: عبدالغفار سلفی، بنارس
اسلام دین فطرت ہے. اسلام نے نہ صرف تمام فطری تقاضوں کی جائز تکمیل کی ہے بلکہ غیر فطری عناصر کا سد باب کیا ہے. انسانوں میں رنگ ونسل اور ذات برادری کے تعصب کی بنیاد پر تفریق اور اونچ نیچ کا تصور زمانہ قدیم سے چلا آ رہا ہے. اسلام نے اس تصور کی یکسر نفی کرتے ہوئے فضیلت وامتیاز کا صرف ایک معیار برقرار رکھا ہے تقوی اور خشیت الہی. فرمان الہی ہے:
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ
لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے قبیلے بنا دیئے ہیں، اللہ کے نزدیک تم سب میں سے با عزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے۔ (سورۃ الحجرات: 13)
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
ﻳﺎ ﺃﻳﻬﺎ اﻟﻨﺎﺱ، ﺃﻻ ﺇﻥ ﺭﺑﻜﻢ ﻭاﺣﺪ، ﻭﺇﻥ ﺃﺑﺎﻛﻢ ﻭاﺣﺪ، ﺃﻻ ﻻ ﻓﻀﻞ ﻟﻌﺮﺑﻲ ﻋﻠﻰ ﻋﺠﻤﻲ ، ﻭﻻ ﻟﻌﺠﻤﻲ ﻋﻠﻰ ﻋﺮﺑﻲ، ﻭﻻ ﺃﺣﻤﺮ ﻋﻠﻰ ﺃﺳﻮﺩ، ﻭﻻ ﺃﺳﻮﺩ ﻋﻠﻰ ﺃﺣﻤﺮ، ﺇﻻ ﺑﺎﻟﺘﻘﻮﻯ
لوگو! تمہارا رب ایک ہے، تمہارا باپ (آدم) ایک ہے. سنو کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں نہ کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل ہے. کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں،سوائے تقوی کے. (مسند احمد: 23489 صحيح)
انسانی مساوات پر مبنی اسلام کی ان واضح تعلیمات کا نتیجہ تھا کہ صحابہ کرام کے معاشرے میں ہمیں رنگ ونسل، قبیلہ وبرادری کی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق نہیں ملتی، بہت سارے صحابہ ایسے تھے جو غلام تھے لیکن اسلام لانے کے بعد انہیں بھی اسلامی معاشرے میں وہی احترام، حقوق اور تحفظات حاصل تھے جو دیگر صحابہ کو حاصل تھے. حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے:
ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﺳﻴﺪﻧﺎ، ﻭﺃﻋﺘﻖ ﺳﻴﺪﻧﺎ ﻳﻌﻨﻲ ﺑﻼﻻ
ابوبکر ہمارے سردار ہیں اور انہوں نے ہمارے سردار یعنی حضرت بلال کو آزاد کیا تھا. (صحیح بخاری: 3754)
اسلام کے اندر موجود اسی انسانی مساوات اور چھوت چھات سے پاک ہونے کی وجہ سے اسلام نے بالخصوص معاشرے کے ان طبقات کو اپنی طرف مائل کیا جو صدیوں سے اونچ نیچ کی تفریق کے شکار تھے. بالخصوص برصغیر میں اسلام کی اشاعت کے بنیادی اسباب میں سے اسلام کی یہ امتیازی خوبی ہے.
مگر افسوس جیسے جیسے اسلامی تعلیمات سے دوری معاشرے میں بڑھتی گئی اور غیروں کی تہذیب وثقافت کا رنگ مسلمانوں پر بھی چڑھنے لگا مسلمان بھی ذات برادری کی بنیاد پر اپنے معاشرے کو اراذل اور اشراف کے خانوں میں بانٹنے لگے. نوبت یہاں تک پہنچی کہ نیچی سمجھی جانے والی ذات اور برادری کا مسلمان اتنا حق بھی نہ رکھتا کہ اعلی برادری کے مسلمان کے ساتھ بیٹھ سکے یا اس کے گلاس میں پانی پی سکے. یہ بعینہ اس ہندو معاشرے کی عکاسی تھی جہاں نچلی ذاتیں صدیوں سے اونچی ذات والوں کے مظالم کا شکار ہو رہی تھیں.
مقام حیرت تو یہ ہے کہ عوام وخواص سب برادری اور ذات پات کی اس غیر منصفانہ اور ظالمانہ تفریق میں مبتلا ہو گئے. علماء کا طبقہ جن سے امید تھی کہ وہ عوام کو اس لعنت کے بارے میں متنبہ کریں گے وہ خود بھی اس مرض میں سر سے پیر تک ملوث پائے گئے.
بدلتے دور کے ساتھ جب لوگوں میں تعلیم کا رجحان بڑھا تو اگرچہ اس معاملے میں پہلے جیسی سختی نہ رہی. لیکن اونچ نیچ کی یہ دیواریں آج بھی قائم ہیں. اچھے اچھے مستند علماء کی زبان سے بھی کبھی کبھی خود سے کمتر سمجھی جانے والی ذات اور برادری کے بارے میں انتہائی سوقیانہ اور تذلیل آمیز تبصرے سننے کو مل جاتے ہیں. بالخصوص دیہاتوں میں میں نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ یہ لعنت ابھی بھی بہت خطرناک شکل میں موجود ہے.
عزیزان ملت!
جو دین ہمیں محض ایک کلمے کی بنیاد پرہمارے دشمن کو ہمارا بھائی بنا دیتا ہے اور ہم اس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر اپنے رب کے حضور سر بسجود ہوتے ہیں اس دین میں اس تعصب اور ظلم کی گنجائش کہاں سے پیدا ہو سکتی ہے. اللہ کے لیے اپنے دلوں کو اس گندگی سے صاف کیجیے. اپنے اندر تقوی پیدا کیجیے اور اسی کی بنیاد پر لوگوں کی تعظیم وتکریم کے معیار قائم کیجیے. یہ حسب ونسب کی خودساختہ برتری بارگاہ الہی میں ہمارے کچھ بھی کام نہ آئے گی:
يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ
جس دن کہ مال اور اولاد کچھ کام نہ آئے گی
اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِيْمٍ
لیکن فائدہ والا وہی ہوگا جو اللہ تعالٰی کے سامنے بے عیب دل لے کر جائے۔ (الشعراء:88،89)